اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72

عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: "لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدعوَاهُمْ لادَّعَى رِجَالٌ أَمْوَال قَومٍ وَدِمَاءهُمْ، وَلَكِنِ البَينَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمينُ عَلَى مَن أَنكَر” حديث حسن رواه البيهقي هكذا وبعضه في الصحيحين.

ترجمہ:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر لوگوں کو محض ان کے دعووں پر دینا شروع کردیا جائےتو بہت سے لوگ،دوسرےلوگوںکے اموال اور خون کے تعلق سے ناجائز دعوے کرکے ان کے مال ہتھیانے کی کوشش کرنے لگیں گے،لیکن (تنازعات میں )مدعی کے ذمہ دلیل پیش کرنا ہے اور مدعیٰ علیہ کے ذمہ قسم کھاناہے۔یہ حدیث حسن درجے کی ہے،اسے امام بیہقی نے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے،اور اس کا کچھ حصہ بخاری اور مسلم میں موجود ہے۔

واضح ہو کہ وہ حصہ ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:(ولکن الیمین علی المدعی علیہ)یعنی: مدعیٰ علیہ پر قسم ہے۔

(صحیح بخاری:4552صحیح مسلم:1711)

صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  ہی سے اس طرح مروی ہے:(ان النبی ﷺ قضی أن الیمین علی المدعی علیہ) یعنی: رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایاہے کہ مدعیٰ علیہ کے ذمہ قسم کھاناہے۔

ان دونوں روایتوں میں مدعی کی (بینۃ) کا ذکرنہیںہے،البتہ صحیحین ہی کی ایک حدیث میں ہے :أشعث بن قیس  رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں: میرےاور ایک دوسرے شخص کے درمیان،ایک کنوئیں کے بارے میں خصومت تھی،ہم نے یہ قضیہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا،آپﷺ نے فرمایا: (شاھداک أو یمینہ) یعنی: یا تو تم (بطور بینۃ) دوگواہ پیش کرویا پھر وہ قسم کھائے گا،میں نے عرض کیا: وہ تو قسم کھاجائے گااور اسے کوئی پرواہ بھی نہ ہوگی ؟

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: (من حلف علی یمین یستحق بھا مالاًھو فیھا فاجر ،لقی اللہ وھو علیہ غضبان) یعنی:جس نے جھوٹی قسم سے کسی کا مال ناجائز ہتھیالیا،کل وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملےگا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا،اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق نازل فرمادی:

[اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا ….](آل عمران:۷۷)

امام ابن المنذر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اہل علم کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ (خصومات اور تنازعات )میں مدعی کے ذمہ دلیل پیش کرنا ہے اور مدعیٰ علیہ کے ذمہ قسم کھاناہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ مدعی دلیل پیش کرکے اپنے پیش کردہ دعویٰ کاوجوباً مستحق بن جائے گا اور مدعیٰ علیہ قسم کھا کر مدعی کے دعویٰ سے وجوباًبری ہوجائے گا۔

واضح ہو کہ یہ حدیث اصولِ احکام میں ایک عظیم اصل پر قائم ہے اور خصومات وتنازعات کے باب میں اس حدیث کو ایک بنیادی مرجع کی حیثیت حاصل ہے، ہمارے نظامِ قضاء کی بہت حد تک بہتری اور آسانی،اسی حدیث پر عمل کے ذریعہ ممکن ہوسکتی ہے،چنانچہ ضروری ہے کہ ہر جج اور قاضی اسے ایک عظیم قاعدہ کے طور پر قبول کرلے۔

چنانچہ ہرخصومت میں دوہی فریق ہوتے ہیں:ایک مدعی اور دوسرا مدعیٰ علیہ۔

مدعی وہ شخص ہے جو کسی دوسرے شخص سے کسی شیٔ کی طلب کا دعویدار ہو،جبکہ مدعیٰ علیہ وہ شخص ہے جو مدعی کے دعویٰ کا انکار کرے، اسے اصطلاحاً منکر بھی کہاجاتاہے۔

عدالتوں میں اگر ظلم وبربریت اور رشوت ستانی کابازار گرم نہ ہو، اور پہلے سے طے نہ کرلیاگیاہوکہ فیصلہ کس کے حق میں کرنا ہےاور صرف تقویٰ اور عدل وانصاف کے قیام کا رواج ہواورخشیت الٰہی بدرجہ اتم موجود ہو تو خصومتوں میں سماعت کے تعلق سے شرعی ہدایت یہ ہے کہ قاضی یہ معلوم کرے کہ فریقین میں مدعی کون ہے اور مدعیٰ علیہ کون؟

اس تعین کے بعد مدعی سے بات کاآغاز کرےا ور اس سے اس کادعویٰ معلوم کرے،پھر مدعیٰ علیہ کی طرف متوجہ ہواور اس سے پوچھے کہ کیا تم مدعی کے دعویٰ کو تسلیم کرتے ہو؟اگر وہ تسلیم اور اقرار کرلے تو خصومت وہیں ختم ہوجائے گی اور فیصلہ مدعی کے حق میں ہوجائےگا۔

اگر مدعیٰ علیہ،مدعی کے دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ انکار کرتا ہےتو قاضی دوبارہ مدعی کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے اس کے دعویٰ کی دلیل طلب کرے گا؛کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:(البینۃ علی المدعی) یعنی:دلیل پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے۔

اگر مدعی کی دلیل کافی وشافی ہو اور قاضی کو مطمئن کردے تو بھی مدعی کے حق میں فیصلہ صادر ہوجائے گا،اور اگر مدعی کہے کہ میرے پاس کوئی دلیل نہیں ،یا وہ دلیل پیش کرنے سے قاصرہو یا ایسی دلیل پیش کردے جو قاضی کو مطمئن نہ کرسکے تو پھر قاضی مدعیٰ علیہ کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے قسم لے گا ؛کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:(والیمین علی من أنکر) یعنی:مدعیٰ علیہ (منکر)کے ذمہ قسم کھاناہے۔

اگر مدعیٰ علیہ قسم کھانے سے انکار کردے تو بھی فیصلہ مدعی کے حق میں صادر ہوجائے گا،اور اگر مدعی علیہ نے قسم کھالی تو ا س کے حق میں فیصلہ صادر ہوگا ؛کیونکہ خصومتوں میں قسم کا معاملہ ،دلیل کے معاملہ سے زیادہ مضبوط اور مؤکد ہوتا ہےاورخصومتوںمیں تصفیہ کے لئے مدعیٰ علیہ  کی قسم آخری مرحلہ متصور ہوگی،جس کے بعد قاضی مدعیٰ علیہ کے حق میں فیصلہ جاری کردے گا۔

مدعی علیہ قسم طلب کرنے پر جیسی بھی قسم کھالےوہ قابل قبول ہونی چاہئے ،جھوٹی قسم کھانے پر وہ قیامت کے دن جس شدید وعید کا سامنا کرےگااس کاذکر گذشتہ سطور میں ہوچکاہے،بلکہ جھوٹی قسم کھالینے پر دنیا کی رسوائیوںاورعذابوں کی پکڑ میںبھی آسکتاہے۔

واضح ہو کہ (البینۃ) سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حق کو واضح اور ثابت کردے،جس کے لئے عام طور پہ گواہ ہی پیش ہوتے ہیں،بعض اوقات صحیح قرائن بھی (بینۃ) بن سکتے ہیں،جیسا کہ سیدنایوسف علیہ السلام   کے قصہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے،وہ قصہ ہم ذیل کی سطور میں پڑھ لیتے ہیں:

[وَرَاوَدَتْہُ الَّتِيْ ہُوَفِيْ بَيْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَيْتَ لَكَ۝۰ۭ قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳ وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ۝۰ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ۝۰ۭ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ۝۰ۭ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ۝۲۴ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝۰ۭ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَہْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۲۵ قَالَ ہِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا۝۰ۚ اِنْ كَانَ قَمِيْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝۲۶ وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَہُوَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۲۷ فَلَمَّا رَاٰ قَمِيْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ كَيْدِكُنَّ۝۰ۭ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ۝۲۸ يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۝۰۫ وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ۝۰ۚۖ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ۝۲۹ۧ] (یوسف:۲۳تا۲۹)

ترجمہ:اور اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ تھا، اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔ اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔اور بلاشبہ یقینا وہ اس کے ساتھ ارادہ کرچکی تھی اور وہ بھی اس عورت کے ساتھ ارادہ کرلیتا اگر یہ نہ ہوتا کہ اس نے اپنے رب کی دلیل دیکھ لی۔ اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں۔ بے شک وہ ہمارے خالص کیے ہوئے بندوں سے تھا۔اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے اس کی قمیص پیچھے سے پھاڑ دی اور دونوں نے اس کے خاوند کو دروازے کے پاس پایا، اس عورت نے کہا کیا جزا ہے اس کی جس نے تیری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، سوائے اس کے کہ اسے قید کیا جائے، یا دردناک سزا ہو۔اس (یوسف) نے کہا اسی نے مجھے میرے نفس سے پھسلایا ہے اور اس عورت کے گھر والوں سے ایک گواہ نے گواہی دی اگر اس کی قمیص آگے سے پھاڑی گئی ہو تو عورت نے سچ کہا اور یہ جھوٹوں سے ہے۔اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھاڑی گئی ہو تو عورت نے جھوٹ کہا اور یہ سچوں سے ہے۔تو جب اس نے اس کی قمیص دیکھی کہ پیچھے سے پھاڑی گئی ہے تو اس نے کہا یقینا یہ تم عورتوں کے فریب سے ہے، بے شک تم عورتوں کا فریب بہت بڑا ہے۔یوسف! اس معاملے سے درگزر کر اور (اے عورت!) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، یقینا تو ہی خطا کاروں سے تھی۔

 اس قصہ میں شاہد کی شہادت مشاہدہ کی بجائے قرائن وحقائق پر مبنی تھی ،جسے قابل قبول قرار دیاگیا،اللہ رب العزت نے بھی اس شہادت کو محفوظ رکھا اور اپنی آخری کتاب کےلئے اسے اپنی وحی بنادیا۔

اس کے علاوہ ظاہری قرائن کی روشنی میں سیدنا سلیمان علیہ السلام   کا دو عورتوں کے بیج فیصلہ صادر فرمانے کاقصہ بھی بطور استشہاد پیش کیا جاسکتا ہے،وہ فیصلہ بھی ایسی (بینۃ) پر صادر ہواتھا جس میں شہادت کی بجائے ظاہری قرائن کودیکھاگیاتھا۔

سماحۃ الشیخ عبدالمحسن حمدالعباد  حفظہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ایک بڑا اہم نکتہ بیان فرماتے ہیں:

جس طرح دنیوی امور میں (بینۃ) یعنی دلیل پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے،اسی طرح دینی اور اخروی امور کے تعلق سے بھی کسی مدعی کا کوئی دعویٰ دلیل کے بغیر معتبر نہیں ہوگا،چنانچہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا دعویدارہوتو اس سے اس دعویٰ کی سچائی ثابت کرنے کے لئے (بینۃ) یعنی دلیل طلب کی جائے گی،اور وہ دلیل رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

[قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ ]

(آل عمران:۳۱)

ترجمہ:کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:یہ آیت کریمہ ہر اس شخص پر بطورِ حاکم وفیصل قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویدار ہے،اگر وہ طریقۂ محمدیہ ﷺ پر قائم نہیں تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے،اس دعویٰ کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام اقوال وافعال میں شرعِ محمدی اور دینِ نبویﷺ کو اختیار کرلے،جیساکہ ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:(من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد)یعنی:جس شخص نے کوئی ایسا کام کرلیا جس پر ہماری مہرِ تصدیق نہ ہو تو وہ مردود ہے،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:[قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ ]یعنی:اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے دعویدار ہو تو میری اتباع کرلو،اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔

مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کی اتباع کے نتیجہ میں تمہیں تمہاری طلب سے بڑھ کر عطاہوگا،تمہاری طلب تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے دعویٰ تک محدود تھی ،مگررسول اللہ ﷺ کی پیروی کے نتیجے میں تمہیں اس سے بڑی خوشخبری حاصل ہوجائے گی اور وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوجاؤگے۔

بعض علماء اورحکماء کا کہنا ہے :محبت کے تعلق سے اصل شان یہ نہیں کہ تم محبت کرنے لگوبلکہ اصل شان یہ ہے کہ تم سے محبت کی جانے لگے ۔

حسن بصری  رحمہ اللہ اور دیگر علماءِ سلف فرمایاکرتے تھے:کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرڈالا،اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آیت کریمہ کے ذریعے آزمائش میں ڈال دیا۔

(فتح القوی المتین:186.185)

واضح ہو کہ حدیث مبارک میں مال اور خون کے تعلق سے خصومتوں کا ذکر علی سبیل الحصر نہیں ،بلکہ علی سبیل المثال ہے ،چنانچہ ایسے بہت سے تنازعات عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں جن کا تعلق مال یا خون سے نہیں ہوتا ،مثلاً: شوہراوربیوی،یاباپ اور بیٹوں یا پڑوسیوں وغیرہ کے آپس کے تنازعات وغیرہ۔

یہ حدیث مبارک شریعت مطہرہ کی عظمت وفضیلت کی بھی بڑی محکم اور روشن دلیل ہے،چنانچہ ہماری شریعت کس طرح لوگوں کے جان ومال کی محافظ ہےاور کیسے کیسے اصول وقواعد وضع فرمادیئے کہ جن پر عمل پیرا ہونے سے لوگوں کو ان کی جانوںاور مالوں کا تحفظ حاصل ہوجائے،نیز کامیاب نظامِ قضاء کے لئے کیسا سنہری قاعدہ بیان کردیاگیا، اللہ تعالیٰ اس پوری شریعت مطہرہ پر عمل کی اور معاشرے پر مکمل تنفیذ کی توفیق عطافرمائے۔

(جاری ہے)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

جماعت حقہ اور اس کا منہج

کاوش : ابوعمران عبدالمالک ساہڑ خطبہ مسنونہ کے بعد: اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے