ایک علمی دورہ

اللہ رب العالمین کی توفیق ،فضل اور مہربانی سے پانچ ساتھیوں   پر مشتمل قافلہ (شیخ حافظ یحیی صاحب،مدرس مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث گھمن آباد،محترم اسلم لاکھانی صاحب،رکن شوری جمعیت اہل حدیث حیدر آباد ،محترم وکیل ولی قاضی صاحب، رکن شوری جمعیت اہل حدیث حیدرآباد ، محترم نوید بھٹی صاحب اور راقم )26 نومبر صبح دس  بجے حیدرآباد سے ملک کے بڑے علماءسے ملاقات ،حصول علم اور اجازۃ الروایۃ حاصل کرنے کا ارادہ لیکر ایک علمی دورے پر نکل پڑے۔

دوراں سفر مختلف مسائل پر باتیں ہوتی رہیں مثلا:بیٹی والد کی طرف سے ملنے والی میراث  بھائیوں کو معاف کرسکتی ہے ؟

آدمی زندگی میں اپنی ساری جائیداد سے الگ ہوسکتا ہے ؟

رات کو جا کر ملتان میں ایک ہوٹل پر رکے، صبح ملتان شہر کے ایک بڑے عالم ،شیخ الحدیث ،جماعت اہل حدیث کے اچھے مناظر فضیلۃ الشیخ عبدالرحمان شاہین حفظہ اللہ سے وقت لیکر ان کے مدرسہ میں گئے۔ جب ہم پہنچے تو اس وقت شیخ جامع  الترمذی پڑھا رہے تھے، ملاقات ہوئی،شیخ نے تازہ اور خشک میوے اور جوس بطورضیافت پیش کئے ۔

 گفتگو جاری تھی کہ اس دوراں ایک سائل فتوی کے لیئے شیخ کے پاس حاضر ہوا، مسئلہ طلاق کا تھا :

شیخ نے سائل سے سوال کیا کہ آپ کس مسلک سے وابستہ ہیں؟ سائل نے بتایا میں حنفی ہوں۔شیخ نے کہا کہ تو آپ انکے پاس کیوں  نہیں گئے،باقی مسائل نماز وغیرہ میں وہ صحیح نظر آتے ہیں طلاق کے مسئلہ میں اہل حدیث ؟

شیخ نے بہترین انداز میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سائل کو  سمجھایا،ملتان شہر کے بڑے حنفی مدارس کے ذمہ داران کے متعلق بتایا کہ ان کی بچیوں کو جب طلاق ہوجاتی ہے تو مجھ سے فتوی لے جاتے ہیں،حنفی مسلک کو ٹھکرادیتے ہیں!سائل جب اٹھے توانکے چہرے پر  اطمینان کے آثار نمایاں تھے ۔

پھر ہم نے شیخ سے صحیح بخاری کی ایک حدیث پڑھ کر اجازۃ الروایۃ کی درخواست کی جوکہ انہوں نے قبول کی ۔

راقم نے ان کے سامنے صحیح بخاری کی یہ حدیث پڑھی :ـ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الجُعْفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ العَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ»

یہ وہ ہی حدیث ہے جوکہ راقم نے  ہمارے محبوب استاد،امام اسماء الرجال،محدث العصر شیخ زبیر رحمہ اللہ کے سامنے پڑھ کر ان سے اجازۃ الروایہ حاصل کیا تھا ۔الحمدللہ۔

جب شیخ شاہین صاحب حفظہ اللہ حدیث کی شرح سے فارغ  ہوئے تو کہا: ’’آپ لوگ اس حدیث کے متعلق کیا جانتے ہیں ہمیں بھی بتائیں‘‘یہ شیخ  محترم کی کمال عاجزی تھی،اللہ پاک انہیں دنیا و آخرت میں عزتوں و رفعتوں سے نوازے ۔آمین ۔

پھر ہم شعبہ حفظ کی کلاس میں گئے، وہاں کچھ بچوں کی تلاوت سننے کا شرف حاصل ہوابہت خوشی ہوئی،بچے عرب قراء کے انداز میں تلاوت کر رہے تھے،اسلم لاکھانی صاحب نے شیخ حافظ یحیی  صاحب کو بھی تلاوت کرنے کا کہا حافظ صاحب نے بہترین آواز میں تلاوت کرکے ایمان تازہ کیا،اسکے بعد ساتھیوں نے اچھی تلاوت کرنے  والے بچوں میں انعام تقیسم کیا۔ایک بچہ ایسا بھی تھا جس نے تازہ حفظ القرآن مکمل کیا تھا شیخ صاحب نے بتایا اس کے والدین اہل تشیع سے تعلق رکھتے ہیں اسے بھی انعام دیا گیا ۔

جب شیخ صاحب سے رخصت ہونے کی اجازت لی گئی تو شیخ نے تما م ساتھیوں کو مٹھائی اورحلوے کی صورت میں تحائف پیش کیےجزاہ اللہ خیرا.

وہاں سے فضیلۃ الشیخ مفتی حافظ عبدالستار حمادحفظہ اللہ سے ملاقات کےلیے میان چنوں روانہ ہوئے،انکے مدرسہ پہنچ کر نمازیں (ظہر وعصر) ادا کیں جس کے بعد شیخ کے گھر گئے جوکہ ا ن کی مسجد   ومدرسہ  سےمتصل ہے۔ کچھ ہی دیر بعد شیخ  باہر آئےاورہمیں اندر لے گئے تعارف ہوا،صحیح بخاری کی ایک حدیث پڑھ کر اجازۃ الروایہ  لینے کی گذارش کی گئی  جوکہ انہوں نے قبول کی ۔ان کے سامنے راقم نے صحیح بخاری کی یہ حدیث پڑھی :

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ» وَقُلْتُ أَنَا: «مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ»

 شیخ صاحب  نےحدیث کی توضیح و تشریح کی ۔راقم نے شیخ حفظہ اللہ کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ الحمدللہ۔

شیخ حفظہ اللہ نے ہماری ضیافت کی۔وکیل ولی قاضی صاحب نے  ایک سوال کیا کہ بعض علماء کا نظریہ ہے کہ آج کی جو تصویر کی شکل ہے وہ حدیث میں ممنوعہ تصویر کے زمرے میں نہیں آتی آپ اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں ؟

شیخ صاحب نے اس کی تردید کی اور کہا کہ آج کی تصویر بھی  غلط ہے ہاں! ہم تبلیغ کے لیئے مجبوری کی صورت میں اس کی اجازت دیتے ہیں ۔

شیخ صاحب سے زیادہ سوالات نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عصر کی اذان ہوچکی تھی ہم شیخ حفظہ اللہ سے اجازت لیکر لاہور روانہ ہوگئے۔ جزاہ اللہ خیرا.

فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم صاحب حفظہ اللہ مسلسل رابطے میں تھے،  جب لاہور شہر میں داخل ہوئے شیخ سے ملاقات ہوئی،شیخ ایک ہوٹل پر لے گئے جہاں شیخ سے استفادہ شروع کیا،مقدمہ مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم کتاب کے اندر مناسب مقامات پر معلول روایات ذکر کریں گے۔

دوسری طرف جب ہم کتاب کو دیکھتے  ہیں  تو کسی بھی مقام پر ایسی وضاحت نظر نہیں آتی،ہاں بسا اوقات وہ سند و متن کی کمزوریاں  لیکر دوسرے  ایسے طرق  لاتے ہیں جن میں وہ کمزوری نہیں ہوتی ۔

ہوٹل پر،پرتکلف کھانا کھانے کے بعد حافظ صاحب ہمیں اپنے گھر لے گئے ،بالائی منزل میں بہترین بستر کے ساتھ عالیشان رہائش دی،جہاں ہم نےتین راتیں گذاریں،حافظ صاحب خوب خدمت کرتےرہے۔باوجود بہت زیادہ مصروف ہونے کے ہمیں بھرپور وقت دیا، ساتھ  رہے، اپنی لائبریری کی زیارت کروائی،جمعہ شیخ کے پیچھے پڑھا،رات کو ملاقات میں محدث العصر شیخ زبیر رحمہ اللہ کی زندگی کے واقعات سناتے۔

حافظ ندیم حفظہ اللہ شیخ زبیر رحمہ اللہ کے ایک شاگرد فضیلۃ الشیخ ارشد کمال حفظہ اللہ مدیر مجلہ نور الحدیث  لاہور کے پاس ان کی مسجد لے گئے۔ شیخ سےملاقات ہوئی انکی لائبریری کی زیارت ہوئی، شیخ ارشد صاحب نے اپنی تازہ تصنیف "سیرت خلفائے راشدین صحیح احادیث کی روشنی میں” دکھائی، چائے کا دور چلا ۔

   حافظ صاحب خود مکتبہ اسلامیہ وغیرہ کی زیارت کروانے لے گئے جہاں سے کچھ کتب خریدی گئیں۔ مکتبہ اسلامیہ کے مالک  شیخ سرور عاصم صاحب اور شیخ ابوبکر قدوسی صاحب سے وہاں ملاقات ہوئی۔ معلوماتی گفتگو ہوئی قدوسی صاحب  کے اندرمسلک اور مسلک کے علماء کے لیئے ایک درد محسوس ہوا۔

 ہم فضیلۃ الشیخ مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیئے ان کے جامعہ گئے ملاقات ہوئی،شیخ ربانی صاحب کی شاندار لائبریری دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔شیخ کتب کا تعارف کرانا شروع ہوئے کتب کو جمع کرنے کے حوالے سے علماء کے شوق و دلچسپی کے واقعات بھی سناتے رہے، شیخ ربانی حفظہ اللہ کی گفتگو سے اندازہ ہوا،وہ اپنے استاذشیخ فیض الرحمان ثوری رحمہ اللہ سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔

شیخ ربانی صاحب نے فضیلۃ الشیخ فیض الرحمان  ثوری رحمہ اللہ کے متعلق کہا کہ "انہوں نے عجیب نکتہ بتایا احناف "تحت السرۃ” کے الفاظ میں اکیلے قاسم بن قطلوبغا کی گواہی مان لیتے ہیں لیکن ترمذی میں "صدر "کے الفاظ کے موجود ہونے کےمتعلق دو حنفی علماء کی گواہی نہیں مانتے !

لائبریری کا نظارہ کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ شیخ حفظہ اللہ نے کوئی موضوع نہیں چھوڑا جس پر کتابیں نہیں جمع کیں عقائد پر کتابوں کا ایک ذخیرہ دیکھنے کو ملا، فقہ جعفریہ پر لا تعداد کتابیں کئی جلدوں میں نظر آئیں اس حوالےسے  ایک کتاب ایک سو دس جلدوں میں بھی تھی۔شیخ صاحب نے بتایا کہ ان کا بیٹا حسین شیعت پر کام کررہا ہے۔

فارسی لغت پر پچاس جلدوں میں کتاب موجود تھی،ایک جگہ احمد بن محمد بن الصدیق  الغماری کی کتابیں موجود تھیں،شیخ نے کہا بدعتی اسکی کتابوں کو زیادہ فالو کرتے ہیں لیکن ان ایک کتاب’’رد الکوثری علی الکوثری ‘‘کے نام سےآئی ہے جو بہت اچھی ہے ۔

جس میں کوثری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں  :

"فانتم قوم لا دین لکم فی الحقیقۃ الا رای ابی حنیفۃ  وقولہ فھو ربکم المعبود ونبیکم المرسل !واقسم  باللہ بارا غیر حانث  ان لو بعث اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم مرۃ اخری  فخاطبکم شفاھا  ان ابا حنیفۃ مخطئ لکفرتم  بہ ولرددتم رسالتہ علیہ کما تردون الآن شریعتہ   وسنتہ بھذا التلاعب  المخزی!”

(رد الکوثری علی الکوثری ص 59)

آخر میں شیخ صاحب  سے صحیح بخاری کی پہلی حدیث راقم نے پڑھی :

حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»

اور آخری حدیث(حافظ یحیی صاحب  نےپڑھی) :

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ "

یہ دو احادیث پڑھ کر اجازۃ الروایہ کی گذارش کی گئی،شیخ حفظہ اللہ نے احادیث کی تشریح کرتے  ہوئےکہا کہ ’’میں نے ایک دیوبندی عالم کو پڑھا،اس نے کہا بخاری ساری کی ساری ممدوح ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس شیخ کی حدیث سے کتاب کو شروع کیا ہے وہ الحمیدی ہیں جس کا مادہ حمد سے ہے اور جس کی حدیث سے کتاب کو ختم کیا ہے وہ احمد بن اشکاب ہیں اس کا مادہ  بھی حمد سے ہے، تو بخاری پوری ممدوح ہوئی مجھے یہ نکتہ بڑا پسند آیاہے میں نےاپنے ایک مضمون بھی ذکر کیا ہے ۔‘‘

شیخ حدیث کی توضیح و تشریح سے فارغ ہوئے تو راقم نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔شیخ سے اجازۃ الروایہ حاصل کیا،اس کے بعد وہا ں سے رخصت ہوگئے ۔

حافظ ندیم صاحب جامعہ لاہورمیں ادارۃ التحقیق کے مدیر ہیں اس حوالے سے شیخ سے کافی معلومات حاصل ہوئی۔شیخ نے بتایا کہ میں نے تیسری کلاس کے بچوں پرلازم کیا ہواہےکہ سو ایسے ثقہ راوی حفظ کرنے ہیں جن کی توثیق پر اتفاق ہے، اسی طرح سو ضعیف راوی جن کی تضعیف پر اتفاق ہے۔ اسی طرح اگلی کلاس میں سو مجہول راوی اور سو مختلط راوی یاد کرواتا ہوں ،اس سے اگلی کلاس میں سو مدلس راوی بچوں کو یاد کراواتا ہوں،ان سے سنتاہوں اور بچوں کے سامنے سند رکھ کر اسے حل کرواتا ہوں یہ سن کر حیرانگی ہوئی کہ ماشاء اللہ  ایسی شاندار محنت اس انداز سے تو طلبہ رجال کے  ماہر بن سکتے ہیں  ۔

ہفتہ کے دن صبح کو  شیخ حافظ یحیی صاحب اور راقم نےحافظ ندیم صاحب حفظہ اللہ سے صحیح بخاری کی ایک حدیث پڑھی پھر شیخ حفظہ اللہ نے بتایا کہ جامعہ محمدیہ گوجرانوالا میں عمر رسیدہ شیخ الحدیث حافظ عبدالحمید ہزاروی حفظہ اللہ ہیں جوکہ فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کے استاد ہیں  ان کے پاس ضرور جائیں یہی ارادہ کرکے حافظ ندیم ظہیر صاحب حفظہ اللہ سے رخصت ہوکر،لاہور سے گوجرانوالہ روانہ ہوگئے ۔

جب جامعہ محمدیہ پہنچے تو شیخ ہزاروی حفظہ اللہ صحیح بخاری پڑھا رہے تھے۔ موقعہ غنیمت جان کر انکی کلاس میں بیٹھ گئے کلاس ختم ہونے پر ملاقات ہوئی،تعارف ہوا،صحیح بخاری کی  تین  احادیث  (دو راقم نے اور ایک حافظ یحیی صاحب نے)پڑھ کر اجازۃ الروایہ حاصل کیا  جوکہ ہمارے لئے ایک عظیم سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے ۔

کیونکہ شیخ عبدالحمید ہزاروی حفظہ اللہ شیخ عبدالمنان نورپوی رحمہ اللہ کے استاد ہیں جوکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ  کےاستاد تھے۔ محترم اسلم بھائی نے شیخ ہزاروی حفظہ اللہ سوال کیا صحیح مسلم میں وسطی اور سبابہ انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع آئی ہے کیا اس میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں ؟

شیخ نے کہا :دونوں منع میں داخل ہیں۔

محترم وکیل ولی قاضی نے سوال کیا کہ کرسی پر نماز پڑھنا جائزہے؟ شیخ نے کہا: بحالت مجبوری جائز ہے۔

شیخ سے ان کی عمر کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں کہا میری عمر اسی  اور نوے کے درمیان ہے۔ محترم وکیل ولی قاضی نے ان سے انکی صحت کے بابت سوال کیا شیخ نے کہا:الحمد للہ صحیح ہے۔راقم نے شیخ صاحب کی پیشانی چومی۔ جزاہ اللہ خیرا ومتعنا بطول حیاتہ.

وہاں سے راولپنڈی کے لیئے روانہ ہوگئے،جہاں مغرب کے قریب پہنچے، ساتھیوں نے خریداری کی۔جس کے بعد ہم اسلامک ریسرچ سینٹر پہنچے جہاں اسلامک ریسرچ سینٹر کے روح رواں شیخ فہیم صاحب نےاستقبال کیا،پر تکلف کھانا پیش کیا۔نسبتا یہاں کچھ سردی محسوس ہوئی شیخ ابواحمدوقاص زبیر مدرس جامعہ سلفیہ اسلام آباد اور شیخ  عدنان الطاف سے ملاقات ہوئی وونوں شیوخ شیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کے شاگرد ہیں،دونوں شیوخ کسی علمی کام میں مصروف تھے زیادہ گفتگو نہ ہوسکی!یہاں رات گذارنے کے بعد صبح ناشتہ کرکے، قریب ہی کتابوں کا مکتبہ تھا وہاں جانا ہوا۔

راقم نے ذاتی شغف کی بنا پر تحقیق،جرح و تعدیل کے حوالے سے چند کتابیں پسند کیں۔ (راقم اصول حدیث ، اصول التخریج ، اصول الجرح و التعدیل کےحوالے سے ایک دورہ کروانے کا پروگرام بھی رکھتا ہے اللہ پاک آسانی فرمائے آمین)

شیخ فہیم صاحب نےوہ کتابیں(تقریب التھذیب ومعہ تحریر تقریب التھذیب،معجم الفاظ و عبارات الجرح و التعدیل ،اصول التخریج ،علم الجرح والتعدیل ،تحریر قواعد الجرح و التعدیل) ہدیہ کیں جزاہ اللہ خیرا.

اسکے  بعدہم حضرو روانہ ہوگئے پہنچ کر فضیلۃ الشیخ نصیر کاشف ، فضیلۃ الشیخ حافظ شیر محمد صاحب اور شیخ زبیر صاحب رحمہ اللہ کے بیٹے حافظ معاذ سے ملاقات ہوئی حافظ معاذ نے شیخ زبیر رحمہ اللہ کی کتب پر ’’اشاعت الحدیث ایپ‘‘بنائی ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔ الحمدللہ

 محدث العصر شیخ زبیر رحمہ اللہ کی وسیع لائبریری اور مدرسہ کی زیارت ہوئی۔خانپور ہزارہ اور حسن ابدال جانا ہوا،جہاں شیخ فرحان الالٰہی صاحب ،نعیم بھائی اور عبدالقیوم بھائی سے ملاقات ہوئی، ساتھیوں نے بہتری ضیافت کی۔ جزاہم اللہ خیرا.

پھر واپس حضرو آنا ہوا جہاں رات گذاری وہاںحافظ شیر محمد صاحب  اور نصیر کاشف صاحب حفظھما اللہ نےدل کھول کر خدمت کی۔جزاہما اللہ خیرا.

2 دسمبر منگل کےدن، صبح آٹھ بجے دونوں شیوخ سے الوداع ہوئے واپسی کا سفر شروع کیا پورا دن سفر جاری رہا ،رات رحیم یار خان میں رکنے کے  بعد صبح وہاں سے حیدرآباد کے لیئے روانہ ہوئے شیخ حافظ یحیی صاحب اپنے شہر سکرنڈ میں تقریبا تین بجے اترے،باقی دوست  بدھ کے دن شام کو ساڑھے چھ بجے حیدرآباد میں خیریت سے اتر گئے۔ الحمدللہ.

اللہ رب  العالمین کے احسانات ہیںجس نے یہ عظیم موقعہ عطا فرمایا، سفر میں ہر طرح کی آسانی فرمائی، عظیم علماء سے ملاقات و استفادہ مہیا کیا اور ان ساتھیوں کو ان کےاہل وعیال کورب العالمین دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا کرے،دنیا و آخرت کی عظیم نعمتوں سے مالا مال فرمائے، اپنی خاص رحمتوں میں داخل کرے جو اس علمی دورے کا سبب بنے ۔آمین۔

About ابو صفی عبدالرحمٰن اثری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے