Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ اپریل » بدیع التفاسیر(قسط نمبر 202)

بدیع التفاسیر(قسط نمبر 202)

پند رھویں فصل:

متشابھات کابیان

آٹھویں فصل میں لفظ متشابہ کامعنی گزرچکا،نیز جس کلمہ میں اپنے معنی کے علاوہ دیگرمعانی کا بھی احتمال ہو یا وہ اسماء جن کاحکم عقل وقیاس پرموقوف نہ ہو بلکہ شرعی نقل سے مأخوذ ہو، مثلاً:تعداد ورکعات، روزوں کے لئے رمضان المبارک کے مہینے کا انتخاب،ایسی دوسری مثالیں یا وہ عبارت جس کامفہوم تاویل کے بغیر سمجھا نہ جاسکے۔ نیزبحوالہ  تفسیر فریابی مجاہد تابعی سے نقل کرتے ہیں کہ المحکمات ما فی الحلال والحرام وماسوی ذلک منہ متشابہ یصدق بعضہ بعضا. (الاتقان ۲؍۲)

جن آیات میں حلال وحرام کاذکر ہوتا ہے وہ محکم ہوتی ہیں اس کے علاوہ باقی متشابہ، اس لئے انہیں غلط یاباہم مخالف نہیں سمجھناچاہئے بلکہ وہ ایک دوسری کی تصدیق کرتی ہیں، بحوالہ تفسیر عبدبن حمید ضحاک تابعی سے روایت کرتے ہیں :المحکمات ما لم ینسخ منہ والمتشابھات ما قد نسخ .

یعنی محکم وہ آیات جن کا کوئی حکم منسوخ شدہ نہیں ہے، اور متشابہ کا حکم منسوخ ہوتا ہے۔

بحوالہ تفسیر ابن ابی حاتم عکرمہ وقتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ: المحکم الذی یعمل بہ والمتشابہ الذی یؤمن بہ ولا یعمل بہ.

جن آیات کو سمجھ کر ان پر عمل کیاجاتاہے وہ محکم ہیںاور جن پر نہ سمجھنے کی وجہ سے عمل نہیں کیاجاتا وہ متشابہ ہیں،راقم الحروف کہتا ہے کہ ان تمام معانی میں کوئی اختلاف نہیں ہے سب قریب المعنی ہیں کیونکہ ان کاماحصل ایک ہی ہے۔

فائدہ اولیٰ:

بارہویں فصل میں حدیث گزری ہےکہ ’’واعملوا بالمحکم وآمنوا بالمتشابہ‘‘یعنی محکم آیات پر عمل کرو اور متشابھات پر ایمان رکھو۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تمام احکامات مبنی برحقیقت ہیں اگرچہ بعض کامفہوم سمجھ نہیں آتا یہ ہماری سمجھ کا قصور ہے لہذا ان پر اعتراضات یا ان میں تاویل کرناملحدین اور دشمنان اسلام کا شیوہ ہے ، ایک مسلمان کوتوان پر ایمان لانا ہے اور ان کی تصدیق کرنی ہے اور انہیں تسلیم کرنا ہے جیسا کہ صفات باری تعالیٰ پر بغیر کسی تاویل وتکییف، بحث ومباحثہ کے ایمان لانا ہے اور انہیں تسلیم کرنا ہے۔

امام ابوعثمان صابونی ،عقیدہ السلف واصحاب الحدیث میں امام مالک رحمہ اللہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ :ـ

ایاکم والبدعۃ قیل یا اباعبداللہ وماالبدع قال اھل البدع الذین یتکلمون فی اسماء اللہ وصفاتہ وکلامہ وعلمہ وقدرتہ ولایسکتون کما سکت عنہ الصحابۃ والتابعون.(الجموعۃ الرسائل المنیریہ ۱؍۱۱۹)

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:’’بدعت سے بازرہو ،سوال کیاگیا کہ بدعت کیا ہے؟ فرمایا کہ اہل بدعت وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات ،کلام، علم وقدرت کےبارے میں فضول گفتگو وبحث ومباحثہ کرتے رہتےہیں اور جن امور میں صحابہ کرام وتابعین نے خاموشی اختیار کیے رکھی ان میں وہ بحث ومباحثہ کرتے ہیں۔

اہل الرای کے تمام فرقوں کایہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات ومتشابہ آیات میں تاویلیں کرتے ہیں اسی طرح ملحد فرقے جن کامقصد عمل کرنا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو شکوک وشبہات میں ڈالنے کے لئے ایسے امور میں بحث ومباحثہ کرتے ہیں تاکہ بآسانی لوگوں کو گمراہ کرسکیں ان لوگوں کے لئے حدیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

چنانچہ صحیحین میں عائشہrسے روایت ہے کہ :

قَالَتْ: تَلاَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الآيَةَ: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الكِتَابَ، مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتَابِ، وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ}، فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الفِتْنَةِ، وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ، وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ، وَالرَّاسِخُونَ فِي العِلْمِ يَقُولُونَ: آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الأَلْبَابِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا رَأَيْتِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكِ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ»

(صحیح بخاری، کتاب التفسیر،سورۃ آل عمران:۴۵۴۷، مسلم: ۲۶۶۵)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی جس کامفہوم یہ ہے کہ:اللہ تعالیٰ نے جوقرآن نازل فرمایا ہے اس میں بعض آیات محکم ہیں ان میں بنیادی مسائل مذکور ہیں ان پر عمل کرنا ہے اور بعض آیات متشابہ ہیں پھر وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن اور بے ایمانی ہے وہ محکمات کے بجائے متشابھات کے پیچھے لگتے ہیں اس لئے کہ مخلوق میںفتنہ ڈال دیں یاان کامفہوم ونتیجہ معلوم کریں،حالانکہ ان متشابھات کا صحیح مفہوم وانجام صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہےیا وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پختہ علم ویقین حاصل ہوتا ہے، وہ تمام احکامات پر ایمان رکھتے ہیں وہ متشابہ یامحکم انہیں اللہ کی طرف سے نازل کردہ اورحق تصور کرتے ہیں ان میں سے عقل والے یہ نصیحت حاصل کرتےہیں، پھرآپﷺ نے فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابھات کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکرفرمایاہے تم ایسے لوگوں سےد وررہو۔

فائدہ 2:

متشابہ کے بارے میں علماء کے دواقوال ہیں: اکثر علماء کاخیال ہے کہ ان کا معنی ومفہوم اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، ایک جماعت کا کہنا ہےکہ متشابھات کےمعنی ومفہوم کا علم کئی علماء کو بھی ہوتاہے، جیسا کہ ایک روایت ابن عباسtسے مروی ہے نیزمجاہد اورضحاک سےبھی یہی مروی ہے،امام نووی فرماتے ہیں:انہ اصح لانہ یبعدان یخاطب اللہ عبادہ بمالاسبیل لاحد من الخلق الی معرفتہ.

یعنی دوسرا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ بات عقلا محال وبعید ہے کہ اللہ نے اپنےکلام میں بندوں سے ایساخطاب کیا ہو جو ان میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آتاہو۔(الاتقان،۳؍۲)

اس مسئلہ کےباےمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’الاکلیل فی المتشابہ والتاویل‘‘ میں بہترین فیصلہ صادر فرمایا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں:

لم یقل فی المتشابہ لایعلم تفسیرہ ومعناہ …..لان اللفظ واحد والمعنی متنوع…..

(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ،ص:۲۷۵،۲۷۶)

یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ متشابہ کا معنی ومفہوم کوئی نہیں جانتا بلکہ تاویل کا انکار کیا ہے توواقعتا اس کاانجام وتاویل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس طرح دونوں اقوال کے مابین مبنی برانصاف فیصلہ ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:[كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ ](ص:)

یعنی:یہ بابرکت کتاب جسےہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور وفکرکریں ۔

یہ حکم عام ہے اور تمام آیات کو شامل ہے وہ محکم ہوں یا متشابہ اگرقرآن میں ایسی آیات بھی ہوں جن کامعنی وتفسیر کوئی نہیں جانتا توپھر ان پرغور کون کرسکےگا؟ نیز فرمایا:[اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ]

(النساء:۸۲)

یہ لوگ قرآن مجید میں غور کیوں نہیں کرتے یہ آیت بھی عام ہے جس میںکسی چیز کا استثناء نہیں ہے اس لئے یہاں مذمت ان لوگوں کی ہے جو متشابھات میں فتنہ اور بگاڑ کی نیت سے تاویلات کرتےہیں باقی وہ لوگ جو محکم ومتشابہ پر ان کامعنی ومفہوم سمجھنے کے لئے غور وفکر کرتے ہیں ان کے لئے کوئی منع وارد نہیں ہے بلکہ مذمت اور ایسی تمام تشبیہ وتاویل کے لئے ہے۔

جیسا کہ ایک روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حیی ابن اخطب یہودی وغیرہ سورتوں کے ابتدائی حروف مقطعات کے ابجد سے حساب لگاکرکہنے لگے کہ یہ امت باقی چھ سوترانوے (693)سال تک رہےگی، ایسی ہی تاویلات نجران کے نصاریٰ نے بھی کیں جب وہ وفد کی صورت میں رسول ﷺ کےپاس آئے اور قرآنی الفاظ’انا‘ ،’نحن‘ وغیرہ پیش کرکےکہنے لگے کہ یہ ضمیرجمع کی ہیں لہذا ان سے تین الٰہ ثابت ہوتےہیں یعنی اپنے عقیدہ تثلیث کا ثبوت قرآن مجید سے دینے لگے ،حالانکہ ’’انا‘‘،’’نحن‘‘ دونوں کلمات متشابھات میں سے ہیں کبھی ان سے اپنی اور اپنی متشابہ ذات کی شرکت مراد ہوتی ہے اور کبھی غیر جنس کی شراکت بھی اور کبھی صرف متکلم مراد ہوتا ہے مگرضمیر جمع اپنی عظمت کی خاطر ہوتی ہے کیونکہ اس (اللہ تعالیٰ) کے اسماء وصفات بکثرت ہیں گویا اس کا ہر اسم مسمیٰ کے قائم مقام ہے اس لئے ایسے الفاظ متشابھات میں سے ہیں جن کے ایک سے زائد معانی ہوتے ہیں،نجران کے نصاریٰ نے اس میں تاویل کی جس طرح ابن اخطب نے تاویلات کیں اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت فرمائی ہے۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے