Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جولائی » اربعینِ نووی (حدیث نمبر:30 ،قسط نمبر 69)

اربعینِ نووی (حدیث نمبر:30 ،قسط نمبر 69)

عَنْ أَبِيْ ثَعْلَبَةَ الخُشَنِيِّ جُرثُومِ بنِ نَاشِرٍ رضي الله عنه عَن رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: (إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلا تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ حُدُودَاً فَلا تَعْتَدُوهَا وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلا تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً لَكُمْ غَيْرَ نِسْيَانٍ فَلا تَبْحَثُوا عَنْهَا) ( أخرجه الدارقطني – 4/185)

ترجمہ:سیدناابوثعلبہ الخشنی جرثوم بن ناشر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ امور فرض قرار دیئے ہیں،پس انہیں ضایع نہ کرنا،اور کچھ امور کی حد بندی فرمادی ہے، پس اس سے تجاوز اختیار نہ کرنا،اور کچھ اشیاءکو حرام قرار دیا ہے،پس انہیں پامال نہ کرنا،اور کچھ اشیاء سے خاموشی اختیار فرمائی ہے،بھول کرنہیں،بلکہ تمہارے ساتھ رحمت کا برتاؤکرتے ہوئے،پس انہیں کریدنے کی کوشش نہ کرنا۔

اس حدیث کے راوی ابوثعلبہ الخشنی  رضی اللہ عنہ ہیں،جن کا نام جرثوم بن ناشربتایاگیاہے،ان کے نام کے بارے میں کچھ مزید اقوال بھی وارد ہیں،لیکن یہ اپنی کنیت کےساتھ معروف ہیں،بیعت الرضوان میں شریک تھےاور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی تھی،رسول اللہ ﷺ نے انہیں غنائمِ خیبر کا حصہ بھی دیاتھا،انہیں رسول اللہ ﷺ نے ان کی قوم کی طرف،اسلام کی دعوت دینے کے لئے بھیجا تھا، انہوں نے جاکر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی اور پوری قوم نے اسلام قبول کرلیا، عمر کے آخری حصہ میںشام میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں وفات پائی۔رضی اللہ عنہ وأرضاہ.

اس حدیث کی سند میں انقطاع پایاجاتاہے،لیکن حافظ ابن رجب  رحمہ اللہ نے اس کا ایک شاہد ذکرفرمایاہے، جس سے حدیث کی تقویت حاصل ہوگئی،اس شاہد کو امام حاکم نے صحیح الاسناد کہاہےاور امام بزار نے فرمایا ہے:اسنادہ صالح.

حدیث الباب کو امام نووی اور سمعانی نے حسن کہا ہے۔

حافظ ابن رجب  رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع العلوم والحکم میں اس حدیث پر بڑا جامع تبصرہ فرمایاہے،جس کاترجمہ پیش خدمت ہے:

حدیث ابوثعلبہ میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکا م کو چار قسموں میں تقسیم فرمایاہے1فرائض2محرمات3حدود 4مسکوت عنہ (یعنی ایسے امورجن سے خاموشی اختیار فرمائی)یہ چاروں امور دین کے تمام احکام کو جامع ہیں،ابوبکرابن السمعانی فرماتے ہیں:یہ حدیث دین کا بہت بڑا اصل ہے،مزید فرماتے ہیں: کچھ علماء کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے پورے ذخیرۂ حدیث میں اس حدیث سے بڑھ کر تمام اصول وفروع کو سمیٹنے والی اور کوئی حدیث نہیں۔واثلہ المزنی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں پورے دین کو چار کلمات میں سمیٹ دیا ہے۔

ابن السمعانی مزید فرماتےہیں: جو شخص اس حدیث پر عمل کرنے میں کامیاب ہوگیا اس نے مکمل ثواب کمالیااور وہ ہر قسم کے عذاب سے امن میں آگیا؛کیونکہ جس شخص نے فرائض ادا کرلئے،محرمات سے بچاؤ اختیار کرلیا،حدود اللہ پر توقف اپنالیااور جوچیزیں مسکوت عنہ ہیں انہیں کبھی کریدنے کی کوشش نہ کی،تو اس نے فضیلت کی تمام راہوں کا پوری طرح احاطہ کرلیا،اور دین کے جملہ حقوق ادا کرنےمیں کامیاب ہوگیا،چنانچہ شریعت کے تمام مسائل ان چاروں اقسام کے اندر موجود ہیں اور کوئی مسئلہ ان سے باہر نہیں۔(جامع العلوم والحکم2/152,153)

پہلی قسم:اِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلا تُضَيِّعُوهَا.

بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ امور فرض قرار دیئے ہیں،پس انہیں ضایع نہ کرنا۔

فرائض سے مراد وہ امور ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لازماً، حتماً وقطعاً واجب قرار دیا ہے، جیسے:نماز،زکوٰۃ،روزے اور حج وغیرہ۔ان تمام اعمال کو اختیار کرنا فرض ہے،اور چھوڑ دینا ضایع کرنے کے مترادف ہے،ضایع کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان اعمال کو خلافِ سنت ادا کیاجائے،کماقال اللہ تعالیٰ:[يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ۝۳۳ ]

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔(محمد:۳۳)

اسی طرح ضایع کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان اعمال کی انجام دہی میں اخلاص کی حفاظت کا اہتمام نہ کیاجائے۔کماقال اللہ تعالیٰ: [وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ ](البینۃ:۵)

ترجمہ:انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر ۔

دوسری قسم:وَحَدَّ حُدُودَاً فَلا تَعْتَدُوهَا.

اور کچھ امور کی حد بندی فرمادی ہے، پس اس سے تجاوز اختیار نہ کرنا۔

واضح ہو کہ حد کا لغوی معنی منع ہے،جیسے زمینوں کی حد بندی ہوتی ہے،جس کا معنی یہ ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کی زمین میں گھس جانامنع ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حدود میںکچھ امور کا تعلق واجبات سے ہے اور کچھ کا تعلق محرمات سے ہے،جو امور واجب ہیں ان میں تعدی یاتجاوز اختیار نہ کیاجائےاور جو امور حرام ہیں ان کے قریب بھی نہ پھٹکا جائے۔

بعض علماء نےحدود سے مراد وہ امور لئے ہیں جن پر شرعی سزاؤں کا ذکر ہے،مثلاً:زنا کی حد،چوری کی حداورشراب نوشی کی حد وغیرہ،لیکن پہلا معنی زیادہ شمول او ر وسعت رکھتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی حد کی ایک مثال آیاتِ میراث ہیں،میراث کے حصوںکی تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے حدود اللہ کہا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ میراث کے یہ حصے تقسیم کرنا فرض ہے،نیز تقسیم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ حصوں کی مخالفت حرام اور ناجائز ہے۔

اللہ رب العزت نے میراث کے حصے مقرر فرمانے کےبعد ارشاد فرمایا ہے:[تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۝۰ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۳ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا۝۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۱۴ۧ ]

(النساء:۱۴،۱۵)

ترجمہ:یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے ۔

 ان آیاتِ کریمہ کے مضمون سے بصراحت یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کا احترام کرنے والوں کے لئے جنت کی نوید ہے اور انہیں پامال کرنے والوں کے لئے جہنم کی وعید۔

تیسری قسم: وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلا تَنْتَهِكُوهَا.

اور کچھ اشیاءکو حرام قرار دیا ہے،پس انہیں پامال نہ کرو۔

دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:

(مانھیتکم عنہ  فاجتنبوہ)

یعنی:میں نے جس چیز سے منع کردیاہے اس سے اجتناب برتو۔

اس سے ثابت ہوا کہ جن چیزوں کو شریعتِ مطہرہ نے حرام قرار دیا ہے ان کا ارتکاب یکسر ناجائز اورحرام ہے،کسی چیز کے حرام ہونے کا اثبات یا تو نہی کے صیغہ سے ہوگا،مثلا:

[وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ الآیۃ]

اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو۔(بنی اسرائیل:۳۱)

[وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭالآیۃ]

خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بےحیائی ہے ۔

(بنی اسرائیل:۳۲)

[وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝ الآیۃ](بنی اسرائیل:۳۳)

اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے۔

[وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ]

اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔(بنی اسرائیل:۳۴)

یا پھر حرام یا تحریم کے لفظ کی صراحت کے ساتھ کسی چیز کی حرمت بیان ہوتی ہے،مثلا:

[حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہ](المائدۃ:۳)

ترجمہ:تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ۔

اور اگر کسی کام پر وعیدشدید وارد ہو یا لعنت وغیرہ کا لفظ مستعمل ہوتو وہ بھی اس کام کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔

[وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۱۱۶]

ترجمہ:اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والابہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔(النساء:۱۱۶)

[وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِيْمًا۝۹۳] (النساء:۹۳)

ترجمہ:اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔

واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور میں سے کسی ایک امر کا ارتکاب کرنا،اللہ تعالیٰ کی غیرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے،جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:(إن اللہ یغار وإن العبد یغار وغیرۃ اللہ أن یأتی العبد ماحرم علیہ ربہ)

یعنی:اللہ تعالیٰ کو بھی غیرت آتی ہے اور بندے کو بھی ۔اور اللہ تعالیٰ کو اس وقت غیرت آتی ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کسی گناہ کا ارتکاب کرلے۔(واللہ المستعان)

چوتھی قسم:وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً لَكُمْ غَيْرَ نِسْيَانٍ فَلا تَبْحَثُوا عَنْهَا)

اور کچھ اشیاء سے خاموشی اختیار فرمائی ہے،بھول کرنہیں،بلکہ تمہارے ساتھ رحمت کا برتاؤکرتے ہوئے،پس انہیں کریدنے کی کوشش نہ کرو۔

اس کا معنی یہ ہے کہ بہت سے ایسے امور ہیں جن کے بارے میں شرعاً کوئی نص وارد نہیں،نہ وجوب کے حوالے سے اور نہ حرمت کے حوالے سے،ایسے امور کے بارے میں شرعی ادب یہ ہے کہ انہیں کریدنے کی اور تکلف میں مبتلا ہونے کی ہرگز کوشش نہ کی جائے، اس کی مثال نبی ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں آپﷺ نے فریضۂ حج کا اعلان کیااور فرمایا:(إن اللہ فرض علیکم الحج فحجوا) یعنی:اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے،پس حج کرو۔

آپﷺ کے اس فرمان کے ظاہر سے واضح ہورہا ہے کہ زندگی میں ایک ہی بار حج کرنا کفایت کرجائے گا۔

لیکن ایک شخص نے سوال کیا:(أفی کل عام؟) یعنی: کیا ہرسال ؟ رسول اللہ ﷺ نے اس کے سوال سے صرفِ نظر فرمایا،اس نے پھر سوال دہرادیا،آپ نے پھر جواب نہ دیا،جب اس نے تیسری بار وہی سوال دہرایا توآپﷺ نے ارشاد فرمایا:(لو قلت نعم لوجبت ولو وجبت لما استطعتم)یعنی:اس وقت اگر میں صرف لفظِ ’’ہاں‘‘کہہ دوں تو پوری امت پر تاقیامِ قیامت ہرسال حج کرنا فرض ہوجائے گااور پھر تم اس کی طاقت نہ پاؤگے۔

لہذا شرعی ادب یہی ہے کہ جس مسئلے میں شریعت خاموشی اختیار کرے اسے کریدنے کی کوشش نہ کی جائے،یہ ایک خطرناک تکلف قرار پائے گا،اور لوگ مشکلات کا شکار ہونگے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

[يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْہَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ۝۰ۭ عَفَا اللہُ عَنْہَا۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۱۰۱]

ترجمہ:اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ﻇظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہٴ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ﻇظاہر کردی جائیں گی سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کردیئے اور اللہ بڑی مغفرت والابڑے حلم والاہے۔ (المائدہ:۱۰۱)

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مسکوت عنہ وہ امور ہیں جن کےبارے میں تحلیل، تحریم یا وجوب کا کوئی حکم وارد نہ ہو،وہ کام معافی شدہ ہیں،جن کے کر لینے کا کوئی حرج نہیں ہوتا۔

واضح ہو کہ حدیث کے اس آخری حصے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات وارد ہوئی ہیں:

1اللہ تعالیٰ کا سکوت فرمانا،جیسے اللہ تعالیٰ صفتِ کلام سے متصف ہے،اسی طرح صفتِ سکوت سے بھی متصف ہے،کلام فرمانا یا سکوت اختیار کرنا یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ اختیاریہ ہیں،صفاتِ لازمہ نہیں ہیں،چنانچہ وہ ذات جب چاہے کلام فرمالے اور جب چاہے سکوت فرمالے۔

صفاتِ لازمہ کی مثال،اللہ تعالیٰ کا علم،قدرت،حیات، سمع یا بصر وغیرہ ہے۔

2اسی طرح اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کا ذکر ہے، جس پر ہمارا ایمان ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے،رحیم ہے، ارحم الراحمین ہے،بندوں کے ساتھ اس کی رحمت، ماؤں کی رحمت سے زیادہ ہے،ہم اشاعرہ کی طرح صفتِ رحمت میں تاویل کے قائل نہیں ہیں،جوکہتے ہیں کہ رحمت سے مراد ارادۂ انعام ہے،ارادہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک مستقل صفت ہے :[فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ۝۱۶ۭ ](البروج:۱۶)

ترجمہ:جو ارادہ فرمالے اسے کر گزرنے والاہے ۔

ان کی اس تاویل کا محرک ایک ایسا شبہ ہے جس کی قرآن حکیم نے مستقلاً نفی فرمادی ہے،وہ کہتے ہیں کہ رحمت کا مادہ مخلوقات کے اندر پایا جاتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ کی ذات میں صفتِ رحمت کا اثبات تشبیہ کو مستلزم ہے،حالانکہ یہ ایک قطعی باطل شبہ ہے ؛کیونکہ قرآن نے :[لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ۝۰ۚ ](شوریٰ:۱۱)اس جیسی کوئی چیز نہیں۔فرماکر ہر قسم کی تشبیہ کے محذور کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے،اس آیتِ کریمہ کی موجودگی میں کسی قسم کی تشبیہ کا شبہ پیدا کرنا ظاہرِ قرآن کے خلاف ہے۔

3حدیث کے اس آخری ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفتِ سلبیہ کا بیان بھی ہے،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کےفرمان:(غیر نسیان)سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قطعاً بھولنے والانہیں ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:[وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا۝۶۴ۚ]

ترجمہ:تیرا پروردگار بھولنے والانہیں ۔(مریم:۶۴)

بھول جاناتوبہت بڑا نقص اور عیب شمار ہوتا ہے،جبکہ اللہ رب العزت ہرنقص سے پاک ہے ،’’سبحان اللہ‘‘ کا ذکر اسی معنی کی ترجمانی کرتا ہے،اس عظیم الشان ذکرکو رسول اللہ ﷺ نے آدھا میزان قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے