Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2020 » شمارہ جنوری » جماعت حقہ اور اس کا منہج

جماعت حقہ اور اس کا منہج

کاوش : ابوعمران عبدالمالک ساہڑ

خطبہ مسنونہ کے بعد:

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جو اس نے بہت سی مخلوقات پیدا کی ہیں توہمیں انسان بنادیا،اور انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف عطا کیا:[لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ ] (التین:۴) پھر انسانوں میں بہت سے گروہ ہیں، بہت سی ملتیں ہیں اور بہت سے مذاہب ہیں یابہت سےا دیان ہیں،اللہ تعالیٰ کا دوسرا فضل یہ ہےکہ ہمیں اپناپسندیدہ دین، دین اسلام عطافرمادیا:[وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ](المائدہ:۳) کہ میں نے بطور دین تمہارے لئے اسلام کاانتخاب کرلیا ہے۔

تو اس نے ہمیں انسان بنایا،اور اس کے بعد ہمیں مسلمان بنایا پھر مسلمانوں میں بہت سے گروہ ہیں ،بہت سے مسالک ہیں اور بہت سے فرقے ہیں، اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا ہی فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں ان تمام گروہوں میں اہل حدیث ہونے کا شرف عطا فرمادیا، یہ اس کی بہت بڑی نعمت اورفضل واحسان ہے۔

یہ نسبت اتنی عمدہ اور مقدس ہے کہ براہِ راست قرآن وحدیث کی بنیاد ہے۔

قرآن کو بھی حدیث کہاگیاہے:

[اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِيَ۝۰ۤۖ](الزمر:۲۳)

اور حدیث کو بھی حدیث کہاگیاہے:

ان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر ھدی ھدی محمد ﷺ.

تواہل حدیث کا معنی وہ لوگ جو قرآن وحدیث والے ہیں، جن کے ایک ہاتھ میں کتاب اللہ اور دوسرے ہاتھ میں سنت رسول اللہ ﷺ، یہ وہی دوماخذ ہیںجونبی ﷺ جاتے ہوئے امت کو دے کر گئے:

ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ.

کہ تمہارے بیچ دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جب تک ان دوچیزوںکوتھامے رکھوگے پوری مضبوطی اور پختگی کےساتھ، اس وقت تک گمراہ نہیں ہوسکتے،حق پر قائم رہو گے۔ یعنی یہ دوچیزیں ان کے ساتھ تمسک اور ان کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، یہ ہدایت کی ضمانت ہے، کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔

جبکہ نبیﷺ کی حدیث کے مطابق تمام بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں، اللہ ان دلوں کو جس طرف چاہے پھیر دے،یہ ہدایت کی ضمانت نہیں ہے۔

ان القلوب بین إصبعین من أصابع الرحمٰن عزوجل یقلبھا(ابن ماجہ:3834)

تمام لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے بیچ میںہیں اللہ تعالیٰ ان کو پھیر دے جس طرف چاہے ۔

لیکن یہاں ایک ضمانت موجود ہے:

لن تضلوا ماتمسکتم بھما

جب تک ان چیزوں کو تھامے رکھو گےگمراہ نہیں ہوں گےاور وہ دوچیزیں کیا ہیں:کتاب اللہ وسنۃ رسولہ.

اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور میری سنت یعنی حدیث۔

تو یہ وہ دوانمول خزانے ہیں ،وہ مصدر ہیں جو نبی ﷺ اپنی امت کو دیکر گئے ہیں تمہیں خالی ہاتھ چھوڑ کے نہیں جارہاہوں،یہ دوخزانے تمہیں دیکر جارہاہوں اور ان دوخزانوں کی حقیقت بھی سن لو:

ترکتکم علی البیضاء لیلھا کنھارھا.

(سنن ابن ماجہ:4443)

کہ یہ ایک انتہائی روشن اور چمکدار راستہ جس کی رات اور دن برابر ہیں، ا س دین میں ا ندھیرا نہیں ہے، تاریکی نہیں ہے، ابہام نہیں ہے، نصف النھار کے سورج سے زیادہ روشن ہے،زیادہ روشن اس لئے رات کے وقت سورج غائب ہوجاتا ہے، لیکن جو دین محمدیﷺ کا سورج ہے وہ کبھی غائب نہیں ہوگا، رات کی تاریکی ہو، دن کا اجالہ ہو ،یہ سورج چمک رہا ہے، اس پر رات نامی شیٔ کا تصور ہی نہیںہے، کسی اندھیرے غالب آنے کا تصور ہی نہیں ہے۔

لیلھا کنھارھا سواء.

اس کی رات اور دن برابر ہیں۔

کتنی ضمانتیںہیںکہ یہ بیضاء ہے، روشن راستہ ،ا س قدر روشن ہے  کہ اس کی رات اور دن برابر ہیں، اتنی ضمانتوں کے بعد اگر کوئی شخص کتاب وسنت کو چھوڑ کر کسی اور راستے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا انجام کیا ہوناچاہئے ؟ آگے آگیا ہے:

لایزیغ عنھا بعدی الاھالک.

اس دین سے منہ موڑنے والااور اس کوچھوڑ کر کسی اور راستے کاانتخاب کرنے والاشخص وہ ہوسکتاہے جس کے مقدر میں بربادی ہو، تباہی ہو ،ہلاکت ہو۔

اتنا روشن دین ،اتنی گارنٹیاں اللہ کے نبی ﷺ دے رہے ہیں،قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے حق ہونے اور اس کی صداقت ہونے پر قسم کھائی ہے۔

امام اصمعی رحمہ اللہ کا واقعہ

اکثر یہ چلتے پھرتے رہتے تھےاور اس چلنے پھرنے میں بڑا ان کو علم حاصل ہوتا تھا،کیونکہ لغت کی معرفت ان کاذاتی شوق تھا اور دیہاتیوں کی لغت خالص ہوتی ہے تواکثردیہاتوں میں گھومتے پھرتے تھے تاکہ عربی لغت اور اس کی گہرائیاں حاصل ہوتی رہیں،جیسے ایک دفعہ قرآن کی آیت پڑھی:

[وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۱۸۵ ]

(آل عمران:۱۸۵)

دنیا کی زندگی متاع ہے۔

متاع کا معنی عام طور پر ساما ن کرتے ہیں یا دھوکے کا سامان۔

ان کا اس معنی پر دل نہ بھرا، اللہ تعالیٰ دنیا کو متاع کہہ رہا ہے ،اتنا کافی نہیںلگتا، کہ یہ ایک دھوکہ کا سامان ہے، اس متاع کی حقیقت کیا ہے؟ تو اسی طرح دیہاتوں میں گھوم پھر رہے تھے تو ایک عورت نے اپنی بچی کو آواز دیـ:

یا بنیتی اعطی المتاع.

مجھے متاع دو۔

امام صاحب نے دیکھا کہ بچی کیا لاتی ہے؟ دیہاتی زبان میں متاع سے کیا مراد ہے؟متاع کا اصل معنی کیا ہے؟بیٹی کیالاتی ہے ا پنی ماں کے پاس؟وہ کپڑا جو عورت اپنے مخصوص ایام میں استعمال کرتی ہے ،حیض کے لئے ،وہ کپڑا ۔دنیا کی زندگی کو متاع کہا گیا ہے، دنیا کی زندگی اتنی گندی ہے جیسے وہ کپڑا گنداہوتا ہے۔

تو اس طرح ان کےلغت کے بڑے بڑے مسائل حل ہوتے اور ملتے،ایک دن اسی طرح ایک مقام پر موجود تھے ایک اعرابی اونٹ پر سوار ہوکرآیا،انہیں دیکھ کر رُک گیا۔تعارف ہوا کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟اصمعی نے فرمایا: میں قرآن پڑھتا ہوں اور پڑھاتا ہوں۔ اچھا مجھے قرآن سناؤ!قرآن سنایا جب یہاں پہنچے:

[وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ۝۲۲ ]

(الذاریات:۲۲)

تم سب کی روزی آسمانوں میں ہے۔(یعنی اللہ کے پاس)

اللہ ہی دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا، اور سب کی روزی اوپر موجود ہے،اور اللہ ضرور عطاکریگا۔

اس اعرابی نے کہا ٹھہرجاؤ! یہ اللہ کا فرمان ہے؟کہا:ہاں اللہ کا فرمان ہے۔معنی ہماری روزی موجود ہے ؟ہاں موجود ہے،اللہ دے گا، ضرور دے گا،توپھر ہم یوں وقت کیوں ضائع کررہے ہیں ،اونٹ کوذبح کیا ،اس کا گوشت تقسیم کردیا ،جنگل کی طرف نکل گیا۔کیا سوچا اس نے خلوت کاتنہائی کا،چلا گیا….وہاں سے کچھ عرصے کے بعد امام اصمعی فرماتےہیں…حج کے لئےآیامیں نے اس اعرابی کو دیکھا کہ وہ طواف کرہا ہے اس نے بھی مجھےدیکھ لیا،ملاقات ہوگئی ،پھر بیٹھ گئے اس نے کہا کچھ اور قرآن سناؤ،یہی سے آگے امام اصمعی نےسنانا شروع کردیا:[فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۝۲۳ۧ ](الذاریات:۲۳)

کیا معنی ہے قسم ہے آسمانوں اور زمینوں کے رب کی کہ یہ حق ہے، اس طرح یہ حق ہے کہ جس طرح تم آپس میں باتیں کرتے ہو، تمہیں یقین ہے کہ ہمارا باتیں کرنا حق ہے، اپنی گفتگوکایقین ہے اسی طرح یہ وحی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے،صدق ہے،اور یقین ہے۔میں آسمانوں اور زمینوں کی قسم کھاکر کہہ رہاہوں۔

اس اعرابی نےکہا:یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؟ کہا:ہاں ،اللہ کا فرمان ہے۔ بڑا پریشان ہوا،اتنے ہم نالائق ہیں ،اتنے ہم نکمے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی صداقت کو اورحقانیت کو ثابت کرنے کےلئے قسمیں کھانی پڑ رہی ہیں،اللہ قسمیں کھارہاہےکہ یہ حق ہے، اس قدر ہم نکمے ہیں بس یہ بات دہراتارہا حتی کہ اس کی روح پرواز کرگئی۔ یہ صدق وحق کتاب وسنت پیارے پیغمبر ﷺ نے کس طرح بیان کیا:

لیلھا کنھارھا سواء.

اس کی رات اور دن برابر ہیں۔

کوئی اس میں تاریکی نہیں ،کوئی اندھیرا نہیں ہے،کوئی ابہام نہیں ہے بلکل واضح ہے:

[قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۙ ]

(المائدہ:۱۵)

یہ اللہ کی طرف سے منارۂ نور ہے۔

یہ قرآن وحدیث ۔تواہل حدیث کا معنی کیا ہے، قرآن وحدیث والے، اس منہج کے حاملین کے پاس جو منہج صدق اور منہج حق ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے،جو نصف النھار کےسورج سے بھی زیادہ روشن ہے۔

اہل الحدیث :ان کا ایک نام اور ہے سلفی۔

سلفی کا معنی کیا ہے؟ سلفی کا معنی بھی قرآن وحدیث کے پیروکار۔

یہ لفظ آج کل یہاں استعمال ہوتاہے،بلادِ عرب میں خاص طور پر استعمال ہوتا ہے،جیسےسعودی عرب،سوڈان ،مصر اور دیگر عرب علاقوں میں سلفی ۔

سلفی کا معنی کیا ہے؟ مشہور ڈاکٹر ذاکرنائیک بڑا عمدہ کام کررہے ہیں ،لیکن سلفی کے معنی میں ان کو غلطی لگ گئی،کیونکہ ان کامجال نہیں ہے، ان کا میدان کچھ اور تھاوہ اس میدان میں آگئے وہ بڑی مخلصانہ کوشش کررہے ہیں ،اللہ ان کو برکت دے ۔ ان سے ایک سوال ہوا میں نے خود سنا:

کہ آپ سلفی ہیں؟ اب وہ اپنا سلفی ہونا شاید چھپانا چاہتے تھے اہل حدیث ہونا چھپانا چاہتے تھے کہ مجھ پر ایک خاص دھبہ نہ لگ جائے تو کہامیں سلفی نہیں ہوں،میں محمدی ہوںاور مزید کہامیرا محمدی ہونا سلفی ہونے سے بہتر ہے،محمدی کا معنی محمد ﷺ کے پیروکار اور سلفی کا معنی سلف الصالحین کے پیروکار۔کون افضل ہیں؟ جو محمد ﷺ کے پیروکار ہیںیاجوسلف کے پیروکار ہیں،اس پر تمام لوگوں نے تالیاں بجائیں۔

مگریہ تعبیر صحیح نہیں ہے،یہ علمی بات نہیں کی، اس کا معنی یہ ہے کہ انہیں سلفی کی تعریف معلوم نہیں، سلفی کا معنی یہ نہیں ہیں، سلف کے پیروکار۔بلکہ سلفی کا معنی کتاب وسنت کے پیروکار سلف کے فہم کے مطابق، سلف الصالحین کی روشنی میں ،اصل قرآن وحدیث ہے،اصل کتاب وسنت ہے علی فہم سلف۔

سلف صالحین کے فہم کے مطابق یہ معنی ہے اس کا۔

تواصل یہ چیز کتاب وسنت کی اتباع ہے، وہ اس کی تعبیر میں غلطی کر گئے،اصل تعبیر یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے پیروکار سلف الصالحین کے فہم پر ،اب سلف الصالحین سے کیا مراد ہے؟

سلف کی تعریف میں تین قول ہیں:

پہلا قول سلف الصالحین سے مراد ،صحابہ کرام کی جماعت ہے۔

دوسرا قول کہ سلف سےمراد صحابہ اور تابعین کی جماعت ہے۔

تیسر ا قول یہ ہے کہ سلف سے مراد وہ تین ادوار ہیں جن کا ذکر نبی ﷺکی حدیث میں ہے:

خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم.

سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اس کے بعد صحابہ کا پھر تابعین کا اور پھر تبع تابعین کا،یہ تین دور ہیں۔

یہ قول علماء میں زیادہ معروف ہے کہ سلف سے مراد تین ادوار کے اہل الحق ہیں، اہل العلم ہیں ،محدثین ہیں، فقہاء ہیں جن کا تعلق ان تین ادوار سے ہے، سلفی کا معنی کتاب وسنت کے حاملین ہیں،کتاب وسنت کے اتباع کرنے والے ،سلف صالحین کے فہم کے مطابق۔

یہ ایک ہلکا سا تعارف ہمارے نام کا،ہماری نسبت کا، آپ اور علاقوں میں جائیں گے تو یہی جماعت حقہ کہیں آ پ کو انصار السنۃ کے نام سے ملےگی، جیسے مصر ،سوڈان وغیرہ میں اور یہی جماعت حقہ کہیں آپ کو محمدی کے نام سے ملی گی جیسے ملائیشیااور ا س کے ملحق علاقوں میںجیسے:الجماعۃ المحمدیہ وغیرہ۔ جماعۃ المحمدیہ ہو ۔اہل حدیث ہو، سلفی ہو، انصار السنۃ ہو، یہ ایک ہی جماعت کےمختلف نام ہیں، مختلف علاقوں میں تو ہر علاقے میں جماعتِ حقہ کی پہچان ،جس طرح سوڈان میں جماعت حق کی پہچان انصار السنۃ، سعودیہ اور اس کے ملحق علاقوںوغیرہ میں جماعت حقہ کی پہچان سلفی ہے،ملائیشیاوغیرہ میں جماعت حقہ کی پہچان جماعۃ المحمدیہ اور پاکستان ،ہندوستان ،بنگلہ دیش،نیپال اور افغانستان وغیرہ میں جماعت حقہ کی پہچان اہل حدیث ہے، یہ کہلانا ضروری ہے، اسی ایک لفظ میںآپ کا پوراعقیدہ ،پورامنہج ،پوراعمل آجائے گا، اور میرے لئے ضروری ہے کہ میں داعی کو پہچانوں کہ داعی کون ہے؟ اس کا منہج کیا ہے، اس کےعمل کے مصدر کیاہیں،اس کے عقیدہ کا ماخذ کیا ہے،مجھے یہ معلوم ہوناچاہئے تبہی میں سنوں،وقت بہت قیمتی ہے، ہم وقت کو ضایع کرنے کےمتحمل نہیں ہوسکتے، تومیرے لئےضروری ہےکہ میں یہ جانوں کہ یہ داعی کون ہے؟ کیا اس کامخرج ہے، اس نے کن علماءسے علم لیا ہے ،اس کے عقیدے کا مخرج ومصدر کیا ہے، اس کے عمل کی اساس کیا ہے ،اس کے عقیدہ کی اساس کیا ہے، اور ان تمام چیزوں کا ترجمان پاکستان میں لفظ اہل حدیث ہے، اگر میں کھڑا ہوں کہ میں اہل حدیث ہوں،اس کا معنی میرا عقیدہ،میرا منہج، میری سیاست، میرے علم کے مصادر اور میرے اساتذہ کرام ،میرے مدارس ،سب کے سب معروف اور مشہور ہیں ،کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے،کوئی چیز پردہ میں نہیں ہے۔جیسے ایک داعی کھڑا ہو،اپنے آپ کو شافعی کہے تو ہر چیز واضح ہے ،اس کا عقیدہ ،اس کا منہج ،اس کا عمل ۔ایک اور داعی کھڑا ہو اپنے آپ کو حنفی کہے ،ہر چیز واضح ہے۔ مگر آپ کی شخصیت گول مول ہے، کہ اہل حدیث کہلاناضروری نہیں ہے۔بھائی پھر کیاچیز ہو، اب میں کیسے پہچانوں آپ کیاہیں،آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ کیاکھڑے ہوکر پہلے دوگھنٹے اپناعقیدہ بتاؤگے، اپنے منہج کی وضاحت کروگے، اپنے مصادر کی تعریف کروگے، اپنے مشائخ کاتعارف کراؤگے، اپنے دینی مدارس کا تعارف کراؤگے، پھر آگے بات کروگے،توان تمام چیزوں کی ترجمانی لفظ اہل حدیث میں ہورہی ہے، اس ایک لفظ سے آپ بھی جان جائیں گے میںبھی جان جاؤنگاکہ کھڑے ہونے والاکاعقیدہ اس کامنہج، اس کے علم کے مصادریہ سب چیزیں کیاہیں، ایک ہی لفظ سے واضح ہوجائیں گی، اس لئے کہ ہمارے اس خطے میں حقانیت کی تعبیر جو ہے وہ اہل حدیث کےساتھ ہے۔

یہ فرقہ بندی نہیں ہے، اصل میں ہم فرقے کے معنی ہی نہیں جانتے، فرقے کی تعریف میں ہی دھوکہ کھاجاتے ہیںاور جہالت میں اہل حدیث کو بھی فرقہ قرار دیتے ہیں، اس میں فرقہ بندی ہے، تفرق کی بواس میں بھی آتی ہے، ا س کا معنی یہ کہ آپ فرقے کی معنی نہیں سمجھتے، اہل حدیث کا معنی کیا ہے، کتاب وسنت کے حاملین، ایک ہاتھ میں  کتاب اللہ ،دوسرے ہاتھ میں سنت رسول اللہ۔ جس بندے کا یہ منہج ہو،کتاب وسنت کا،جس کے عمل کی،عقیدہ کی اور ہر چیز کی بنیاد کتاب وسنت ہو وہ فرقہ ہوسکتا ہے؟ کون اس کو فرقہ کہتاہے ،فرقے کی تعریف، فرقہ، تفرق سے ہے،تفرق کا معنی جدا ہونا، جدا کس چیز سےہونا، جو اللہ کےنبی ﷺ کی جماعت تھی اس سے لوگ جداہوگئے، نبی ﷺ کی جماعت ،صحابہ کی جماعت تھی، اور ان کے سامنے کیا تھاقرآن وحدیث ،نہ کوئی تیسری کتاب تھی، نہ کوئی شخصیت تھی رسول اللہ ﷺ کے علاوہ جس کے سرپر انہوں نے پورے دین کی عمارت قائم کی ہو۔

ایسا کچھ نہیں تھا صرف قرآن اور سنت ﷺ تھے۔عبادت اللہ کی ،اطاعت رسول اللہ ﷺ کی،یہ فرقے نہیں ہے،یہ جماعت نبی ﷺکی تھی فرقے کب بنے آہستہ آہستہ فرقوں کا دور آیا،خارجی، معتزلہ پھر روافض ،جہمیہ،کرامیہ اور پھر مشبہ ،ماتریدیہ،اشاعرہ یہ فرقے،ہر فرقے کی انتہاء ہے وہاں ایک شخصیت بیٹھی ہوئی ہے، جس کے وہ پیروکارہیں،آگے چل کر پھر شافعی، حنفی،مالکی اور حنبلی۔

تو ہر فرقے کی اساس ایک شخصیت ہے، حنفی ہےاس کی اساس امام ابوحنیفہ پر ہے،شافعی ہے اس کی بنیادامام شافعی پر ہے، مالکی ہے کہ انہوں نے پورےدین کی عمارت امام مالک رحمہ اللہ پر کھڑی کردی، حنبلی ہےتو اس نے پورے دین کی عمارت امام احمد بن حنبل پر کھڑی کردی ہے، ان شخصیتوں کےنام سے فرقے بنے، صحابہ کرام میں نہ کوئی ماتریدی تھا، نہ کوئی اشعری تھا، نہ کوئی حنبلی تھا نہ کوئی مالکی تھا، یہ ائمہ بعد میں آئے، اللہ کے نبی کے دور میں سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ تھے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  تھے، نہ کوئی صدیقی تھا نہ کوئی عمری تھا، نہ کوئی فاروقی تھا نہ کوئی علوی تھا، نہ کوئی عثمانی تھا، سب کسے سب محمدی تھے۔

محمدی ہونا فرقہ نہیں ہے، مالکی شافعی ہونا فرقے ہیں، ہمیشہ فرق تفرق سے ہے جو اصل لائن چلی آرہی ہے، پیارے پیغمبر ﷺ کے دور سے صحابہ کرام کی جماعت چلی آرہی ہے،ایک آدمی آیا اور کہاکہ میرا امام فلاں ہے، کٹ گیا، میر ا امام دائیں طرف کھڑا ہے ،مثلا امام مالک ہے، ابوالحسن اشعری ،تو وہ ناموں سےالگ ہوگیا، جو ںالگ ہوا تو یہ(صار فرقۃ) یہ فرقہ بن گیا۔

جناب مسعود رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہےمسند احمد(4142) وغیرہ میںکہ رسول اللہ ﷺ نےایک خط کھینچا پھردائیں بائیں بہت سی خطوط کھینچی،صحابہ دیکھ رہےہیں ،صحابہ منتظر تھے کہ یہ نبی ﷺ کا کام عبث نہیں ہے، ہمیں علم ملنےوالاہے، سیدھے خط پر اپنی انگلی رکھی(ہذا الصراط المستقیم) أو (ہذا سبیل اللہ) فرمایا ہر خط پر ایک شیطان کھڑا ہے، اپنے راستہ کی دعوت دےرہا ہے،جب تک سیدھے راستے پر چلتے رہوگے، وہ خط مستقیم ہے، صراط مستقیم ہے، وہ ایک راستہ ہے،خط مستقیم ایک ہی راستہ ہے، (مثلادونقطے ہوں ان دونقطوں کو ایک خط مستقیم ملاتا ہے، وہ خط کھینچ لیا اب اس کے بعد دوبارہ آپ خط کھینچیں تو وہ سیدھا نہیں ہوگا،دائیں طرف سے گھوم کر آئے گا بائیں طرف سے گھوم کر آئے گا ،ٹیٹرھا ہوکرجائے گاوہ سیدھا نہیں ہوسکتا کیونکہ سیدھا خط کھینچا جاچکا ہے وہ خط آچکا ہے، اور خط مستقیم ایک ہی ہوتا ہے ،یہاں بھی دونقطے ہیںایک دنیا کے اندر دینداری کا دوسرا آخرت میںجنت کا، ان دونقطوں کا جو خط مستقیم ہے وہ سیدھا راستہ :

ہذا سبیل اللہ .اللہ کا راستہ،رسول اللہ ﷺ کا راستہ،

ان ربی علی صراط مستقیم.اس صرا ط مستقیم پر میرا رب ہے ،اللہ کا راستہ ہے:

[يٰسۗ۝۱ۚ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۳ۙ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴ۭ ](یس:۱تا۳)

کہ صراط مستقیم پر آپ ہیں، رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہے، یہ فرقہ کیسےہوسکتا ہے؟ یہ تو جماعت ہے،کتاب وسنت کے حاملین کی وہ جماعت ہے،وہ فرقہ نہیں ہے ،فرقہ کب بنتا ہے، دائیں بائیں آپ مڑ جائیں ،گھوم جائیں، کسی شخصیت کے نام پر تو ’’تفرق ‘‘یہ بندہ فرقہ بن گیا، جو’’حدیث فرقہ‘‘ہے،اس میں نبی ﷺ نے اسی تشخص کو واضح کیا ہے، ایک طرف ایک جماعت ہے ،جو جماعت حقہ ہے، دوسری طرف بہت سے فرقے ہیں بہت سے خط ہیں فرمایا:

افترقت الیھود علی احدی وسبعین فرقۃ .

یہودیوں کے 71فرقے بنے اور میری امت کے 73فرقے بنیں گے،

وان امتی لتفترقن علی ثلاث وسبعین فرقۃ.

یہ آپ نے پیش گوئی فرمائی وہ 73فرقے بن کر رہیں گے، بن چکے ہیں ،اگلی بات بڑی خطرناک ہے:کلھم فی النار.

سب جہنم میں جائیں گے، 72فرقے جہنم میں جائیں گے ،وہ الگ بات ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے جائیں گے یا عارضی طور پر جائیں گے وہ اللہ کے علم میں ہے، الاواحدۃ

سوائے ایک کے وہ جنتی ہے،ایک کے علاوہ سب جہنمی ہیں اب صحابہ نے پوچھا وہ ایک کون ہے؟ توآپ نےان کا نام نہیں لیا، بلکہ ایسا ایک جملہ فرمایا ،اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوامع الکلم عطافرمائے ہیں،آپ ایک چھوٹی سی بات کرکے پورا جنت کا راستہ واضح کرسکتے ہیں:

أوتیت بجوامع الکلم

ایک جملہ سے پورا دین سمجھا سکتے تھے، پورا منہج واضح کرسکتے ، یہ اس کی مثال ہے،یا رسول اللہ وہ جنتی گروہ کونسا ہے ؟فرمایا:

ہم ماأنا علیہ الیوم وأصحابی.

وہ لوگ ہیں جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں، یہ جماعت ہے ۔

ایک حدیث میں :ہم الجماعۃ.

کہ وہ جماعت ہے۔

ایک دوسری حدیث میں :یہ وہ ہیں جس پرمیں ہوں اور میرے صحابہ ہیں، معنی جس چیز پر اللہ کے پیغمبر تھے اور صحابہ کرام تھے جو بندہ اس چیز پر قائم ہوگا،وہ فرقہ نہیں بلکہ جماعت ہے،73فرقے ہونگے ایک جنتی 72جہنمی وہ ایک الجماعۃ ہے ،بہت سے محدثین نے ان دواحادیث کو جمع کیا ہے ایک یہ حدیث ایک اور حدیث صحیح بخاری (3641)کی جس میں ایک آپﷺ نے فرمایا:

لاتزال طائفۃ من امتی قائمۃ بأمراللہ لایضرھم من خذلھم.

اس حدیث کی ایک تشریح ہے میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے امر پر قائم رہےگا ، ان کی دونشانیاں ہیں:

لایضرھم من خذلھم

جو ان کی مخالفت کرے گا، یا جو ان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاپائے گا،

اور دوسرا: ظاہرین

وہ ہمیشہ ظاہر ہونگے، کھلم کھلا، چھپے ہوئے نہیں ہونگے، اپنا عقیدہ، منہج اپنے علماء سب کے ساتھ ظاہر ہونگے،آج جتنی جماعتیں موجود ہیں اکثر جماعتوں کو ہم نےدیکھا اپنے عقائد چھپاتی ہیں، ان کے بعض عقائد ایسے ہیں جن کو نہیں چاہتے کہ وہ منظر عام پر آئیں، چھپاتےہیں،دونوں حدیثوں کا مصداق ایک جماعت ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ،وہ کیا ہے؟ ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، بہت سے محدثین:عبداللہ بن مبارک، یزید بن ہارون،امام بخاری اور امام احمد بن حنبل وغیرہم فرماتے ہیں کہ ان دنوں حدیثوں کے مصداق  اہل حدیث ہیں، اس سے مراد جماعت اہل حدیث ہے یہ بات انہوں نے کس بنیاد پر کی ہے؟؟

اس پر غور کریں کیافرمارہے ہیں:کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔

دوباتیں سمجھ آرہی ہیں:

1کہ پوری امت حق پر قائم نہیں ہوگی۔ امت کا ایک گروہ (پوری امت نہیں) ہمیشہ حق پر رہے گا۔

2دوسری بات:ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔

معنی کوئی دور اس گروہ کے وجود سے خالی نہیںہوگا، اور وہ ہر مقام پر ہوںگے ،تھوڑے ہوں یازیادہ یہ الگ بات ہے،لیکن کوئی بھی دور ان سے خالی نہیں ہوگا،ہمیشہ موجودہونگے۔

یہ دوباتیں بلکل واضح نتیجہ کے طور پر سامنے آرہی ہیں،پوری امت حق پر نہیں ہے،ایک گروہ ہے،اس گروہ کو تسلسل ودوام حاصل ہے،کوئی خطہ ،کوئی جگہ ،اس جماعت سے خالی نہیں ہونگی، ہر جگہ موجود ہونگے ،مجھے شیخ کی بات یاد آرہی ہے،شیخ بدیع الدین شاہ راشدی، محدث دیار سندھ رحمہ اللہ ،انہوںنے چار ماہ کا یورپ کا دورکیا ،واپسی ہوئی تو ہم نے کراچی ائیر پورٹ پر استقبال کیا، جماعت کے کافی لوگ جمع ہوگئے، ایئر پورٹ پر ہی ایک جگہ لے گئے اور کہا کہ نصیحت کیجئے ! سائیں نے نصیحت کی!

میں نے سوال کیا:اپنے دورے کی کوئی خاص بات بتادیں؟

شاہ صاحب نے کہا کہ خاص بات یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں یورپ کے ہر علاقے میں گیا، ہر ملک میں گیاہوں،اور بڑے بڑے مرکزی شہروں میں گیاہوں، اور میں نے دیکھا ہر جگہ ہر علاقے میں جو چار فرقے ہیں:حنفی،شافعی، مالکی اور حنبلی، ان میں سے ایک ہے باقی تین نہیں ہیں، اگر کہیں حنفی ہیں تو وہاں شافعی ،مالکی اور حنبلی نہیں ہیں، اگر کہیں پر حنبلی ہیں تو وہاں حنفی اورمالکی نہیں ہیں۔کہیں پر مالکی ہیں تو وہاں دوسرے تین فرقے والےنہیںہیں، یعنی چاروں فرقے ایک جگہ پر موجود نہیں ہیں، لیکن اہل حدیث ہر مقام پر موجود تھے ، ہر شہر میں موجود تھے، تھوڑے ہوں ،زیادہ ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے ،اللہ اپنی نشانی دکھاتا ہے۔

نبیﷺ کی حدیث ہے:

لایبقی علی ظہر الارض بیت مدر ولاوبر الاأدخلہ اللہ کلمۃ الاسلام(رواہ احمد:16957)

زمین کی پشت پر کوئی کچا یاپکا گھر نہیں بچے گا اللہ ہر گھر میں اسلام کی دعوت اور اسلام کا کلمہ پہنچائے گا۔کس کے ذریعے ظاہر ہے جو حق اور صداقت کا علمبردار ہوگا، اسی کے ذریعے دعوت پہنچے گی ،توہرمقام پراہل حدیث موجودہیں۔

توحدیث یہ اور سمجھ میں آرہی ہےکہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا ،ہمیشہ کا معنی ہے لگاتارکوئی دور،کوئی خطہ اس جماعت سے خالی نہیں ہوگا، اور کوئی زمانہ اس جماعت سےخالی نہیں ہوگا، اب یہ بات اللہ کے نبی ﷺ نے فرمادی ۔ کیوں فرمائی؟ کیا اس کامقصد ہے؟

اس حدیث کو بیان کرنے کا کیا مقصد ہے؟ ایک ہی مقصد ہے، جب کسی کو حق کی تلاش ہو ،کوئی شخص حق کی تلاش میں ہوتوکتاب وسنت کے دلائل کافی ہیں۔

لیکن اگر کتاب وسنت کے دلائل اس کو کافی نہیں ہوتے تو اس جماعت کی تلاش کرو،جس کی پیش گوئی اللہ کے نبی ﷺ نے کی ہے، کہ ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اس کو ڈھونڈووہ کون ہوسکتی ہے؟ اس جماعت کا وجودآپ کو ملے گا کیونکہ تسلسل حدیث سے ثابت ہے کوئی دور اس جماعت سے خالی نہیں ہوگا،حق کی تلاش کرو، اس کی ضرورت ہے اس کو تلاش کرو، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں وہ علامتیں دیکھو، کس جماعت پر فٹ آرہی ہیں۔

(۱) قائمۃ بامراللہ

وہ جماعت ہوگی اللہ کے امر پر، اللہ کے امر کے ساتھ۔امر سے مراد قرآن وحدیث ہے۔

تلاش کرو ،پاکستان میں وہ کون سی جماعت ہے جو صراحۃً قرآن وسنت کا نام لیتی ہے، کسی شخصیت کا نہیں،کسی امام کا نہیں، کسی پیر یا مرشد کانہیں، کسی وڈیرے کا نہیں، قرآن وحدیث کا نام ، ایک ہاتھ میں قرآن دوسرے ہاتھ میںحدیث۔

کون جماعت ہے، دعویٰ تو بہت سے لوگ کریں گے،لیکن آپ ڈھونڈیں وہ جماعت کونسی ہوسکتی ہے، جو قائمۃ بامراللہ ہے، جو اللہ کے امر کےساتھ قائم ہے، کسی امام کےقول کے ساتھ نہیں،کسی فقیہ کی رائے کےساتھ نہیں ،کسی کےذاتی تفردات کے ساتھ نہیں،کتاب وسنت کےساتھ، حق کی تلاش سب کی ذمہ داری ہے تلاش کرو، جو قائمۃ بامراللہ ہے ،امراللہ سےمرادکیا ہے؟اللہ کی وحی ،اللہ کی وحی کیاہے؟ دوچیزیں :

[ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ ]

(النساء:ـ۱۱۳)

قرآن وحدیث اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔

تو اس وحی کے ساتھ کونسی جماعت قائم ہے۔

کتاب المھند علی المفند

تقریبا تین سو کےقریب علماء دیوبند کی اس کتاب پر دستخط ہیں ، ان کی مہر ہے اورتصدیق کی ہے،معنی یہ کتاب حق ہے، ان کا یہ دستور ہے ان کے منہج کااظہار ہے اس کاآغاز کہاں سے ہورہا ہےکہ الحمدللہ ہم فروع (یعنی فقہی امور)میںابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکارہیں ۔ اور اصول(یعنی عقیدہ) میںدواماموں کے پیروکار ہیں:ابوالحسن اشعری اور ابومنصور ماتریدی اور جو تہذیب الاخلاق ہے(تصوف ،تزکیہ ) اس میں ہماری چارشخصتیں ہیں ان میں سے کسی کے پیرکار ہیں یا ہم سھروردی ہیں،یانقشبندی ہیں یا چشتی ہیں یا قادری۔

انہوں نے دین کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:اصول ،فروع اور تزکیہ۔

اصول میں ماتریدی یا اشعری۔ فروع میں کیاہیں حنفی ،تربیہ میں ہیں نقشبندی ،چشتی ،سھروردی یاقادری۔

یہ پورے دین ومذہب کا نچوڑ ہے،کہیں آپ کو نظر آیا قائمۃ بامراللہ! ایک اہل حدیث کے بچے کو اٹھاؤاور پوچھو کہ بیٹا اصول میں تم کس کے پیروکار ہو؟فروع میں تم کس کے پیروکار ہو؟ تربیہ اور تزکیہ میں تم کس کےپیروکار ہو؟ بچے کا ایک ہی جواب ہوگا، ان سارے امور میں،میں محمد ﷺکاپیرکارہوں، کسی اور کا پیروکار نہیں ہوں کسی اور کی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھتا ۔

اللہ کے پیارے پیغمبر کا وظیفہ کیاتھا آپ کی بعثت کن اصولوں پر تھی :

[يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ](آل عمران:۱۶۴)

قرآن کی تعلیم، قرآن کی تلاوت، کتاب وحکمت کی تعلیم اور تزکیہ یہ سارے کام کس نے کرنے ہیں، اللہ کے نبی ﷺ نے کرنے ہیں، کتاب وسنت کی تعلیم کس نے دینی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے دینی ہے۔ کتاب وسنت کے یہ دونوں جزء ہیں ،اصول اور فروع یہ کس نے واضح کرنا ہے؟ رسول اللہﷺ نے کرنا ہے۔ یہ ہمارا مؤقف ہے، تو وہ جماعت جس نے قیامت تک قائم رہنا ہے حق کے ساتھ اس کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ قائمۃ بامراللہ ہوگی۔

اس حدیث میں جماعت حقہ کا تشخص کیا ہے؟وہ اللہ کے امر پر قائم ہوگی، تب بڑے بڑے جھابذہ محدثین یزید بن ہارون ،بڑے محدث عابد اور زاہد تھے، حافظ الذھبی رحمہ اللہ نےلکھا ہے کہ ان کی بڑی خوبصورت آنکھیں تھیں ،عمر کے آخری حصہ میں نابینا ہوگئے ایک شاگرد کی ملاقات ہوئی دیکھا کہ میرے شیخ نابینا ہوچکے ہیں توپوچھا:

یاشیخ مافعلت العینان الجمیلتان .

یہ دوخوبصورت آنکھیں کہاں گئیں ان کی بینائی کہاں گئی فرمایا:

ذھب بھما بکاء الاسحار.

سحری کے ٹائم جوروتاتھا ،رونے کی وجہ سے بینائی چلی گئی، یہ تھا انکا زہدوتقویٰ اوراللہ تعالیٰ کاخوف۔

امام بخاری کے مشائخ میں سے تھے پس کہتے ہیں کہ یہ جماعت اہل الحدیث ہے پھر یہ قول عبداللہ بن مبارک وغیرہ کا ہے، انہوں نے اس حدیث کاجماعت اہل حدیث کومصداق کیوں قرار دیا اسی علامت قائمۃ بامراللہ پر، باقی جو فرقےہیں قائم توہیں لیکن امر فلاں پر ہیں، امراللہ پر نہیں ہیں، ان کی زبانوں پر امراللہ کا نام نہیں ہے، قال اللہ یا قال رسول اللہ نہیں ہے بلکہ قال فلان قال فلان کا نام ہے۔

تو اس جماعت کو تلاش کروگے تو وہ جماعت آپ کو ملے گی وہ جماعت اہل حدیث ہے، الحمدللہ ۔

(۲) لایضرھم من خذلھم.

یہ اس جماعت کا دوسرا تشخص ہوگا۔

کہ ان کونقصان پہنچانے والااس کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔

ان کا اگر دشمن ہے تو اس جماعت کو یا اس جماعت کے فرد کونقصان نہیں پہنچائے گا آپ کے ذہن میں ہوگا کہ نقصان توہوتا ہے اب چند دن قبل ہماری ایک مسجد تھی اس کو جلادیاگیا،توڑدیاگیا، کراچی میں کئی واقعات ہوئے،مساجد کوجلانے کانقصان توہوتا ہے، کئی ساتھی ہمارےشہید کردیے گئے۔

نقصان توہورہا ہے تو اس جماعت کاتشخص کیسے واضح ہوگا،یہ نقصان ،نقصان نہیں ہے، گھر جلادیا جائے،زخمی کردیاجائے، یہ نقصان، نقصان نہیں ہے، یہ تو اوراجر کاباعث ہے، اللہ کی راہ میں کانٹا چبھ جائے، گناہ جھڑجائیں گے ،یہ توبڑے بڑے نقصان ہیں ،یہ نقصان نہیں ہے، یہ چیزیں اور اللہ کے قرب اوراس کی محبت کا ذریعہ ہیں، تو اس نقصان سےکیا مرادہے؟

یہ نقصان ہے حجت اور دلیل کا، ان کی حجت کبھی کمزور نہیں ہوگی، وقتی طورپر کوئی تیز زبان اپنی زبان کی سلاست سے دباجائے، وہ الگ بات ہے ،مگر ان کی حجت کیسے کمزور ہوسکتی ہے ان کے پاس قرآن وحدیث ہے،کیاقرآن وحدیث کمزور ہیں، میرا قصور ہے، میں کتاب وسنت کو صحیح پیش نہ کرسکا، خاموش ہوگیا، لیکن کتاب وسنت کو کوئی دبا سکتا ہے؟ کتاب وسنت کو کوئی کمزور کرسکتا ہے، تو یہ تشخص بڑا واضح ہے کہ سارے مل کر ان کو کمزور کریں؟نہیں کرسکتےکیونکہ ان کے ہاتھ میں قرآن وسنت ہے اور قرآن وسنت کوکوئی کمزورنہیں کرسکتا۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:

من طلب الحدیث فقد قویت حجتہ.

دنیا میں سب سے مضبوط دلیل اس طالب علم کی ہے جس کی سند میں نبیﷺ کی احادیث ہیں۔

حدیث کا جو طالب ہے اس کی حجت سب سے بڑی ہے، اور سب سے قوی ہے،جوکتاب وسنت کاحامل ہے، اس کی دلیل کوئی کمزور نہیں کرسکتا، امیرالمؤمنین عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے :

کہ اہل الرائے تمہارے پاس آئیں گے تم سے جھگڑے کریں گے، مناظرے کریں گے، بحثیں کریں گے، قرآن پڑھ پڑھ کے، مرضی کا معنی کرکے، اپنی مرضی کی تعبیر کریںگے، تمہیں کیاکرنا ہے؟

خذوہ بالسنۃ.

اس کوپکڑلواللہ کے پیغمبر ﷺ کی سنت کے ساتھ، مثلا: ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے بھائی نماز میں سورۂ فاتحہ کیوں پڑھتے ہو؟ قرآن کہتا ہے:

[وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۲۰۴ ](الاعراف:۲۰۴)

جب قرآن پڑھاجائے تو سناجائے۔

قرآن کہتا ہے کیوں پڑھتے ہو؟؟

اس نے قرآن کی مراد پیش ہی نہیں کی،اپنا فہم پیش کررہا ہے، اپنی رائے پیش کررہا ہے، یہ اس کی تفسیر نہ سلف سےمنقول ہے، اور نہ یہ اس کامحل ہے۔

ان کو پکڑو،سنت کے ساتھ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

لاصلوٰۃ لمن یقرأ بفاتحۃ الکتاب.

جوبندہ امام کے پیھچے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز ہوتی ہی نہیں ہے۔

اس حدیث سے پکڑ لو، ان کی تعبیر میں نہ الجھو، یہ تفسیر آپ کو مبارک ہوکیونکہ بات واضح ہےیہ مکی آیت ہے، مکہ کے ابتدائی دور کی، وحی نازل ہوتی رسول اللہ ﷺ صحابہ کو جمع کرتے ان کو وحی سناتے مشرکین مکہ شور مچاتے۔

ان سے کہاگیا جب قرآن پڑھاجائے سناکرو، شور نہ مچاؤ، وہ شور مچاتے،جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی اس وقت نماز فرض ہی نہیں تھی، ایسا ممکن ہے’’بچہ پہلے پیدا ہو اور دادابعد میں‘‘نماز اس وقت فرض ہی نہیں ہوئی نماز تو مکی دور کے آخر میں معراج کےموقعے پر فرض ہوئی۔

امیرعمر رضی اللہ عنہ  کاجوفرمان ہے بڑاہی مشعل راہ ہے، کہ اہل الرأی آئیںگے، قرآن پڑھ کر اپنی مرضی کی تفسیر کریں گے، تم سے مناظرہ کریں گے تم نے ان کو پکڑنا ہے،سنت کے ساتھ۔یہ دوسری علامت ہے اس جماعت کی۔

لایضرھم من خذلھم

اس نقصان سے مراد جسمانی اور دنیاوی نقصان نہیں ہے، اس نقصان سے مراد حجت اور دلیل ہے۔

(۳) تشخص (ظاہرین)

ظاہرہونگے ،معروف ہونگےاس جماعت کے علماء ،عقائد بلکل سرعام ہونگے، نہ اپنے آپ کو چھپائیں گے نہ مذہب کو چھپائیں گے، ہر مسئلہ روشن وعیاں ہوگا، ہم نے بہت سے فرقوں کو دیکھا ان میں باطنیت ہے، باطنیت کامعنی کچھ ایسے مسائل ہیں وہ نہیں چاہتے کہ یہ ظاہر ہوں، بہت سے فقہی گندے عقائد ہیں، جوچھپاتے ہیں، تو یہ حق کی علامت ہے کیا؟ اپنی دین کو چھپانا اپنے ائمہ کے اقوال کوچھپانا،ان کے فتویٰ کوچھپانا۔

وہ جماعت حقہ کونسی ہوسکتی ہے،جوظاہر کھلم کھلا ہونگے، نہ ان کے مسائل مخفی ہیں نہ ان کے عقائد مخفی ہیں، تو اس جماعت کا یہ تشخص ہے، نبی ﷺ نےیہ حدیث کیوں بیان کی ہے؟تاکہ یہ بھی نشانی ہے کہ اس کو ڈھونڈو،اس کامصداق کون ہے؟ اس سے مراد کون ہوسکتے ہیں۔

توالحمدللہ اہل الحدیث ہونا شرف کی بات ہے، اہل حدیث کی دعوت کی ان دو آیت میں ترتیب موجود ہے:

[فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ ](الزخرف:۴۳)

مضبوطی سےپکڑ لو، کس چیز کو جو آپ کے طرف وحی کی جارہی ہے۔ وحی کس چیز کی ،کی جارہی ہے:

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کافرمان:

[ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ ]

(النساء:ـ۱۱۳)

دوچیزیںہیں، کتاب وحدیث۔

ان دوچیزوں کو مضبوطی سے پکڑلو، یہ ہماری دعوت ہے، ہمارا بچہ بچہ کتاب وسنت کوتھامے ہوئے ہے۔

یہ ہمارا مزاج اور منہج ہے، جوقرآن خود پیش کررہا ہے:

اے میرے نبی!یہ ہماری طرف سے جو وحی آرہی ہے اس کو مضبوطی سےپکڑلو۔

وہ کہتے ہیں کہ عام لوگ قرآن وحدیث نہ پڑھیں گمراہ ہوجائیں گے، تو آپ  کے ذہن میں یہ اشکال آئے گا، یہ خطاب تو نبی ﷺ کو ہے، کتاب وسنت کوتھامنے کا، ہمارے لیے نہیں ہے، حضور آگے  پڑھیے:

[وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ۝۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ ]

(الزخرف:۴۴)

یہ ذکر یہ نصیحت یہ حکم آپ کے لیے اور آپ کی پوری امت کے لیے ہے، وحی ہے اس کوتھامیں، معنی ایک عالم ہو، عامی ہو،تاجر ہو، مردہو،عورت ہوسب کو یہ آڈر دیا گیا ہے،اللہ کی وحی کو تھامنے کا ،کتاب وسنت کو تھامنے کا، ہاں تھامنے کی اپنی حدود ہیں، ایک عالم جومتبحر ہے وہ خود کتاب وسنت کو سمجھ سکتا ہے ایک جاہل اور عامی ہے خود نہیں سمجھ سکتا لیکن وہ کتاب وسنت کا علم حاصل کرے علماء کے ذریعے سے،وہ علماء کا محتاج ہے، ذمہ داری اس کی بھی ہے، اس عالم کی بھی، تقاضے مختلف ہیں ایک عالم دین کتاب وسنت سے براہِ راست علم لےسکتا ہے،اس کے پاس فہم ہے ملکۂ اجتہاد ہے،ایک عامی اس کے پاس براہِ راست سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے،خود قرآن کہتاہے:

[فَسْــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۷ ]

(الانبیاء:۷)

اگر تمہیں معلوم نہیں ہے تو تم سوال کرواہل ذکر سے۔

ان علماء سےجن کےپاس کتاب وسنت کا علم ہے، آیت کاآخری حصہ بہت خطرناک ہے۔[وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ ](الزخرف:۴۴)

ورنہ یاد رکھو قیامت قائم ہونے والی ہے یہ سوال کروںگا۔

تم نےکتاب وسنت کوتھاماتھا،یانہیں؟علم تم نے کہاں سے لیا تھا؟ ایک ایک کو سامنے کھڑا کرکے پوچھوں گا۔

یہ آیت کاآخری جملہ بڑا ہی خوفناک ہے سب کو آڈر ہے کہ و حی کو تھام لو ،اپنی حدود کے مطابق اور یاد رکھو عنقریب تم سے سوال ہوگا۔

یہ ہماری دعوت کی بنیاد ہے، یہ آیت کریمہ منہج اہل حدیث ہے اور آگے فرمایا:

[وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً يُّعْبَدُوْنَ۝۴۵ۧ ](الزخرف:۴۵)

اور سوال کیجئے یہ خطاب ہے رسول اللہ ﷺ کو کس سے سوال کرو،جو آپ سے پہلے ہم نے رسول بھیجے، ان سے پوچھو، نوح نبی علیہ السلام ، ابراھیم  نبی علیہ السلام وغیرہ کیاہم نے ان سارےا نبیاء میں سے،کسی نبی کے دورمیں رحمٰن کے علاوہ کسی کی عبادت رکھی تھی؟

ایک نبی کا نام لےلو،فلاں کے دور میں ایک لمحے کے لئے اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے حکم دیا ہو،انبیاء کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے،ان گنت انبیاء ہیں، سب سےسوال کرلو،کسی نبی کی دعوت میں کوئی ایسی فکر اور تصور تھا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کےلئے عبادت کاحکم دیاگیا ہو۔

معنی ہمارے پیارے نبی ﷺ اور سارے انبیاء کا مرکزی نکتہ جو تھا وہ توحید تھا۔

رسول کیسے پوچھے؟ انبیاء تو جاچکے ہیں ،نہ وہ سن سکتے ہیںنہ جواب دے سکتےہیںان سے کیسے پوچھیں؟ ہاں جو آخری کتاب ہے قرآن مجید، یہ سارے انبیاءکی دعوت کی محافظ ہے، قرآن کھول لو ،جگہ جگہ بتادے گا کہ نوح علیہ السلام کی دعوت کیا تھی، ابراھیم علیہ السلام کی دعوت کیا تھی، سارے انبیاء کی دعوت قرآن نے ذکر کی ہے۔

قرآن نے اجمالی طور پر سارے انبیاء کی دعوت بیان کی:

[وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا] (النحل:ـ۳۶)

ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا اب یہاں ذکر ہے سارے انبیاء کا، کس دعوت کےساتھ ؟

[ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ ](النحل:ـ۳۶)

ایک اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے بچ جاؤ،غیر اللہ سے بچ جاؤ، صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے، اللہ ہی مشکل کشاہے، سجدہ کےلائق وہ ہے، رکوع کے لائق وہ ہے۔

ایک اللہ کی عبادت یہ سارےانبیاء کی دعوت ہے، یہ اکیلے اللہ کی عبادت کااثبات ہے، اورہرغیراللہ کی عبادت سےبچ جاؤ، یہ عقیدہ توحید نفیا واثباتا ہے۔

لاالٰہ الااللہ،الااللہ اثبات ہے ،لاالٰہ نفی ہے،بلکہ وہی تعبیر ہے، ایک اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے بچ جاؤ، یہ ہر نبی کی دعوت ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے ،ہماری دعوت ہے، یہی ہے جو ہر نبی نے اپنی قوم کو پیش کی، اس قرآن نےا نکشاف کیا، نبی کی دعوت ،توحید کی دعوت ہے۔

[وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ ](الانبیاء:۲۵)

وہی بات ہے ہم نے آپ سے قبل جو رسول بھیجے ،کیاوحی کی؟ ’’لاالٰہ الا أنا‘‘ کوئی الٰہ نہیں کوئی عبادت کےلائق نہیں، اللہ فرمارہا ہے:  فَاعْبُدُوْنِ

صرف میری ہی عبادت کرو۔

تواہل الحدیث کی دعوت وہ ہے ،عقیدہ کے اعتبار سے جومحمد رسول اللہﷺ ہی کی نہیںبلکہ سارے انبیاء کی تھی۔

ہماری دعوت کا شرف ہے ،ہمارے منہج کا شرف ہے ،اس دعوت پر ہم قائم ہیںجس دعوت پر رسول اللہ ﷺ اور سارے انبیاء قائم تھے۔

نبی ﷺ کی حدیث ہے:

الانبیاء اخوۃ لعلات دینھم واحد.

(بخاری وابوداؤد،مسنداحمد:9634)

یہ جو نبی ہوتے ہیںیہ آپس میں بھائی ہوتےہیں، علاتی بھائی، (علاتی بھائی وہ ہوتےہیں جن کا باپ ایک ہو اورمائیں مختلف ہوں)

تونبی آپس میں علاتی بھائی ہیں، اور ان کا باپ مرکزی طور پر عقیدہ توحید ہے،اصل ان کا ایک ہی ہے، فروع میں اختلاف ہوسکتا ہے، موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے دونمازیں دیں، ہمیں پانچ دیں، مسائل اور فروع میں اختلاف ہوسکتا ہے ،اصل میں ایک ہی ہیں، وہ توحید ہے، یہ ہماری دعوت ہے، عقیدہ توحید،ہماری دعوت میں غیراللہ کا کوئی تصور نہیں ہے، ہمارے نزدیک اللہ کے علاوہ کسی اور کوپکارنا شرک بھی ہے اور کفر بھی۔

تو اس ترتیب سے قرآن نے ایک منہج قائم کیاہے، عقیدہ کا اور اتباع کا۔

[فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ ](الزخرف:۴۳)

اور اعتقادی منہج کیا ہے؟

[وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً يُّعْبَدُوْنَ۝۴۵ۧ ](الزخرف:۴۵)

تلاش کرو سارے انبیاء کی دعوت کو، جو نتیجہ ملے گا، وہ دعوت اہل حدیث ہے، ہماری دعوت توحید خالص ہے ،ہماری دعوت خالصتااللہ کےحبیب کی اتباع کی دعوت ہے، اور یہی کامیابی کی اساس ہے، یہی فلاح کی بنیاد ہے۔

سورۂ آل عمران کی آخری آیات میں فلاح کے وعدے کسی جماعت کے لئے ہیں،کس جماعت کے ساتھ ہیں، دعاکاذکر ہے جودعائیں ہیں رسول اللہ ﷺ کی ان کو پڑھاکرو،ان دعاؤں میں بڑا علم وفقہ ہے:

[رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا۝۰ۤۖ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۝۱۹۳ۚ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝۱۹۴ فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ ]

یااللہ! ہم نے سنا تیرے منادی کو [مُنَادِيًا]میں تنوین عوض کی ہے، مضاف الیہ محذوف ہے:[منادیک]ہم نے تیرے منادی کو سنا،اللہ کا منادی کون ہے؟محمد رسول اللہ ﷺ ،دعامانگنے والااللہ کی جناب میں وسیلہ پیش کررہا ہے،یااللہ! ہم نےتیرے منادی کو سنا،بس اس کو سنتے ہیں کسی اورکو سنتے ہی نہیں،تیرے منادی کو سنتےہیں یا پھر اس کو سنتے ہیں جو تیرے منادی کی بات کرے ،ہر ایک کو نہیں سنتے ،یہ ہمارا عقیدہ ومنہج ہے۔اس منہج کو اللہ کی جناب میں بطور وسیلہ پیش کیا جارہا ہے ،اس منادی کی ندا کیا ہے؟

وہ ندا کررہےہیں ،ایمان لانے کی، اللہ کامنادی یعنی رسول اللہ ﷺ ندافرمارہےہیںاپنے رب پر ایمان لے آؤ، [فَاٰمَنَّا]یااللہ ہم ایمان لے آئے ،معنی تیرے منادی کی اتباع کرلی، اور ایمان لے آئے، کونسا ایمان ،ایک ہے اہل حدیث کا ایمان، اور ایک ہے باقی سارے فرقوں کا ایمان، جس ایمان کا وسیلہ پیش کیاجارہا ہے ،وہ معتبر ہوگا تو قابل قبول ہوگا، دو وسیلے ہیں ہم نے تیرے منادی کو سنا ،اور تیرے منادی کو سنتے ہی اس شخص کو سنتے ہی جو قال اللہ اور قال الرسول کی بات کرتا ہے یہ ہمارا عقیدہ اور منہج ہے ،اسی منہج کے وسیلے تیرے جناب میں پیش کررہاہوں ،منادی کی دعوت قبول کرلی، دعوت ایمان تھی، ایمان کی تعریف کیا ہے؟

بڑااختلاف ہے، کچھ کہتے ہیں زبان کا اقرار، کچھ کہتے ہیں، زبان کا اقرار،اور دل کی تصدیق ہو۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ زبان کا اقرارہو، دل کی تصدیق ہو اور سارے اعضاء سے عمل کروانا،یہ سب مل کر ایمان بنے گا، ان کی تعریف کے مطابق زبان میں ایمان کا آجانا کافی ہے ،دوسرے گروہ کےمطابق زبان سے اقرار ہو اور دل میں ایمان ہوکافی ہے۔

ایمان تین چیزوںکا نام ہے:1زبان کا اقرار2دل کی تصدیق 3سارے اعضاء سے عمل کرنا۔

ہم نے ایمان قبول کرلیا ،یہ تعریف حق ہے،نبی ﷺ کی حدیث ہے آپ کے جوامع الکلم میں سےاس میں یہ تینوں چیزیں ایک ہی حدیث میں آجاتی ہیں

الایمان بضع وسبعون أو بضع وستون شعبۃ .

ایمان کےسترسےکچھ زائد شعبہ ہیں

فأفضلھا قول لاالٰہ الااللہ،وأدناھا اماطۃ الأذی عن الطریق ،والحیاء شعبۃ من الایمان.

سب سے اعلیٰ اقرار کرنا’’ لاالٰہ الااللہ ‘‘کا،یہ زبان کا اقررآگیا۔

راستہ سے کسی موذی چیز کاہٹانا، یہ بھی ایمان کا شعبہ ہے ،یہ عمل ہے، یہ اعضاء کا عمل ہے۔

والحیاء شعبۃ من الایمان.(بخاری ومسلم)

اور حیاء دل کافعل ہے، دل کے فعل کو بھی ایمان کہاگیا ،ایک ہی حدیث میں تینوں چیزیں آگئی ہیں۔

اب یہ دوچیزیں تیرے دربار میں پیش کررہاہوں:

1تیرے منادی کو سنا2منادی کی دعوت پر ایمان قبول کرلیا۔

طلب کیا ہے۔تین طلبیں ہیں،گناہ معاف کردے، تجھے واسطہ ہے اس عمل کا کہ ہم نے تیرے منادی کوسنا ہے اور کسی اور کو نہیں سنتے، ہمارے گناہ معاف کردے اور بڑے گناہ اور جھوٹے گناہ سارےمعاف کردے اور تیسری طلب ہمیں موت دے[وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۝۱۹۳ۚ]اس کا معنی دوسری آیت:[وَّاَلْـحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝۸۳ۙ](الشعراء:۸۳)مرنےکےبعد ہمیں ملادینا اپنے نیک بندوں کے ساتھ، یہ تین طلبیں ہیں۔

4چوتھی طلب! یااللہ جو تو نے اپنے رسولوں کی زبانوں پر وعدے کیےہیں، ہمیں عطا کرنے کے لئے ،دنیا کی نعمتیں ،آخرت کی وہ ہمیںساری عطا فرمادے۔

5اور یا اللہ !ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجئے ،جہاں سارے اولین وآخرین جمع ہونگے ،پوری خلقت جمع ہوگی ،ایک ایک بندہ سے حساب لینا ہے ،اس دن کی رسوائی سے بچالے، عیبوں پر پردے ڈال دے، یہ پانچ طلبیں ہیں، ان دووسیلوں کےساتھ یہ مسلک اہل حدیث بیان ہورہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا:

ہم نے پانچوں دعائیں قبول کرلیں، تمہارا واسطہ اور جو تم نے وسیلہ بیان کیا ہے ،کتنا معتبر ہےکہ تمہاری ساری دعائیں قبول کرلیں۔

آگے فرمایا:تمہارے مرد ہوں یاعورتیں ہوں آج وعدہ ہے کسی کےعمل کو ضایع نہیں کروں گا،اس دن بڑے لوگوں کے عمل ضایع ہونگے برباد ہونگے:

[عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ۝۳ۙ تَصْلٰى نَارًا حَامِيَۃً۝۴ۙ ]

بڑے بڑے عمل کرنے والے ،عمل کرکرکے تھک جانے والے، دھکتی ہوئی آگ کا لقمہ بن جائیں گے۔

اس مقام پر مسلک اہل حدیث بیان ہورہاہے، تویہ لب لباب ہے دعوت اہل حدیث کا،منہج اہل حدیث کا، اہل حدیث کا عقیدہ کیا ہے، منہج کیا ہے عمل کی بنیادیں کیا ہیں؟

ان دعاؤں میں قبولیت کا وعدہ ہے، جماعتِ حقہ وہی جماعت ہے جس کاتشخص ایک ہاتھ میں کتاب اللہ دوسرے ہاتھ میں سنت رسول اللہ ،اسی کا ترجمان ہو، ہمیشہ اسی کو پیش کرنےوالاہو، اس مسلک کو قبول کریں ،اس کا داعی بنیں ،اس سےمحبت کریں، اس مسلک کے حامل علماء ہیں ان سے تعلق جوڑیں تاکہ آپ کو روحانی غذا ملتی رہے،جو کامیابی کی بنیاد ہے، اللہ تعالیٰ سے توفیق کی مسلسل دعائیں کرنی چاہئیں، اس کی توفیق کے بغیر کوئی چیز ممکن نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور حق اختیار کرنے کی توفیق دے، حق کامبلغ بننے کی توفیق دے اور تادم حیات حق، کتاب وسنت پر، اپنی توحید پراور اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی محبت پر قائم ودائم رکھے۔آمین

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے