Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ جنوری » باب الاسلام کی شناخت مٹانے کی مذموم سعی

باب الاسلام کی شناخت مٹانے کی مذموم سعی

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وبعد!
قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
سب سے پہلے ملک بھر کے روزناموں میں شایع شدہ مندرجہ ذیل خبرملاحظہ فرمائیں:
’’24نومبر2016ء بروزجمعرات سندھ اسمبلی نے ایک اسلام مخالف اور متنازعہ بل متفقہ طور پرمنظور کرلیا، اس متنازعہ قانون کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمرافراد اپنی مرضی سےمذہب تبدیل نہیں کرسکیں گے۔ بالغ افراد بھی اسلام قبول کرنے کے بعد اکیس روز تک سرکاری تحویل (سیف ہاؤس) میں رہیں گے اور اس کے بعد ہی اعلان کرسکیں گے، اس دوران انہیں اپنی رائے پر نظرثانی کا موقعہ دیاجائے گا۔
بل آپس میں دوسیاسی حریفوں لیکن ہندوازم کیلئے یک جان بن جانے والوں نندکمار(فنکشنل مسلم لیگ)ڈاکٹر کھٹومل (پیپلز پارٹی) نے پیش کیا اور مسلم لیگ نون،تحریک انصاف اور ایم کیوایم نے متفقہ طورپرقبول کرلیا۔‘‘
برصغیر میں سندھ کو باب الاسلام ہونےکا اعزاز حاصل ہے، یہاں پہلی صدی ہجری ہی میں سیدنا محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے ذریعہ اسلام کی روشنی پہنچی ۔ پھر تحریک آزادی کے دوران بھی سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے دوقومی نظریئے کے تحت پاکستان کی قرار داد پاس کی تھی۔ لیکن اس اسلام دشمن قانون کی منظوری کے بعد سندھ دنیا کا واحد خطہ بن گیا ہے، جہاں اسلام قبول کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
قارئین کرام! آیئے اب اس اسلام دشمن بل کی شرعی حیثیت معلوم کرتےہیں۔ سیدنا امام بخاریaنے صحیح بخاری کتاب الجنائز میں اس حوالے سے ایک باب قائم کیا ہے اور اس کے تحت پانچ احادیث ذکرفرمائی ہیں۔ امام بخاریaکی تبویب ملاحظہ فرمائیں:
’’بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ وَقَالَ الحَسَنُ، وَشُرَيْحٌ وَإِبْرَاهِيمُ، وَقَتَادَةُ: «إِذَا أَسْلَمَ أَحَدُهُمَا فَالوَلَدُ مَعَ المُسْلِمِ» وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَعَ أُمِّهِ مِنَ المُسْتَضْعَفِينَ، وَلَمْ يَكُنْ مَعَ أَبِيهِ عَلَى دِينِ قَوْمِهِ، وَقَالَ: «الإِسْلاَمُ يَعْلُو وَلاَ يُعْلَى»
یعنی بچہ اسلام قبول کرے پھر فوت ہوجائے کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی؟ اورکیابچے پر اسلام پیش کیاجاسکتا ہے ؟ اور حسن، شریح، ابراھیم اور قتادہ نے کہا کہ جب شوہر اور بیوی میں سےکوئی ایک اسلام قبول کرلے تو بچہ اسلام قبول کرنے والے کے ساتھ ہوگا، ابن عباس(بچہ)اپنی ماں (لبابہ بنت الحارث الہلالیہ) کے ساتھ تھا اور اپنےباپ کے ساتھ نہیں تھا جو کہ(اس وقت) دینِ مشرکین پرتھے، اور نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ اسلام غالب رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا۔
قربان جائیں! امام بخاری کی فقاہت پر کہ آپa نے صدیوں قبل اپنے اس ایک ہی ترجمۃ الباب کےذریعہ، سندھ اسمبلی کے اس بل کی صورت میں کھڑے کیے گئے اس فتنےکارد کردیا تھا۔
آج بچوں کیلئے قبول اسلام کو ممنوع قرار دینے والوں کے پاس پیارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث کا کیاجواب ہے؟
ایک یہودی چھوٹالڑکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیاکرتاتھا وہ بیمار پڑاتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کےلئے تشریف لائے :
’’فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ: «أَسْلِمْ»، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ‘‘اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اسے فرمایا کہ:اسلام قبول کرلو ۔تب اس بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا،باپ نے اسے کہا: ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو،پس وہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔(صحیح بخاری،رقم:1356)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کےبچوں کو اسلام میں داخل ہونےکاحکم دیناہمارے نبی رحمتصلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے۔ شرحِ حدیث میں حافظ ابن حجرaفرماتےہیں :اس حدیث سے بچے کو دعوتِ اسلام دیناثابت ہوتا ہے اور اگر بچے کا اسلام لانا صحیح نہ ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اسلام پیش ہی نہ فرماتے۔(فتح الباری ۳؍۲۱۹)
دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں:
مدینہ طیبہ میں ایک یہودی عورت کے ہاں بچہ(ابن صیاد) پیداہوا، جس کی ایک آنکھ بند اور دوسری ابھری ہوئی تھی، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخدشہ ہوا کہ کہیں وہ بچہ دجال ہی نہ ہو۔(الفتح الربانی فی ترتیب مسندالامام احمد بن حنبل،ح:۱۶۷)
اس کے زمانہ بچپن ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس کود عوتِ اسلام دی،صحیح بخاری کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ:
وَقَدْ قَارَبَ يَوْمَئِذٍ ابْنُ صَيَّادٍ يَحْتَلِمُ………قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟»، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ،(صحیح البخاری:3055)
یعنی اس وقت ابن صیاد زمانہ بلوغت کے قریب پہنچ چکاتھا…..پھرنبیصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا :کیاتوگواہی دیتا ہے کہ یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا:میں گواہی دیتاہوں کہ یقیناً آپ ان پڑھوں کے رسو ل ہیں۔
امام بخاری aنےاس حدیث پریوں باب قائم کیا :كَيْفَ يُعْرَضُ الإِسْلاَمُ عَلَى الصَّبِيِّ.
یعنی بچے پر اسلام کیسے پیش کیاجائے گا۔
حافظ ابن حجرaشرحِ حدیث میں فرماتے ہیں:ابن صیاد سے نبیﷺ کے فرمان:’’أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟‘‘سے بچے پر اسلام پیش کرنے کی شرعی حقیقت ثابت ہوتی ہے،کیونکہ تب وہ نابالغ تھا، اگر وہ اقرار کرتا توقابل قبول ہوتا اور یہی اس پر اسلام پیش کرنے کامقصد تھا۔
(فتح الباری۶؍۱۷۲)
اور علامہ عینی حنفی نے اس بارے میں تحریر کیاہے:اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر بچے کا اسلام درست نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیادکو، جوکہ اس وقت نابالغ تھا، دعوتِ اسلام نہ دیتے۔(عمدۃ القاری۸؍۱۶۹)
قارئین کرام! اندازہ کیجئے کہ مذکورہ بالاقانون،سنتِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم سےکس قدر متصادم ہے۔ایک اور حدیثِ پاک ملاحظہ ہو:
فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ(صحیح بخاری:1385)
یعنی: ہربچہ فطرت(دینِ اسلام)پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، یانصرانی یامجوسی بنادیتےہیں۔
ہم اراکینِ سندھ اسمبلی سے پوچھتےہیں کہ جوبچہ دین اسلام پر پیداہواتھا، اسے اس کے ماں باپ نےیہودی،عیسائی، مجوسی یاہندوبنادیا اب دوبارہ اس کافطرف (دین) کی طرف واپس آنا ممنوع ہے؟؟؟
اور پھریہ اسمبلی سیدناعلی المرتضیٰ tکے متعلق کیا کہے گی جنہوں نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کاسچارسول تسلیم کیا؟؟؟
سوال یہ پیداہوتاہے کہ اقلیتی نمائندوں کی طرف سے ایسا بل پیش کرنے اور اراکین اسمبلی کو یہ بل منظور کرنے کی کیاپڑی تھی؟ کیا اسلام نے اقلیتی برادری کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ جان ومال ،عزت وآبروکے تحفظ سمیت وہ تمام حقوق نہیں دیئے جو مسلمانوں کوحاصل ہیں؟
کیاپاکستان دنیا کا وہ واحد ملک نہیں ہےجہاں اقلیتی افراد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جیسے اہم ترین عہدوں پر فائز ہوتے ہیںقطع نظراس کے کہ ایسا کرنا شرعاً ممنوع ہے، جیسے جسٹس بھگوان داس کی مثال موجود ہے۔
کیاپاکستان میں اقلیتی افراد انتخابات میں حصہ لیکر اونچے ایوانوں کاحصہ نہیں بنتے؟ اور انہیں اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں؟
کیا پاکستان کے طول وعرض میں موجود اقلیتی افراد مکمل آزادی کے ساتھ اپناکاروبارنہیں کرتے؟
کیاپاکستان میں اقلیتیں مکمل آزادی کے ساتھ پوجاپاٹ او راپنی مذہبی رسوم ورواج بجانہیں لاتیں؟
یہ تمام امور میسر ہونے کے باوجود اس طرح کا بل لانے اورمنظور کرنے کی کیاضرورت تھی؟؟؟
ہم آخر میںحکومتِ وقت خصوصاً سندھ حکومت کو باور کرائیں گے کہ اپنی عاقبت سنوار نے کیلئے اس اسلام دشمن بل کو کالعدم ومنسوخ قرار دیاجائے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے جسے نبھانا اس کی دنیاوآخرت کی بہتری کیلئے ازحدضروری ہے۔
شکریہ جنرل راحیل شریف شکریہ
29نومبر2016ءکو ملک کےمقبول ترین آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ ہمیں یقین ہےان کی یہ ریٹائرمنٹ محض سروس سے ہے،باقی ملکی بہتری کیلئے ان کاکردار جنرل حمیدگل کی طرح تاحیات جاری رہےگا۔ اس لئے کہ ان کاتعلق دونشانِ حیدر رکھنے والے خاندان سے ہے اور اس خاندان کی ملک کیلئے خدمات بلاشبہ مثالی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور کا اگراختصار کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو سی پیک منصوبہ، جس سے وطن عزیزپاکستان کومعاشی؍اقتصادی خوشحالی میسرآنے والی ہے(ان شاء اللہ) اور آپریشن ضربِ عضب جس سے فاٹا کے علاقوں اورکراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے ذاتی مفاد کو کبھی مدنظر نہیں رکھا ریٹائرمنٹ کے اگلے روز آرمی ہاؤس کوخیرباد کہہ دیا اور لاہور روانہ ہوگئے۔ فوج کی طرف سے ملنے والاپلاٹ بھی پاک فوج کے شہداء کے نام کردیا۔ان کاکوئی بدسےبدترین دشمن بھی ان کی ذات پر انگلی نہیں اٹھاسکتا۔
جنرل راحیل شریف کے 3سالہ دور میں دہشت گردی میں ملوث 30سے زائد مجرموں کو سزائے موت دی گئی اور انہوں نے اپنی سبکدوشی سے 4روز قبل 4سے زائد دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی۔ وہ ایک ایسے جنرل تھے جنہوں نے عید جیسا تہوار بھی اگلے مورچوں میں اپنے جوانوں کے ساتھ منایا۔
جنرل راحیل شریف کی ملک کیلئے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور ہم ان کی خدمات پر انہیں تہہ دل سے کہتے ہیں:
شکریہ جنرل راحیل شریف شکریہ

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

کاوش : شیخ عبداللہ محمدی (مدرس : مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ،ساماروموری) خطبہ مسنونہ کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے