Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ جنوری » بدیع التفاسیر قسط 187

بدیع التفاسیر قسط 187

۔ قسط 187 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب

تیسری فصل:
لغت عربیہ سے قرآن مجید کی تفسیرکابیان
اللہ تعالیٰ کافرمان:[اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ](یوسف:۲)
[وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ](النحل:۱۰۳)
[قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۳ ](حم السجدہ:۳)
[اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۳ۚ ] (الزخرف:۳)
[وَھٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا ](الاحقاف)
آیات کاخلاصہ یہ ہےکہ قرآن حکیم عربی زبان میں نازل شدہ ہے اور عرب ہی اس کوکماحقہ سمجھ سکتے ہیں:قال اللہ تعالیٰ:[وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۝۰ۭ ](ابراھیم:۴)
یعنی ہم نے ہر قوم میں ان کی زبان میں ہی نبی مبعوث فرمائے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح سے سمجھاسکیں،لہذا قرآن مجید کو سمجھنے کیلئےعربی زبان اور اس کے محاورات کا جاننا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے، اہل علم نے اس فن سے متعلق کئی کتب تصنیف فرمائی ہیں تاکہ تفسیر قرآن پر کام کرنے والوں کوصحیح رہنمائی حاصل ہو۔
مذکورہ بالاآیات کی رو سے عربی لغت ومحاورہ جات کے خلاف کسی آیت کی تفسیر کرنا ناجائز اورحرام ہوگا،چنانچہ تفسیر قرطبی ۱؍۲۴میںبحوالہ ابن الانباری سیدناابن عباس tسے مروی ہے کہ:
قال ان سألتمونی عن غریب القرآن فالتمسوہ فی الشعر فان الشعر دیوان العرب.
یعنی قرآن مجید کے مشکل الفاظ کےمعانی معلوم کرنے کےلئے عرب کے اشعار پرغور کروکیونکہ وہی لغت عرب کےمجموعے ودفاتر ہیں، یعنی اشعار عرب سے عربی لغت اس کے محاورات،اطلاقات واصطلاحات کاعلم حاصل ہوگا، جس سے قرآن کے معانی سمجھنے میں آسانی ہوگی، نیز ابن الانباری نےکتاب الوقف والابتداء میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں عبداللہ بن ابی ملیکہ تابعی سے ایک روایت نقل کی ہےکہ:
امر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ان لایقریٔ الناس الاعالم اللغۃ.(الدر المنثور۳؍۲۱۲،تفسیر القرطبی ۱؍۲۴باب ماجاء فی اعراب القرآن وتعلیمہ والحث علیہ….)
یعنی امیر المؤمنین عمربن الخطابtنے حکم جاری کیا کہ لوگوں کو قرآن وہی پڑھائے جو لغت کاعالم ہو،یہ اس وجہ سے کہ جو لغت کا عالم نہ ہوگا اس سے غلطیوں کا امکان ہوگا کیونکہ اس وقت قرآن مجید پر اعراب لکھنے کا رواج نہ تھا،اس لئے لغت عرب کو ضروری قرار دیاگیا،بیہقی کی شعب الایمان ۳؍۲۴۳،ح:۲۰۹۰میں امام مالکaکا قول مروی ہے کہ:
لااوتی برجل غیر عالم بلغۃ یفسر کتاب اللہ الاجعلتہ نکالا.(الاتقان ۲؍۱۷۹)
یعنی میرے سامنے اگرایسے شخص کو لایاگیا جولغت کا عالم نہ ہوتے ہوئے بھی قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہو تو میں اسے عبرتناک سزادونگا۔
الغرض: معلوم ہوا کہ سلف کے نزدیک قرآن مجید سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کے لئے عربی لغت کو بڑی اہمیت حاصل تھی لہذا مفسر قرآن کے لئے کتب لغت کامطالعہ ازحدضروری ہے، خصوصاً مندرجہ ذیل کتب مفید ثابت ہونگی:
الصحاح للجوھری ومختصر الصحاح للزنجانی وعبدالقادر رازی، المخصص لابن السکیت، لسان العرب لابن مکرم الافریقی، القاموس للفیروز آبادی، غریب الحدیث لابی عبیدالقاسم بن سلام، المصباح المنیر للفیومی، کتاب الافعال لابن القطاع، النھایۃ لابن الاثیر، الفائق للزمخرشری وغیرھا مذکورہ کتب اکثر کتب خانوں پر دستیاب ہیں، اورخصوصا وہ کتب جن میں خاص قرآن مجید کے الفاظ کو بیان کیاگیا مثلاً:غریب القرآن والحدیث لابی عبید الھروی ،تفسیر غریب القرآن لابن قتیبہ اور المفردات فی غریب القرآن للراغب الاصفہانی وغیرہ ان کتب سے زیادہ تر استفادہ کیا جاسکتا ہے، اس میں یہ ہرگز نہیں سمجھناچاہئے کہ صرف کتب لغت میں مذکور معانی پر ہی اکتفاء کیاجائے بلکہ حدیث نبویﷺ کو بھی سامنے رکھا جائے، اسی طرح سلف صالحین کے طریقۂ تفسیر کو بھی مدنظر رکھاجائے نیز عقائد اسلامیہ کالحاظ کرنا بھی لازمی ہے یہ ملحدین کا شیوہ ہےکہ وہ صرف لغت پرانحصار کرتے ہوئے اپنی رائے وخواہش کے مطابق قرآن کی تفسیر کرتےہیں، حدیث اور سلف صالحین کی تفسیر کی کوئی پرواہ نہیں  کرتے اورنہ ہی وہ مسلمانوں کے متفقہ عقائد کا کوئی خیال رکھتے ہیں، جس کا مزید ذکر ساتویں فصل میں آئے گا۔
الحاصل: لغت عربیہ سے ہی قرآن مجید کی تفسیر کرنی ہے مگر اس کے مضمون ،سیاق وسباق کوضرور مدنظر رکھاجائے، خصوصاً ایک سے زیادہ معانی والے الفاظ کا وہی معنی لیاجائے گا جوکہ حدیث کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی سلف صالحین کی تفسیر سے متصادم ہو نہ کسی اسلامی عقیدے کےلئے نقصان رساں ہو جیسا کہ تمام اہل تفاسیر نے بیان فرمایا ہے۔
مثلاً:ابن جریر، قرطبی، ابن کثیر، بغوی، ابن جریر الکلبی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ صاحب المجموع، ابن حیان الاندلسی صاحب البحر المحیط، الخازن للنسفی، فخرالدین الرازی، ابن حجر صاحب فتح الباری، بدر الدین الرزکشی صاحب البرھان فی علوم القرآن، ابن الجوزی صاحب زاد المسیر فی علم التفسیر اور السیوطی صاحب الاتقان وغیرھم۔
قائدہ: واقعی قرآن مجید کی یہی شان ہے کہ :لاتنقضی عجائبہ. اس سے عجائبات ختم ہونے والے نہیں ہیں، ساتوں زمینیں رجسٹربن جائیں تمام دریادوات بن جائیں اور پوری کائنات کے درختوں سے قلم کاکام لیا جائے مگر قرآن مجید کے تمام فوائد واحکام کو مکمل لکھانہیں جاسکتا ہر بعد میں آنے والے مفسر نے گذشتہ تفاسیر سے زیادہ احکامات ومسائل کا استنباط کیا مگر بعد میں آنے والے مزید ایسے نئے نئے مسائل نکالتے رہیں گے جو اس وقت ہمارے علم میں بھی نہیں ہیں اور قرآنی آیات کی جدید طرز پر تفسیر کریں گے جو آج تک کسی عالم کے وہم وگمان میںنہ پہلے تھی اور نہ اب ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر مفسر کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ لغت کی دوکتابیں پڑھ کر شرعی حدود واسلامی عقائد کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہش نفس کے مطابق یا وقت کے حکمرانوں کے من گھڑت قواعد کی پشت پناہی کے خاطر قرآن کی تفسیر جو اس کے دل میں آئے وہ کرگذرے۔حاشا وکلا
کتب لغت اس لئے نہیں لکھی گئیں اور نہ ہی ان علماء کا یہ مقصد تھا بلکہ کلمۃ حق ارید بھاا لباطل کےمصداق ان سے غلط فائدہ اخذ کرنے کے مترادف ہے اور اقتباس کے بجائے اختلاس کیاجاتا ہے یعنی کتب لغت، تفسیر قرآن کی خاطر سہولت کے لئے لکھی گئیں مگر ان سے مدد ورہنمائی حاصل کرنے کے بجائے چور کی طرح نقب لگائی جاتی ہے، اہل اسلام کے نزدیک یہ طریقہ قطعی طور پر درست نہیں ہے، قرآن مجید کی تفسیر لکھنے والامتقدم ہویامتاخر،گذشتہ زمانہ میںسے ہو یا موجودہ وقت میں یا اس کے بعد آنے والاکوئی نیاشخص ہومگر سب کے لئے مندرجہ بالہ شروط وقیود کی پاسداری کرناضروری ہے،یعنی کسی بھی آیت کی کوئی ایسی نئی تفسیر جوسلف سے منقول نہ ہو یا کسی نئے مسئلے کااجتہاد کرتا ہے جو اس سے پہلے کسی نے بھی اس آیت سے نہ نکالاہو لیکن وہ لغات عرب اور ان کے محاورات کے خلاف نہ ہو، حدیث میں تفسیر شدہ یا قرآن وحدیث کےکسی حکم کے خلاف نہ ہو، نہ سلف صالحین کی تفسیر سے متصادم ہو اور نہ ہی ا س سے کسی اسلامی عقیدے کا رد لازم آتا ہو تو وہ تفسیر مقبول اور اس کا اجتہاد معتبر ہوگااور اس کی علمیت قابل تحسین رہے گی، بصورتِ دیگر اگر اس کی تفسیر ،کسی آیت سے استنباط یا اجتہاد ان باتوں کے خلاف ثابت ہو تو وہ باطل، مردود اور تفسیر بالرأی تصور کی جائے گی، جس کی مذمت کے بارے میں ساتویں فصل میں ذکر ہوگا۔
ایسے مفسر کو ملحد بلکہ دین کادشمن تصور کیاجائے گا۔باللہ العصمۃ وعلیہ التکلان.
چوتھی فصل:
صحابہ کرامyسے منقول تفسیر
متفق علیہ فیصلے کےمطابق صحابہ کرام پوری امت میں سے سب سے بڑے عالم اور فقیہ تھے رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے نمبر پر قرآن مجید کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، کیونکہ وہ نزول قرآن کا مشاہدہ کرنے والے تھے، براہ راست انہوںنے رسول اللہ ﷺ سے قرآن مجید اور اس کی تفسیر سنی،آپﷺ کے اسوہ حسنہ کے ذریعہ سے قرآن کی عملی تفسیر کو دیکھا، ایسا مقام ومرتبہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے، اس لئے ان کی تفسیر باقی لوگوں کے مقابلے میں علی الاطلاق بہتر اور اصح ہے، دوسروں کی نسبت ان کی تفسیر میں خطاءکاامکان بھی بہت کم رہتا ہے، علماءومحدثین اپنی تفاسیر میں اسی لئے صحابہ کرام کی بکثرت روایات نقل کرتےہیں ،چنانچہ امام ابوعبداللہ حاکم المستدرک ۲؍۲۵۸میں فرماتے ہیں:
لیعلم طالب العلم ان تفسیر الصحابی الذی شھر الوحی والتنزیل عندالشیخین حدیث مسند.
یعنی علم حدیث کے طالب علم کے لئے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کسی صحابی سے منقول تفسیر شیخین(بخاری ومسلم) کے نزدیک سند ومرفوع حدیث کا حکم رکھتا ہے۔
امام حاکم کے اس قول سے مراد تفسیر کے باب میں منقول ہرقول نہیں ہے بلکہ قرآنی آیات کے نزول سے متعلق اقوال مراد ہیں،مثلاً کسی صحابی کا یہ قول کہ فلاں آیت فلاں وقت، واقعہ یا فلاں حکم کے بارے میں نازل ہو ئی تو اس کاحکم مرفوع حدیث والاہوگا، جیسا کہ امام حاکم نے خود بھی اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث ‘‘ص:۲۰میں ایسی وضاحت فرمائی ہے ،اسی طرح استاد ابومنصور بغدادی اور امام ابوبکر خطیب بغدادی بھی یہی فرماتے ہیں۔(النکت لابن حجر قلمی،ص:۱۶۱)
نیزمحدث ابن الصلاح نے ’’المقدمۃ فی علوم الحدیث‘‘، ص:۲۴ (مطبع بمبئی میں) یہی ذکر فرمایا ہے اس سے متعلق قواعد وضوابط حافظ ابن حجر نے النکت علی ابن الصلاح والعراقی، قلمی:۱۶۱،۱۶۲ میںتفصیل سے درج کئے ہیں کہ صحابہ کے ایسے تفسیری اقوال جن میں اجتہاد کاکوئی دخل نہ ہو مثلا:اقوام گذشتہ کے احوال، ابتداء خلق کا ذکر، انبیاء کرام کےحالات، آئندہ پیش آنے والے واقعات ،مثلاً: فتنے، جنگیں، مُردوں کاقبروں سےا ٹھنا، جنت وجہنم کے احوال، بعض اعمال پرمخصوص ثواب وعقاب کابیان۔ ان امور کا تعلق چونکہ کسی اجتہاد سے نہیں ہوسکتا لہذا ایسے اقوال کاحکم مرفوع حدیث والاہوگا، اس لئے کہ صحابی ایسی خبر اپنی طرف سے بیان نہیں کرسکتا ضرور اس نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی بات سنی ہوگی، لیکن اگر کسی حکم شرعی سے تعلق رکھنے والی آیت کی تفسیر کوئی صحابی بیان کرے تو اسے مرفوع قرار نہیں دیاجاسکتا جب تک کہ وہ اس کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف نہ کرے کیونکہ ایسی تفسیر کا تعلق اپنے اجتہاد اور ذاتی تحقیق سے بھی ہوسکتا ہے اس لئے اسے موقوف کاحکم دیاجائے گا کئی ائمہ حدیث کا بھی یہی نظریہ ہے،مثلاً: بخاری، مسلم، امام شافعی، ابن جریرالطبری، ابن مردویہ، طحاوی، بیہقی اور ابن عبدالبر وغیرھم
نیز اس قاعدے کے تحت وہ صحابی داخل نہیں ہے جس کے بارے میں اسرائیلیات ،اقوام گذشتہ کی کتب کو دیکھنا اور ان کا مطالعہ کرنا مشہور ومعروف ہو،مثلاً: عبداللہ بن سلام یا عبداللہ بن عمرو بن العاص yان کے بارےمیں غالب گمان یہی رہے گا کہ ممکن ہے کہ انہوں نے وہ تفسیر اسرائیلی کتب سے نقل کی ہو،ایسے صحابہ کی تفسیر کومرفوع کاحکم نہیں دیاجاسکتا بلکہ وہ موقوف ہوگی جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت نہ کریں یا کسی آیت کی شان نزول بیان نہ کریں، حافظ صاحب کے اس قاعدے کے مطابق تفسیر لکھنے والاعالم اغلاط سے محفوظ رہے گا اور صحابہ کی تفسیر کے متعلق بہتر رائے قائم کرسکے گا۔
حاصل کلام: یہ ہے کہ صحابی کی تفسیر باقی لوگوں کی تفسیر سے زیادہ بہتر ہے کہ انہوں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے علم حاصل کیا وہ خود عرب اور عربی لغت اور اس کے محاورات کے ماہر تھے، نواب صدیق حسن خان کی عبارت کاماحصل بھی یہی ہے جو ان کی تفسیر فتح البیان ۱؍۱۴ میں مذکور ہے۔
فرماتے ہیں:
ثم تفاسير علماء الصحابة المختصين برسول الله – صلى الله عليه وسلم – فإنه يبعد كل البعد أن يفسر أحدهم كتاب الله تعالى ولم يسمع في ذلك شيئاً عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، وعلى فرض عدم السماع فهو أحد العرب الذين عرفوا من اللغة دِقَّها وجلَّها.
صحابہ کرام کی تفسیر اسی صورت میںحجت ودلیل بن سکتی ہے کہ جب اس میں مندرجہ ذیل شروط موجود ہوں:
شر ط اول: جب وہ تفسیر رسول اللہ ﷺ سے ثابت کسی مرفوع حدیث کےخلاف ومعارض نہ ہو کیونکہ صاحب الوحی ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کا قول حجت وقابل قبول نہیں ہوسکتا یہی سلف صالحین کا عقیدہ ہے،چنانچہ امام شافعی فرماتے ہیں:لاقول لاحد مع سنۃ رسول اللہ .(ایقاظ ھمم اولی الابصار للشیخ صالح بن محمد الفلاحی،ص:۱۰۳)
یعنی رسول اللہ ﷺ کے فرمان کےبعد کسی کاقول بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اسی طرح شاہ ولی اللہ نے حجۃ البالغہ ۱؍۱۵۷میںامام احمد بن حنبل سے،نیز امام حاکم نے معرفۃ العلوم الحدیث ،ص:۸۴میں ابن خزیمہ اور امام یحیی بن آدم قریشی سے نقل کیا ہے،نیز فقیہ ابن ہمام الحنفی فتح القدیر ،ص:۴۲۱میں لکھتےہیں کہ:
الحاصل ان قول الصحابی حجۃ فیجب تقلیدہ عندنا اذا لم یکن شیٔ آخر من السنۃ.
یعنی اہم ا حناف کےنزدیک صحابی کا قول اس وقت معتبر وقابل حجت ہوگا جب وہ کسی مرفوع حدیث کے منافی ومعارض نہ ہو۔
دوسری شرط: صحابہ کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کے مخالف نہ ہوں اختلاف کی صورت میں تمام اقوال کوچھوڑ کر قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنے کاحکم ہے۔
[فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ] (النساء:۵۹)
ایسی صورتحال میں تحقیق کرنی ہوگی پھر جو قول بھی صحیح ہوگا اسے لیا جائےگا۔
تیسری شرط: صحابی سے اگر کسی قرآنی آیت کامعنی مذکور ہوتو وہ عام لغت عربیہ یالغت شرعیہ کےخلاف نہ ہو، کیونکہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لئےلغت عرب اوراس کے محاورات کالازماً خیال رکھنا ہے، چنانچہ امام شوکانی اپنی تفسیر فتح القدیر ۱؍۳ میں لکھتے ہیں:
واما ما کان منھاثابتا عن الصحابۃ رضی اللہ عنھم فان کان من الفاظ التی قد نقلھا الشرع الی معنی مغایر للمعنی اللغوی بوجہ من الوجوہ فھو مقدم علی غیرہ وان کان من الالفاظ التی لم ینقلھا الشرع فھو کواحد من اھل اللغۃ الموثوق بعربیتھم فان خالف المشھور المستفیض لم تقم الحجۃ علینا بتفسیرہ الذی قالہ علی مقتضی لغۃ العرب فبالاولی تفاسیر من بعدھم من التابعین وتابعیھم وسائر الائمۃ.
یعنی جو تفسیر صحابہ کرام سے ثابت ہو اور وہ شرعی لغت کے مطابق ہو یعنی شریعت میں بعض الفاظ کاخاص معنی ہوتا ہے مثلا:الصلاۃ سے مراد نماز کاخاص طریقہ یا الوضوء معنی پاکی حاصل کرنے کامعروف طریقہ وغیرہ اس کے مطابق صحابہ سے منقول معانی یا تفسیر دیگرلغوی معنی سے مقدم اور زیادہ معتبر ہوگا، لیکن اگر اس باب سے نہ ہو تو وہ معنی دیگر لغوی معانی کی حیثیت رکھتا ہے وہ قواعد کےمطابق ہوگا تومقبول ہوگا لیکن اگر کثیر الاستعمال عام اور مشہور معانی کے خلاف ہوگا تو اسے قبول نہیں کیاجائے گا۔
تنبیہ ضروریہ:
رسول اللہﷺیاصحابہ کرام سےجو بھی تفسیری روایات مروی ہوں ان کاثابت ہوناضروری ہے یعنی وہ سنداً صحیح یاحسن درجے کی ہوں، اگر ان میں سے کوئی بھی روایت سنداً ثابت نہ ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گااور نہ ہی ایسی روایت کو قرآن کی تفسیر سمجھاجائےگا، عمومادیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کتب تفاسیر میں کئی ایسی روایات مذکور ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے بلکل غلط ہیں، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی طرف ان کی نسبت کرنا قطعا جائز ومناسب معلوم نہیں ہوتی بلکہ بعض روایات سےتو انبیاءoکی عصمت وپاکدامنی پر بھی حرف آتا ہے اور ان کی شان اور حیات نعوذباللہ داغدار بن جاتی ہے نیزکئی اسلامی عقائد کوسخت نقصان پہنچتا ہے، اور ملحدین ودشمنان اسلام کیلئے اعتراض کرنے اور مسلمانوں کو شکوک وشبہات میں ڈالنے کیلئے دروازہ کھل جاتاہے۔
اسی طرح صوفی اور وجودی ایسی روایات کا سہارہ لیکر عوام کو اپنے جال میں پھنسالیتےہیں نیز اہل بدعت فرقے مثلاً قدریہ(منکرین تقدیر) معتزلہ( عذاب قبر، میزان،اعمال اور دیدارِ الٰہی وغیرہ کے منکرین) جہمیہ(منکرین صفات باری تعالیٰ) اور مرجیہ(جو ایمان واعمال کو الگ الگ قرار دیتے ہیں اور اپنے اور ملائکہ کے ایمان کو ایک جیسا کہتےہیں) وغیرھم ایسی روایات کے ذریعے اپنے باطل عقائد ونظریات کو پھیلاتے ہیں، اگر تحقیق وتفتیش کی جائے تو یہی نظر آئےگا کہ جو روایات مخالفین پیش کرتے ہیں وہ تمام کی تمام ضعیف اور سنداً غیر ثابت ہیں کئی ایسی روایات محمد بن عمرو واقدی جیسے کذاب رواۃ سے مروی ہیں اور ایسی اکثرروایات محمد بن السائب الکلبی کی تفسیر سے ماخوذ ہیں حالانکہ وہ معروف کذاب اور روایات گھڑنے والاہے، امام احمد بن حنبل اس کی تفسیر کےبارےمیں فرماتے ہیں:
من اولہ الی آخرہ کذب.
(مختصر طبقات الحنابل للنابلسی،ص:۱۵۹)
یعنی اس کی تفسیر اول تاآخر مجموعہ کذب ہے۔
اس لئے تفسیر کے متعلق روایات کی اچھی تحقیق وتفتیش کرنی چاہئے تاکہ کسی ضعیف روایت سے دھوکا کھاکرکسی آیت کی غلط تفسیر کر کے اللہ تعالیٰ کے پاس مجرم قرار نہ پائیں۔امام احمدaفرماتے ہیں:
ثَلَاثُ كُتُبٍ لَا أَصْلَ لَهَا: الْمَغَازِي وَالْمَلَاحِمُ وَالتَّفْسِيرُ، وقال الْمُحَقِّقُونَ مِنْ أَصْحَابِهِ: مُرَادُهُ أَنَّ الْغَالِبَ أَنَّهُ لَيْسَ لَهَا أَسَانِيدُ صِحَاحٌ مُتَّصِلَةٌ وَإِلَّا فَقَدَ صَحَّ من ذَلِكَ كَثِيرٌ كَتَفْسِيرِ الظُّلْمِ بِالشِّرْكِ فِي آيَةِ الْأَنْعَامِ وَالْحِسَابِ الْيَسِيرِ بِالْعَرْضِ وَالْقُوَّةِ بِالرَّمْيِ فِي قَوْلِهِ: {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ}

قلت: الذي صح من ذَلِكَ قَلِيلٌ جِدًّا بَلْ أَصْلُ الْمَرْفُوعِ مِنْهُ فِي غَايَةِ الْقِلَّةِ وَسَأَسْرُدُهَا كُلَّهَا آخِرَ الْكِتَابِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى.(الاتقان ۲؍۱۷۹)
یعنی غزوات ،فتن اور تفسیر کےبارے میں روایات بے اصل ہیں، امام موصوف کے اہل مذہب کا کہنا ہے کہ امام صاحب کے اس قول کامعنی یہ ہے کہ ایسی اکثر روایات متصل وصحیح اسناد سے ثابت نہیں ہیں اگرچہ بعض قلت تعداد میںصحیح روایات بھی ملتی ہیں، اس لئے ان روایات کی تحقیق کرنا بہت ضروری ہے۔
فائدہ: علماءِ تابعین سے بھی تفسیر کےباب میںکثرت سے روایات مروی ہیں لیکن قول تابعی کسی کے نزدیک بھی قابل حجت نہیں ہے بلکہ ان کے اقوال کو صرف شھادت وتائید کی خاطر پیش کیاجاتاہے، اگرچہ ان کے متاخرمفسرین کے اقوال سے اقوال تابعین کو زیادہ ترجیح حاصل ہے لیکن وہ حجت اس وقت ہونگے جب کسی دلیل سے ان کوتائید حاصل ہو اور کسی حدیث سے معارض نہ ہوں اور نہ ہی قواعد عربیہ یاقواعد شرعیہ کے خلاف ہوں۔
(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے