بدیع التفاسیر

قسط نمبر 219

من: یہ حرف جر ہے اور پندرہ معانی کے لئے مستعمل ہوتا ہے:

(۱) ابتداء غایت کے لئے یہی اس کا عام استعمال ہے بلکہ ایک جماعت کا دعوی ہے کہ باقی تمام معانی کا آخری مرجع ومآل یہی ہے اور اس معنی میں غیر زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے:[سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ](بنی اسرائیل:۱)[اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ ](النمل:۳۰)اور کوفی،اخفش، مبرد،ابن دستویہ کہتے ہیں کہ زمانہ کے لئے بھی آتا ہے جیسے: [مِنْ اَوَّلِ يوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْہِ۝۰ۭ ](التوبۃ:۱۰۸)(۲) التبعیض:جیسے:[مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللہُ ](البقرۃ:۲۵۳) (۳) بیان جس کے لئے اس صورت میںاکثر کلمہ ما یا مھما کے بعد واقع ہوتا ہے،جیسے: [مَا يَفْتَحِ اللہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِكَ لَہَا۝۰ۚ] (فاطر:۲) [وَقَالُوْا مَہْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰيَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا۝۰ۙ ](الاعراف:۱۳۲)

فائدہ: روافض آیت :[وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۲۹ۧ ](الفتح:۱۲۹) میں من کو تبعیضیہ بناتےہوئے بعض صحابہ کرام کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، قبحھم اللہ، حالانکہ یہاں من تبعیض کےلئے نہیں بلکہ بیان کے لئے ہے ،جیسے:[لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۳ ](المائدہ:۷۳) نیز جیسے:[فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ](الحج:۳۰)

(۴)تعلیل جیسے: [مِمَّا خَطِيْـــٰٔــتِہِمْ اُغْرِقُوْا](النوح:۲۵) (۵)البدل جیسے: [اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ] (التوبۃ:۳۸) [وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَۃً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَ۝۶۰](الزخرف:۶۰) (۶)بمعنی عن جیسے: [فَوَيْلٌ لِّــلْقٰسِيَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللہِ۝۰ۭ](الزمر:۲۲) (۷)ب کے معنی میں جیسے:[ يَنْظُرُوْنَ مِنْ طَرْفٍ خَفِيٍّ۝۰ۭ] (الشوریٰ:۴۵) اسی طرح یونس نحوی کا کہنا ہے لیکن یہ بظاہر ابتداء کےلئے معلوم ہوتی ہے ۔(۸)بمعنی فی جیسے:[اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ](الاحقاف:۴) [اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ ](الجمعۃ:۹) ابن ہشام کہتے ہیں کہ پہلی آیت میں بظاہر من بیانیہ ہے۔ (۹) بمعنی عند جیسے:[لَنْ تُغْنِيَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ مِّنَ اللہِ شَيْـــــًٔا۝۰ۭ ](المجادلۃ:۱۷) ابوعبید ایسےکہتے ہیں اور ابن ہشام کہتےہیں کہ یہ من بدل کے لئے ہے یعنی بدل طاعۃ اللہ یا بدل رحمۃ اللہ (۱۰)بمعنی ربما اس وقت اس کے ساتھ ما متصل ہوتا ہے، جیسے شاعر کا قول

وانا لما تقرب الکبش ضربۃ

علی رأسہ تلقی اللسان من انعم

اسی طرح حیرافی بن خروف اور ابن طاہر وغیرھم کا کہنا ہے ،ابن ہشام کہتے ہیں کہ اس شعر میں بظاہر من ابتدائیہ یامصدریہ ہے۔

(۱۱)بمعنی علی جیسے:[وَنَــصَرْنٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۝۰ۭ](الانبیاء:۷۷) (۱۲)فعل وتمیز کےلئے اس وقت دومتضاد میں سے آخری (دوسرے) پرداخل ہوتا ہے، جیسے: [وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۝۰ۭ](البقرہ:۲۲۰) [حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ۝۰ۭ](آل عمران:۱۷۹) (۱۳)بمعنی غایت جیسے:رأیتہ من ذلک الموضع. یعنی میری رؤیت کی انتہاء وہاں ہوئی جس جگہ میں نے اسے دیکھا۔(۱۴)عموم کی نص وتصریح کے لئے ،جیسے:ماجاءنی من رجل.اگر یہاں ماجاء نی رجل. کہاجاتا توعموم کا یقین نہ رہتا بلکہ عبارت میں دواحتمال ہوسکتے تھے ایک یہ کہ میرے پاس کوئی مرد نہیں آیا بلکہ دو یا اس سے زیادہ آئے، من کے داخل ہونے سے نفی کے عموم کا فائدہ ہوا۔(۱۵)تاکید کے لئے اس وقت یہ زائدہ ہوتا ہے اگرچہ نفی میں استعمال ہو یا نہی میں یا استفہام۔نفی کی مثال جیسے:[وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا] (الانعام:۵۹) نہی اوراستفہام کی مثال جیسے:[مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳](الملک:۳) بعض کہتے ہیں کہ من ایجاب کیلئے بھی آتا ہے، اس کی مثال یہ بیان کی جاتی ہے ،جیسے:[وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ۝۳۴](الانعام:۳۴)[يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ] (فاطر:۳۳،الحج:۲۳،الکھف:۳۱) [وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْہَا مِنْۢ بَرَدٍ ](النور:۴۳)

فائدہ: تفسیر ابن جریر۳؍۲۳۴،تفسیر ابن المنذر اور شعب الایمان بیہقی میں حسن سند سے ابن عباس wسے روایت ہےکہ:

قالوا لو کان ابراھیم علیہ السلام قال فاجعل افئدۃ الناس تھوی الیھم لحجہ الیھود والناس کلھم ولکن قال افئدۃ من الناس فخص بہ المؤمنین .(الدرر المنثور ۴؍۸۷)

یعنی: اگرابراھیم  علیہ السلام اپنی دعا میں فاجعل افئدۃ الناس، (یعنی لوگوں کے دل )کہتے تو تمام لوگ غیرمسلم یہودونصاریٰ بیت اللہ کا حج کرنے کے لئے آتے لیکن آپ نے افئدۃ من الناس فرماکر مسلمانوں کو خاص کیا ۔ اس قسم کا قول ابن جریر نے تابعین سعید بن جبیر اور مجاہد سے بھی نقل کیا ہے ،سیوطی لکھتےہیں :ان روایات سے ثابت ہوا کہ صحابہ وتابعین من کو تبعیض کےلئے سمجھتے تھے۔

فائدہ: بعض علماء کہتےہیں کہ قرآ مجید میں جہاں بھی یغفر لکم سے مؤمنوں کو خطاب کیا گیا ہے وہاں من مذکور نہیں ہے جیسے: [يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا۝۷۰ۙ يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ ](الاحزاب:۷۰،۷۱) وغیرھا من الآیات ،جبکہ کفار سے خطاب کے وقت من کو ذکرکیاگیا ہے جیسے:[يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ ](ابراھیم:۱۰،الاحقاف:۳۱، النوح:۴)

یہ اس وجہ سے کہ مسلمانوں اور کافروں سے خطاب اور وعدہ میں فرق کیا گیا ہے ،زمخشری نے کشاف میں اسی طرح ذکر کیا ہے۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے