Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2020 » شمارہ جنوری » اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

کاوش : شیخ عبداللہ محمدی (مدرس : مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ،ساماروموری)

خطبہ مسنونہ کے بعد!

[وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ]

(النحل:۸۹)

ایک جملہ ہم بہت زیادہ سنتے بھی ہیں،کہتے بھی ہیں،پڑھتے بھی ہیں ،وہ جملہ یہ ہے کہ’’اسلام مکمل ضابطہ ٔحیات ہے۔‘‘

ضابطہ ٔحیات کا مطلب یہ ہےکہ اسلام میں زندگی کے متعلق تمام امور کاتذکرہ بھی موجود ہے اور ان امور کو سرانجام کس طرح دینا چاہئے اس کاتذکرہ بھی موجود ہےاور یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے اور یقین ہے کہ واقعتاً اسلام مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، انسانی زندگی کےساتھ تعلق رکھنے والی کوئی چیز ہو اور اس کا تذکرہ اسلام میں نہ ہویہ ہوہی نہیںسکتا، اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اسلام کیاہے؟ اسلام کس چیز کا نام ہے؟اسلام دو چیزوں کانام ہے:ایک قرآن اور دوسری اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث! یہی اسلام ہے ،یہی دوچیزیں وحی ہیں، جو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی طرف کی ہیں اور یہی دوچیزیں اللہ کے نبی ﷺ اپنی امت کو دیکر گئے ہیں تو ان دونوںباتوں کو جب ملایاجائے کہ اسلام مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور اسلام قرآن وحدیث کا نام ہے تو نتیجہ نکلے گا کہ قرآن وحدیث میں سب کچھ موجود ہے، انسانی زندگی کےساتھ تعلق رکھنے والی کوئی بھی چیز ہے، کوئی بھی معاملہ ہے وہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک چیز کا تعلق انسانی زندگی کے ساتھ ہو اور اس کا تذکرہ قرآن وحدیث میں نہ ہوبلکہ کہیں اورہو،ایسا ممکن نہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح کئی مقامات پر ارشاد فرمایا ہے اور یہی بات ذہن نشین کرانی ہے کہ قرآن اور حدیث میں سب کچھ موجود ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ میرا ذہن اس چیز تک نہیں پہنچا، کسی بہت بڑے عالم کا ذہن،اس کا علم اس چیز تک نہیں پہنچا، یہ ایک الگ بات ہے، یہ ہمارے علم کی کوتاہی ہے لیکن یہ کہنا کہ اس مسئلے کا علم قرآن وحدیث میں نہیں ہے کہیں اور ہے غلط ہے۔بے شمار مسائل ایسے ہوتے ہیںجن کا تذکرہ قرآن وحدیث میں ہوتا ہے لیکن بہت سارے علماء ہیں کہ ان کا علم،ان کاذہن اور ان کا فہم اس حل تک نہیں پہنچ سکتا، تو یہ علم کی کوتاہی ہوئی اس سے یہ اخذ کرنا کہ ان مسائل کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے یہ بات غلط ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

[يُرِيْدُ اللہُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ](النساء:۲۷)

اللہ تبارک وتعالیٰ ارادہ کرتاہے کہ تمہارے لئے مکمل وضاحت کردے۔

اب اللہ تبارک وتعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے وہ ارادہ کرے مسلمانوں کےلئے ،لوگوں کے لئے مکمل وضاحت کرنے کا اور پھر مکمل وضاحت نہ کرسکے ،ایسا ممکن ہے؟قطعانہیں! اللہ نے ارادہ کیا کسی چیز کے کرنےکا ،کسی چیز کے صادر کرنے کا،بس اللہ اس کو کیا کہتا ہے :کن فیکون،ہوجا تو وہ چیز ہوجاتی ہے،اور یہاں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ تمہارے لئے مکمل وضاحت کا اللہ ارادہ کرتا ہے، اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز اللہ نے آسمان سے نازل کی ہے ،وحی،قرآن اور حدیث اس میں مکمل وضاحت نہ ہو،یہ کیسے ممکن ہے؟ اللہ نے ارادہ کیا ہر چیز کی مکمل وضاحت کرنے کا اور وضاحت کی کس کس چیز کے ذریعے؟ قرآن کے ذریعے اور حدیث کے ذریعے، قرآن اور حدیث میں ہر مسئلہ موجود ہےاورہرمسئلے کی وضاحت موجود ہے، وہ تمام مسائل جو گزر چکے، وہ تمام مسائل جوہوررہےہیں،وہ تمام مسائل جوآئندہ ہونگے، تمام مسائل کاحل قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے،وہ اسلام نام ہے قرآن وحدیث کا، قرآن اور حدیث میں زندگی کےمتعلق تمام مسائل کا حل موجود ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا:

[وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ]

(النحل:۸۹)

کہ ہم نے آپ کی طرف کتاب کو نازل کیا ہے،کتاب سےمراد کیا؟قرآن مجید کی آیات اور اللہ کے نبی ﷺ کی کئی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کتاب سےمراد قرآن اور حدیث ہے۔اللہ تعالیٰ فرمارہا کہ ہم نے آپ کی طرف کتاب کو نازل کیا یعنی قرآن کو نازل کیا اور حدیث کو نازل کیا ،اس کتاب میںکیا ہے، اس قرآن وحدیث میں کیا ہے؟ [ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ]ہر چیز کی وضاحت ہے یہ اللہ کا فرمان ہے جو قرآن مجید میںموجود ہے، پھر یہ جملہ کہنا کتنا غلط ہےکہ بہت سارے مسائل ایسےہیں جن کاتذکرہ قرآن اور حدیث میںنہیں ہے، کسی تیسری چیز میں موجود ہے، یہ چیز عقیدہ ختم نبوت کے بھی منافی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل کردیا ہے ،اللہ کے نبی ﷺ اپنی امت کو مکمل دین دیکر چلے گئے، تو اللہ کے نبی ﷺ کے بعد ظاہر ہونے والی چیزیں ان میں تمام مسائل کا حل ہو اور جو چیز اللہ کے نبی ﷺ دیکر جائیں اس میںتمام مسائل کا حل نہ ہو،یہ بات کہاں تک درست ہوسکتی ہے؟اور کہاں تک صحیح ہوسکتی ہے؟؟

[وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ]ہر چیز کی وضاحت کتاب میں موجودہے،یعنی قرآن اور حدیث میںموجود ہے۔

یہی عقیدہ بناناچاہئے ،یہی منہج اور نظریہ بناناچاہئے کہ اللہ کے نبی ﷺ جو دوچیزیں ہمیں دیکر گئے ہیں اس میں ہماری زندگی کےتمام مسائل کا حل موجود ہے، شاہ صاحب رحمہ اللہ اپنی تفسیر’’بدیع التفاسیر‘‘ میں امام حراثی کا قول لائےہیں اس میں بھی انہوںنے یہی وضاحت کی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں فرمایا:

یبین لنا مابنا حاجۃ الی معرفتہ اما بنص واما بدلالۃ نص .

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر اس چیز کو واضح طور پر بیان کیا اور سمجھایاجو انسان کے لئے ضروری تھی،یاتوواضح طور اس مسئلے پرنص موجود ہے، قرآن کی آیت موجود ہے،اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان موجود ہے،یا بالکل واضح تو نہیں ہےلیکن کوئی نہ کوئی آیت ،کوئی نہ کوئی حدیث موجود ہے جو آیت یا حدیث اس مسئلے کے حل کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

یعنی یاتو بالکل واضح طور پر آیت یاحدیث موجود ہے،اگر ایسا نہیں ہے تو کسی نہ کسی آیت ،کسی نہ کسی حدیث میں اس مسئلے کے حل کی طرف اشارہ موجود ہے، یہ نظریہ اور منہج ہوناچاہئے ،ہمارے اسلاف کا یہی منہج اور نظریہ تھا، ہر وہ چیز جو انسان کےلئے سمجھنا ضروری ہے جوانسان کی ضرورت ہے اس کاحل قرآن میں موجود ہے، اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان میں موجود ہے۔

خود شاہ صاحب رحمہ اللہ بدیع التفاسیر میں اس بات کو مکمل طور پر واضح کرتےہیں ،اس عقیدے اور اس منہج کو بالکل واضح طور پر لکھتےہیں بدیع التفاسیر کی جلد ۶میں وہ فرماتے ہیں:اگر کسی مسئلے کے بارے میں ہمیں قرآن اور حدیث سے حل نہیں مل رہا ۔(شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ پر غور کریں !)اگر کسی مسئلے کے بارے میں ہمیں قرآن اور حدیث سے حل نہیں مل رہا ،رہنمائی نہیں مل رہی تو اس میں ہمارے علم کی کمی ہے، اور ہماری کوتاہ فہمی ہے، یہ ہرگز نہیں کہ اس مسئلے کاحل قرآن اور حدیث میںنہیں ہے، معاذاللہ ثم معاذاللہ ۔

یہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں جوبدیع التفاسیر کی چھٹی جلد میںموجود ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس مسئلہ کاحل قرآن اور حدیث میں نہ ہویہ ہمارے علم کی کمی ہے، ہمارے فہم کی کوتاہی ہے کہ ہمارا علم اس مسئلے کے حل تک نہیں پہنچ رہا ،ہمارا جوفہم ہے وہ اس مسئلے کے حل تک نہیںپہنچ رہایہ ہماری کمی اور کوتاہی ہے یہ ہرگز نہیں کہ اس مسئلہ کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔

آگے لکھتے ہیں کہ ایک عالم کوچاہئے کہ وہ اس مسئلے کے بارےمیں اپنی تلاش جاری رکھے ،دیگر علماء سے مشورے کرے، دیگر کتابوں کا مطالعہ کرے ،ایک نہ ایک دن وہ عالم دین قرآن وحدیث کے ذریعے اس مسئلے کے حل تک پہنچ چکا ہوگا، تحقیق کرنی چاہئے ،تلاش کرناچاہئے، ایک مسئلہ سنا قرآن اور حدیث سے اس کے حل تک نہیں پہنچا فورا یہ خیال آیا کہ اس کا حل کسی تیسری چیزمیں ہوگا یہ قطعاًغلط ہے، تلاش کریں، تحقیق کریںدیگر علماء سے پوچھیں،کتابوں کا مطالعہ کریں ایک نہ ایک دن آپ قرآن وحدیث کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرچکے ہونگے، یہ نظریہ اور منہج ہوناچاہئے ایک چیز اللہ کی طرف سے آئی اور اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی طرف وحی کی ہے ،بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس چیز میں انسان کا مکمل ضابطہ ٔ حیات نہ ہووہ چیز(منزل من اللہ) محتاج ہو کسی دوسری چیز کی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اللہ کی طرف سے جو چیز آئی اس میںکمی اور کوتاہی رہ گئی ،اس کمی اور کوتاہی کو دور کیا،کنہوں نے؟فقہاء نے،انسانوں نے! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی توہین ہے اس طرح کے جملےکہنا قرآن اورحدیث کو،دین اسلام کو کسی تیسری چیز نے مکمل کیا ہے، اسلام کی توہین ہے،اسلام خود ایک مکمل دین ہے۔ اسلام خود ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، بے شمار مسائل موجود ہیں جن کو سننے سے آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ بھلا اس مسئلہ کا حل قرآن وحدیث میں کہاں ہوگا؟ لیکن ایسے علماء ربانی موجود ہیں کہ انہوں نے اس طرح کے مشکل مسائل کو قرآن کے ذریعے حل کیا اورحدیث کے ذریعے حل کیا، شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس کی ایک مثال دی ہے، امام شافعی رحمہ اللہ کی والدہ اور ایک اور عورت ان دونوں کی گواہی تھی ایک جج کے پاس جب وہ دونوں عورتیں ایک امام شافعی کی والدہ ہیں ،گواہی دینے کےلئے عدالت پہنچیں توجج نے :’’اراد ان یفرق بینھما‘‘

ارادہ کیا کہ یہ دونوں خواتین گواہی دےگی لیکن الگ الگ ،پہلے ایک خاتون گواہی دے گی دوسری موجود نہیں ہوگی،جب وہ گواہی دےدے گی تو دوسری عورت آئے گی اور وہ گواہی دے گی، جج نے یہ ارادہ کیا اور حکم کونافذ کردیا جیسے ہی عالمہ زاہدہ امام شافعی رحمہ اللہ کی والدہ نے جج کی زبان سے یہ جملہ سنا تو فرمانے لگیں:’’لیس لک ذلک‘‘ آپ کو یہ اختیار نہیںہے کہ آپ ہم دونوں سے الگ الگ ایک کی عدم موجودگی میں دوسری سے گواہی لیں،یہ دین کےخلاف ہے،یہ اللہ کی وحی کے خلاف ہے۔

اب ہم سوچیں کہ قرآن اورحدیث میں کہاں ہےکہ دو عورتیں گواہی دیں اور دونوں ایک ساتھ ہوں، دونوںگواہی کے وقت ایک ساتھ ہوں، دونوں کو الگ نہیں کیاجاناچاہئے،قرآن وحدیث میںکہاں ہے؟ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کی والدہ کہہ رہی ہیں یہ چیز وحی کے خلاف ہے، آپ کو اس چیز کااختیار نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارا علم ،یہ ہے ہمارافہم کہ اس مسئلہ کے حل پر ہم واقف نہیں ہیں کہ قرآن کی کونسی آیت سے یہ مسئلہ نکل رہا ہےاب یہ کہنا کہ اس مسئلہ کاحل قرآن میں نہیں،حدیث میں نہیں یہ جملہ قطعاغلط ہےیہ توہمارا علم ہے ،ہمارا فہم ،لیکن ہمارایہ عقیدہ ہے کہ اس مسئلہ کاحل بھی قرآن میںموجود ہے،حدیث میں موجود ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس حل تک نہیں پہنچ سکے۔

جج نے کہاکہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟کونسی آیت ہے؟کونسی حدیث ہے؟امام شافعی رحمہ اللہ کی والدہ نے قرآن مجید کی آیت سنائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:[ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىہُمَا الْاُخْرٰى۝۰ۭ ](البقرہ:۲۸۱)

کہ دوعورتیں گواہی دیں ان میں سے ایک گواہی دی رہی ہو وہ گواہی دینے میں بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلائے۔

استدلال دیکھیں! قرآن مجید کی آیت سے ،امام شافعی کی والدہ نے کہاکہ آپ عورت کو بلائیںگے گواہی کےلئے، وہ گواہی دیگی،اگر گواہی میں بھول گئی تو دوسری توموجود ہی نہیں اس کو یاد دلانے کے لئے۔ اس آیت کی وجہ سے آپ دوعورتوں کو جدانہیں کرسکتے،گواہی دیں گی اور دونوں دیں گی اور اکٹھی دیں گی تاکہ ان میں سے اگر کوئی بھول جائے تودوسری اس کو یاد دلائےکہ معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہے، یہ ہے قرآن مجید اور یہ ہے دین اسلام کہ دین اسلام میں انسان کے متعلق جتنے مسائل ہیں سب کاتذکرہ موجود ہے، اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، ایسے ایسےمسائل کہ انسان سنتا جائے اورحیران ہوتاجائے، ہم نے دیکھا ہم نے خود بھی محسوس کیا،ہمارے اپنے تجربے اور مشاہدے موجود ہیں کہ بعض اوقات اس طرح کے سوال ہوتے ہیں اس طرح کے مسائل پوچھے جاتے ہیں کہ حیران ہوجاتےہیں کہ اس کا حل بھی قرآن اورحدیث سے نکل سکتا ہے؟لیکن جب مطالعہ کرتےہیں، کتابوں کو دیکھتے ہیں،علماء سےرابطہ کرتےہیں،پھر علماء اس مسئلے کا حل بتاتےہیں قرآن کی آیات کے ساتھ اور اللہ کے نبی ﷺ کی احادیث کے ساتھ، اور ایسی آیات اور احادیث جوسینکڑوں بارپڑھی ہوئیں اور سینکڑوں بار سنی ہوئیں لیکن ان سے استدلال کرنا ،یہ کسی کسی عالم کا کام ہے۔

میرے بھائیو! یہ اپنا نظریہ اور منہج اپنائیں کہ تمام مسائل کاحل قرآن اور حدیث میں موجود ہے، ایک اور مسئلہ ہم نے سنا بھی پڑھا بھی کتابوں میں لکھاہوا ہےکہ ایک عورت کی شادی ہوئی شادی کے چھ ماہ بعد اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی، اب جیسےہی ولادت ہوئی توپورے گھرانے میں،پورے خاندان میں پریشانی پھیل گئی، سسرال والے پریشان کہ یہ کیسےممکن ہےکہ شادی کے چھٹے مہینے میں ولادت ہوجائےیہ کیسےممکن ہے،یہ ہو ہی نہیںسکتا،یہاں تک کہ اس عورت کا جوشوہر ہے اس کو غیرت آگئی ،وہ غصے میں آگیا اور اپنی غیرت کامظاہرہ کرنے والاتھا کہ ایک دانشمند آدمی نے اسے سمجھایا کہ آپ کوئی بھی جذباتی قدم نہ اٹھائیں ،آپ کا بھی نقصان ہوسکتا ہے ،عورت کا بھی نقصان ہوسکتا ہے،بچے کابھی نقصان ہوسکتا ہے، پورے خاندان کانقصان ہوگا،آپ اس مسئلے کاحل علماء سے کیوںنہیں پوچھتے،بالآخر اس کو بات سمجھ میں آئی ،اب خود دیکھیں کہ مسئلہ حیران کن ہے ایک عام معاشرے کےلئے مسئلہ واقعتا حیران کن ہےکہ شادی کے چھ مہینے کے بعد بچہ پیداہوجائے۔علماء سے رابطہ کیا گیا ،علماء سے سوالات کیے گئے، ایک عالم دین نے جواب دیاکہ کوئی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بالکل درست ولادت ہوئی ہےاس لیے کہ قرآن مجید میں آیت موجود ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عورت کےحاملہ ہونے سے لیکر بچہ جننے اور بچے کو دودھ پلانے کی پوری مدت بیان کی ہے فرمایا: [وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝۰ۭ ](الاحقاف:۱۵)

عورت حاملہ ہوتی ہے ،تب سے لیکر اوربچے کو جننا اور دودھ پلاناشروع کرنا پھر دودھ کی مدت جب ختم ہو،یہ پوری مدت تیس مہینے ہے۔

قرآن مجید کی ایک اور آیت ہے جس میں دودھ پلانے کی مدت بیان ہوئی (حولین کاملین) پورے دوسال۔دوسال میں کتنے مہینے ہوتے ہیں؟چوبیس۔تیس مہینے میں سے چوبیس نکل جائیں،باقی کتنے بچے؟چھ مہینے۔چھ مہینے حمل کے لئے ہیں، قرآن مجید میں موجود ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے۔ مسئلہ حل ہوا اور قرآن مجید سے ہوا، کتنا مشکل مسئلہ تھا،پیچیدہ مسئلہ تھا، اس طرح کا پیچیدہ اور مشکل مسئلہ بھی اللہ نے وحی کے ذریعے حل کیا، یہ الگ بات ہے کہ کسی مسئلے کےحل کے لئے قرآن اور حدیث پر ہمارا علم نہ پہنچ سکے،ہمارا فہم نہ پہنچ سکےلیکن یہ کہنا قطعا غلط ہے کہ تمام مسائل کا حل قرآن اور حدیث میں نہیں ہے یہ کسی تیسری چیز میں ہے!

قرآن اور حدیث مسائل کے حل کےلیے کسی تیسری چیز کے محتاج نہیں ہیں، یہ اپنانظریہ بنالیں اورمنہج بنالیں خود ا پنی آنکھوں سے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کریں، کتب احادیث کا مطالعہ کریں ،ایسے ایسے مسائل جو آپ کے ذہن کے لیے الجھن بنے ہوئےہونگے قرآن کے ذریعے حل ہونگے، اور حدیث کے ذریعے حل ہونگے، آج کے دور کے مسائل جوپیدا ہی آج ہوں اور اس طرح ہوں کہ ان کاحل بظاہر ناممکن ہو،ان کاحل بھی قرآن میں موجود ہے اور اللہ کے نبی ﷺ کی احادیث میں موجود ہے۔

پچھلےد نوں میں اخبارمیںایک مضمون پڑھ رہا تھا اس میں ایک بڑے پیچیدہ مسئلہ کاذکر تھا،اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے علماء ربانیین پر انہوں نے بڑے پیچیدہ مسائل کو قرآن کے ذریعے حل کیا، اور اللہ کے نبی ﷺکی احادیث کے ذریعے حل کیاعقل دنگ رہ جاتی ہے ان علماء کے استدلال سے،استنباط سے ۔ اس مضمون میں لکھا تھا دو نومولود کے بارے مسئلہ پیدا ،دو عورتوں نے بچوں کو جنم دیا ایک کے ہاں بچی کی ولادت ہوئی اور دوسری عورت کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی،اب جس کے ہاں بچی کی ولادت ہوئی اس نے دعویٰ کردیا کہ میرے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ،بچی کی ولادت نہیں ہوئی، یہ بچہ میرا ہے،یہ بیٹا میرا ہے، اب آپ خود غور فرمائیں!اس دور میں اس طرح کا مسئلہ پیدا ہوجائے علماء کے پاس اس کاکیا حل ہے؟ ہمارا ذہن پہنچتا ہے کہ قرآن میں اس کاحل موجود ہوگا؟ اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان میں اس کا حل موجود ہوگا؟ہمارا ذہن کوئی کام کرتا ہے؟ قطعانہیں کرتا، ہمارے ذہن میں کوئی ایسی آیت یا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں اس مسئلے کا حل موجود ہو؟قطعا نہیں ۔تو پھر کیا یہ نظریہ بنالیں کہ کوئی تیسری چیز ایسی ہے جس میںکچھ مسائل کاحل موجود ہےاور ان مسائل کاحل قرآن وحدیث میں نہیں ہے!قطعانہیں۔ ہمارا ایمان یہ گوارا ہی نہیں کرتا کہ کوئی اس طرح کی بات ہو ،کوئی انسانی ضرورت ہو ،کوئی انسانی حاجت ہو،کوئی انسانی مجبوری ہو،کوئی انسانی پریشانی ہو، کوئی انسانی مشکل ہو اور اس کاحل قرآن میں نہ ہو ،حدیث میں نہ ہوبلکہ لوگوں کی بنائی ہوئی چیز میں ہو،یہ ہو ہی نہیںسکتا۔

علماء سے رابطہ کیا گیا کچھ علماء تو بڑےہی حیران ہوئے اور لاعلمی کا اظہار کیا ،کچھ نے اپنےاپنے طورپر جو بات ذہن میں آئی وہ بیان کی، ایک عالم دین سے رابطہ کیا گیا اس نے قرآن مجید کی آیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کیا وہ کہنے لگے قرآن میں ایک آیت ہے اس کا تعلق اگرچہ میراث سے ہے لیکن اس آیت کواگر ہم گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش کریں اور تحقیق کرنے کی کوشش کریں تو اس آیت میں اس مسئلہ کاحل موجود ہے،کونسی آیت؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

[فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـيَيْنِ۝۰ۭ ](النساء:۱۷۶)

دوعورتوں کے مقابلے میں ایک مرد کو جوحصہ ملتا ہے وہ ڈبل ہوگا، دو عورتوںکےمقابلے میںتعلق کس کے ساتھ ہے میراث کےساتھ استدلال کس مسئلے کے بارے میں ہورہا ہے ؟ذرا غور کریں پھر اس عالم دین نے ساتھ میں یہ بھی وضاحت کی کہ جب اللہ نے دو عورتوں کے مقابلے میں ایک مرد کاحصہ ڈبل رکھا ہےتو پھرآپ جاکرتحقیق کریں ان دونوں عورتوں کے دودھ کو لیباٹری بھیجو میرا یہ ایمان ہے ،میرا یہ یقین ہے کہ جس عورت نے بچے کو جنم دیا ہے اس کے دودھ میں قوت زیادہ ہوگی ،اس عورت کے دودھ کے مقابلے میں جس نے بچی کو جنم دیا ہے۔ میرا قرآن پرایمان ہے،میرا اسلام پر ایمان ہے، میرا اللہ کے نبی ﷺ پر ایمان ہے،میرا ایمان یہ کہتا ہے کہ اس طرح ہوگا جاکرتحقیق کرو، مسئلہ حل ہونے کے قریب جارہا ہے،اسی طرح کیا گیا جب اس کی رپورٹ آئی یقین کریں وہی تھی جو اس عالم دین نے کہی تھی۔اس عورت کے دودھ میں قوت زیادہ تھی جس نے بچے کو جنم دیا تھا اس کے مقابلے میں جس نے بچی کو جنم دیا تھا۔ مسئلہ حل ہوگیا،اب آ پ اندازہ کریں کہ قرآن وحدیث میں کس کس طرح کے مسائل ،کس کس طرح حل کیے گئے ہیںاور ان کا حل موجود ہے، وہی بات جو امام حراثی نے کہی تھی اپنے قول میں جس کاتذکرہ شاہ صاحب رحمہ اللہ نے بدیع التفاسیر میں کیا تھاکہ اللہ نےانسان کےمتعلق تمام مسائل کاحل ذکر کردیا ہے، یانص کے ذریعے بالکل واضح آیات ،واضح احادیث یا پھر اشارہ النص کے ذریعے، دلالت النص کے ذریعےکہ واضح تو کچھ نہیں لیکن آیت یاحدیث میں اشارہ موجود ہےکہ اس مسئلے کاحل یہ ہے، تحقیق تو کریں ،دیکھیں تو سہی، مطالعہ توکریں، پھر دیکھیں قرآن وحدیث کے ذریعے کس کس طرح کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

ایک اور واقعہ اسی طرح کا موجود ہے، مدینہ کا واقعہ ہے امام مالک رحمہ اللہ کے دور کا،ایک عورت دوسری عورت کو غسل دے رہی تھی، غسل دیتے دیتے اس کی زبان سے نکلا یہ عورت پتہ نہیں کتنی بار اپنی عز ت کی حفاظت نہیں کرسکی ہوگی، غسل بھی دے رہی ہے ساتھ میں یہ جملہ بھی! جیسے ہی اس کی زبان سے جملہ نکلا،اس عورت کا ہاتھ اس میت (عورت)کے جسم کے ساتھ چپک گیا اب وہ پوری کوشش کررہی ہے، توانائی صرف کررہی ہے اس کے جسم سے وہ ہاتھ الگ نہیں ہورہا، بڑا پیچیدہ مسئلہ پیداہوگیا،لوگ پریشان ہیں،مردوں تک بات پہنچی، سب پریشان ہیں کہ اب کیا کیاجائےاس مسئلے کاحل کیا ہے؟ بالآخر لوگوںنے مشورہ کیا کہ ہمارے درمیان امام دار الھجرۃموجود ہیں ،امام مالک رحمہ اللہ کیوں نہ یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھاجائے جاکرپورامسئلہ سنایا، مالک رحمہ اللہ نے دیر ہی نہیں لگائی فرمانے لگے اس عورت  نے فوت شدہ عورت پر تہمت لگائی ہے اور قرآن مجید میں موجود ہے کہ جو کسی دوسرے پر تہمت لگائے اسے اسی کوڑے لگاؤ،جاؤ اس کے اوپرحدنافذ کرو،اسے اسی کوڑے لگیں گے اس کا ہاتھ اس کے جسم سے الگ ہوجائے گا، اندازہ کریں!پورے علاقے والے پریشان ہیںکہ مسئلہ حل نہیں ہورہا، لیکن ایک عالم دین نے اس مسئلہ کو حل کیا قرآن مجید کے ذریعے ،وہ لوگ گئے واقعتا کوڑے مارنا شروع کیے جب آخری کوڑا اس کی پشت پر لگا فورا اس کاہاتھ اس کی پشت سے الگ ہوگیا! کیاسے کیا پیچیدہ مسئلہ، مشکل ترین معاملہ ہو لیکن ہر مسئلے کا حل قرآن میں بھی موجود ہےاور اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان میں بھی موجود ہے،لوگ بولتے ہیں کہ کہاں ہے قرآن اور حدیث میں بھینس حلال ہے؟ذرا آپ خود دیکھیں سوچیں یہ بھلا ممکن ہے کہ وہ بھینس جس کا انسان گوشت کھاتے ہیں ،جس کا دودھ پیتے ہیں،بھلا قرآن وحدیث میں اس کے حلال ہونے کا تذکرہ نہیںہوگا یہ بھلاہوسکتاہے؟بلکہ اس طرح کے جملے کسے جائیں کہ یہ ہمارے امام کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں بھینس حلال کرکے دی ہے۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ

اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین اسلام محمد رسول اللہﷺ پر مکمل نہیں، تمہارے امام پر ہوا ہے!اتناجومفیدجانور ہے،اس کی حلت کاتذکرہ قرآن میں بھی نہیں اور حدیث میں بھی نہیں، ایسا کیسے ممکن ہے اٹھا کر دیکھ لیں سورہ مائدہ !اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

[اُحِلَّتْ لَكُمْ بَہِيْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ]

(المائدۃ:۱)

کہ تمہارے لیے چوپائے جانور حلال کردیے گئے ہیںہاں وہ چوپائے جانور تمہارے اوپرحرام ہیں جن کی تلاوت کی جا ئے گی ،سورہ مائدہ کی پہلی آیت دیکھ لیں پھر تیسری آیت میں ان جانوروں کا تذکرہ کیا جوجانور اللہ نے حرام قرار دیئے ہیں اور ان جانوروں میں بھینس کا تذکرہ نہیں ہے۔قرآن مجید کی ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ بھینس حلال ہے تو بھینس کی حلت قرآن مجید میں موجود ہے۔ پہلی آیت میں کہا کہ چو پائے تمہارے لیے حلال ہیں مگر جو تمہارے اوپر پڑھے جائیں گے یعنی :آگے آیت آرہی ہے اس میں جن جانوروں کاذکر ہے وہ حرام ہیں اس آیت کو اٹھا کر دیکھ لیں! سورہ مائدہ کی تیسری آیت جس میں حرام جانوروں کا ذکر ہے جس میں بھینس کا کہیں بھی تذکرہ نہیںتو یہ قرآن میں موجود ہے کہ بھینس حلال ہے ،لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے امام کااحسان ہے !!!لاحول ولاقوۃ الاباللہ

توگفتگوکاخلاصہ میرے بھائیو!یہ ہے کہ ہمارے انسانوں کے متعلق جتنے بھی مسائل ہیں ان تمام کاحل قرآن میں موجود ہے اور حدیث میں موجودہے یہ اپنا منہج اور نظریہ بنالیں اور اس منہج اور اس نظریے کاتقاضہ یہ ہے کہ ہم سب قرآن وحدیث سے تعلق جوڑ لیں اوران کا مطالعہ کریں، ہمارے گھروں میںقرآن کی تفسیر ہو،کتب احادیث،صحیح بخاری ،صحیح مسلم، ترجمے کے ساتھ ہونی چاہئیں تاکہ ہم ان کا مطالعہ کیے جارہے ہوں اور اپنے علم میں اضافہ کرتے جارہے ہوں، اور ہمارے گھر والے، ہماری اولاد ان کے پاس بھی جب حدیث کی کتابیں، قرن مجید ترجمے کے ساتھ موجود ہونگی وہ بھی پڑھیں گے اور اپنے مسائل حل کریں گے، اللہ تعالیٰ سےد عا ہے قرآن وحدیث کی ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے، اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسرےلوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطافرمائے۔وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

بیٹیوں کامقام اور رشتے میں دین داری کی اہمیت

کاوش:شیخ عبداللہ محمدی (مدرس مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ساماروموری) خطبہ مسنونہ کے بعد! حدیث کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے