اربعینِ نووی

حدیث نمبر:28 ،قسط نمبر 64

چوتھی  وصیت:

فرمایا:وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فإنَّ كلّ مُحدثةٍ بدعة، وكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ.

(رواه أبو داؤد  و الترمذي وقال: حديث حسن صحيح.)

ترجمہ:اور نئے نئے امور سے بچنا،ہرنیاکام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

نبیﷺ اپنی اس وصیت کے ذریعے پوری امت کو بدعت کے ارتکاب اور اسے اختیار کرنے سے ڈرارہے ہیں،اپنی اس وصیت کو اس فرمان کے ساتھ مزید مؤکد فرمادیا :(كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ)یعنی: ہر بدعت گمراہی ہے۔

بدعت سے مراد ہر وہ نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو،دنیوی اعتبار سے کوئی نئی چیز خیر بھی ہوسکتی ہے اور شربھی،لیکن دینی اعتبار سے ہر نئی چیز شر ہی شر ہے،جس کا انجام جہنم کی آگ بتایاگیاہے۔

بدعت مجسمہ ٔ شر ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اختلاف اور افتراق کا راستہ ہے، بدعت ہی کی بناء پر امت اس قدر تقسیم وتفریق کا شکار ہوگئی،بڑے بڑے گمراہ فرقے(خوارج، روافض، معتزلہ، متکلمین، قدریہ، جبریہ،جہمیہ اورمرجئہ وغیرہ)پیداہوگئے،اور یہ اتنی بڑی نحوست ہے کہ جس نے امت کی قوت کو منتشراور بنیادوں کو کھوکھلا کردیا،جب سے مختلف بدعات نے جنم لیا ہے، اسلامی وحدت واخوت پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ہے،فتوحات کا راستہ رُک گیاہے،اور ایک عجیب سا جمود طاری ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺاپنے ہرخطبہ میں بدعت کاذکر فرماتے اور اسے(شرالامور)یعنی سب سے بدترین شیٔ قرار دیتے،حدیث کے مطابق یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے آپ ﷺ کے چہرے کی رنگت سرخ ہوجاتی،گردن کی رگیں پھول جاتیںاور آواز انتہائی بلند وبالاہوجاتی، آپ کا انداز ایسا ہوتا گویاسامعین کو دشمن کے حملے کی خبردے رہے ہیں،تاکہ وہ فوراً اپنے بچاؤ کی تدبیر کرلیں۔(صحیح مسلم:43)

محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ اپنی کتاب السنۃ میں صحیح سند کے ساتھ جناب عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا یہ قول لائے ہیں:(کل بدعۃ ضلالۃ وإن رآ ھا الناس حسنۃ)  یعنی:ہر بدعت گمراہی ہے،خواہ پوری امت اسے اچھا قرار دینے پرتُلی ہو۔(فتح القوی المتین ،ص:169)

واضح ہو کہ بدعت کے (شرالامور)یعنی:سب سے بدترین شیٔ ہونے کے بہت سے اسباب ہیں:

(۱)  بدعات کا ایجاد کرنا شریعت سازی کے مترادف ہے،گویا ایک بدعتی انسان اللہ تعالیٰ کے منصبِ شریعت سازی کے ساتھ تشبہ پیدا کررہاہے،امام شافعی aفرمایاکرتے تھے:(من استحسن فقد  شرع.)یعنی:جس شخص نے اچھا سمجھتے ہوئے کوئی عمل ایجاد کر ڈالااس نے شارع بننے کی کوشش کی۔(والعیاذباللہ)

(۲)  بدعات کا ایجاد کرنا اللہ تعالیٰ پر استدراک کےمترادف ہے،استدراک سے مراد گذشتہ ہونے والے کسی کام کوناقص قرار دیتے ہوئے اپنی طرف سےاس کی کمی کوپوراکرنا۔

گویا بدعات کی ایجاد کرنے والاشخص اللہ رب العزت کی شریعت کو ناقص ونامکمل سمجھتا ہے،لہذا بزعمِ خویش اس کمی پر استدراک کرتے ہوئے ،نئے نئے مسائل کی ایجاد واختراع کرتاہے۔

(۳)  بدعات کو ایجاد کرنے والاشخص،اللہ تعالیٰ کے دعوئے تکمیل دین کو جھٹلاتاہے،چنانچہ اللہ رب العزت قرآن مجید میں یہ دعویٰ فرماتاہے:[اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ …الآیۃ](المائدہ:۳)

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا…

اللہ رب العزت نے اس آیتِ کریمہ میں دین کے مکمل کردینے کا دعویٰ فرمایاہے،اورظاہرہے کہ ایک مکمل شیٔ ،کسی بھی زیادتی کو قبول کرنے کی متحمل نہیں ہوتی،اور یہاں تکمیل کا دعویٰ تواللہ سبحانہ وتعالیٰ فرما رہا ہے،لیکن ایک بدعتی انسان کی جرأت وجسارت ملاحظہ کیجئے کہ وہ بدعات کی ایجادکے اس قبیح عمل کے ذریعے کس دیدہ دلیری سے اللہ تعالیٰ کے اس دعویٰ کی تکذیب کررہاہے۔

(۴)  اگر ایک بدعتی انسان یہ کہے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کے تکمیلِ دین کے دعویٰ کی تکذیب نہیں کرتا،بلکہ دین کو مکمل مانتاہوںتو پھر ایک چوتھی خرابی لازم آئے گی ،جس کا ذکر امام مالکaنے فرمایا ہے،چنانچہ امام شاطبی رحمہ اللہ کتاب الاعتصام میں ابن الماجشون سے  نقل کرتے ہیںکہ میں نے امام مالکرحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے:(من ابتدع فی الإسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم أن محمدا خان الرسالۃ ؛ لأن اللہ یقول:[اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ]فما لم یکن یومئذ دینا فلایکون الیوم دینا)

یعنی:جس شخص نے دینِ اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کرڈالی اور اسے اچھا خیال کرتارہے،اس شخص کا گویا یہ زعم ہے کہ محمدﷺ نے رسالت پہنچانے میں خیانت سے کام لیا ہے؛چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے،تو جو چیز اس دور میں دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتی۔

حضرات! ان چاروں اسباب سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ بدعت ایک ا نتہائی بدترین عمل ہے،اور بدعتی انسان دین کا بہت بڑا مجرم اور باغی ہے،ایسا انسان دینی اعتبار سے کسی تعلق یا محبت کا مستحق نہیں ہوسکتا، بلکہ انتہائی بغض وحقارت اور نفرت کاحقدار قرارپائے گا،جس سے دوری اختیارکرنا شرعی مطلوب ہے،جوبندےکے ایمان اور عقیدہ وعمل کی حفاظت وصیانت کا باعث بنے گا،انسان کی تمام تر عافیت کا مدار یہی ہے کہ وہ بدعقیدہ اور بدعتی انسان سے زیادہ سے زیادہ دوری اختیار کرلے۔رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں بدعتی شخص کو بھاولے کتے کے مشابہ قراردیا ہے،بھاولہ کتا اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ انسان بھی بھاولہ ہوجاتا ہے اور اس کتے کا زہر بندے کے رگ وریشے میں سرایت کرجاتاہے،اسی طرح بدعتی انسان کا قرب اختیار کرنے سے ہر وقت یہ اندیشہ موجود رہے گا کہ اس کی بدعت آپ کے اندر داخل نہ ہوجائے،اور آپ بھی اس کی طرح بدعتی نہ بن جائیں۔واللہ المستعان

چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:

(وإنہ سیخرج فی امتی  أقوام تتجاری بھم تلک الأھواء  کما یتجاری الکلب بصاحبہ لا یبقی منہ عرق ولا مفصل إلا دخلہ )

یعنی:بے شک میری امت میں ایسے لوگ نمودارہونگے جن میں بدعات اس طرح سرایت کرجائیں گی جیسے بھاولے کتے کے کاٹے کا زہر انسان کے اندر سرایت کرجاتاہے،وہ زہر اس کے ہررگ وریشے میں داخل ہوجاتاہے۔(مسند احمد،السنۃ لابن ابی عاصم ، اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے)

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بدعتی انسان سے دور رہنے کی بڑی واضح ہدایت ارشاد فرمائی ہے،نیز بدعتی انسان کا قرب اختیار کرلینا بھاولے کتے کے قریب جانے کے مترادف ہے،وہ پاگل کتا آپ کو کاٹ سکتا ہے ،جس کے نتیجے میں آپ بھی پاگل ہوجائیں گے۔

اسی طرح بدعتی انسان آپ پر اثر انداز ہوسکتا ہے،جس کے نتیجے میں اس کی بدعت آپ کے اندر داخل ہوجائے گی۔

واضح ہو کہ بدعتی انسان سے نفرت اور دوری اختیار کرنے کے تعلق سے سلف صالحین سے سینکڑوں کی تعداد میں اقوال واردہیں،جو یقیناً کتاب وسنت کے عظیم مقاصد کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کے خیرخواہانہ جذبات کی قوی دلیل بنتےہیں ،ہم ذیل میں صرف امام بربہاری رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف (شرح السنۃ )سے چندنقول پیش کرتے ہیں ،جس سے قارئین کو مسئلہ کی خطورت اور سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔فرماتے ہیں:

اذا رأیت الرجل یجلس مع أھل الأھواء فاحذرہ وعرفہ ،فإن جلس معہ بعد ما علم فاتقہ وإنہ صاحب ھوی.(شرح السنۃ،ص:398)

یعنی: جب تم کسی شخص کو کسی بدعتی انسان کے ساتھ بیٹھاہوادیکھ لو تو اس شخص سے بچ جاؤ،ایک دفعہ اسے بتادوکہ جس کے ساتھ تم بیٹھتے ہو وہ بدعتی ہے ،اگر اس کے بعد بھی وہ اس کے ساتھ بیٹھا دکھائی دے تو وہ شخص خود بدعتی ہے۔

واضح ہو کہ اسی قسم کا قول امام احمد بن حنبلرحمہ اللہ سے بھی مروی ہے،چنانچہ امام ابوداؤدرحمہ اللہ فرماتے ہیں :میں نے امام احمد بن حنبلرحمہ اللہ سے پوچھا:اگر میں اہل السنۃ میں سے کسی شخص کو کسی بدعتی کےساتھ دیکھ لوںتوکیاکروں؟کیا اس سے بات چیت چھوڑ دوں؟ فرمایا:نہیں، اسے ایک بار آگاہ کرو کہ جس کے ساتھ تمہیں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے وہ بدعتی شخص ہے،اس کے بعد اگر وہ اس کے ساتھ بیٹھنا چھوڑ دے تو اس سے بات چیت جاری رکھو،اور اگر نہ چھوڑے تو اس شخص کو اسی بدعتی کےساتھ ملادو۔(طبقات الحنابلۃ: 160/1)

بلکہ محمد بن عون کا تو یہ قول ہے :من یجالس أھل البدع أشد علینا من أھل البدع)

یعنی:اہل السنہ میں سےجوشخص کسی بدعتی انسان کے ساتھ اٹھتابیٹھا ہووہ ہمیں بدعتی شخص سے زیادہ گراں اورناپسندیدہ محسوس ہوتاہے۔

(الابانۃ لابن بطہ :486)

امام بربہاریرحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

واذا رأیت الرجل ردیء الطریق والمذھب ، فاسقا فاجرا، صاحب معاص ظالما وھو من أھل السنۃ فاصحبہ، واجلس معہ، فإنہ لیس تضرک معصیتہ.(شرح السنۃ،ص:406)

یعنی:جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ گناہوں کے راستے پر ہے ،فاسق وفاجر ہے، معصیتوں کا مرتکب ہے اور ظالم ہے، تو اس کی صحبت اختیار کرسکتے ہواور اس کے ساتھ بیٹھ سکتے ہو؛کیونکہ اس کی معصیت تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔

واذا رأیت الرجل مجتہدا فی العبادۃ متقشفا محترقا بالعبادۃ صاحب  ھوی، فلا تجلس معہ، ولا تسمع کلامہ، ولاتمش معہ فی طریق ،فإنی لا آمن ان تستحلی طریقہ فتھلک معہ.(شرح السنۃ،ص:408)

یعنی:اور جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ عبادت میں مشغول رہتا ہے تو اس کے ساتھ ہرگز نہ بیٹھو،نہ اس کی باتیں سنو،اور نہ ہی عمومی راستے میں اس کے ساتھ چلو؛کیونکہ یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ اس کے اجتہاد فی العبادہ کی بناء پر آپ اس کی بدعت کو اچھا سمجھنے لگیں اور پھر اس کے ساتھ تباہ وبرباد ہو جائیں۔

امام بربہاریرحمہ اللہ نے قاضی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے چند ایمان افروز اقوال نقل فرمائے ہیں :

(۱)من جالس صاحب بدعۃ لم یعط الحکمۃ.

یعنی:جوشخص کسی بدعتی انسان کے ساتھ بیٹھتاہووہ حکمت سے خالی ہے۔

(۲)لاتجلس مع صاحب بدعۃ فإنی أخاف أن تنزل علیک اللعنۃ.یعنی:کسی بدعتی انسان کے ساتھ مت بیٹھو،مجھے ڈر ہے کہ تم پر لعنتیں نہ برسنے لگیں۔

(۳)من أحب صاحب بدعۃ أحبط اللہ عملہ وأخرج نور الإسلام من قلبہ.

یعنی:جوشخص کسی بدعتی سے محبت کرے،اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں برباد کردے گا اور اسلام کا نور اس کے دل سے نکال پھینکے گا۔

(۴)من جلس مع صاحب بدعۃ فی طریق فجز فی طریق غیرہ.

یعنی:اگر تم کسی شخص کو کسی بدعتی انسان کےساتھ کسی راستے پر بیٹھا دیکھ لوتواپناراستہ تبدیل کرکے گزرجاؤ۔(شرح السنۃ،ص:466)

(۵)اذا رأیتُ رجلا من أھل السنۃ فکانما أری رجلا من أصحاب رسول اللہ ﷺ واذا رأیتُ رجلا من أھل البدع فکانما أری رجلا من المنافقین.

(شرح السنۃ،ص:461)

یعنی:جب میں اہل السنہ میں سے کسی شخص کو دیکھتاہوں تولگتا ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی کو دیکھ لیا ہے،اور جب کسی بدعتی انسان کو دیکھتاہوں تولگتا ہے کسی منافق کو دیکھ لیاہے۔

قاضی فضیل بن عیاض aکا درج ذیل قول بھی قابل مطالعہ ہے جو بہت زیادہ غور وفکر کی دعوت دیتا ہے:

(من عظم صاحب بدعۃ فقد أعان علی ھدم الإسلام ،ومن تبسم فی وجہ مبتدع فقد إستخف بما أنزل اللہ ،ومن زوج کریمتہ من مبتدع فقد قطع رحمھا، ومن تبع جنازۃ مبتدع لم یزل فی سخط اللہ حتی یرجع)

یعنی:جس شخص نے کسی بدعتی انسان کی تعظیم کی اس نے اسلام کی عمارت کو ڈھادینے میں مدد فراہم کی، اور جو شخص کسی بدعتی انسان کے چہرے پر مسکرائے اس نے اللہ تعالیٰ کی وحی (کتاب وسنت) کی توہین کی،اور جو شخص اپنی بہن یابیٹی کا رشتہ کس بدعتی سے کرڈالے اس نے اسی وقت اس سے اپنا رشتہ توڑ لیااور جو شخص کسی بدعتی کے جنازے کے ساتھ چلے وہ جب تک لوٹ نہ آئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہےگا۔

اس نہج کے بے شمار اقوال علماءِ سلف سے ثابت ومنقول ہیں، جن سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ بدعتی انسان انتہائی ناپسندیدہ اور قابل نفرت ہے،اس سے زیادہ سے زیادہ بچنے اور دوری اختیار کرنے کی کوشش کی جائے،بالخصوص جہاں لوگوں کی نگاہیں دیکھ رہی ہوںوہاں بدعتی انسان کا قرب اختیار کرنے سے یکسر گریز کیاجائے تاکہ دیکھنےوالوں کو کسی قسم کا دھوکہ نہ ہو۔

واضح ہو کہ اگر کسی بدعتی انسان سے کوئی دنیوی تعلق یارشتہ ہے تو اس تعلق یا رشتے کی نوعیت کے مطابق اس کےساتھ اٹھنابیٹھنا جائز ہے،بشرطیکہ عامۃ الناس کو اس تعلق یا رشتے کی خبر ہو۔

مثلاً: بدعتی والدیابھائی یابہن وغیرہ اورمثلا کسی بدعتی انسان سے کوئی تجارتی تعلق ہے ،تو اس رشتے یاتعلق کے بقدر قرب اختیار کیا جاسکتا ہے اور اگر اس قرب کےساتھ انہیں سنت کے اختیار کرنے اور بدعت کو ترک کرنے کی دعوت ونصیحت دی جائے تو انتہائی مستحسن اور موجب اجرہوگا۔(واللہ تعالیٰ ولی التوفیق)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے