Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جون » اربعینِ نووی حدیث نمبر:29 قسط :68

اربعینِ نووی حدیث نمبر:29 قسط :68

درسِ حدیث

ثُمَّ قَالَ: أَلا أُخبِرُكَ بِملاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ قُلْتُ: بَلَى يَارَسُولَ اللهِ. فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ وَقَالَ: كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا. قُلْتُ يَانَبِيَّ اللهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَامُعَاذُ. وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَو قَالَ: عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلسِنَتِهِمْ) (رواه الترمذي )

ترجمہ:پھرآپﷺ نے فرمایا:میں تمہیں ان تمام چیزوں (جن کا اوپر ذکر ہوا)کے مالک کی خبرنہ دوں؟(جس کے پاس ہر چیز کا کنڑول ہے)میں نے عرض کیا:کیوں نہیں،یارسول اللہ ﷺ! تو آپﷺ نے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑا اور فرمایا:اسے بندرکھو،میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیﷺ!ہم جو باتیں کرتے ہیںکیا ان پر ہماری پکڑ ہوسکتی ہے؟توآپﷺ نے فرمایا:تیری ماں تجھے گم پائے،لوگوں کو زیادہ جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی چیز زبان ہی تو ہے۔

اس حدیث سے زبان کی خطورت ونزاکت واضح ہوتی ہے، چنانچہ زبان لوگوں کوبڑی بڑی ہلاکتوں اور بربادیوں میں جھونک دینے کا سبب بنتی ہے۔

حدیث سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اعمالِ صالحہ کی حفاظت اور ان کے اجر وثواب کی بقاء،زبان کی حفاظت کے ساتھ مشروط ومربوط ہے،جبکہ زبان کافسادوبگاڑ،نیکیوں کی بربادی کا سبب بنتا ہے،حتی کہ بڑی بڑی نیکیاں جیسے:نماز،جہاد،صدقہ ،قیام اللیل اور روزے وغیرہ بھی زبان کی بےاعتدالی کا شکارہوجاتی ہیں،جس کی بناء پر انسان اوندھے منہ جہنم میں جاگرتاہے۔(والعیاذباللہ)

زبان سے نکلاہوا ایک ایک لفظ لکھاجارہاہے، یہ ڈیوٹی کراماکاتبین (ملائکہ) کوسونپی گئی ہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

[مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ۝۱۸ ]

(ق:۱۸)

ترجمہ:(انسان) منھ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔

آیت کریمہ میں (مِنْ قَوْلٍ) سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کا ہر بول لکھاجاتاہے؛کیونکہ (مِنْ) یہاں زائدہ ہے،جو تاکید کا معنی دیتا ہے،(رَقِيْبٌ)سے مراد وہ فرشتہ ہے جو مسلسل نگرانی کرتارہتا ہے، (عَتِيْدٌ)کا معنی ہمیشہ موجود رہنے والااور کبھی غائب نہ ہونے والا۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجالس میں زیادہ تر خاموشی اختیار کیے رکھنے کی تاکیدفرمائی ہے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال: (من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت) (صحیح بخاری:6018،صحیح مسلم:173)

سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِآخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ زبان سے کلمۂ خیر ہی ادا کرنا چاہئے،یا ایسی بات نکالنی چاہئے جو مصلحت کے مطابق ہو،اور اگر کسی بات کے بارے میں شک بھی ہو کہ یہ مصلحت کے مطابق ہے تو اسے زبان سے نکالنے سے گریزکرناچاہئے۔

رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار کرنے کو ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کے ساتھ مربوط فرمایا ہے،جس سے مسئلے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اسی لئے دوسری حدیث میں زبان کی حفاظت کو جنت میں داخلے کا سبب قراردیاگیاہے۔

عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ ﷺ :(من یضمن لی مابین لحییہ وما بین رجلیہ أضمن لہ الجنۃ)(صحیح بخاری:6474)

ترجمہ:سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوشخص مجھے زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔

اس حدیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کے غلط استعمال کی شناعت،زنا کے برابرہے،جو بندے کو پوری طرح برباد کرچھوڑتاہے،جبکہ زبان کی حفاظت پرجنت کے داخلہ کی ضمانت کو مرتب کیاگیاہے۔

ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ صراحت وارد ہے :

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،عن النبی ﷺ قال: (إن العبد لیتکلم بالکلمۃ من رضوان اللہ تعالیٰ مایلقی لھا بالا یرفعہ اللہ بھا درجات ، وإن العبد لیتکلم بالکلمۃ من سخط اللہ تعالیٰ لا یلقی لھا بالا یھوی بھا فی جہنم ) (صحیح بخاری:6478)

ابوھریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک بندہ بے دھیانی میںزبان سے اللہ تعالیٰ کی رضاء کا بول بولتا ہے ،جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے درجات بلند فرمادیتا ہے، اور ایک بندہ بے دھیانی سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا بول بولتا ہے،جو اسے جہنم میں پھینک دیتا ہے۔

بے دھیانی سے مراد یہ ہے کہ اسے زبان کے اچھے بول پر اس قدر اجروثواب کی امید نہیں ہوتی کہ یہ بات میرے لئے جنت میں رفع درجات کا باعث ہوگی،اسی طرح زبان کے غلط بول پر یہ امید نہیں ہوتی کہ یہ بول اسے سیدھا جہنم میں گرادیگا۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أنہ سمع النبی ﷺ یقول: إن العبد لیتکلم بالکلمۃ ما یتبین فیھا ،یزل بھا إلی النار أبعد مما بین المشرق والمغرب.

(صحیح بخاری:ـ6477،صحیح مسلم:7482)

ترجمہ:ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،انہوں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:بے شک بندہ اپنی زبان سے بلاسوچے سمجھے کوئی بول اداکرتا ہے،جو اسے مشرق ومغرب کےمابین فاصلے سے بھی زیادہ جہنم کی گہرائی میں گرادیتاہے۔

بلاسوچے سمجھے سےمر اد بغیرتحقیق کیے ہرسنی سنائی بات بیان کردینا ہے،یا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ اس کلام کا معنی سمجھے بغیر،نیز اس کے نتیجے کوجانے بغیر اسے بیان کرنا شروع کردے۔

اس کی مثال اُس حدیث سے دی جاسکتی ہے،جس میں ایک عبادت گزار کا ذکر ہے،جس نے ایک نافرمان شخص کے بارہ میں یہ کہہ دیاتھا :(واللہ لایغفراللہ لفلان)یعنی:اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ اس شخص کو معاف نہیں کریگا،اللہ رب العزت نے فرمایا:(من ذاالذی یتألی علی أن لاأغفر لفلان قد غفرت لفلان وأحبطت عملک)(صحیح مسلم:6681)

یعنی:ہم پر قسمیں کھانے والاکون ہے کہ ہم فلاں کو معاف نہیں کریں گے،ہم نے فلاں کو معاف کردیا اور تیری تمام نیکیوں کو برباد کردیا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ rنے،رسول اللہ ﷺ کی دوسری بیوی سیدہ صفیہr کے چھوٹے قد کا ذکر کردیا،تورسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:(لقد تکلمت کلمۃ لو مزجت بماءالبحر لمزجتہ)  (جامع ترمذی:2502)

یعنی:تم نے ایک ایسا بول بول دیا ہے،جسے اگر سمندر میں ڈال دیاجائے توسارا پانی کڑوا اور سیاہ ہوجائے۔

عن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما قال: قال رسول اللہ ﷺ :(لاتکثروا الکلام بغیر ذکر اللہ فإن کثرۃ الکلام بغیر ذکراللہ تعالیٰ قسوۃ للقلب وإن أبعد الناس من اللہ القلب القاسی )

(جامع ترمذی:2411)

یعنی:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:زیادہ باتیں مت کیاکرو،بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ باتیںکرنا ،دل کی سختی ہے،اور اللہ تعالیٰ سے وہ شخص سب سے زیادہ دور ہے جس کا دل سخت ہے۔

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال: (إذا أصبح ابن آدم فإن الأعضاء کلھا تکفر اللسان تقول إتق اللہ فینا ،فإنما نحن بک ، فإِن استقمت  استقمنا وإن إعوججت إعوججنا )

(جامع ترمذی :2407)

ترجمہ:ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: جب آدم کا بیٹا صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوجاتے ہیںاور کہتے ہیں: ہماری تمام تر سعادت تیرے ساتھ ہے،اگر تو سیدھی رہی تو ہم نجات پاجائیں گے اور اگر تو کجی کا شکار ہوگئی تو ہمیں بھی عذاب کا سامنا کرنا پڑیگا۔

واضح ہو کہ فتنو ں کےد ور میں تو بالخصوص زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے،چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نےنبی ﷺ سے عرض کیا: عافیت اور نجات کا راستہ کیاہے؟فرمایا:(امسک علیک لسانک، ولیسعک بیتک، وابک علی خطئیتک)یعنی:اپنی زبان پر کنڑول کرو، اپنے گھر کی چاردیواری کو کافی سمجھو، اور اپنے گناہوں پر رویاکرو۔(ترمذی:2406)

انس بن مالک رضی اللہ سے مروی ہے ،رسول اللہ ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ میں ایک قوم کے پاس سے گزرا،جن کے تانبے کے ناخن تھے ،جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ،میں نے پوچھا:اے جبریل!یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: (ھولاء الذین یأکلون لحوم الناس ویقعون فی أعراضھم)یعنی:یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزتوں کے درپے رہتے ہیں۔

احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں کی عزتوں سے کھیلنے والایا ان کے عیبوں کی جستجوکرنے والا،خود ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:(من تتبع عورۃ أخیہ تتبع اللہ عورتہ ومن تتبع اللہ عورتہ یفضحہ ولو فی جوف رحلہ)یعنی:جو شخص اپنے کسی بھائی کے عیوب تلاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے عیوب تلاش کرے گا اور جس کے عیوب اللہ تعالیٰ تلاش کرے گا اسے ذلیل کردے گا خواہ وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں محصور کیوں نہ ہوجائے۔(ابوداؤد:4880،مسند احمد:19777)

واضح ہو کہ یہ تمام نصوص ہم سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں،زبان کی ناہمواری اور بے اعتدالی انتہائی خطرناک ہے اور شدید ترین وعیدوں کا باعث ہے، جبکہ زبان کا کم سے کم استعمال اور ہمیشہ اچھااستعمال بہت زیادہ درجات علیٰ کا سبب ہے۔

شعب الایمان للبیہقی کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے زبان کی لمبی خاموشی کو ایک ایسا مستحسن عمل قرار دیا ہے جو پشت پر تو بہت ہلکا ہے لیکن قیامت کے دن اللہ کے میزان میں بہت بھاری ہوگا۔

اس کے برعکس وہ عورت جہنم کا لقمہ بن گئی جو اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچاتی تھی، حالانکہ وہ بکثرت فرائض ونوافل ادا کیا کرتی تھی اور ا نتہائی صالح کردار کی مالک تھی،لیکن محض زبان کی بے اعتدالی پر اسے رسول اللہ ﷺ نے جہنم کی وعید سنادی۔

اسی مجلس میں رسول اللہ ﷺکے سامنے ایک دوسری خاتون کا ذکر ہوا جو کمزور اور غریب ہونے کی وجہ سے بہت کم عمل کرپاتی ،صرف فرائض پر اکتفاکرلیتی تھی ،مگر اپنی زبان سے کبھی کسی کو اذیت نہیں دی، رسول اللہ ﷺ نے اس کے جنتی ہونے کی بشارت دی۔

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا دوقبروں کے پاس سے گذرنامذکور ہے،اس موقع پر آپ نے فرمایا:(انھمایعذبان ومایعذبان فی کبیر ، بلی إنہ کبیر ، أما أحدھما فکان یمشی بالنمیمۃ ، وأما الأخر فکان لایستتر من بولہ)یعنی:ان دونوں قبروں میں عذاب دیاجارہا ہے،اور ان کے عذاب کا سبب بڑا گناہ نہیں ،کیوں نہیں وہ تو کبیرہ گناہ ہیں(مگر انہوں نے انہیں معمولی سمجھا)ان میں سے ایک چغل خور تھا اور دوسرا استنجا میں بے احتیاطی کا مرتکب تھا۔

(صحیح بخاری:378،صحیح مسلم:677)

امام بخاری  رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے کتاب العلم میں ایک باب قائم فرمایا ہے،جس کی حیثیت ایک ضرب المثل کی سی ہے، جو ہمیشہ مشعل راہ رہناچاہئے ، اس باب کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے زبان کے کردار کو متعین کرلیناچاہئے ، وہ باب یہ ہے:

باب العلم قبل القول والعمل

یعنی: ہر قول اور ہر عمل سے پہلے علم ہے۔

لہذا زبان سے کوئی بھی بول بولنے سے پہلے اسے شرعی میزان پر تولناضروری ہے، اگر وہ بول شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہے تو ضرور بولناچاہئے ،اور اگر شریعت کے تقاضوںکے خلاف ہے تو یکسر اجتناب برتناچاہئے۔

زبان کے بول کا معاملہ اس قدر سنگین اور خطرناک ہے کہ سلف صالحین جنہیں اس کی خطورت کا پوری طرح احساس تھا،کبھی اس سے بے توجہی نہ برتتے ،اور اگر کبھی زبان سے غلط بات نکل جاتی تو اسے ہمیشہ یاد رکھتے اور توبہ کرتے رہتے۔

حسن بصری  رحمہ اللہ اپنی عمر کے آخری حصے میں کسی پریشانی میں گِھر گئے،فرمایا:آج سے چالیس سال قبل ایک شخص کو مفلس کہہ دیا تھا یہ اسی کی سزا معلوم ہوتی ہے۔

ابوحذیفہ  رضی اللہ عنہ سے جنگ بدر میں ایک غلط بات نکل گئی ، بہت نادم ہوئے،بہت توبہ کی ،بالآخر یہ کہا کہ میں اپنی توبہ کو تب قبول سمجھوں گا جب کسی میدان جہاد میں میرے گلے پر دشمن کی تلوار چل جائے۔

امیر المؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے صلح حدیبیہ کے موقع پر کچھ تیز اور ترش جملے اداہوگئے ، بعد میں بہت پشیمانی کا شکار رہے، ان کا فرمان ہے کہ ان جملوں کی بخشش کے لئے میں نے بڑی بڑی نیکیاں انجام دی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے حفظ اللسان کی توفیق کی استدعا ہے اور اب تک جو بے راہ روی کی باتیں نکلی ہیں ،صدق دل سے ان کی معافی کا سوال ہے۔ووفقنااللہ لما یحبہ ویرضاہ.

(جاری ہے)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے