Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ دسمبر » مقدمہ بدیع التفاسیر

مقدمہ بدیع التفاسیر

قسط نمبر 218

ما: کی دوقسمیں ہیں:(۱)اسمیہ یہ کبھی موصولہ بمعنی الذی کے آتا ہے جیسے:[مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ۝۰ۭ] (النحل:۹۶) اور اس معنی میں مذکرومؤنث ،نیزواحد،تثنیہ وجمع کے لئے مستعمل ہوتا ہے،جیسے:[وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ] (الکافرون:۳) اور اس کی ضمیر میں لفظ اور معنی کا لحاظ رکھناجائز ہے، جیسے: [وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَہُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝۷۳ۚ ] (النحل:۷۳) اور استفہامیہ میں بمعنی ای شیٔ بھی آتا ہے جس سے غیرذوی العقول اشیاء اور ان کی جنس وصفت کے بارے میں سوال کیاجاتاہے، جیسے:[ مَا لَوْنُہَا۝۰ۭ](البقرۃ:۶۹) اور ذی العقول کی انواع وصفات کے بارے میں بھی سوال کیاجاتاہے ،جیسے: [قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ۝۰ۤ] (الفرقان:۶۰) اور کبھی ما کا الف حذف کرکے اسے زبر دی جاتی ہے تاکہ حذف پر دلالت کرے یہ اس صورت میں کہ جب مامجرور ہو جیسے:[عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱ۚ](النبا:۱) [فِيْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىہَا۝۴۳ۭ] (النازعات:۶۳) [لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲] (صف:۲) [بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ۝۳۵ ](النمل:۳۵) اور کبھی ماشرطیہ بھی ہوتا ہے، جیسے:[ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۝۰ۭ ](البقرۃ:۱۰۶) [فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝۰ۭ ] (التوبۃ:۷) ماتعجبیہ بھی واقع ہوتا ہے،قرآن مجید میں اس کی صرف دومثالیں ہیں :[فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ۝۱۷۵] (البقرۃ: ۱۷۵) [قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَہٗ۝۱۷ۭ ](عبس:۱۷) یہ ابتداء کی وجہ سے مرفوع ہوتا ہے اور اس کا مابعد اس کی خبر ہوتا ہے اور اس وقت ماتامہ نکرہ کاموصوف ہوتا ہے ،جیسے:[ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَـمَا فَوْقَہَا۝۰ۭ ](البقرۃ:۲۶)

(۲)ماحرفیہ یہ مصدریہ ہوتا ہے اگرچہ زمانہ کے معنی میں ہو، جیسے: [فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ](التغابن:۱۶) یعنی مدہ استطاعتکم یاغیر زمانی ہو ،جیسے: [فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ] (السجدۃ:۱۶) نیز مانافیہ بھی ہوتا ہے یا تو اس صورت میں کلمہ لیس کی طرح عمل کرتا ہے، قرآن مجید میں اس کی تین مثالیں ہیں: [وَقُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا۝۰ۭ ](یوسف:۳۱) [ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ۝۰ۭ ](المجادلۃ:۲) [مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۝۴۷] (الحاقۃ:۴۷)

یا پھر کوئی بھی عمل نہیں کرتا،جیسے:[وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝۰ۭ ](البقرۃ:۲۷۲) [فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ ] (البقرۃ:۱۶) ابن حاجب اس جگہ ماکو نفی حال کیلئے کہتے ہیں اور سیبویہ کے کلام کا یہ تقاضا ہے اس میں تاکید کا معنی ہے، نیز یہ زائدہ بھی ہوتا ہے،پھر یا تو کافہ ہوتا ہے ،جیسے:[اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ] (النساء:۱۷۱) یا غیرکافہ ہوتا ہے، جیسے:[اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ] (القصص:۲۸)

فائدہ: جب بھی ما،لیس،لم یا لاسے پہلےالا کےبعد واقع ہوتو وہ موصولہ ہوتا ہے،جیسے: [ مَا لَيْسَ لِيْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ ](المائدۃ:۱۱۶) [عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵ۭ](علق:۵) [ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ۝۳۶](یس:۳۶) [سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۝۰ۭ](البقرۃ:۳۲) اور جب کاف تشبیہ کے بعد واقع ہو تو مصدریہ ہوتا ہے،جیسے: [كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا] (البقرۃ:۱۵۱) اور جب ب کے بعد واقع ہو تو مصدریہ یاموصولہ دونوں کا احتمال ہوتا ہے، جیسے:[بِمَا كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ۝۱۶۲ۧ](الاعراف:۱۶۲) اور جب دو افعال کے درمیان  واقع ہوپہلاباب علم، درایت یا نظر سے ہوتو اس صورت میں موصولہ واستفہامیہ دونوں کا احتمال رکھتی ہے، جیسے:[وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۝۳۳] (البقرۃ:۳۳) [ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ۝۰ۭ ](الاحقاف:۹) [وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ ](الحشر:۱۸) اور قرآن مجید میںجہاں بھی الاسے قبل ماواقع ہوا ہے تو وہ تیرہ مقامات کےعلاوہ باقی تمام جگہوں پر ما نافیہ ہے، وہ تیرہ مقام یہ ہیں:(۱)[مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ ] (البقرۃ:۲۲۹) (۲)[فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ](البقرۃ:۲۳۷) (۳)[لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ۝۰ۚ](النساء:۱۹)(۴)[وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۝۰ۭ ](النساء:۲۲)(۵) [وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ](المائدۃ:۳)(۶)[وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّشَاءَ رَبِّيْ شَـيْــــًٔـا](الانعام:۸۰)(۷)[وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْہِ](الانعام:۱۱۹)(۸،۹)[مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ۝۰ۭ] (ھود:۱۰۸) اس قسم کا جملہ دو مرتبہ آرہا ہے۔(۱۰)[فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِيْ سُنْۢبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ۝۴۷ ](یوسف:۴۷)(۱۱) [يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ۝۴۸] (یوسف:۴۸)(۱۲)[وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ] (الکھف:۱۶)(۱۳)[مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ ](الاحقاف:۳)

ماذا:چھ طرح سے استعمال ہوتا ہے:(۱)مااستفہامیہ اور ذا موصولہ اسی کو راجح تسلیم کیاگیا ہے کہ [ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ](البقرۃ:۲۱۹) اس قرأت کے مطابق کہ عفو کو مرفوع پڑھاجائے کیونکہ دراصل جملہ اسمیہ کا جواب جملہ اسمیہ سے اور فعلیہ کا جواب فعلیہ سے ہوتا ہے۔(۲)ماذا یہ پورا کلمہ مرکب ہے اور استفہام کے معنی میں ہے، جیسے مذکورہ آیت میں عفو کومنصوب پڑھنے کی صورت میں۔(۳)مااستفہامیہ اورذا اسم اشارہ ہے ۔(۴) ماذا پورا کلمہ اسم جنس بمعنی شیٔ کےموصول بمعنی الذی ہے۔(۵) مازائدہ اور ذا اسم اشارہ ہے۔ (۶)مااستفہام کےلئے اور ذا زائدہ ہے۔

متی:ظرف زمان بمعنی استفہام ہوتا ہے، جیسے:[ مَتٰى نَصْرُ اللہِ](البقرۃ:۲۱۴) یا شرط کےمعنی میں بھی آتا ہے،جیسے:متی تقم اقم۔

مع:یہ اسم ہے اس (کےاسم ہونے )کی دلیل یہ ہے کہ یہ صرف من سے مجرور ہوتا ہے، جیسے:[ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ ](الانبیاء:۲۴) بعض قرأت کے مطابق من جارہ ہے اس لئے مع بمعنی عند ہے اصل میں مع کا معنی وقت خواہ مکان میں اجتماع کا ہے،جیسے:[ وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ](یوسف:۳۶) [اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ](یوسف:۱۲) کبھی صرف شرکت کے معنی کیلئے آتا ہے

اس وقت کسی زمان یامکان کا لحاظ نہیں ہوتا جیسے:[وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۱۹](التوبہ:۱۱۹) یا [وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۝۴۳] (البقرۃ:۴۳) باقی جہاں اللہ تعالیٰ کے بارے میں (مع کے ساتھ) ذکر ہے مثلا:[اِنِّىْ مَعَكُمْ لَىِٕنْ](المائدۃ:۱۲) [اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا](النحل:۱۲۸) [وَہُوَمَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ] (الحدید:۴) [ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۝۶۲](الشعراء:۶۲) وغیرھا من الآیات ان تمام آیات سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم اس کی طرف سے عطا کردہ حظ(حصہ) اور مدد وغیرہ مراد ہے، امام راغب کے بقول ان آیات میں لفظ مع کا مضاف الیہ خود منصور ہےیعنی اس کی مدد کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے