Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » ‎شمارہ جولای » قربِ قیامت عوام اور حکمرانوں کے فقدانِ بصیرت کا منظر

قربِ قیامت عوام اور حکمرانوں کے فقدانِ بصیرت کا منظر

سیاسی جلسوں کا دور دورہ ہے اور گہما گہمی کا عجیب منظر ہے ، مختلف جماعتوں کے سربراہان اس وقت وفاقی اور صوبائی سطحوں پر اپنی حکومت بنانے کے دعویدار نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے ہر قسم کے جتن کئے جارہے ہیں۔ جمہوریت کا یہ روپ کہ جس میں ہر شخص خود کو حکومت کا اہل سمجھتے ہوئے اس کا امیدوار ہوتا ہے ،عوام سے ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے ،مخالف امیدوار کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے کذب و افترا کو جائز سمجھتا ہے ،عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے خواہ ایمان کا سودا کرنا پڑے جیسا کہ دیکھا گیا کہ کئی ایک مسلمان جوکہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں بلکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی ہیں ، وہ غیر مسلموں کے عبادت خانوں ، ان کے خاص مذہبی تہواروں کا بھی رخ کرلیتے ہیں اور بسا اوقات وہ مذہبی رسوم بھی ادا کرتے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے کسی صورت جائز نہیں ہوتیں،ایسا صرف اقلیتوں کی حمایت کے حصول یا بیرونی آقاؤں کی خوشی کے لیے کیا جاتا ہےاور سمجھا جاتا ہے کہ یہ بھی ان کے ووٹ بینک کو بڑھانے میں ایک عظیم کارنامہ ثابت ہوگا،سیاسی جلسوں میں نوجوانوں کو بور یت سے دور رکھنے کا سامان یہ کیا جاتا ہے کہ مخلوط سسٹم کردیا جائے اور خوب میوز ک کا شور شرابا ہو،خواتین بے حجاب و عریاں ان جلسوں میں رقص کررہی ہوں۔

یہ ہے وہ منظر جو ارضِ پاکستان میں ان دنوں زیر مشاہدہ ہے ، ہر اسلام پسند اور اسلامی تعلیمات سے واقف شخص ان تمام تر گہما گہمیوں کی اسلامی حیثیت سے واقف ہے،دراصل ان تمام تر خرابیوں کے اسباب میں سے ایک سبب دین اسلام کے حوالے سے علمِ نافع اور دینی بصیرت کا فقدان ہے، جو مجموعی طور پر عوام اور حکمران طبقہ دونوں میں دیکھا جارہا ہے اور یہ وہ خامی ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے پہلے ہی پیشین گوئی فرمادی تھی اور مختلف احادیث میں آپﷺ کی یہ پیشین گوئیاں کہ قربِ قیامت لوگوںمیں بصیرت اور فہم کی بڑی کمی ہوگی ،موجود ہیں ۔موجودہ دور نبی اکرم ﷺ کی ان احادیث کی عکاسی کرتا ہے کہ عوام اور حکمران طبقہ دونوں بصیرت سے محروم ہیں، ہم اپنے اس مضمون میں شرعی نصوص کی روشنی میں مذکورہ دونوں طبقات (عوام اور حکمران ) کے حوالے سے اسی پہلو کو بیان کریں گے اور یہ مضمون دو حصوں پر منقسم ہوگا ، ایک حصہ میں بیان کیا جائے گا کہ قربِ قیامت عوام الناس کس طرح بصیرت سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور دوسرا حصہ میں اس بات کو بیان کیا جائے گا کہ حکمران بھی ایسے مسلط کردئیے جائیں گے کہ جوعقل و شعور سے بالکل دور ہوں گے۔

پہلا حصہ :

 قرب قیامت عوام الناس کی بصیرت اور شعور کی کیفیت

 ہم اس باب میں سب سے پہلے ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔سیدنا ابوھریرہ tسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ بادروا بالأ عمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤ منا ويمسي كافرا ا و يمسي مو منا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا‘‘(صحیح مسلم:118)

یعنی :’’ قرب ِقیامت ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گااور شام کو مومن ہوگا اور صبح کافر ہوجائے گا۔ آدمی اپنے دین کو پیسوں کے بدلے بیچ دےگا۔‘‘

اب سوال اٹھتا ہے کہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ دور جیسے آگے جارہا ہے، ترقی ہورہی ہے، دنیا چاند پر پہنچ گئی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بصیرت اس حد تک ختم ہوجائےگی ایک ہی دن میں مختلف ادیان کو قبول کیا جارہا ہے ۔کیا وجہ ہے؟دوسری حدیث میں جواب موجود ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’ إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فا فتوا بغير علم فضلوا وا ضلوا‘‘ (صحیح بخاری:100صحیح مسلم: 2673)

یعنی: ’’ علم اٹھ جائے گا اور اللہ تعالی علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالے گا۔بلکہ علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنے رؤساء اور پیشوا بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔‘‘

ان دونوں احایث کوسے یہ بالکل واضح ہوجاتاہے کہ اہل علم سے تعلق اور مصاحبت بصیرت کاسبب ہے۔اور قربِ قیامت جیسے جیسے علماء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ذریعےسے علم اٹھتا جائے گا، لوگ بھی بصیرت سے دور ہوتے چلے جائیں گے،حتی کہ لوگ جہلاء کو پیشوا بنالیں گے اور ان سے فتاوی پوچھیں گے، نتیجتاً وہ گمراہی کی دلدل میں گرتے چلے جائیں گے۔آج بالکل یہی کیفیت بنتی جارہی ہے کہ آج میڈیا پر جن لوگوں سے دینیات کے مسائل پوچھے جارہے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مساجد کے منبروں نے قبول نہیں کیا،جو شاید دنیاوی امور میں علماء سے فائق ہوں لیکن دینی رہنما ہونے کاقطعاً حق نہیں رکھتے۔آج دینی بصیرت کے معدوم ہونے کے اسباب میں سے بڑا سبب یہی ہے کہ علماء ربانیین بڑی تیزی سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور پھر خواہش پرست لوگ بڑی تیزی سے بمصداقِ ’’ نیم حکیم خطرۂ جان ‘‘ لوگوں کے ایمان کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے شرور سے ہمیں محفوظ رکھے۔(آمین)

بہرحال ان دونوں احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی صورت حال کی طرف چودہ سو سال پہلے ہی نشاندہی فرما دی تھی کہ کس طرح لوگ بصیرت سے دور ہوتے چلے جائیںگے۔بلکہ قیامت کے قریب لوگوں کے عدم ِشعور اور اسی بنیاد پر ان کی خارجی روش کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’سيخرج في اٰ خر الزمان قوم أ حداث الأ سنان سفهاء الأ حلام يقولون من خير قول البرية يقرءون القرآ ن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم أ جرا لمن قتلهم عند الله يوم القيامة‘‘

یعنی: ’’عنقریب آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے، نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے ، بظاہربات تو بہت عمدہ قسم کی کریں گے، قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کےحلق سے نیچے نہ اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا (یہ خطاب حکام سے ہے)کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘(صحیح مسلم:1006)

اس حدیث میں بڑے واضح انداز میںنبی ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ بظاہر بڑی اچھی بات کرنے والے نوجوان ہونگےدراصل وہ بے وقوف ہونگے۔یہ لوگ بھی صحیح فہم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے دین میں غلو و افراط کرکے راہ ہدایت سے بھٹک جائیں گے ۔

گویا کہ پہلا گروہ (جس کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا کہ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے)جہالت کی وجہ سے دین میں تفریط اور کمی و تساہل کا شکار ہوگا اور ایمان سے محروم ہوجائے گا اور اسی طرح دوسرا گروہ (جس کا ذکر مذکور ہ حدیث میں ہوا کہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا)بھی اپنی جہالت اور صحیح فہم نہ ہونے کی وجہ سےافراط کا شکار ہوکر گمراہی کی دہلیز پر آکھڑا ہوگا۔واضح رہے کہ مذکورہ حدیث کا تعلق خوارج کے ساتھ ہے ان کی اس روش کی وجہ فہم صحیح اور بصیرت سے دوری ہے، اس لئے صحیح فہم یہی ہے کہ راہ اعتدال کو اختیار کیا جائے اور افراط و تفریط، جذباتی نعروں اور رویوں سے بھی گریز کیا جائے اوردین کے معاملے میں تساہل سے بھی حد درجہ دور رہا جائے۔

ایک اور حدیث میں مزید صراحت سے قرب قیامت عقل و شعور کے فقدان کا ذکر کیا گیا ہے ،چناچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (قربِ قیامت ایسا دور آئے گا کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے اٹھالی جائے گی اور اس کا ایک دھندلا سا نشان رہ جائیگا۔ پھر سوئے گا تو باقی امانت بھی اس کے دل سے نکال لی جائے گی۔ تو اس کانشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا۔ جیسے چنگاری کو اپنے پاؤں سے لڑھکائے اور وہ پھول جائے اور تو اس کو ابھرا ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کوئی چیز نہیں۔ حالت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے، لیکن کوئی امانت ادا نہیں کرے گا یہاں تک کہ کہا جائیگا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی کے متعلق کہا جائیگا کہ کس قدر عاقل ہے!! کس قدر ظریف ہے!! اور کس قدر شجاع ہے!! حالانکہ اس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان نہ ہو گا (راوی کہتے ہیں)اور ہم پر ایک زمانہ ایسا گزرچکا ہے کہ کسی کے ہاتھ خرید و فروخت کرنے میں کچھ پرواہ نہ ہوتی تھی۔ اگر مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام اور نصرانی ہوتا تو اس کے مدد گار گمراہی سے باز رکھتے ،لیکن آج کل فلاں فلاں (یعنی خاص) لوگوں سے ہی خرید وفروخت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ)

اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے یہ خبر دی کہ قرب قیامت امانت بھی ختم ہوجائے گی اور بصیرت بھی ختم ہوجائے گی۔اعاذنا اللہ منھا

مذکورہ دلائل عمومی طور پر عوام الناس کے حوالے سے تھے، اب ہم ان دلائل کا تذکرہ کرتے ہیں حکمران طبقے کے بارے میں بھی نشاندہی کرتے ہیں۔

دوسرا حصہ :

قربِ قیامت حکمرانوں یا لیڈر شپ میں بصیرت کا فقدان

اس حوالے سے بھی متعدد دلائل اور موجودہ حقائق اس حقیقت کو آشکارا کردیتے ہیں کہ ا س حوالےسے نبی اکرم ﷺ کے فرمودات موجودہ دور کی کیسی واشگاف عکاسی کرتے ہیں۔

جاہل لیڈر شپ :

 قیامت کے قریب علم جیسے جیسے اٹھتا چلا جائے گا ، سیاسی ، سماجی ، شورائی، ریاستی باگ ڈور جہلاء کے ہاتھ میں دی جانے لگے گی، جیساکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنے رؤساء اور پیشوا بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔‘‘(صحیح بخاری:100، صحیح مسلم: 2673)

 یہ حدیث دورِ حاضرپر بدرجہ اتم صادق نظر آتی ہے کہ کس طرح علم سے کورے لوگوں کی لیڈر شپ عوام کو گمراہی کے دھانے پر کھڑے کیے ہوئے ہے۔ اور ہم اخبارات و میڈیا کے ذریعے اس کے مظاہر دیکھ رہے ہیں ، بلکہ اس کے پیش آمدہ نقصانات بھی مشاہدہ میں ہیں۔

لئیموں کی لیڈر شپ:

 ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع ابن لكع(جامع ترمذی:2209)

یعنی : ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دنیا میں سب سے زیادہ سعادت والا اسے نہ سمجھ لیا جائے جو کمینہ ہو اور کمینے کا بیٹا ہو۔‘‘

یہ حدیث اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح ہے اور دور حاضر پر اس کا انطباق بھی مشاہدہ میں ہے کہ حد درجہ شرم و حیا سے عاری ، بے حس ، ظالم و جابر لیڈرحکمرانی کا تاج سر پر سجانے کے لیے اپنے جتن ہائے خبیثہ میں مصروف و مشغول ہیں اور حیا باختہ ہوکر ارض پاکستان کو فساد میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔

بے وقوف حکمران مسلط کردئیے جائیں گے:

 ایک روایت میں رسول اکرم ﷺنے  فرمایا:

بادروا بالموت ستاً إمرة السفهاء وكثرة الشرط وبيع الحكم واستخفافا بالدم وقطيعة الرحم ونشوا يتخذون القرآن مزامير يقدمونه يغنيهم وإن كان أقل منهم فقهاً(مسند احمد: 494/3سلسلۃ الصحیحۃ : 979  )

ترجمہ : ’’چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے موت کی تمنا کرو، بےوقوفوں کی امارت ،پولیس کا زیادہ ہونا، فیصلے کا بیچنا، انسانی خون کو ہلکا سمجھ لینا، قطع تعلقی کا عام ہونااور ایسے لوگوں کو (منبر و اسٹیج وغیرہ پر زیادہ بڑے عالم دین کے موجود ہونے کے باوجود )آگے کرنا تاکہ وہ گاگاکر قرآن سنائیں، حالانکہ وہ علم میں کم ہونگے۔‘‘

اس حدیث میں فرمایا گیا کہ دعا کرو کہ چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلےتمہیں موت آجائے۔ان میں سے ایک چیز بے وقوف اور فہم وبصیرت سے عاری لوگوں کی حکومت۔بلکہ ایک روایت میں رسول اکرم ﷺ نے امارتِ سفھاء سے پناہ مانگی ،چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرہ سے فرمایا:

اعاذك الله من إمارة السفهاء۔ قال: وما إمارة السفهاء؟ قال: ا مراء يكونون بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي فمن صدقهم بكذبهم وا عانهم على ظلمهم فا ولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردوا علي حوضي (صحیح ابن حبان:4514، مسند بزار:1609 )

دیگر کتب میں یہ روایت کعب بن عجرہ کی روایت سے بھی موجود ہے۔

ترجمہ :’’ اللہ تعالی تجھے بے وقوفوں کی امارت سے بچائے۔کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : بے وقوفوں کی امارت کیا ہے؟ فرمایا: میرے بعد ایسے امراء ہونگے جو میری رہنمائی کی اقتداء نہیں کریں گے اور نہ ہی میری سنت پر چلیں گے۔اور جو ان کے کذب کے باوجود ان کی تصدیق کریں گے اور ظلم میں ان کی مدد کریں گےایسے لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔اور نہ ہی وہ میرے حوض پر آسکیں گے۔اور جو لوگ ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کریں گےاور ظلم پر ان کی مدد نہیں کریں گے یہی لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔اور یہ میرے حوض پر بھی وارد ہونگے۔

اس روایت پرصحیح ابن حبان میں باب قائم ہے کہ ذکر تعوذ المصطفی ﷺ من امارۃ السفھاء

یعنی نبیﷺ کا بے وقوفوں کی امارت سے پناہ مانگنا۔اس روایت میں نبیﷺ کے الفاظ ہیں ’’اعاذنا اللہ ‘‘ یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں۔

اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ جھوٹ بولنے والے اور ظالم ہونگے ۔حکمرانوں کا جھوٹ بولنا ، جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر کرسی حاصل کرنا یہ عقل مندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک روایت میں جھوٹ بولنے والے حکمران کے لئے وعید بیان کی گئی ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم قال ا بو معاوية ولا ينظر إليهم ولهم عذاب ا ليم شيخ زان وملك كذاب وعائل مستكبر‘‘ (صحیح مسلم :107 )

ترجمہ:’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گااور نہ ہی انہیں پاک و صاف کرے گا اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(1) بوڑھا زانی (2)جھوٹا بادشاہ (3)تکبر کرنے والامفلس ۔‘‘

مذکورہ روایت میں اس قدر سخت وعید کی وجہ یہی ہے کہ ان تینوں قسم کے افراد کو دوسروں کی بہ نسبت یہ تینوں گناہ بالاولیٰ زیب نہیں دیتےاور دوسروں کی بہ نسبت انہیں تو ان گناہوں سےزیادہ بچنا چاہئے تھا ،کیونکہ یہ ان کے لئے ان گناہوں سے دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا۔اسی لئے ان کے لئے مذکورہ گناہوں کے حوالے سے سزا بھی خصوصی اور زیادہ سخت ہے۔اور یہ بہت بڑی سزا ہے کہ اللہ تعالی نہ ان سے کلام کرے اور نہ ہی ان کاتزکیہ کرے اور پھر ان کے لئے درد ناک عذاب بھی ہے۔

یہ تینوں گناہ مذکورہ تینوں قسم کے افراد کی بے وقوفی کو بھی واضح کرتےہیں اور بالخصوص جھوٹا بادشاہ جیسا کہ پچھلی حدیث میں صراحت کے ساتھ بے وقوف بادشاہ کے اوصاف میں دروغ گوئی کابھی بیان ہوا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی یہ پیشین گوئی آج من و عن پوری ہوتی جارہی ہےاور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دورِ حاضر میں جمہوریت کے راستے سے انتہائی نااہل اور عدیم البصیرت قسم کے افراد عہدوں کے وارث بن جاتے ہیں اور ان عہدوں کے حصول کے لئے انہیں دروغ گوئی سمیت دھوکہ ،فراڈ، رشوت اور نہ جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ۔اور پھر جس طرح سے یہ عہدوں کو حاصل کرتے ہیں ،کیسے یہ ممکن ہے کہ ان گناہوں اور معاشرے کی بربادی کے بنیادی اسبا ب کو ختم کریں،نتیجتاً ایسے جھوٹے مکار اور عدیم البصیرت حاکم کی وجہ سے برائیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید جنم لیتی ہیں۔اور ہر خاص و عام یہ بھی جانتا ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی اکثریت اسی قبیل کی ہے ،بہت ہی کم لوگ ہونگے جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا ہوگا !!

بہرحال ایسے لوگوں کی امارت قیامت کی علامات میں سے ہے۔لہٰذا بصیرت کے حصول کے لئےدعائیں بھی کرنی چاہییں اور اہل علم اور اہل بصیرت سے تعلق بھی رکھا جائے۔اور رسول اللہﷺ کی طرح پناہ بھی مانگنی چاہئے۔جیساکہ اس حوالے سے حدیث گزرچکی۔

اور یہ بات بھی واضح رہے کہ امارت سفھاء کا مسئلہ ایسا نقصان دہ ہے کہ اس کی لپیٹ میں پورا معاشرہ آجاتا ہے ،کیونکہ قرآن مجید میں فرمان الٰہی ہے :

وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ     (الانعام: 129)

ترجمہ : اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنا دیں گے کیونکہ وہ (مل کر ہی) ایسے کام کیا کرتے تھے۔

اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے گئے ہیں ایک معنی یہ ہے کہ جہنم میں باہم ظالم ایک دوسرے کے ساتھ ہونگے ۔دوسرا معنی دنیا میں بھی ظالم و کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیںاور تیسرا معنی ظالم لوگوں پر اللہ ظالم لوگ ہی مسلط کردیتا ہے ،خواہ وہ حکمرانوں کی صورت میں یا کسی اورصورت میں ۔چناچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ومعنى الآية الكريمة كما ولينا هؤلاء الخاسرين من الإنس تلك الطائفة التي أغوتهم من الجن كذلك نفعل بالظالمين نسلط بعضهم على بعض ونهلك بعضهم ببعض وننتقم من بعضهم ببعض جزاء على ظلمهم وبغيهم

ترجمہ : ’’آیت کامطلب یہ ہے کہ ہم نے جس طرح ان نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا، اسی طرح ظالموں کے بعض کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں، اور بعض کو بعض کے ذریعے سے ہلاک کردیتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )

خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں میں سے جو بھی معنی مراد لیا جائے تینوں کے عموم اور وسعت میں ظالم حکمرانوں کا تسلط بھی آجاتا ہے اور تیسرے معنی میں تو سب سے زیادہ واضح ہے۔لہٰذا اس آیت کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جیسے لوگ ویسے حکمران ،یعنی حکمرانوں کی بے وقوفی لوگوں کی اکثریت کی بے وقوفی کی دلیل ہے ، ہمارے اس استدلال کی بنیاد اسی آیت مبارکہ پرہے ،البتہ اس مضمون کی ایک ضعیف روایت بھی ہے:[كما تكونوا يولى عليكم]

ترجمہ :’’جیسے تم خود ہوگے ویسے ہی حکمران تم پر مسلط کردئیے جائیں گے ۔‘‘(سلسلۃ الضعیفۃ للالبانی :320)

اس روایت کوسنداً ضعیف ثابت کرنے کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں :

ثم إن الحديث معناه غير صحيح على إطلاقه عندي، فقد حدثنا التاريخ تولي رجل صالح عقب أمير غير صالح والشعب هو هو! .

 یعنی : اس حدیث کا معنی بھی مطلق طور میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ غیر صالح آدمی کے بعد صالح آدمی امیر بن جاتا ہے۔حالانکہ عوام تو وہی کی وہی ہے۔

جہاں تک علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس کلام کا تعلق ہے، اس حدیث کے سنداً ضعیف ہونےمیں ہم بھی متفق ہیں، لیکن اپنے ناقص علم کا اعتراف کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ ضعیف ہے ،لیکن مذکورہ قرآنی آیت اور صحیح احادیث کو سامنے رکھا جائے تو مفہوم یہ نکلتا ہےکہ ایسا قیامت کے قریب ہوگا کہ لوگوں کی اکثریت فہم و دانش سے دورہوجائے گی اور ایسے ہی حکمران ان پر مسلط کردئیے جائیں گے۔اس معنی کی روایات سے یہی مفہوم مراد لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ اس کا تعلق قربِ قیامت سے ہے،لہذا ان کا پچھلی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں،مزید یہ کہ دور حاضر میں ایسے مناظر بکثرت دیکھے جارہے ہیں۔واللہ اعلم –

About شیخ یونس اثری

Check Also

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے