Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جنوری » ملّت کے سپوت ذمہ داریاں اور درپیش فتنے

ملّت کے سپوت ذمہ داریاں اور درپیش فتنے

تخلیق انسانی کئی مراحل طے کرکے منظر عام پر آتی ہےاور پھر تخلیق (پیدائش)کے بعد بھی اس کی زندگی کئی مراحل میں منقسم ہوتی ہے۔ مثلاً بچپن ،لڑکپن ،جوانی اور بڑھاپا۔ انسانی زندگی کے یہ مراحل اس قابل ہیں کہ انہیں بغور سمجھا جائے اور ان مراحل کے خصوصی اوصاف اور صلاحیتوں کے مطابق ہی ہر مرحلے کو گزارا جائے۔اس لئے کہ دین اسلام نے مکمل طور پر انہی مراحل کے مطابق انسان کو شریعت کا پابند بنایاہے۔مثلاً ایک بچہ جو ابھی سنِ شعور کو نہیں پہنچا وہ شرعی احکامات کا مکلف نہیں، بہرحال ان مراحل میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جوانی کی عمر ہے ، جس کی اہمیت کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ کسی بھی قوم کے نوجوان اگر باشعور ہو ں تو وہ قوم زندہ قوم کہلاتی ہے اور اس قوم کی اقوام عالم میں اپنی ایک مستقل شناخت ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کے نوجوان بے شعور ہوں تو وہ دنیا کی ایک مردہ قوم کہلاتی ہے ۔ اسی لئے استعمار جس قوم کو مردہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس قوم کے نوجوانوں کو شعور سے خالی کرتا ہے۔ نوجوانوں کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے تو وہ اپنا آئیڈیل بھول جاتے ہیں ۔ یہ نوجوان ایسے لوگوں کو اپنا آئیڈیل بنا لیتے ہیں جن کا کردار اسلامی آئیڈیالوجی تو کجا کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔یہی صورتحال موجودہ دورکے جوانوں کی اکثریت کی ہے،زیر نظر مضمون میں نوجوانوں کے حوالے سے چند ذیلی نکات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

ان شاء اللہ

جوانی کی اہمیت

نوجوانوں کے کرنے کے کام

دورحاضر کے جوانوں کودرپیش فتنے اور ان کا حل

جوانی کی اہمیت :

جوانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ ایک عظیم نعمت اوربڑی اہمیت کی حامل عمر ہےجس کا اندازہ چند نصوص شرعیہ کی روشنی میں لگایا جاسکتا ہے۔

نبیﷺکی ایک حدیث میں سات ایسے خوش نصیبوں کا ذکر ہے جو قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے، جس دن سورج ایک میل کے فاصلے پر ہوگا اور لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے، بعض لوگ سینے تک، بعض گھٹنے تک اوربعض پورے کے پورے پسینے میں ڈوبے ہوں گے،ایسے میں جنھیں اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگیایقیناً وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوں گے اور ان سات قسم کے افرادمیں سے ایک شخص :’’ وشاب نشأ في عبادة اللّٰہ‘‘ (صحیح بخاری:کتاب الزکوۃ ،باب الصدقۃ بالیمین ، صحیح مسلم:کتاب الزکوۃ ، باب فضل اخفاء الصدقۃ)

یعنی ایسا نوجوان جس کی نشونما اللہ تعالیٰ  کی عبادت ہی میں ہوئی ہو۔گویا کہ صالح جوان کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہوگا۔

اسی طرح جوانی کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ اس حدیث سے لگاسکتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیامت کے دن پوچھے جانے والے پانچ اہم سوالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ لاتزول قدما  ابن آدم يوم القيامة من عند ربه حتى يسأ ل عن خمس عن عمره فيم ا فناه وعن شبابه فيم ا بلاه وماله من اين اكتسبه وفيم ا نفقه وماذا عمل فيما علم ‘‘(جامع ترمذی: أبواب صفة القيامة … ،باب في القيامة،  المعجم الکبیر :9772، المعجم الصغیر: 760، (حسن))

’’ قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے متعلق نہیں پوچھ لیا جائے گا۔ (۱) اس نے عمر کس چیز میں صرف کی (۲)جوانی کہاں خرچ کی (۳)مال کہاں سے کمایا(۴)مال کہاں خرچ کیا(۵)جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا ۔‘‘

مذکورہ حدیث میں سب سے پہلا سوال عمر کے بارے میں ہے ،جس میں جوانی بھی شامل ہے لیکن دوسرا سوال علیحدہ سے جوانی کے بارے میں کیا جائے گا کہ جوانی کیسے گزاری؟جس سے اس کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیث میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نےپانچ چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ انہیں غنیمت سمجھو۔چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

 ’’اغتنم خمسا قبل خمس شبابك قبل هرمك وصحتك قبل سقمك وغناءك قبل فقرك وفراغك قبل شغلك وحياتك قبل موتك‘‘ (مستدرک حاکم:کتاب الرقاق حدیث: 7846، شعب الایمان: الزہد و قصر الامل ، حدیث: 9767)

ترجمہ: ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت سمجھو۔(۱)جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲)بیماری سے پہلے صحت کو(۳)محتاجی سے پہلے مالداری کو(۴)مصروفیت سے پہلے فرصت کو(۵)موت سے پہلے پوری زندگی کو ۔‘‘

اس حدیث میں بھی سب سے پہلے جوانی کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس کی قدر کی جائے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ جوانی جیسی عمر کوئی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں اکثریت جوانوں کی تھی جنہوں نے دل و جان سے اسلام کو قبول کیا اور پھر نشر اسلام اور دفاع اسلام کے لئے کمربستہ ہوگئے۔بہر حال ان تمام روایات سے اور اس تفصیل سے جوانی کی اہمیت آشکارہوتی ہے ۔

نوجوانوں کے کرنے کے کام

انسانی زندگی کے تمام مراحل میں سب سے اہم مرحلہ یہی جوانی ہے ، لہذااس عمرمیں جو کام ہوسکتے ہیں زندگی کے کسی مرحلےمیں نہیں ہوسکتے،اس لئے چند ایسے کام بیان کئے جاتے ہیں،جو پوری زندگی میں بالعموم اور وہ کام جوانی کی عمر میں زیادہ احسن انداز میں کئے جاسکتے ہیں۔

.1تعلیم اور تعلّم

جوانی کی عمر علم سیکھنے کی عمر ہےاور ایسا علم کہ اس پر عمل بھی ہو۔یہ کام جوانی میں بطریق احسن ہوسکتا ہے۔ جب جسم کے دیگر اعضاء کی طرح دماغ بھی جوان ہوتا ہے۔اور پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ علم حاصل کیاجاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب صفہ بھی اکثر نوجوان تھے۔ابوذر غفاری ،بلال رضی اللہ تعالیٰ عنھما وغیرہ اسی زمرے کے ہیں۔جس صحابی کی شادی ہوجاتی اور عائلی ذمہ داریاں غالب آجاتیں وہ اس زمرے سے نکل جاتا۔اسی طرح نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ملازم شاگرد جناب ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بھی جوانی کی عمر میں تھے۔ قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر کم و بیش ۲۶ یا ۲۷ سال تھی ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی جوانی کی عمرمیں تھے، جیسا کہ صحیح بخاری کی مختلف روایات سے ثابت ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جن کے لئےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر تفقہ فی الدین کی دعا کی،وہ بھی جوان تھے۔

ایک اور ملازم شاگرد سیدناانس رضی اللہ عنہ بھی جوان تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے آئے اس وقت ان کی عمر دس سال تھی اور دس سال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کی ۔

 اس حوالے سےکئی ایک صحابہ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی صرف جوانیوں کےروشن تذکرے اگر فرداً فرداً کئے جائیں تو کئی ایک دفاتر وجود میں آسکتے ہیں۔

بہرحال یہ عمر ہی اصل تعلّم کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’و یستحب للطالب ان یکون عزباً ما امکنہ‘‘ (الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع )

’’ طالب علم کے لئے مستحب ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو غیر شادی شدہ ہو۔‘‘ (تاکہ شادی کے بعد کی عائلی ذمہ داریاں اس کے لئے حصول علم سے مانع نہ بن جائیں۔)

اور جوانی کی عمر میں کس قدر ترجیحی بنیادوں پر علم کو حاصل کیا جائے، اس کا اندازہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کے اس قول سے لگائیں وہ فرماتے ہیں :

’’و اختار للمبتدی فی طلب العلم ان یدافع النکاح فان احمدبن حنبل لم یتزوج حتی تمت لہ اربعون سنۃ، و ھذا لاجل الھم ،ای للعلم  (صید الخاطر)

  ’’میں مبتدی طالب علم کے لئے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نکاح نہ کرے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے شادی نہیں کی تھی حتی کہ ان کی عمر چالیس سال ہوگئی تھی اور اس تاخیر کی وجہ حصول علم تھی۔‘‘

اندازہ لگائیں طلبِ علم کی وجہ سے بعض اہل علم نے جوانوں کو نکاح میں تاخیر کرنے کی نصیحت کی ہے کہ کہیں یہ اس طلب علم کے ایک اہم مشن میں رکاوٹ نہ بن جائے ۔اس اسےصاف واضح ہے کہ طلب ِعلم جوانوں کے اہم وظائف میں سے ہے اور یہ اتنا اہم کام ہے کہ اسے نکاح پر ترجیح دی جائے۔

الغرض یہ عمر تعلّم ِعلم کی ہے(اگرچہ عمر کے کسی بھی حصے میں علم حاصل کرنے والے کو روکا نہیں جاسکتا)کیونکہ اس عمر میں انسان کی قوت حافظہ مضبوط ہوتی ہے۔اور ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ اس کے ضبط کی طاقت بھی کمزور ہوجاتی ہے۔پھر وہ بہت سی چیزیں یاد کرنا چاہتا ہےتو بھی نہیں کرپاتا۔

.2دعوت و تبلیغ

  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت جوانی کی عمر میں ملی ۔چونکہ نبوت ایک انتہائی کٹھن ذمہ داری ہے رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ  لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن پر ہوتی ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا: ’’الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل۔‘‘ (جامع ترمذی : 2398، ابواب الزہد ، باب ماجاء فی الصبر علی البلاء )

’ ’سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء پر آتی ہیں پھر ان کے بعد نیک لوگوں پر ،اور پھر اس کے بعد جو نیک لوگ ہوں۔‘‘

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  جب معراج پر گئے اس رات سیدنا موسی  علیہ السلام  ،نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھ کر رو پڑے۔ان سے پوچھا گیا کہ رونے کی وجہ کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ ایک نوجوان جو میرے بعد نبی بنا ہے اور مجھ سے زیادہ اس کی امت جنت میں جائے گی۔( صحیح بخاری: 3887، کتاب مناقب ،باب المعراج)

تنبیہ : سیدنا موسی  علیہ السلام کا یہ رونا اور مذکورہ کلمات کہنا حسد کے طور پر نہیں تھے،بلکہ یہ اظہار افسوس کے طور پر تھا کہ وہ کثرت ِامت نہ ہونے کی وجہ سے اجر ِکثیر سے محروم ہوگئے۔حسد ،کسی نبی سے اور پھر اس عالم میں نہیں ہوسکتا۔

اس حدیثِ معراج سے بھی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو جوانی کی عمر میں نبوت جیسی اہم ذمہ داری کا ملنا ثابت ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ہجرت کے وقت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بڑے تھے اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا وصف بیان ہوا کہ ’’شاب لا یعرف‘‘   (صحیح بخاری :3911 ، کتاب مناقب الانصار ، باب ھجرۃ النبی)

یعنی ایسے نوجوان کہ لوگ انہیں پہچانتے نہیں تھے۔

جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت ملی آپ کی عمر ۴۰سال تھی ،جوکہ جوانی کی عمر ہے،اور اس عمر کے جوانی کی عمر ہونے کے ثبوت میں قرآنی نص موجود ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ’’ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً‘‘  (الاحقاف:15)

یہ ایسی عمر ہے کہ انسان کی جوانی بھی برقرار رہتی ہے اور اسے پورا شعور اور فہم ہوتا ہےاور اپنا بڑھاپا بھی اسے قریب آتا دکھائی دیتا ہے۔تو یہ ہر لحاظ سے اہم عمر ہے اس لئے اسی عمر میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت عطا کی گئی۔

نبوت ایک اہم ذمہ داری ہے اسی لئے ایسی ہی عمر کا انتخاب کیا گیا کہ جس عمر میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  مکمل طور مختلف قسم کی ابتلاءات کا سامنا کرسکیں۔لہٰذا یہی اصل عمر ہے دعوت دین کی کہ جس میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے سب سے اعلیٰ درجے (ہاتھ سے روکنا) پر بھی عمل کرسکتا ہے اور زبان کے ذریعے بھی ۔

بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد مدینہ میں تبلیغ کے لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ جانے کا حکم دیا۔ مصعب  رضی اللہ عنہ  اس وقت جوان تھے۔مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ  نے اپنی حرارت ایمانی اور جوش ایمانی کے ساتھ تبلیغ کا آغاز کیا۔ ان کے خلوص اور لگن، جوش خطابت، اخلاقِ پسندیدہ کے باعث بہت کم عرصہ میں بہت بڑی تعداد میں لوگ دین اسلام کی طرف آگئے اور یوں سمجھ لیں کہ تقریباً انصار کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد مسلمان تھا سوائے کچھ گھروں کے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ  مُقری کے لقب سے مشہور ہوئے۔

دیکھیں میدان تبلیغ میں ایک جوان کی محنت کا یہ ثمرہ ہےکہ مدینہ میں بڑی تعداد اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئی۔

 سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اہل بصرہ میں سے ہیں ،اپنی قوم کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے تھے اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس قیام کیا تھا وہ فرماتے ہیں: ہم کچھ افراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور ہم سب جوان تھے اور قریب قریب عمر کے تھے ہم نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیس (۲۰) دن ٹھہرے،نبی  صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحیم اور نرم مزاج والے تھے جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ محسوس کیا کہ ہم اب اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں ،تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے ہمارے گھر والوں کے بارے میں پوچھا، ہم نے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتلایا ، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’ ارجعوا إلى أ هليكم فأ قيموا فيهم وعلموهم ومروهم وذكر أشياء أحفظها او لا أحفظها وصلوا كما رأيتموني أ صلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أ حدكم وليؤمكم أ كبركم‘‘ (صحیح بخاری:  کتاب الصلوٰۃ ، باب الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة والإقامة وكذلك بعرفة وجمع وقول المؤذن الصلاة في الرحال في الليلة الباردة أو المطيرة)

یعنی اپنے گھروں کی طرف جاؤ اور ان کے پاس جاکر رہو اور انہیں علم سکھاؤ اور اچھی باتوں کا حکم دو اور پھر فرمایا جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے ویسے نماز پڑھو جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور جو تم میں سے عمر میں بڑا ہو وہ امامت کروائے۔

اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ان صحابہ نے مبادیات کو سیکھ کر پھر اس کی تبلیغ کا آغاز اپنے  گھروں سے کیا۔

اس لئے جوانوں کی یہ سب سے اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ خود دین کی صحیح طور پر سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعد پھر اس کے نشر کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔

.3 جہاد

جوانوں کا ایک اہم ترین کام یہ بھی ہے کہ وہ دفاع اسلام کے لئے میدان مقتل میں نکلتے ہیں۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ کام بھی نوجوانوں کے حصے میں آیا۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  بھی جنھیں میدان جہاد میں ان کی عمدہ کارروائیوں کی بناء پر سیف اللہ کے لقب کا شرف حاصل ہوا، جوانی کی عمر میں تھے۔

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیبر کی جنگ کے لئے جھنڈا تھمانے کے لئے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  تھے اور اس وقت جوانی کی عمر میں تھے۔

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں سے ایک صحابی سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  ہیں ، جو تیز دوڑنے میں مشہور تھے ،جنگ خیبر انہوں نے پاپیادہ لڑی ،( صحیح مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ ذی قرد و غیرھا)نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سات جنگوں میں شریک ہوئے،( صحیح بخاری :کتاب المغازی،باب بعث النبي صلى الله عليه وسلم أسامة بن زيد إلى الحرقات من جهينة)

 اور ایک جنگ میں لڑتے ہوئے یہ اشعار بھی کہہ رہے تھے کہ

ا نا ابن الا كوع                  ا ليوم يوم الرضع

میں اکوع کا بیٹا ہوں ، اور آج کا دن چھٹی کادودھ یاد کرانے کادن ہے۔(صحیح بخاری : کتاب المغازی ،باب غزوۃ ذی قرد)

اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا کہ آج کے ہمارے گھوڑ سواروں میں سے بہترین شخص ابوقتادہ رضی اللہ عنہ  اور پیدل لڑنے والوںمیں سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  ہیں ،جنھیں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی کارکردگی کو سامنے  رکھتے ہوئے دہرا حصہ دیا تھا۔  (صحیح مسلم : 1807،کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ ذی قرد و غیرھا)

اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بستر مرض پر تھے اور آپ کو رومیوں کی جنگی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک لشکر تیار کروایا اور اس لشکر کی قیادت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  کو عطا فرمائی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ  اس وقت صرف اٹھارہ سال کے جوان تھے۔(اسد الغابۃ )ان کی ایک امارت کا تذکرہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  نے بھی کیا ہے۔  (دیکھئے : صحیح بخاری : 4270، کتاب المغازی،باب بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم  أسامة بن زيد إلى الحرقات من جهينة)

ابوجہل کو قتل کرنے والے بھی نوجوان تھے۔صحیح بخاری میں ان کا تذکرہ موجود ہےکہ انہوں نے کس انداز میں اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کو قتل کیا۔

جوانوں کی صلاحیت کے مطابق ان سے کام لیا جائے

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جوانوں سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا اس کی کئی ایک مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

ابو محذورہ رضی اللہ عنہ حنین کے قریب یہ دس نوجوان لڑکے (بعض میں بیس کا ذکر ہے۔(سنن دارمی : 1232، کتاب الصلوۃ ، باب الترجیع فی الاذان  ) جارہے تھے کہ انہوں نے اذان کی آواز سنی اور ابومحذورہ  رضی اللہ عنہ  نے اس اذان کو سنتے ہی اس کی نقل کرنا شروع کردی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آواز کو سنا تو ان لڑکوں کو بلوالیا ،(اس وقت یہ مسلمان نہیں تھے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک کرکے سب سے اذان سنی لیکن وہ پیاری آواز جو سنی تھی کسی کی نہ تھی۔ بالآخر ابومحذور ہ رضی اللہ عنہ کی باری آئی،ان سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اذان سنی تو یہ وہی آواز تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سنی تھی اور بہت خوبصورت آواز تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کواذان سکھائی اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت تحفہ بھی دیا اور برکت کی دعائیں بھی  دیں اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ  کی پیشانی ،چہرے اور ناف تک ہاتھ بھی پھیرا تھا۔ملخصاً   (مسند احمد : حدیث:15380،، و نسخۃ اخریٰ مع التحقیق الشیخ شعیب الارناؤوط: 24/91)

بعض روایات میں ہے کہ پھر ابومحذورہ  رضی اللہ عنہ  نے خود کہا کہ مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم کریں (ایضاً)جبکہ بعض روایات میں ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیا :’’اذهب فأذن لاھل مکۃ عند البيت الحرام۔‘‘  (مسند احمد : حدیث:15376، ص:۳/۴۰۸، و نسخۃ اخریٰ مع التحقیق الشیخ شعیب الارناؤوط: 4/91 ، و السنن الکبری للبیھقی : ۱۹۷۰، جس کے الفاظ یوں ہیں :’’اذھب فأذن عند البیت الحرام‘‘)

سیدنا ابومحذورہ  رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ   کے دور میں اذان دیتے رہے۔( مصنف ابن ابی شیبۃ : 2167)

  اور پھر یہی اذان کا سلسلہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اولادمیں متوارث رہا۔  (شرح النووی : 4/302،طبع دارالمعرفۃ بیروت)

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض صحابہ کی ذمہ داری لگائی تھی ،جو وحی لکھا کرتے تھے اس لئے کہ ان میں یہ صلاحیتیں موجود تھیں ،اور اکثر کاتبین وحی جوان تھے۔چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔

   سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ،سیدنا عثمان ،سیدنا علی، سیدنا ابان بن سعید بن العاص، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ثابت بن قیس، سیدنا زبیر بن عوام ، سیدنا عبداللہ بن سعد بن ابی السرح سیدنا عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ، سیدنا علاء بن الحضرمی، سیدنا معاویۃ بن ابی سفیان اور سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنھم اجمعین۔

بعض صحابہ کو مختلف علاقوں کی طرف بطور مبلغ ، سپہ سالار ،نمائندہ کے طور پر بھیجا ، اس میں ان کی صلاحیتوں کو شامل حال رکھا گیا تھا۔ جیسا کہ معاذ بن جبل ،علی ،زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم وغیرہ۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس  رضی اللہ عنہما کو اپنے قریب رکھا کرتے تھے ،عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ انہیں ہمارے ساتھ بٹھادیتے ہیں ان کے جیسے تو ہمارے بچے ہیں،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا یہ ان کے علم کی وجہ سے ہے چناچہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما   سے سورۃ النصر کی پہلی آیت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا ،تو اس کی تفسیر میں ابن عباس  رضی اللہ عنہما نے جواب دیا :جب اللہ کی مدد اور فتح مکہ حاصل ہوئی تو اللہ نے اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کی خبر دی ہے گویاکہ فتح مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی علامت ہے لہٰذا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کیجئے اور استغفار کیجئے اللہ قبول کرنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا بھی یہی خیال ہے جو تمہارا ہے۔(صحیح بخاری : 3627، کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام)

معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  کی نوعمری کے باوجود ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں شوریٰ میں شامل کیا ہوا تھا۔

اسی طرح سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جمعِ قرآن کے حوالے سے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لگاتے ہوئے فرمایا تھا: ’’إنك رجل شاب عاقل ولا نتھمك‘‘ یعنی آپ نوجوان اور سمجھ دار آدمی ہیں ، ہم آپ کو (کسی برائی سے) متہم قرار نہیں دیتے۔ (صحیح بخاری: کتاب التفسیر ، باب قوله:{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ .. })

یہاں بھی سیدنا زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ  سے ان کی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے جمعِ قرآن کا کام لیا گیا باوجود اس کے کہ وہ ایک نوجوان آدمی تھے۔

نوجوانوں کوجدید مسائل سے آشنا ہونا چاہئے

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دیا تھا۔انہوں نے آدھے مہینے میں عبرانی زبان سیکھی تھی۔ (جامع ترمذی:ابواب الاستئذان والادب باب ما جاء فی تعلیم السریانیۃ)

چونکہ اس وقت عبرانی کا سیکھنا وقت کی فوری ضرورت تھا ،جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے محسوس کیا تاکہ یہود سے خط و کتابت سمیت دیگر معاملات میں آسانی ہو،تو اس سےمعلوم ہواکہ نوجوانوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ وقت کے مطابق جدید علوم سے آراستہ ہوں لیکن اس  سے پہلے اپنے دین سے آشنائی بہت ضروری ہے۔ دوسری بات اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ تمام افراد کی من حیث المجموع ذمہ داری نہیں بلکہ بعض کی ہے جن میں یہ اہلیت موجود ہو۔ جیسا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمام صحابہ کی یہ ذمہ داری نہ لگائی کہ سب عبرانی سیکھیں ۔بلکہ صرف زید کو حکم دیا کیونکہ اصل مقصود صرف ضرورت کے مطابق اس کو سیکھنا تھا نہ کہ مرعوب ہوکر اس کو وقت کی ضرورت قرار دیا تھا ،جیسا کہ آج دیکھنے میں آتا ہے،کہ مغرب سے اٹھتے ہر فتنے کو ہم وقت کی ضرورت سمجھ لیتے ہیں۔اور پھر اسے سیکھنے پر تُل جاتے ہیں۔

(جاری)

About شیخ یونس اثری

Check Also

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے