Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2020 » شمارہ مارچ تا ستمبر » ’’موت العالم موت العالم“

’’موت العالم موت العالم“

الحمدللہ والصلاة والسلام علی رسول الله وعلی آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد:

قارئین کرام ! السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں، علماء کی زندگی ، انبیاء کی میراث کی تقسیم میں بسر ہوتی ہے۔ ان کا وجود ستاروں کی مانند ہے جو اپنی جگمگاہٹ اور روشنی سے اندھیروں میں متلاشیان منزل کے لیے ان کے راستوں کا پتہ بتاتے ہیں، جن پہ چل کر وہ اپنی منزل مقصود سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔

جہاں ان کا وجود امت کے لیے ہیرے جواہرات سے بیش بہا اور قیمتی ہے وہیں ان کی موت سے بھی ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوتا ہے جس کی کمی مدتوں محسوس کی جاتی ہے، کیونکہ علماء کرام کا دنیا سے رخصت ہونا دراصل اس  علم وعرفان کا فقدان ہے ، جس کی روشنی ان کے وجود سے پھوٹتی ہے جس سے  توحید و سنت کا بول بالا ہوتا اور کفروشرک اور بدعت کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔

حالیہ قلیل مدت میں کئی کبار علماء کرام ہمیں داغ مفارقت دے گئے  یہ بلاشبہ امت کیلئے قحط رجال کے اس دور میں ایک ایسا نقصان ہے جس کی کمی شاید ہی پوری ہوسکے!

ان چند مہینوں میں آسمان علم و عمل کے کئی ستارے غروب ہوئے، کئی کبار علماء ہم سے بچھڑ گئے جن سے منبر و محراب کی زینت تھی، مسند تدریس پہ بیٹھ کر جنہوں نے تشنگان علوم نبوت کو سیراب کیا، جن کے قلم رواں سے احقاق حق اور ابطال باطل کا عظیم فریضہ انجام پایا، جو جماعت اہل حدیث کا قیمتی اثاثہ اور سرمایہ تھے، بقول امیر محترم علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ: اس کمی کو پورا کرنے کیلئے سب کو سرتوڑ کوششیں کرنا ہونگیں، علماء کرام، طلباء عظام مدارس اور جامعات کے زمہ داران کو مل کر اس نقصان کی تلافی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تب جاکر کسی حد تک ہم اس نقصان کی تلافی کے قابل ہونگے۔

اب ان علماء، محدثین ، فقہاء اور مصنفین  کے اسمائے گرامی جنہوں نے اس قلیل مدت میں ہمیں داغ مفارقت دیا:

فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالغفور دامنی،مولانا عبدالحمید ہزاروی‘ مولانا عبدالرشید ہزاروی‘ مولانا قاری یحییٰ رسول نگری‘ مولانا پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی‘ پروفیسر حافظ ثناء اللہ خاں‘ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر‘ حافظ صلاح الدین یوسف‘ مولانا محمد یونس بٹ رحمھم اللہ۔

ادارہ دعوت اہل حدیث اپنے رئیس علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ اوراپنی مجلس ادارت کی طرف سے مذکورہ علماء کرام کے وارثان اور پسماندگان سے مسنون تعزیت کرتا ہے: إن لله ما اخذ وله ما اعطى كل عنده باجل مسمى.

اور دعاگو ہے کہ:

اللہ تعالیٰ ان تمام علماء کرام کی دینی جہود کو شرف قبولیت عطا فرمائے، ان کے لیے صدقہ جاریہ بنادے، بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ دے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائےاور جماعت کو ان کا نعم البدل دے۔آمین

فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کےسانحہ ارتحال پر

 امیر محترم عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا تعزیتی پیغام

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأھل طاعتہ أجمعین، اما بعد:

محترم حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی رحلت کوجماعت کے عوام وخواص تا عرصہ فراموش نہ کرسکیں گے، ہمیشہ انہیں یاد رکھاجائے گا،وہ ایک متبحر عالم دین تھے اور بالخصوص قلم اور تحریر کے شہسوار تھے ،ان کی کتب ومضامین پڑھنے سے یقینا ہر قاری یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ بڑے بڑے دقیق مسائل انتہائی سھل اسلوب سے حل کردینا اور تحریر کردینا انہی کا خاصہ تھا،اللہ تعالیٰ نے علم کے ساتھ ساتھ عمل کی دولت سے بھی مالامال کیا تھا، انتہائی سادگی اور تقویٰ وزہد سے بھرپور زندگی گزار گئے اور ہم اہل الحدیث کو سوگوار چھوڑ گئے یقینا جو ایک مقولہ مشہورہے:’’موت العالم موت العالم ‘‘پوری طرح ان پر منطبق ہوتا ہے،ان کے انتقال سے ایک ایسا رخنہ پیدا ہوچکا ہے جسے پُر کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ،بقول سعید بن جبیر رحمہ اللہ :’’لوگوں کی ہلاکت اس وقت ہوتی ہے ،جب ان کا عالم فوت ہوجائے‘‘کیونکہ ایک عالم لوگوں کا مربی ہوتا ہے اور ان کی روحانی تربیت کرتا ہے اور روحانی اصلاح ہی درحقیقت ایک حیات جاودانی ہے جو بندہ روحانی مریض ہے وہ مُردوں جیسا ہے تو یقینا علماء دین اسی مقام کے اہل ہیں کہ ان کی موت سے گویا لوگوں کی ہلاکت کا سلسلہ واقع ہوجاتا ہے اور یہی درحقیقت اصل بربادی ہے ! اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حافظ صلاح الدین یوسف کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے، جنت الفردوس میں بلند درجات اور مقام عطا فرمائے ،اعلیٰ علیین میں انہیں عظیم رتبےسے نوازے۔

ا س موقعے پر میں اپنے آپ کواور دیگر تمام طلبۃ العلم کو یہ نصیحت کروں گا کہ خلاء کو پر کرنے کی کوشش کریں اور وہ تقویٰ وزہد اور وہ وعمل اور دیگر جو خصائل حمیدہ ان کی زندگی میں موجود تھے انہیں اپنانے کی کوشش کریں اور یہی درحقیقت فوت ہونے والے کے تعلق سے ایک بہترین ضابطہ ہے کہ ان جیسا بننے کی کوشش کی جائے ،علماء اور مدرسین خاص طور پر اسی نقطہ نظر سے ان پر نظر بھی رکھیں اور محنت بھی کریں کہ فوت ہونے والوں کابدل بلکہ نعم البدل بن جا ئیں تاکہ کوئی خلاء واقع نہ ہواور جو جماعت پر افتاد اس وقت گری ہوئی ہے اور یہ عام الحزن ہے بڑے بڑے علماء داغ مفارقت دے گئے تو ضرورت اس خلاء کو پر کرنے کی ہے طلبۃ العلم محنت کریں اور اساتذہ اور مدرسین پوری ان پر نگرانی کریں اور جو اداروں کے منتظمین ہیں وہ اپنی اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظام کو آگے بڑھائیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اور جودیگر علماء فوت ہوئے ان سب کو اپنی جوار رحمت میں جگہ د ے ،اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوجائے اور جماعت جس صدمہ سےد وچار ہے اللہ تعالیٰ صبر جمیل کی توفیق دے اور اللہ رب العزت ان علماء کا خلاء پُر کرنے کی توفیق عطافرمائے، ان شا ء اللہ حافظ صلاح الدین یوسف کی علمی خدمات اور وہ جو کتب کثیرہ لکھ گئے ان کا ایک ایک حرف ان کے لیئے صدقہ جاریہ ہے اور یقینا انہوں نے اخلاص کے ساتھ کام کیا۔ اس وقت ہمارے ادارے’’ مرکز المدینہ‘‘ سے وہ پوری طرح منسلک تھے اور شعبہ تصنیف وتالیف کی نگرانی بھی فرمارہے تھے اور تفسیر کا کام بھی مکمل کررہے تھے افسوس کہ وہ تفسیر پوری نہ ہوسکی! اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ اس کی تکمیل کسی طریقے سے ہوجائے تاکہ ایک علمی سرمایہ منظر عام پہ آسکے اور لوگوں کی اصلاح کا سبب بن سکے، ویسے’’احسن البیان‘‘جو ان کی مختصر تفسیر ہے اور وہ سعودی عرب سے شایع ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے کونے کونے میں جہاں اردو دان موجود ہیں وہاں وہ تفسیر پہنچی ہوئی ہے اور دنیا اس سے مستفید ہورہی ہے یہ ان کا ایک عظیم کارنامہ ہے جو سنہری حروف سےلکھے جانے کے قابل ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے اور ان کو رحم سے ڈھانپ لے۔

قدس اللہ روحہ وتغمد ہ برحمتہ ورضوانہ وأدخلہ جنۃ الفردوس وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأھل طاعتہ أجمعین۔

کورونا: انسانی بے بسی اور اللہ تعالی کا مضبوط سہارا

پچھلے پانچ ماہ جہاں ایک وائرس کورونا کی وجہ سے پورا عالم شدید متاثر ہوا، کئی اموات ہوئیں ، معیشت تباہی کا شکار ہوئی،تمام شعبہ ہائے زندگی کا پہیہ جام ہوگیا، گویا زبان حال ومقال سے پوری انسانیت اور زمینی طاقتوں نے اپنی بے بسی، لاچاری اور فروتنی کا  اعتراف کیا۔

اس کائنات کا خالق و مالک ایک ہی اللہ بزرگ وبرتر ہے، جو اس کا مدبر بھی ہے کائنات کا ذرہ ذرہ جس کے آگے جواب دہ ہے وہ کسی کے آگے مجبور اور لاچار نہیں وہ صمد ، احد اور وحدہ لاشریک لہ ہے، اس کے حکم کے بغیر پتہ بھی ہل  نہیں سکتا اور اس کا امر آجائے تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ  جاتے ہیں۔

الغرض : سائنسی تحقیق اور ترقی پر نازاں و فرحاں انسان کو اپنی کمزوری، ضعف اور محکومی کا خوب اندازہ ہوچکا۔

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ  ( فصلت: 53)

عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا  ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ    ( النمل :14)

انہوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر  پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرواز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔

یہاں تک الحاد کے داعی اور ادیان سے متحارب ممالک کے حکمرانوں نے بھی اپنے عجز و ضعف کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس وائرس سے نبرد آزما ہونا زمینی طاقتوں کے بس میں نہیں لہذا آسمان کی قوت کو پکارنا چاہیے چنانچہ اس کے لیے مسلمانوں سے بھی خصوصی عبادات اور دعاؤں کا کہا گیا۔۔۔

دوسری طرف عام مسلمانوں میں بھی عبادات کا ذوق و شوق ، توبہ اور استغفار کا خوب اہتمام نظر آیا۔

مساجد وقتي طور پر عام نمازیوں کے لیے بند ہوئیں تو اہل ایمان کے دل مسجد کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے۔

جب مسجدیں کھولی گئیں تو وہ نمازیوں سے کچھا کھچ بھر گئیں۔

اللہ تعالیٰ کا وطن عزیز پر خصوصی کرم رہا کہ یہاں کورونا اس طرح سے نہیں پھیلا اور اس کی تباہی کاریاں اس تیزی سے نہیں ہوئیں جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں اس کا پھیلاؤ ہوا  اور جہاں بہت زیادہ لوگ اس موذی وائرس میں مبتلا ہوئے حتی کہ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے اور کثیر تعداد میں اموات ہوئیں!

شہوات و معصیت میں مگن،شراب و شباب کے رسیا لوگ بھی اپنی بدکاریوں اور سیاہ کاریوں سے یوں کنارہ کش ہوئے کہ ہر ایک دوسرے سے بھاگ رہا تھا، ایک سروے کے مطابق ان ممالک میں جہاں بدکاری کو قانونی شکل حاصل ہے وہاں پر بھی زنا اور بدکاری کے اڈے اور نائٹ کلب مکمل ویران ہوگئے، لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے…

لوگ اپنوں سے دوری اختیار کیے ہوئے تھے، میل جول، ملاقتیں اور قربتیں سوشل ڈسٹینس، ایس او پیس اور احتیاطی تدابیر کی نذر ہو گئیں۔۔۔

اب قابل غور ہے کہ انسان کیوں فرعون بنتا ہے؟ ظلم و جبر کی تاریخ رقم کرتا ہے، کیوں تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے؟ رب کی عطا کردہ نعمتوں پر اتراتا ہے صحت اور مال سے غرور کا شکار ہوکر شھوات کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے۔۔۔ حالانکہ اس وائرس نے اس کی وقعت اور طاقت و قوت کا پردہ چاک کرکے اس کا اصل مقام واضح کردیا ہے کہ عجز و انکساری کا پیکر بن کر اپنے رب کی عبودیت کے تقاضے پورے کرے، اس کی حقیقی غلامی اور توحید  ہی سے اس کی دنیا کو بھی بقا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے فوز و فلاح کا حصول ممکن ہے۔

ایک نظر ادھر بھی!

ماہنامہ "دعوت اہل حدیث“  منہج سلف کا پیامبر ایک علمی ، ادبی، دعوتی اور اصلاحی مجلہ ہے، جس میں شائع کردہ مضامین اسی منہج کے عکاس ہیں۔

پچھلے تقریباً پانچ ماہ جہاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر کاروبار حیات ٹھپ رہا؛ وہیں ماہنامہ دعوت اہل حدیث کی اشاعت بھی موقوف رہی، جس سے یقیناً ہمارے معزز قارئین کو (جو اس مجلہ کی اشاعت کے  منتظر رہتے ہیں ) تکلیف سے گذرنا پڑا ہوگا!!!  جس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ کئی احباب نے رابطہ کرکے مجلہ کی اشاعت کے متعلق استفسار کیا، مجلہ سے اپنی محبت، وارفتگی، اچھے جذبات اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جزاھم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین

ان شاءاللہ اب مجلہ کا سلسلہ حسب سابق جاری وساری رہے گا بلکہ مزید اس میں بہتری آئے گی۔ ہم آپ کی قیمتی آراء ، پرخلوص مشوروں اور عمدہ تجاویز کا خیر مقدم کریں گے! بارک اللہ فیکم

ہمارے ساتھ قلمی تعاون کرنے والے علماء کرام کے بھی ہم شکر گزار ہیں جن کے علمی ادبی اور منہجی شہ پارے  اس مجلہ کو چار چاند لگا دیتے ہیں، امید ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے اس مشن میں آپ کا تعاون پہلے کی طرح ہمارے ساتھ رہے گا بلکہ مزید اس میں اضافہ اور بہتری پیدا ہوگی ۔

 آپ صاحبان علم و فضل سے ایک گزارش ہے کہ اپنے مضامین بروقت ہمیں ایمیل کردیں یا بذریعہ ڈاک بھیج دیا کریں!

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے دین کا سچا خادم بنائے اور اخلاص کے ساتھ اس مسلک حق کی نشر و اشاعت کی توفیق عطا فرمائے!

تم    سلامت  رہو   ہزار  برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

About شیخ عبدالصمد مدنی

Check Also

فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

09 مارچ بروز پیر شب تقریباً آٹھ بجے، ایک روح فرسا اور المناک خبر موصول …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے