Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ اپریل » ایک من گھڑت روایت اور غلط استدلال

ایک من گھڑت روایت اور غلط استدلال

کچھ ایام قبل ایک دوست کی طرف سے ایک ویڈیو موصول ہوئی جوکہ پیر محمد ثاقب اقبال شامی کے علی ہجویری کے عرس کے موقع پر اجتماع سے کئے گئے خطاب کے ایک حصے پر مشتمل تھی۔ جس میں شامی صاحب حلیۃ الاولیاء اور ابن عساکر کے حوالے سے ایک روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’یہاں کی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس نے سوال کیا کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ولی اولاد دیتا ہے، ولی بیٹے دیتے ہیں ،یہ کہنا جائز ہے کہ نہیں ؟ عبداللہ بن مسعود رض اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی مخلوق میں تین سو لوگ ایسے ہیں جن کے دل آدم علیہ السلام کے دل کے موافق ہیں ۔ اللہ کی مخلوق میں چالیس اولیاء اللہ ایسے ہیں جن کے دل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے موافق ہیں ۔ سات اولیاء اللہ ایسے ہیں جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے موافقت رکھتےہیں۔ ہمیشہ پانچ اولیاء اللہ ایسے ہیں جن کے دل جبریل علیہ السلام کے دل سے موافقت رکھتےہیں اور تین اولیاء اللہ ایسے ہیں جن کےدل حضرت میکائیل کے دل کےموافق ہوتے ہیں اور ایک ولی ہمیشہ ایسا ہوتا ہے جس کا دل حضرت اسرافیل علیہ السلام کے موافق ہوتا ہے۔ جب ایک کا انتقال ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تین میں سے اس کا متبادل لاتا ہے اور جب تین میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ پانچ میں سے اس کا متبادل لاتا ہے۔ اور جب پانچ میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو سات میں سے متبادل لاتا ہے اور جب سات میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ وہ چالیس اولیاء جن کا دل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے موافق ہے ان میں سے متبادل لاتا ہے اور جب چالیس میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تین سو میں سے اس کا متباد ل لاتا ہے اور جب ان تین سو میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ عام مؤمنین میں سے اس کا بدل لاتا ہے۔فرمایا یہی وہ اولیاء ہیں جن کی وجہ سے جن کے صدقے اللہ زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی دیتا ہے یہی وہ اللہ کے پیارے ہیں جن کی وجہ سے اللہ فصلیں اگاتا ہے یہی وہ اللہ کے پیارے ہیں جن کی وجہ سے اللہ مصیبتیں ٹالتا ہے یہی وہ اللہ کے پیارے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے عبداللہ بن مسعود ! آپ یہ بتائیں کہ اللہ ان کی وجہ سے زندگی کیسے دیتا ہے ؟کہا: یہ امتوں میں کثرت کی دعائیں کرتے ہیں ان کی دعاؤں کی لاج رکھتے ہوئے اللہ لوگوں کو بیٹے بھی دیتا ہے بیٹیاں بھی دیتا ہے۔ تم کہتے ہو داتا علی ہجویری کی برکت سے اللہ نے مجھے بیٹا دیا اللہ نے مجھے بیٹی دی یہ لاہوریوں کا عقیدہ نہیں یہ بریلی کا عقیدہ نہیں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کا عقیدہ ہے۔ جو حضور ﷺ کے اس فرمان میں بھی ۔۔ کہ یہ امتوں میں کثرت کی دعائیں کرتے ہیں اللہ ان کی دعاؤں کی لاج رکھتے ہوئے بیٹے بھی دیتا ہے بیٹیاں بھی دیتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا یہ بتائیے کہ موت کیسے واقع ہوتی ہے فرمایا جب ظالموں اور جابروں کا ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے یہ دعائیں کرتے ہیں ان کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ ایسے ظالموں کے ہلاک کردیتا ہے ، کہا فصلیں کیسے اگاتا ہے؟ فصلیں بھی ان کی دعاؤں کے صدقے اگتی ہیں ۔بارش کیسے اگاتا ہے کہا یہ بارش بھی ان کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ نتیجہ ہے۔ اللہ کے ولیوں کی قوت کا عالم یہ ہے ان کےصدقے ہمیں زندگی ملتی ہے ، ان کی وجہ سے ہمارے دشمنوں کی موت واقع ہوتی ہے ۔ تیرے میرے گھروں میں اولاد کا پیدا ہونا انہی ولیوں کا صدقہ ہے۔‘‘  پھر اس کے بعد خطیبانہ انداز میں دنیا کی ہرشے کو ولیوں کا صدقہ قرار دے دیا۔

مذکورہ بالامن گھڑت روایت اور اس کا جواب:

شامی صاحب کی پوری گفتگو اور بیان کردہ روایت اور اس سے استدلال کو قارئین نے ملاحظہ کیا۔ ہم سب سے پہلے اس روایت کو پوری سند و متن کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّرِيِّ الْقَنْطَرِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَيْسٍ السَّامِرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ يَحْيَى الْأَرْمَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ إِسْرَافِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثَةِ ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْخَمْسَةِ ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ السَّبْعَةِ ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْأَرْبَعِينَ  وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ ثَّلَاثِمِائَةِ ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ ثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْعَامَّةِ. فَبِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ ، وَيُمْطِرُ وَيُنْبِتُ ، وَيَدْفَعُ الْبَلَاءَ». قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كَيْفَ بِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَسْأَلُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِكْثَارَ الْأُمَمِ فَيَكْثُرُونَ ، وَيَدْعُونَ عَلَى الْجَبَابِرَةِ فَيُقْصَمُونَ ، وَيَسْتَسْقَوْنَ فَيُسْقَوْنَ ،وَيَسْأَلُونَ فَتُنْبِتُ لَهُمُ الْأَرْضُ ، وَيَدْعُونَ فَيَدْفَعُ بِهِمْ أَنْوَاعَ الْبَلَاءِ "

(حلیۃ الاولیاء: 1/9 ، ابن عساکر: 1/303 )

مذکورہ روایت کے ترجمے کے لئے گذشتہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔

مذکورہ روایت کی ا سنادی حیثیت :

جہاں تک اس روایت کی سند کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ سند کے لحاظ سے یہ روایت موضوع(من گھڑت ) کے درجے پر ہےاس کی سند میں دو راوی مجہول ہیں عبدالرحیم الارمنی اور عثمان بن عمارہ۔ بلکہ بعض علامہ نے کہا کہ یہ روایت ان میں سے کسی ایک کی گھڑی ہوئی ہے۔ کئی ایک اہل علم اس روایت کو موضوع قرار دے چکے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

۱۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ :

حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے میزان الاعتدال میں عثمان بن عمارہ کے ترجمے میں اس روایت کو موضوع من گھڑت قراردیتے ہوئے فرمایا: ’’وهو كذب، فقاتل الله من وضع هذا الإفك ‘‘

یعنی یہ جھوٹی روایت ہے اللہ اسے ہلاک کرے جس نے یہ روایت گھڑی۔(میزان الاعتدال:5549 )

 مزید اس روایت کو تلخیص کتاب الموضوعات میں لائے اور فرمایا:

’’ رَوَاهُ أَبُو نعيم فِي ” الْحِلْية ” ثَنَا مُحَمَّد بن أَحْمد بن الْحسن، ثَنَا مُحَمَّد بن السّري الْقَنْطَرِي ضَعِيف عَن قيس بن إِبْرَاهِيم السامري، عَن عبد الرَّحِيم بن يحيى عَن عُثْمَان بن عمَارَة وَهَذِه ظلمات بَعْضهَا فَوق بعض الْوَضع من أحدهم.‘‘

                     ( تلخیص الموضوعات: 841، رقم الصفحۃ : 1/307)

 یعنی: ابو نعیم نے حلیہ میں بیان کیا ہے کہ محمد بن احمد بن حسن بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمد بن السری القنطری (ضعیف) نے بیان کیا وہ قیس بن ابراہیم السامری سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبدالرحیم بن یحیٰ سے وہ عثمان بن عمارہ سے اور یہ (عبدالرحیم بن یحیٰ اور عثمان بن عمارہ) اندھیروں پر اندھیرے ہیں اور وضع ان میں سے کسی ایک کی طرف سے ہے۔

اور المغنی فی الضعفاء میں عثمان بن عمارۃ کے ترجمہ میں اس روایت کی طرف اشارہ بھی کیا اور عثمان بن عمارہ کے بارے میں کہا کہ یہ کذاب ہے۔(المغنی فی الضعفاء: 4049)

۲۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ :

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے لسان المیزان میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے کلام کو برقرار رکھا بلکہ استدراک کرتے ہوئے فرمایا: ’’ وسبق في ترجمة عبد الرحيم قوله: أتهمه به أوعثمان ‘‘ (لسان المیزان :349 )

یعنی عبدالرحیم کے ترجمہ میں حافظ ذہبی کا یہ کلام گزر چکا ہے کہ یہ روایت عبدالرحیم یا عثمان نے گھڑی۔

۳۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ :

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے باب عدد الاولیاء میں مذکورہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر روایات کو ذکر کیا اور پھر ہر ایک پر کلام کیا اس روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’ أما حَدِيث ابْن مَسْعُود فكثير من رِجَاله مَجَاهِيل لَيْسَ فيهم مَعْرُوف ‘‘

(الموضوعات لابن الجوزی : کتاب الزھد ، باب عدد الاولیاء ، 3/152)

یعنی ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث میں کئی مجہول راوی ہیں جن میں سے کوئی بھی معروف نہیں ۔

۴۔شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے گوکہ عقیدہ واسطیہ میں ابدال کا لفظ استعمال فرمایا، لیکن وہ اس تعلق سے تمام روایات کو ضعیف ومن گھڑت قرار دیتےہیں، فرماتے ہیں :

’’ وكذا كل حديث يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم في عدة الأولياء، والأبدال، والنقباء، والنجباء، والأوتاد، والأقطاب، مثل أربعة، أو سبعة، أو اثني عشر، أو أربعين، أو سبعين، أو ثلاثمائة، أو ثلاثمائة وثلاثة عشر، أو القطب الواحد، فليس في ذلك شيء صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم ينطق السلف بشيء من هذه الألفاظ إلا بلفظ الأبدال.‘‘(الفرقان بین اولیاء الرحمٰن و اولیاء الشیطان :صفحہ نمبر 17)

یعنی : اسی طرح اولیاء کی تعداد، ابدال، نقباء ، نجباء ، اوتاد، اقطاب مثلاً چار یا سات یا بارہ ، یا چالیس ، یا ستر، یا تین سو یا تین سو تیرا ، یا ایک قطب ۔ اس باب میں نبی ﷺ سے کوئی روایت صحیح ثابت نہیں اور سلف نے اس طرح کے کسی لفظ کا استعمال نہیں کیا سوائے ابدال کے۔

تنبیہ نمبر ۱

یہ صوفیاء کی اصطلاحات ہیں ، صوفیاء یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس عالمِ کون و مکان میں ہر وقت تین سو تیرہ اشخاص ایسے رہتے ہیں جو نجباء کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔ پھر ان میں سے ستر کونقباء کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں سے چالیس ابدال کے درجے پر پہنچتے ہیں۔ ان میں سے سات کو قطب کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان میں سے چار اوتار کے درجہ پر فائز ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک غوث کا اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ مکہ مکرمہ میں رہتا ہے۔ جب اہل زمین پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے یا رزق کی تنگی ہوتی ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ ان تین سو تیرہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں۔ یہ ان فریادوں اور حاجتوں کو اپنے میں سے منتخب شدہ ستر نقباء کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ ستر ان حاجات کو اپنے سے بلند مرتبہ چالیس ابدال کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ پھر یہ چالیس اپنے سے سات منتخب قطبوں کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے ہیں او ریہ سات اپنے سےبلند مرتبہ چار اشخاص کی جنہیں اوتار کہا جاتا ہے خدمت میں پیش کرتے ہیں۔پھر یہ چاروں اپنے سے منتخب ہستی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اس کانام غوث ہوتاہے۔ وہ ہمیشہ مکہ معظمہ میں رہتا ہے اور تمام دنیا میں ایک غوث ہوتا ہے۔بیک وقت دو غوث نہیں ہوسکتے۔ اس کا علم اللہ کے علم کے برابر ہوتا ہے او ر اس کی قدرت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کم نہیں ہوتی۔

                                                     (ماخوذ از ماہنامہ محدث)

 تنبیہ نمبر ۲

سلف صالحین میں سے اگر کسی نے ابدال کا لفظ استعمال کیا بھی ہے تو اس سے ان کی مراد عام محدثین وغیرہ ہی ہوتے تھے دور حاضر میں ابدال سے متعلقہ تصورات کا قطعاً کوئی معتقد نہیں تھا۔ جیساکہ خود اسی کتاب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مختلف پہاڑوں سے متعلقہ عوام کا اعتقاد کہ وہاں رجال الغیب رہتے ہیں یا ان میں سے ہر پہاڑ میں چالیس ابدال رہتے ہیں ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ان خرافات کا رد کرتے ہوئے فرمایا وہ رجال الغیب یا ابدال نہیں بلکہ جنات ہیں۔ جنہیں لوگ ابدال یا رجال الغیب سمجھ بیٹھے ہیں۔ (الفرقان بین اولیاء الرحمٰن و اولیاء الشیطان  : صفحہ نمبر 181)

مزید اس حوالے سے مجموع الفتاوی میں جلد نمبر 11 صفحہ 433 تا 444 تک شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی اس حوالے سے تفصیلی بحث موجود ہے۔

۵۔امام ابن القیم رحمہ اللہ

المنار المنیف میں فرماتے ہیں :’’ومن ذلك أحاديث الأبدال والأقطاب والأغواث والنقباء والنجباء والأوتاد كلها باطلة على رسول الله صلى الله عليه وسلم.‘‘

یعنی : ابدال ، اقطاب نقباء ،نجباء اوتاد سے متعلقہ تمام احادیث باطل ہیں۔(المنار المنیف:صفحہ نمبر 136)

۶۔ محمد طاہر بن علی الصدیقی الھندی الفتنی رحمہ اللہ

 تذکرۃ الموضوعات میں اس روایت کو لائے اور فرمایا: ’’ فِيهِ مَجَاهِيل ‘‘ (تذکرۃ الموضوعات: 1/194)

یعنی اس میں مجہول راوی ہیں۔

۷۔ نور الدین علی بن محمد الکنانی رحمہ اللہ

تنزیہ الشریعۃ میں عبدالرحیم بن یحیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’عبد الرَّحِيم بن يحيى الأدمِيّ عَن عُثْمَان بن عمَارَة بِحَدِيث كذب فِي الأبدال قَالَ الذَّهَبِيّ أَتَّهِمهُ بِهِ أَو عُثْمَان.‘‘(تنزیہ الشریعۃ : 1/79)

یعنی عبدالرحیم بن یحی عثمان بن عمارۃ سے ایک جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ عبدالرحیم یا عثمان نے اسے گھڑا ہے۔

۸۔علامہ حلبی رحمہ اللہ

نے  کشف الحثیث عمن رمی فی وضع الحدیث میں عبدالرحیم بن یحی اور عثمان بن عمارہ کا تذکرہ کیا اور دونوں پر حافظ ذہبی کی جرح نقل کرتے ہوئے اس موضوع روایت کا بھی اشارتاً تذکرہ کیا۔

۹۔علامہ البانی رحمہ اللہ

اس روایت کو السلسلۃ الضعیفۃ میں لائے اور اسے من گھڑت قرار دیا۔(السلسلۃ الضعیفۃ : 1479)

اس تفصیل کی روشنی میں اس روایت کی اسنادی حیثیت واضح ہوگئی جسے بڑے مزے لے لے کر شامی صاحب نے بیان کیا۔

۱۰۔علامہ شعیب الارناؤط رحمہ اللہ

مسند احمد کی تخریج و تحقیق کرتے ہوئے حدیث علی  رضی اللہ عنہ پر حاشیہ لگاتے ہیں :

 ’’ وأحاديث الأبدال التي رويت عن غير واحد من الصحابة، أسانيدها كلها ضعيفة‘‘

(موسوعۃ مسند احمد : 2/231)

یعنی : ابدال کے بارے میں کئی ایک صحابہ سے مروی تمام احادیث سنداً ضعیف ہیں۔ ‘‘

تلک عشرۃ کاملۃ ۔ ان دس اہل علم کے کلام سے واضح ہوگیاکہ مذکورہ حدیث اور اس باب میں مروی دیگر احادیث کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟

روایت کے متن پر نظر :

فنی طور پر اس روایت کے متن کی طرف التفات کرنے پر یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس میں لفظی رکاکت اور شرعی نصوص کی مخالفت موجود ہے۔ مثلاً اس روایت میں بعض اولیاء اللہ کے دل فرشتوں جیسے اور بعض کے دل انبیاء جیسے قرار دئیے گئے ہیں۔ جبکہ انسانوں اور فرشتوں کے مابین تخلیقی فرق کے حوالے سے مسلمانوں کا مسلّمہ عقیدہ موجود ہے کہ فرشتے نور کی بنی ہوئی اور انسان مٹی سے بنی ہوئی مخلوق ہیں۔ انسان سے غلطی ہوسکتی ہے اور فرشتوں سے غلطی نہیں ہوسکتی ۔ جوکہ مسلمانوں کی ایمانیات کا حصہ ہے۔ یہ روایت جس میں بعض انسانوں کے دلوں کو فرشتوں کے موافق قرار دیا گیا ،اس مسلمہ عقیدے کے برخلاف ہے۔

نیز اس روایت میں ترتیب کے لحاظ سے پہلے آدم علیہ السلام پھر موسی علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام ، پھر جبریل علیہ السلام ، پھر میکائیل علیہ السلام ، پھر اسرافیل علیہ السلام ہیں ۔ اس روایت کی رو سے   اسرافیل ان سے سب سے افضل ہوئے کہ جس کی مانند بس ایک ہی دل ہوا کرتا ہے ۔

نیز یہ روایت اولیاء اللہ کی تعداد کو محدود کردیتی ہے۔ جیساکہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے باب عدد الاولیاء میں اس روایت اور اس جیسی دیگر روایات کو ذکر کیا اور ان پر کلام کیا۔ (کما مرّ) جبکہ قرآن کریم کی رو سے ہر مؤمن ، متقی اللہ کا ولی ہے۔  (سورۂ یونس : 62، 63)

بھان متی کا کنبہ :

اہل تصوف نے اس جیسی من گھڑت روایات کی بنیاد پر غوث، قطب، ابدال وغیرہ کا اثبات کیا ہے چونکہ ہمارا موضوع شامی صاحب کے استدلال کے جواب کی حد تک ہے، اس لئے ہم یہاں اس بحث سے قطع نظرکرتے ہوئے اپنی بحث کو یہیں تک محدود رکھتے ہیں۔ شامی صاحب کا استدلال ہے اولیاء کا اولاد دینا اور جو روایت پیش کر رہے ہیں اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہ ولی بیٹے دیتے ہیں بلکہ اس میں تو خود ان کے دعا کرنے کا ذکر ہے جسے انہوں نے خود بھی بیان کیا۔اور دعا زندوں نے کرنی ہےاور یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کا بھی ذکر ہے لیکن شامی صاحب کے استدلال اولیاء اللہ سے مانگنے کا اور علی ہجویری سے مانگنے کا تو یہاں ذکر ہی نہیں، یہاں ان سے مانگنے کی تلقین تو نہیں کی جارہی۔اگر شامی صاحب کے یہاں یہ روایت قابلِ اعتبار ہے تو پھر اس روایت (تنبیہ: یہ روایت محض الزامی طور پر پیش کی جارہی ہے نہ کہ احتجاجاً۔)کو بھی سامنے رکھیں کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک چیونٹی آسمان کی طرف الٹی لیٹ کر دعائیں مانگ رہی ہے اور بارش مانگ رہی ہے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کہا بس واپس چلو تمہیں دوسری مخلوق کی وجہ سے نوازا گیا۔ (تفسیر بن ابی حاتم: 16203)

 اب شامی صاحب نے جو اندازِ استدلال اپنایا ہے اس کی رو سے تو انہیں اس روایت سے بھی یہی استدلال کرنا چاہئے کہ معاذاللہ سلیمان علیہ السلام

اور ان کی قوم نے چیونٹی سے مانگا کیونکہ ان کی دعا کی وجہ سے اللہ نے بارش دی اور شامی صاحب اور ان کے مریدین کو کسی چیونٹی کا مزار بناکر اس کی نسبت سے کسی خاص دن کوئی اجتماع رکھ کر مذکورہ روایت کو اسی خطیبانہ انداز میں بیان کرکے کہنا چاہئے کہ ہم بھی اس چیونٹی سے مانگیں گے۔ معاذاللہ

 ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا : ’’ هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ‘‘

 (صحیح بخاری: 2896، کتاب الجھاد والسیر ، باب من استعان بالضعفاء والصالحين في الحرب)

یعنی تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:’’بدعوتهم وصلاتهم وإخلاصهم‘‘

(سنن نسائی: 3178، کتاب الجہاد ، باب الاستنصار بالضعیف )

یعنی ان کی دعاؤں ، نمازوں اور اخلاص کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

اب شامی صاحب نے جو استدلال کیا ہے اس کی رو سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی ﷺ صحابہ سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے کمزور لوگوں کا مزار بناکر ان سے اولادیں ،رزق وغیرہ مانگا جائے۔ والعیاذ باللہ

بہرحال شامی صاحب کا استدلال صحیح نہیںہے۔

خلاصہ کلام :

 ژشامی صاحب کی پیش کرد ہ روایت سنداً موضوع ، من گھڑت ہے۔ جس کی کئی ایک اہل علم وضاحت فرماچکے ہیں۔

 ژمذکورہ روایت متناً لفظی رکاکت اور شرعی نصوص کے مخالف ہے۔

 ژمذکورہ روایت سے شامی صاحب کا استدلال بالکل باطل ہے۔ جس کا حدیث کے منطوق سے تعلق ہے نہ مفہوم سے۔

ھذا ما عندی واللہ ولی التوفیق

About شیخ یونس اثری

Check Also

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے