Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ فروری و مارچ » بدیع التفاسیر قسط 200

بدیع التفاسیر قسط 200

تیرھویں فصل:

قرآن مجید میں مذکور قصص کابیان

قال اللہ تعالیٰ:[نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ۝۰ۤۖ ](یوسف:۳)

ترجمہ:ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نےآپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیاہے۔

[لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۝۰ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى](یوسف :۱۱۱)

ترجمہ:ان کے بیان میں عقل والوں کےلئے یقینا نصیحت وعبرت ہے یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں۔

ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں مذکور واقعات سب سے اچھے اور سچے ہیں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ یہ واقعات محض فرضی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے جبکہ تمام قرآنی واقعات مبنی برحقیقت ہیں جن سے عبرت ونصیحت حاصل ہوتی ہےاور کئی مسائل معلوم ہوتے ہیں بعض قصے کسی جگہ مختصر تو دوسری جگہ مفصل ذکر ہوئے ہیں یہ سب کچھ سیاق وسباق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، ان کے متعلق یہ بات ضروری ہےکہ جو الفاظ قرآن مجید اور ان کی تفصیل صحیح احادیث میں مذکور ہو اسی پر اکتفاء کرنا چاہئے ، مزید اسرائیلی روایات کو ان کے ساتھ ملاکرانہیں مضحکہ خیز بنانادرست نہیں ہے، اسرائیلی روایات کی حیثیت کے متعلق اوپر ذکر کیاجاچکا ہے، اسرائیلی روایات میں اکثر ایسی باتیں مذکور ہوتی ہیں جو قرآنی مضمون اور اس کی شان کے برعکس ہیں، کئی ایسی باتیںبھی ہیں جن کی نسبت انبیاء کرام کی طرف کرنا ان کی شان کے خلاف ہے، بعض سے اسلامی عقائد کو نقصان پہنچتا ہے کئی باتیں عقل کے بھی منافی ہوتی ہیں اس لئے ایسی باتیںجن کی اصل قرآن وحدیث میں نہ ملے وہ قابل التفات ہی نہیں، انبیاء سابقہ سے جوثابت ہو وہ ہمارے لئے حجت اور قابل اتباع ہے :

قال اللہ تعالیٰ:[اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۝۰ۭ ] (الانعام:۹۰)

ترجمہ:یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی سو آپ بھی ان ہی کے طریقے پر چلئے۔

بشرطیکہ قرآن مجید یا صحیح حدیث میں اس کے خلاف کوئی حکم وارد نہ ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں آپ کی شریعت بھی آخری شریعت ہے،اس لئے شریعت محمدی کے خلاف گذشتہ احکامات منسوخ ہیں۔

اخرج اسحاق ابن راھویہ والبزار وابن المنذر وابن جریر وابن ابی حاتم وابن حبان والحاکم وصححہ وابن مردویہ عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قال قرأ علی النبی ﷺ القرآن فتلا علیھم زمانا فقالوا یارسول اللہ لم قصصت علینا فانزل اللہ الٓر تلک آیت الکتاب المبین ہذہ السورۃ ثم تلا علیھم زمانا فانزل اللہ الم یأن للذین آمنوا ان تخشع قلوبھم  لذکراللہ.

(الدر المنثور ۴؍۳تفسیر ابن ابی حاتم ۷؍۲۱۰۰رقم:۱۱۳۲۳، مسندالبزار۳؍۲۳۲،المستدرک حاکم ۲؍۳۷۶،ابویعلی:۷۴۰،  صحیح ابن حبان :۶۲۰۹)

یعنی صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے قصے سنانے کا مطالبہ کیا جس پر سورۂ یوسف نازل ہوئی، پھر کچھ وقت گذرنے کے بعد سورۂ حدید کے دوسرے رکوع کی یہ آیت نازل ہوئی:یعنی کیا مومن ابھی اس وقت کو نہیں پہنچے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن کے لئے ان کے دل نرم ہوجائیں۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سب سے بہترین قصے قرآنی قصے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے کافی ہونے چاہئیں، نیز رسول اللہ ﷺ نے جنگ تبوک کے موقعہ پر جوخطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:

احسن القصص ہذا القرآن .

(البدایۃ النھایۃ ۵؍۱۳بحوالہ دلائل النبوۃ للبیھقی ۵؍۲۴۱، مصنف ابن ابی شیبہ ۱۳؍۲۹۶ح۳۵۶۹۴)

یعنی سب سے بہترین قصہ توخود قرآن مجید ہے۔

اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ عام قصوں کہانیوں اور ناولوں کی کتابوں میں وقت ضایع کرنے اور اپنے اخلاق برباد کرنے کے بجائے قرآن حکیم کا مطالعہ کریں اس میں مذکور قصوں پر غور کریں تاکہ دینی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اخلاقی سبق بھی ملتا رہے ،واللہ الھادی الی سواء السبیل.

چودھویں فصل:

قرآن کریم میں مذکور قسموں کے بارے میں قواعد کابیان

قرآن مجید کی قسموں کے بارے میں حافظ ابن قیمaنے مفصل کتاب التبیان فی اقسام القرآن تصنیف فرمائی ہے،قسموں کے قواعد کے سلسلے میں اس کتاب سے اقتباس ذکر کیاجاتاہے :جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نےچیزوں او رمسائل کاذکر بطور قسم کے فرمایا ہے اس پاک ذات، مبارک صفات اور اعلیٰ بادشاہی کے مالک کا اپنی کسی مخلوق کی قسم اٹھانا اس کی بڑائی اور عظمت کی دلیل ہے۔ وہ چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانی ہوگی،جس کی اس نے قسم اٹھائی ہے، عموماً قسم جملہ خبریہ پر داخل ہوتی ہے،مثلاً:[فوربک لنسئلنھم أجمعین عما کانوا یعملون](الحجر:۹۳) یعنی تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور سوال کریں گے۔

حالانکہ اس جملے میں اگر مقسم علیہ(جس کے بارے میں قسم اٹھائی گئی) کے ثبوت کی مراد بھی لی جائے تو اسے جملہ خبریہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور جب قسم سے مقسم علیہ کی تحقیق اور اسے ثابت کرنا مراد ہوتا ہے تو اس وقت قسم تاکید کا فائدہ دیتی ہے اور اس کے خاص فوائد ہوتے ہیں جن سے قسم کی خوبی معلوم ہوتی ہے مثلاً: بعض مخفی چیزیں جن کے ثبوت کیلئے ظاہری اشیاء کو بطور قسم وشاہدی کے پیش کیاجاتا ہے، مگر وہ چیزیں جو خود ظاہر ومشہور ہیں مثلاً: سورج، چاند، رات، دن، زمین وآسمان ان چیزوں کی قسم اٹھائی گئی ہے مگر گواہی کیلئے کوئی اور قسم نہیں اٹھائی گئی کیونکہ اس موقعہ پر اس کی ضرورت ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء کی قسم اٹھائی ہے وہ قدرت کی بڑی آیتیں اور نشانیاں ہیں وہ خود دوسروں کے ثبوت کیلئے قسم کی حیثیت رکھتی ہیںنیز اللہ تعالیٰ نے زیادہ ترجواب قسم (یعنی قسم کیوں اٹھائی گئی) ذکرفرمایا ہے، کبھی جواب قسم محذوف ہوتا ہے، جیسے حرف لوشرطیہ کا بھی کبھی محذوف ہوتا ہے کیونکہ اس کا جواب اکثر معلوم اورظاہر ہوتا ہے مثلا:

[لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ۝۵ۭ ](التکاثر:۵)

ترجمہ:اگر تم یقینی طور پر جان لو۔

[اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ ]

(الرعد:۳۱)

ترجمہ:یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کردی جاتی یا مردوں سے باتیں کرادی جاتیں۔(پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے)

وغیرھا من الآیات.

 ان آیات میں جواب قسم کے حذف کی یہ خوبی ہے کہ سامع کاذہن اصل بات کی طرف فوراً متوجہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس کلام سے مراد یہ ہوگی کہ

انک لورأیت ذالک لرأیت لھولا عظیما.

یعنی اگر تم اس وقت دیکھ لو تو تمہارے سامنے بڑا خطرناک منظر ہو۔

اسی طرح قسم کی مثال

[صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۝۱ۭ ](ص:۱)

ترجمہ:ص،اس نصیحت والے قرآن کی قسم!

اس کاجواب خود مقسم بہ(جس سے قسم اٹھائی گئی ہو) سے ہی ظاہر ہے کیونکہ مقصد قرآن مجید کی صداقت کااظہار ہے جو کہ اس کی صفت ذی الذکر (یعنی نصیحت کرنے والایاددہانی کرانے والا) سے ہی ظاہر ہے اس لئے ظاہرا مقسم بہ کومقسم علیہ کے بجائے کافی تصور کیاگیا، قرآن مجید میں مذکور قسموں کے کئی اقسام ہیں، کبھی اصول ایمان کے لئے ہوتا ہے جس کا جاننا بندوں کے لئے ضروری ہے مثلاً:

[وَالصّٰۗفّٰتِ صَفًّا۝۱ۙ فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا۝۲ۙ فَالتّٰلِيٰتِ ذِكْرًا۝۳ۙ اِنَّ اِلٰہَكُمْ لَوَاحِدٌ۝۴ۭ](الصافات:۱تا۴)

ترجمہ:قسم ہے! صف باندھنے والے(فرشتوں) کی، پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی،پھر ذکراللہ کی تلاوت کرنے والوں کی، یقینا تم سب کا معبود ایک ہی ہے۔

کبھی رسول اللہﷺ کی حقانیت کے لئے ہوتا ہے مثلا:

[نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ۝۱ۙ مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ۝۲ۚ](القلم:۱،۲)

ترجمہ:قسم ہے! قلم کی اور اس کی جو کچھ کہ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں، تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے۔

کبھی قسم وعد، وعید اور جزاکے لئے ہوتا ہے ،مثلاً:

[وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا۝۱ۙ فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا۝۲ۙ فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا۝۳ۙ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۝۴ۙ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۝۵ۙ وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ۝۶ۭ ](الذاریات:۱تا۶)

ترجمہ:قسم ہے! بکھیرنے والیوں کی اُڑاکر،پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو،پھر چلنے والیاں نرمی سے، پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں، یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں (سب )سچے ہیں،اور بے شک انصاف ہونےوالاہے۔

کبھی انسان کی حالت کے بیان کیلئے ہوتاہے،مثلاً:

[وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا۝۱ۙ فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا۝۲ۙ  فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا۝۳ۙ فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا۝۴ۙ فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا۝۵ۙ اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَكَنُوْدٌ۝۶ۚ ](العادیات:۱تا۶)

ترجمہ:ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم!پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم!پھر صبح کے وقت دھاوابولنے والوں کی قسم!پس اس وقت گردوغبار اڑاتے ہیں ،پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں ،یقینا انسان اپنے رب کا بڑ اناشکرہ ہے۔

[وَالْعَصْرِ۝۱ۙ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ۝۲ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۝۳ۧ](سورۃالعصر:)

ترجمہ:زمانے کی قسم!بے شک (بالیقین)انسان سرتاسر نقصان میں ہے،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے )آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔

[وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ۝۱ۙ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ۝۲ۙ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ۝۳ۙ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۝۵ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝۶ۭ ](التین:۱تا۶)

ترجمہ:قسم ہے!انجیر کی اور زیتون کی، اور طورسینین کی،اور اس امن والے شہر کی ،یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا پھر اسے  نیچوں سے نیچاکردیا،لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر)نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔

فائدہ: چونکہ قسم کلام میں بکثرت استعمال ہوتی ہے اس لئے اختصار کے پیش نظر فعل قسم کوحذف کرکے اس کی جگہ ’’ب ‘‘استعمال ہوتی ہے، مثلا: [فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۸۲ۙ ](ص:۸۲)

ترجمہ:کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم!میں ان سب کو یقینا بہکادونگا۔

کبھی اس کی جگہ واؤ مستعمل ہوتی ہے، قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں موجودہیں،اس کا دخول ظاہر اسماء پر ہوتا ہے نیز اس کے بجائے حرف’’ت‘‘ بھی آتی ہے، مگریہ خاص اسم ذات ’’اللہ‘‘ پر داخل ہوتی ہے، مثلا:

[تَاللہِ لَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ۝۵۶ ](النحل:۵۶)

ترجمہ:واللہ !تمہارے اس بہتان کا سوال تم سے ضرور ہی کیاجائے گا۔

نیز بعض عرب سے تاالرحمان ،وترب الکعبۃ، وتربی، وتحیاتک بھی مسموع ہے مگر یہ شاذ ہے۔(ھمع الھوامع مع شرح جمع الجوامع للسیوطی ۲؍۳۹)

فائدہ: اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کی بھی قسم اٹھاسکتا ہے، جس طرح وہ ہر چیز کوخطاب کرسکتا ہے:

[وَقِيْلَ يٰٓاَرْضُ ابْلَعِيْ مَاۗءَكِ وَيٰسَمَاۗءُ اَقْلِـعِيْ]

(ھود:۴۴)

ترجمہ:فرمادیاگیا کہ اے زمین!اپنے پانی کونگل جا ،اور اے آسمان! بس کر تھم جا۔

[يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَہٗ ](سبأ:۱۰)

ترجمہ:اے پہاڑو!اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھاکرو۔

[فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا۝۰ۭ]

(حم السجدۃ:۱۱)

ترجمہ:پس اسے اور زمین سے فرمایاکہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا نا خوشی سے۔

اور وہ کسی بھی چیز کو سنانےپر قادر ہے:

[اِنَّ اللہَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۚ ](فاطر:۲۲)

ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ جس کوچاہتا ہے سنادیتاہے۔

کسی بھی چیز کو قوت گویائی عطاکرسکتا ہے:

[قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِيْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ]

(حم السجدۃ:۲۱)

ترجمہ:انہوں نے کہا اللہ نے ہم سے بلوایا جو ہرچیز کو بلوا دیتا ہے۔

اس لئے وہ کسی بھی چیز کو گواہ بناسکتا ہے مگر انسان کسی مخلوق کی قسم نہیں اٹھاسکتا جیسا کہ کئی احادیث میں اس بارے میں بڑی وعید،تنبیہ اور منع وارد ہوئی ہے، بلکہ اسے شرک وکفر قرار دیاگیا ہے۔مثلاً:

عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول من حلف لغیر اللہ فقد اشرک .

(رواہ الترمذی ، کتاب النذوروالایمان باب ماجاء فی کراھیۃ الحلف بغیر اللہ :۱۵۳۵)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔

وفی روایۃ من کان حالفا فلیحلف باللہ او لیصمت.

(صحیح بخاری، کتاب الشھادات باب کیف یستحلف، حدیث:۲۶۷۹، صحیح مسلم:۱۶۴۶)

نیز فرمایا:جسے لازما قسم اٹھانی ہو تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے ورنہ خاموش رہے۔

فائدہ: اللہ تعالیٰ نے چند جگہوں پر اپنی ذات کی بھی قسم اٹھائی ہے:

(۱)[قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۝۰ۚ](یونس:۵۳)

ترجمہ:کہہ دیجئے قسم ہے میرے رب کی بیشک یہ حق ہے۔

(۲)[قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ](التغابن:۷)

ترجمہ:کہہ دیجئے کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤگے۔

(۳)[فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّہُمْ وَالشَّيٰطِيْنَ ](مریم:۶۷)

ترجمہ:پس تیرے رب کی قسم البتہ ضرور ہم جمع کریں گے ان کو اور شیاطین کو۔

(۴)[فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۹۲ۙ ](الحجر:۹۲)

ترجمہ:پس تیرےرب کی قسم البتہ ضرور ہم پوچھیں گے ان سب سے ۔

(۵)[فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ](النساء:۶۵)

ترجمہ:پس قسم ہے تیرے رب کی نہیں وہ ایمان والے ہوسکتے۔

(۶)[فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ۝۴۰ۙ ]

ترجمہ:پس قسم اٹھاتاہوں میں مشارق ومغارب کے رب کی بیشک ہم قدرت والے ہیں۔(المعارج:۴۰)

(۷)[تَاللہِ لَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ](النحل:۵۶)

ترجمہ:اللہ کی قسم!البتہ ضرور تم سوال کیے جاؤگے اس چیز کے بارے میں جو تم گھڑتے ہو۔

(۸)[تَاللہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ]

ترجمہ:اللہ کی قسم!البتہ تحقیق بھیجا ہم نے آپ سے پہلے امتوں کی طرف۔(النحل:۶۳)

اس کے علاوہ باقی مقامات پر مخلوقات کو بطور قسم کے پیش کیاگیا ہے۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے