اہل ایماں کا ہے یہ جہاں قیدخانہ
ان کی ہوتی نہیں ہے، زندگی آزادانہ
اپنی مرضی سے کچھ بھی وہ کرتے نہیں
اپناتے نہیں ہیں، روش باغیانہ
ہر قدم رب کی طاعت، اہل ایمان کی خو ہے
گرچہ بن جائے ناقد، سارا زمانہ
رب کے فرماں کے آگے، سرجھکاتے ہیں دل
درحقیقت یہی ہے، فلاح کا پیمانہ
رب کی خاطر ہیں سہتے آلام ومصائب
اس کی خاطر ہیں کرتے، عمل مخلصانہ
بے نیازی جہاں سے، مومنوں کا ہے شیوہ
بن کر رہتے ہیں یاں، اجنبی وبے گانہ
زندگی ہے گزرتی اہل ایماں کی یوں
لگاتے نہیں ہیں مال وزر سے یارانہ
عالم رنگ بو ہے بے ثبات وفریب
آخرت ہے حقیقت نہیں ہے فسانہ
بہت ہوچکا بے حسی چھوڑ دے
تجھ سے ہے یہ میری التجا عاجزانہ
بے حسی کا تیری اثریؔ تریاق ہے
لکھی ہے جو یہ میں نے، نظم درد مندانہ