Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جنوری » مقدمہ بدیع التفاسیر

مقدمہ بدیع التفاسیر

قسط : 210

اکیسویں فصل

قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہونے والے

 حروف کابیان

امام النحو جمال الدین بن ہشام نے اپنی مایہ ناز کتاب المغنی کے پہلے باب میں ان حروف کے احکامات بیان کیے ہیں یہاں ان کا خلاصہ ذکر کیاجاتاہے:

الالف:جب تنہاہوتودومعانی میں استعمال ہوتاہے،پہلا،نداء قریب یعنی قریب کو بلانے کے لئے،امرءالقیس کاشعرہے:افاطم مھلا بعض ہذا التدلل اور دوسرا استفہام کے لئے آتا ہے، جیسے: أزید قائم. کیازیدکھڑاہے؟استفہام کامعنی یہ ہے کہ کسی چیز کو سمجھنے کا سوال یاطلب کرنا اور [اَمَّنْ ہُوَقَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ ](الزمر:۹) میں دونوں معانی درست کہے گئے ہیں یعنی ہمزہ نداء کے لئے بھی ہواور استفہام کے لئے بھی،استفہام کی صورت میں معنی اس طرح ہوگاکہ اللہ کی عبادت کےلئے کھڑا ہونےوالابہترہے یاکافر؟یعنی جوماقبل:[قُلْ تَمَــتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيْلًا۝۰ۤۖ ]میں مخاطب ہے، یہ ہمزہ کبھی محذوف بھی ہوتا ہے اور آیت [وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ ](الشعراء:۲۲)کے بارے میں اس طرح کہاگیاہے،نیز یہ اثبات ونفی دونوں پرداخل ہوسکتا ہے جیسے:[اَلَمْ نَشْرَحْ](الشرح:۱)[اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ] (آل عمران:۱۶۵) اور کبھی یہ ہمزہ اپنے حقیقی معنی استفہامی سےخارج ہوجاتاہے اس میں آٹھ صورتیں ہیں:

1تسویۃ اور برابری :[سَوَاءٌ عَلَيْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ](المنافقون:۶)

2انکار ابطالی:یعنی اس کے بعد کا وقوع قطعا ناممکن ہو: [اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِيْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰىِٕكَۃِ اِنَاثًا](بنی اسرائیل:۴۰)

3انکارتوبیخی:یعنی جس کا مابعد واقع ہوتا ہے مگر فاعل کے لئے ملامت اورڈانٹ ہوتی ہے،جیسے:[اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ۝۹۵ۙ]

(الصافات:۹۵)

4تقدیر اورثابت کرنا، یعنی مخاطب کو وہ چیز منوانا یااس کا اقرار کروانا جس کااثبات یانفی متکلم کے پاس ثابت ومحقق ہو،جیسے:[قَالُوْٓا ءَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِہَتِنَا يٰٓـاِبْرٰہِيْمُ۝۶۲ۭ](الانبیاء:۶۲)

5مذاق واستہزاء وغیرہ کے لئے ،جیسے:[قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ](ھود:۸۷)

6بمعنی امروحکم ،جیسے:[وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۝۰ۭ ](آل عمران:۲۰)أسلمتم بمعنی: اسلموا ،یعنی تم اسلام لاؤ۔

7بمعنی تعجب:مثلا:[اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ]

(الفرقان:۴۵)

8کسی کام میں سستی وکوتاہی دیکھ کر اس کو طلب کرنا یعنی الاستبطاءمثلا:[اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِكْرِ اللہِ](الحدید:۱۶)

اذن.جمہور کے نزدیک یہ حرف ہے، مضارع کو نصب دیتا ہے اور اکثر جواب وجزاء کے لئے آتاہے جیسے:[مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ](المؤمنون:۹۱) استاد فراء کہتے ہیں کہ اگر اس کے بعد لام ہوتواس سے پہلے لوکومحذوف مانناپڑے گا، اذن کا نون کبھی الف سے بدل جاتا ہے کہ منصوب کی تنوین سے مشابہ ہوتا ہے۔

 ان مکسورہ مخففہ: یہ حرف چار طرح سے مستعمل ہوتا ہے:

1بمعنی شرط:[اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ۝۰ۚ](الانفال:۳۸)کبھی اس حالت میں کلمہ لااس سےمتصل ہوتا ہے جسے کم سمجھ لوگ حرف استثناء سمجھ لیتے ہیں جیسے:[اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ](التوبۃ:۴۹) [اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَــصَرَہُ اللہُ](التوبۃ:۴۰)[وَاِلَّا تَغْفِرْ لِيْ وَتَرْحَمْنِيْٓ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۴۷ ](ھود:۴۷)

2نافیہ جو کہ جملہ اسمیہ پرداخل ہوتی ہے جیسے:[اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ۝۲۰ۚ](الملک:۲۰)اور کبھی جملہ فعلیہ پر بھی جیسے:[اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝۰ۚ ](النساء:۱۱۷)

3مخففہ من المثقلہ دوجملوں پرداخل ہوتی ہے :[وَاِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۭ](الزخرف:۳۵) اس کے بعد لام مفتوح کاآنا اس بات کی دلیل ہے کہ اصل میں تشدید بعد میں تخفیف کی گئی ہے۔

4زائدہ جو کہ اکثر مانافیہ کے بعد ہوتی ہے جیسے:ما ان اتیت بشیٔ انت تکرہہ. یعنی میں نے ایسی کوئی چیز پیش نہیں کی جسے تم پسند نہ کرو۔

ان مفتوحہ مخففہ: یہ حرف چار طرح سے استعمال ہوتا ہے:

1مصدری معنی کے ساتھ مضارع پر نصب دیتی ہے اور یہ دو جگہ استعمال ہوتی ہے:ابتداء میں پھر کبھی رفع کی جگہ ہوتی ہے، جیسے: [وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ](البقرہ:۱۸۴) [وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ](نور:۶۰) اورکبھی نصب کی جگہ ،جیسے:[وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ](یونس:۳۸) اور کبھی جر کےقائم مقام جیسے:[اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا]

(الاعراف:۱۲۹)

2مثقلہ سے مخففہ ،یہ ایسے فعل کے بعد واقع ہوتی ہے جو یقینی ہو اور اس کے معنی میں ہو:[اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِـــعُ اِلَيْہِمْ قَوْلًا]

(طہ:۸۹)

3ای تفسیری کے قائم مقام بمعنی یعنی:[فَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ](المؤمنون:۲۷)

4ان زائدہ یہ چار مقامات پر آتی ہے:(۱)لما توقیتیہ کے بعد جیسے:[وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْءَ بِہِمْ ](ھود:۷۷) (۲)فعل اقسم اور لو کے درمیان جبکہ وہ فعل مذکور ہو،جیسے:مسیب بن عباس کاشعر:

فاقسم ان لو التقینا وانتم

لکان لکم یوم من الشر مظلم

یا جب وہ فعل مذکور نہ ہو،جیسے:شاعر کاقول:

اما واللہ لو کنت حرا

وما بالحر انت ولاالعتیق

(۳)کاف حرف جر اور اس کے مجرور کے درمیان مگر اس کی مثال نادر وناپید ہے:شاعر کا قول ہے:

ویوما توافینا بوجہ مقسم

کان ظبیۃ تعطوا الی وارق السلم

(۴)کلمہ اذا کے بعد مثلا:شاعر کاقول:

فامھلہ حتی اذا ان کانہ

معاطی ید فی لجۃ الماء غامر

ان مکسورۃ مشددۃ:دو طرح سے استعمال ہوتا ہے:

 1تاکید کے لئے ،اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے بعض کہتے ہیں اسم وخبر کو نصب دیتا ہےجیسے قول الشاعر:

اذا اسود جنح اللیل فلتأت ولتکن

خطاک خفافا ان حراسنا اسدا

امام ابن ہشام کہتے ہیں کہ :اس شعر میں خبرمحذوف ہے اصل عبارت اس طرح ہے:

ان حراسنا تلقاھم اسدا.

بعض روایات میںآتاہے:

ان قعر جہنم سبعین خریفا.(مسند البزر۱۷؍۱۵۷ ح:۹۷۶۸  طبع مکتبۃ العلوم والحکم المدینۃ المنورہ)

حدیث میں القعر مصدر ہے یعنی قعرالبئر اذا بلغت قعرھا اور سبعین ظرف ہے، حدیث کامعنی یہ ہوگا:جہنم کی گہرائی تک پہنچنا سترسال میں ہوگا۔

2جواب کے لئے ،نعم کے معنی میں(یعنی ہاں) جیساکہ ابن زبیر سے مروی ہے کہ کسی شخص نےان سے کہا:لعن اللہ ناقۃ حملتنی الیک.یعنی اس اونٹنی پر لعنت ہو جو مجھے تیری طرف لےکرآئی انہوںنے جواب دیا:ان وراکبھا.یعنی ہاں اس کے سوار پر بھی۔

ان مفتوحہ مشددہ اس کے دوحالات ہیں:1بمعنی تاکید اسم کو نصب اورخبرکورفع دیتی ہے۔2لغۃ بمعنی ھل جیسے بعض کا قول کہ:ائت السوق انک تشتری لنا شیئا .یعنی تم بازار میں آؤشاید ممکن ہے کہ ہمارے لئے کوئی چیزخرید سکونیز علماء نے قرآن مجید سے اس کی مثال ذکر کی ہے:[وَمَا يُشْعِرُكُمْ۝۰ۙ اَنَّہَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۹ ](الانعام:۱۰۹)

ام:چار وجوہ سے استعمال ہوتا ہے:1متصلہ اس سے قبل ہمزہ تسویۃ یعنی جوبرابری کےمعنی میں ہو،جیسے:[سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍ۝۲۱ۧ ](ابراھیم:۲۱) یا ایسا ہمزہ جس سے اورام سے تعین مراد ہو جیسے:أزید فی الدار ام عمرو،ان دونوں حالتوں میں فرق اس طرح ہے کہ (۱)ہمزہ تسویۃ کے بعد جملہ کسی جواب کو نہ چاہتاہوکیونکہ استفہام کا معنی نہ ہو۔2یہ ایک قسم کی خبر ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یحتمل الصدق والکذب تعیین والی حالت کےبرخلاف کہ اس میں حقیقت اور استفہام کا معنی ہے اس لئے جواب کی طلب بھی ہے جس میں صدق وکذب کے احتمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔3,4تسویۃ والی صورت میں ام ایسے دوجملوں کےدرمیان آتا ہے جو کہ مفرد کی تاویل میں ہو پھر وہ جملہ فعلیہ ہوں جیسے اوپر ذکرہوا یادونوں جملہ اسمیہ ہوں جیسے المتمم بن نویرہ کا شعر:

ولست ابالی بعد فقدی مالکا

اموتی ناء ام ھوالآن واقع

یادونوں مختلف یعنی جملہ فعلیہ اور دوسرا جملہ اسمیہ جیسے:[سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْہُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ۝۱۹۳] (الاعراف:۱۹۳) اور تعیین والی صورت میں ام اکثر دومفردوں کے درمیان آتا ہے [ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝۰ۭ بَنٰىہَا۝۲۷۪ ] (النازعات:۲۷) یادوجملہ فعلیہ کے درمیان جومفرد کی تاویل میں نہ ہوںجیسے شاعر کاقول:

فقمت للطیف مرتاعا فارقنی

فقلت اھی سرت ام عادنی حلم

2ام منقطعہ: یہ تین طریقوں سے مستعمل ہوتا ہے:(۱)جو کسی خبر کے بعدآئے:[تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۲ۭ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۚ ](السجدۃ:۲،۳) (۲) ایسے ہمزہ کے بعد آئے جو استفہام کے لئے نہ ہو،جیسے:[اَلَہُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِہَآ اَمْ لَہُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِہَآ] (الاعراف:۱۹۵) اس جگہ ہمزہ انکار کے لئے ہے اس لئے نفی کامعنی ہے جبکہ ام متصلہ میں ایسے نہیں ہوتا۔(۳)استفہام کے بعد آئے مگرحرف استفہام ہمزہ نہ ہو،جیسے:[قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ اَمْ ہَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ](الرعد:۱۶)ام زائدہ جس کے لئے ابو زید نحوی نے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا :[وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ۝۰ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۵۱ۭ اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ ہُوَمَہِيْنٌ۝۰ۥۙ ](الزخرف:۵۱،۵۲) اور ساعدہ بن جؤیہ کے اس شعر میں ام کا زائدہ ہونا بالکل واضح ہے کہتا ہے:

بالبیت شعری ولامنجی من الھرم

ام ھل علی العیش بعد الشیب من ندم

ام تعریفی: قبیلہ بنی طی اور بنی حمید والے ام کو الف لام یا لام لام تعریف کی جگہ استعمال کرتے ہیں جیسا کہ بعض روایات میں آتاہے:

من امبر امصیام فی امسفر.(مسند احمد ۵؍۴۳۴مسند الشافعی ،ص:۱۵۷۔ح:۷۵۹،السلسلۃ الضعیفہ للالبانی ۳؍۲۶۴، ح:۱۱۳۰)

ال:تین طرح سے مستعمل ہوتا ہے:1اسم موصول بمعنی الذی اسم فاعل اور اسم مفعول پرداخل ہوتا ہے ۔2تعریف کے لئے پھر عہدی ہوگا یاجنسی ان دونوں کی تین قسمیں ہیں:(۱)عھدیہ جس کا مدخول معہود ذکری ہو،جیسے:[کَمَااَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۝۱۵ۭ فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ۔۔۔الآیۃ](المزمل:۱۵،۱۶) (۲)معہود ذہنی جیسے: [اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ] (الفتح:۱۸) (۳)معہود حضوری جیسے کوئی شخص کسی کے سامنے کسی آدمی کو برابھلا کہے اور تم اسے کہو: لا تشتم الرجال ۔اور جنسی استغراق کےلئےکہ کل کا معنی دے اور مدخول کے تمام افراد ہوں،مثلا:[وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا۝۲۸ ] (النساء:۲۸)(۲)جس استغراق میں کل کا معنی مجازی ہویعنی ان افراد کااستغراق باعتبار خاص کے ہوجیسے:زیدن الرجل علما،یعنی باعتبار علم کامل مردزید ہی ہے۔(۳)جس میں مدخول کی ماہیت کی تعریف ہواور کلیت کا معنی نہ حقیقتا ہو اور نہ ہی مجازا جیسے:[وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ](الانبیاء:۳۰)(۴)زائدہ اس کی بھی دوقسمیں ہیں: (۱)لازمہ جیسے اسماء موصولہ اس قول کی بنیاد پر کہ ان کی تعریف ان کے صلہ کی وجہ سے ہے یا وہ علم اپنے اصلی معنی سےنقل شدہ ہوں، نضر ،بغیر ال کے اصل میں اس کا معنی ’’سونا‘‘ ہے اسی طرح ’’نعمان‘‘ کا اصلی معنی ’’خون‘‘ ہے مگر یہ لوگوں کے نام ہونے کی وجہ سے ال سے مستعمل ہوتے ہیں جیسے: النعمان بن منذر اور النضر بن کنانہ یہ دونوں علم ال کے بغیر منقول نہیں ہیں۔(۲)غیرلازمہ جس کامدخول علم ہو اور ال سے خالی ہو اگر اس دخول کی صلاحیت رکھتاہو جیسے: حارث، عباس، اور ضحاک انہیں ال کے ساتھ بھی پڑھا جاسکتا ہے لیکن جن علموں پر ال کاداخل ہونا عربوں سے منقول نہ ہو ان پر اسے داخل نہیں کیاجائےگا جیسے،محمد،احمد،اور معروف۔

فائدہ: کبھی ال استفہام کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے قطرب نحوی نے مثال ذکر کی ہے:ال فعلت بمعنی ھل فعلت یہ ابدال کی قسم ہے یعنی خفیف کو ثقیل کی طرف لوٹانا۔

امامفتوحہ مشددہ:یہ حرف شرط ہے، اس کے مابعدپر حرف فا کا لازمی داخل ہونا اس کی شرط ہے ،جیسے:[فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ](البقرہ:۲۶) کبھی تفسیر کے لئے آتا ہے اور اکثر اس معنی میں ہوتا ہے:[اَمَّا السَّفِيْنَۃُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ] (الکھف:۷۹) اور کبھی تاکید کےلئے بھی آتا ہے جیسے تاکید کے لئے کہاجائے:اما زید فذاھب ،اسی طرح زمخشری نے بھی کہا ہے۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے