Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اگست و ستمبر » بدیع التفاسیر (قسط نمبر :216)

بدیع التفاسیر (قسط نمبر :216)

کَی:یہ حرف دومعانی کےلئے استعمال ہوتا ہے:(۱)تعلیل جیسے:[کیلایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم] (الحشر:) (۲)بمعنی ان مصدریہ جیسے:[لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ …الآیۃ](الحدید:۲۳)

کَیف:کَیکوبھی کہا جاتا ہے جس طرح سوف سے فاحذف کرکے سوکہا جاتا ہے ،جیسےقول شاعر:

کی تجنون الی سلم وماثئرت

قتلاکم ونطی الھیجاء تضطر

کَیف:یہ اسم دو معنی کےلئے مستعمل ہوتا ہے:(۱)شرط جیسے: [کَیْفَ یَشَاءُ](المائدۃ:۶۴) [يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ](آل عمران:۶)[ فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَاۗءِ كَيْفَ يَشَاۗءُ ] (الروم:۴۸)

جواب شرط محذوف ہے جس پر اس کا ماقبل دلالت کرتا ہے۔

(۲)استفہام ،اکثر اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کلمہ (کیف) سے کسی چیزکی حالت(وکیفیت) کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے نہ کہ کسی ذات کے بارے میں،امام راغب کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سوال اس چیز کے بارے میں صحیح ہوگا جس کے تشبیہ وغیر تشبیہ کہی جاسکتی ہو اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’’کیف‘‘ سے سوال نہیں کیا جاسکتا،جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنےبارے میں کیف فرمایا ہے وہاں سے مراد مخاطبین سے خبر کی طلب ہے جس میں ان کےلئے تنبیہ ہے ، جیسے:[كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ ](البقرۃ:۲۳)[كَيْفَ يَهْدِي اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ ](آل عمران:۸۶) راقم الحروف کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارےمیں بھی کیف سے سوال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کی تمام صفات مبارکہ اس کی ذات کی طرح بے مثل اور تشبیہ سے پاک ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح :بلاکیف وکم ایمان ویقین رکھنا ہے، وباللہ التوفیق

لام:کی چار قسمیں ہیں:(۱)جارہ یہ اپنے مدخول سمیت مجرور ہوتا ہے اس صورت میں اس کے بائیس معانی ہوتے ہیں:(۱)استحقاق یعنی حقداری کا معنی اس حالت میںمعنی اور ذات کے درمیان واقع ہوتا ہے جیسے:[اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ] [وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ] (۲) الاختصاص، جیسے: [قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ  لَهٗٓ اَبًا ] (یوسف:۷۸) [فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ] (النساء:۱۱)(۳)ملکیت، جیسے:[لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ  ۭ ](البقرہ:۲۵۵) (۴)تملیک ،یعنی کسی دوسرے کو مالک بنانا،جیسے:[وَهَبْ لِيْ مُلْكًا ](ص:۳۵) (۵)شبہ تملیک، جیسے:[جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ](النحل:۷۲) (۶)تعلیل: جیسے: [لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ] [وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ] (العادیات:۸) (۷)نفی کی تاکید کے لئ ے اس وقت لفظا فعل پر داخل ہوتا ہےاور اس سے قبل دوافعال ناقصہ ماکان اور لم یکن میں سے کوئی ایک ہوتا ہے جس کی اسناد اس کی طر ف ہوتی ہے جس کی طرف لام مدخول کی نسبت ہوتی ہے ،جیسے:[وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ](آل عمران:۱۷۹)[ لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَھُمْ ] (النساء:۱۳۷) (۸)بمعنی الی ،جیسے: [بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا ] (الزلزال:۵) [كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ](الرعد:۲) (۹)علی کے معنی میں حقیقتا جیسے:[يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا](بنی اسرائیل:۱۰۷) [ وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ](الصفت:۱۰۳) یا مجازا ،جیسے: [وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا  ۭ](بنی اسرائیل:۷)(۱۰)بمعنی فی جیسے: [وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ ](الانبیاء:۴۷) (۱۱)بمعنی عند جیسے:کتبہ لخمس خلون ،ابن جنی اس کی مثال اس آیت سے دیتے ہیں: [بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ] (ق:۵)عاصم جحدری کی قرأت کے مطابق یہاں لام کو زیر اور ما کو مخفف پڑھا جاتا ہے اس قرأت کے مطابق ابن جنی کہتے ہیں کہ لام بمعنی عند ہے۔(۱۲)بعد کےمعنی میں جیسے: [اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ] (بنی اسرائیل:۷۵) (۱۳) بمعنی مع جیسے: شاعر کا قول:

فلما تفرقنا انی ومالکا

لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا

(۱۴)من کے معنی میں جیسے:سمعت لہ صراخا۔(۱۵)بمعنی تبلیغ اس حالت میں لام سامع کےاسم کے لئے جارہ ہوتا ہے جیسے: یا فسرت لہ ۔(۱۶)بمعنی عن جیسے:[وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ۭ](لاحقاف:۱۱) (۱۷)صیرورہ کے معنی کے لئے اس صورت میں اس لام کو لام العاقبۃ اور لام المال کہا جاتا ہے جیسے: [فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا  ۭ ](القصص:۸) (۱۸)بمعنی تعجب یہ صورت اللہ تعالیٰ کے نام کےلئے خاص ہے،جیسے:للہ یبقی علی الایام ذو جید۔(۱۹)تعجب معنی میں قسم کے بغیر اور یہ نداء کے لئے استعمال ہوتاہے، جیسے:یاللماء یاللشعب یعنی ان(پانی ،لشکر وغیرہ) کی کثرت کی وجہ سے بطور تعجب کہاجاتاہے۔(۲۰)تعدیہ کے لئے، جیسے:[فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا ](مریم:۵)(۲۱)تاکید کے لئے اور اس وقت لام زائدہ ہوتا ہے اور اس کی چند قسمیں ہیں:اول :لام معترضہ جو کہ فعل متعدی اور اس کے مفعول کےد رمیان آتا ہے ،جیسے قول شاعر:

ومن یک ذا عظم حلیب رجی بہ

لیکسر عود الدھر فالدھر کاسرہ

اس کے لئے استاد مبرد نے اس آیت کو مثال بنایا ہے:[قُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ ](النمل:۷۲)

دوم: لام مقحمہ جو کہ مضاف ومضاف الیہ کے درمیان آتا ہے،جیسے:یابؤس للحرب جو کہ اصل میں یابؤس الحرب ہے۔ سوم: لام تقویۃ، اس عامل کو کلام میں تقویت دینے کے لئے آتا ہے جومتاخر ہونے کی وجہ سے کمزور ہوگیا ہو،جیسے:[ هُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُوْنَ](الاعراف:۱۵۴)یا اس وجہ سے کمزور ہو کہ عمل کرنے میں فرع ہو، جیسے:[مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ ۭ] (البقرۃ:۹۱) چہارم: لام المستغاثہ جیسے مبرد وغیرہ کا کہنا ہے، مثلا: یالزید، اسے زائدہ اس وجہ سےکہا جاتا ہے کہ اس کا حذف کرنا صحیح ہے، وکل ما صح اسقاطہ فھو زائد(حاشیہ مصطفیٰ دسوقی ۱؍۲۲۹)یعنی جس کاحذف کرنا درست ہو وہ زائدہ ہے۔

(۲۲)تبیین کےلئے اگرچہ فاعل کے لئے ہو،جیسے:[وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ ](محمد:۸) یا مفعول کےلئے، جیسے: [هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ ](المؤمنون:۳۶)

(۲)لام ناصبہ: یہ لام تعلیل کاہے، کوفیوںکا دعویٰ ہے کہ یہ لام از خود نصب دیتا ہے اور دوسر کہتے ہیں کہ نصب کی وجہ ان ناصبہ ہے جو کہ لام کے بعد مقدر ہے اور محلا مجرورہے ۔

(۳)لام جازمہ: یہ لام طلب کے لئے آتا ہے،جیسے،لتضرب خواہ وہ طلب امر کی ہو،جیسے:[لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ  ۭ] (الطلاق:۷) یا دعا ہو، جیسے: [وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ ](الزخرف:۷۷) یا اسی طرح خبر کے معنی کی طرف عدول کرجائے ،جیسے: [وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ ۭ ](العنکبوت:۲) یا تھدید وتوبیخ کےلئے ہو، جیسے: [وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ  ۙ ](الکھف:۲۹)

فائدہ: یہ لام اکثر فعل غائب کو جزم دیتا ہے،جیسے:[فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ  ۣفَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕكُمْ ۠ وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ ](النساء:۱۰۲)

جبکہ حاضر ومخاطب کے لئے قلیل طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے: [فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا  ۭ ](یونس:۵۸) کو بعض قرأتوں میں ت کے ساتھ [فلتفرحوا] پڑھاگیا ہے ،نیز متکلم کے لئے انتہائی قلیل مستعمل ہے،آیت :[ولنحمل خطایاکم] اس باب سے ہے، لام غیر عاملہ اس کی چار قسمیں ہیں:(۱)لام الابتداء جو کہ جملے کے مضمون کی تاکید کا فائدہ دیتا ہے اور مبتدا پرداخل ہوتا ہے ،جیسے:[لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِيْ صُدُوْرِهِمْ](الحشر:۱۳) اور ان مکسورہ کی خبر پر داخل ہوتا ہے ،جیسے:[وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ](القلم:۴) نیز اس کے اسم مؤخر پر جیسے: [اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدٰىoوَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَةَ وَالْاُوْلٰى ](اللیل:۱۲) (۲)ان مفتوحہ کی خبر پر داخل ہوتا ہے، جیسے: (الاانھم لیأکلوا الطعام) سعید بن جبیر تابعی کی قرأت میں یہاں ان مفتوحہ ہے، اور مفعول پر جیسے: [يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ  ۭ ](الحج:۱۳) (۳)لام جواب یعنی قسم کے جواب میں جیسے: [وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ](الانبیاء:۵۷) یا لو کے جواب میں جیسے: [لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ] (الفتح:۲۵) یا لولاکے جواب میں ہے:[وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ](البقرۃ:۲۵) (۴)لام موطیہ جسے موؤنہ بھی کہا جاتا ہے،یہ حرف شرط پر داخل ہوتا ہے،یہ بتانے کےلئے کہ یہ اور اس کے بعد آنے والاجواب قسم مقدر پر مبنی ہے جیسے:[لَىِٕنْ اُخْرِجُوْا لَا يَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْ ۚ وَلَىِٕنْ قُوْتِلُوْا لَا يَنْصُرُوْنَهُمْ ۚ وَلَىِٕنْ نَّصَرُوْهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ     ۣ ](الحشر:۱۲)

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے