احکام ومسائل

مسئلہ وراثت

سوال : محترم جناب مفتی صاحب!

میرے والد محترم 29نومبر2019ء کوقضائے الٰہی سےوفات پاگئے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ ان کی میراث شرعی طریقے کے مطابق تقسیم کی جائے،ورثاء میںان کے والد،والدہ، 3بھائی، 5بہنیں، 4بیٹے اور 4بیٹیاں ہیں ان کی جائیداد غیرمنقولہ میں2مکان ہیں تقریباً: 150,000نقد اور پینشن ہوگی۔

جواب :

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

 سائل نے اپنے والد کی میراث کا شرعی حل معلوم کیا ہے، اس حوالے سے تفصیل درج ذیل ہے:

مرحوم کےاصل ورثاء ان کے والدین ،بیوہ اور اولاد ہیں۔یعنی مرحوم کے بھائی ،بہنوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہے، وراثت میں والدین کا حصہ۔

 بحکم فرمان باری تعالیٰ :[وَلِاَبَوَيْہِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ]

یعنی: والدین میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے۔(النساء:۱۱)

جبکہ بیوہ کاحصہ :[فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ ](النساء:۱۲)

یعنی: تمہاری اولاد کی موجودگی میں بیویوں کاحصہ آٹھواں ہے۔

جبکہ بیٹے اور بیٹی کاتعلق سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:[يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ۝۰ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ](النساء:ـ۱۱)

یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیداً حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے تعلق سے کہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی نسبت دوگناہے۔

لہذا سورۂ نساء کی روشنی میں مذکورہ وضاحت کے بعد، وراثت کو تقسیم کرنے کے لئے آسان ضابطہ یہ ہے کہ مرحوم کے ترکہ کو 24حصوں میں تقسیم کرلیاجائے۔

جس کی تفصیل اس طرح ہوگی:

چار حصے والد کے لئے۔

چار حصے والدہ کے لئے۔

تین حصے مرحوم کی بیوہ کے لئے۔

بقیہ 13حصے اس طرح تقسیم ہوں کہ بھائی کاحصہ بہن کی نسبت دوگناہو،مثلا:150000میں سے

والد کاحصہ 25,000

والدہ کا حصہ 25,000

بیوہ کاحصہ18,750

ہر ایک بیٹے کے حصے میں 13,500

جبکہ ہر ایک بیٹی کو 6,750ملیں گے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

چند ہ برائے مسجد اوراس کامصرف

سوال : محترم جناب مفتی صاحب!

اگرکوئی شخص مسجد کےلئے چندہ اکٹھا کرتا ہے تو وہ اس میں سے کتنا فیصد اپنے یابیوی بچوں پرخرچ کرسکتاہے؛جبکہ اس کا کوئی ذریعہ معاش نہ ہو۔

اگرمسجدمیں25000روپے چندہ ماہانہ اکٹھا ہواور وہ ساری رقم اپنے بیوی بچوںپرخرچ کردے توشریعت میں اس کاکیاحکم ہے۔

جواب :

الجواب بعون الوہاب

 صورت مسئولہ میں بر صحت سوال

اگر کوئی شخص مسجدکے نام پرچندہ کرتاہےاورپھر وہ اس میں سے مسجد کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنی جائز ضروریات بھی پوری کرتاہے تویہ اسکےلئےجائز ہےاورحلال ہے۔

باقی وہ جمع شدہ چندے میںسے کتنا رکھ سکتاہے؟تو اسکو مسجد کمیٹی یاجونگران ہے وہ اسکی جائز ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئےمقرر کرے گا۔چندہ کرنےوالے کو ہم عاملین زکوٰۃ پرقیاس کرسکتے ہیں؛ جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے :

[اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ  ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ] سورۃ التوبۃ :۶۰

یعنی زکوٰۃ کا مال ان لوگوں کے لیے حلال ہے جو فقراء،مساکین اورجو زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے جاتے ہیں۔

رسولﷺ جب کسی کو زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجتے توآپ ان کو واپسی پر اس مال میں سے کچھ نہ کچھ ضروردیتے،البتہ اگرکوئی شخص مسجد کی آڑ میں صرف چندے کو کاروبار بنالیتاہے تو ایسے شخص کیلئے یہ رقم ناجائز اورحرام ہے۔

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے