Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ جنوری » اِک دلیل نما تاویل کاجائزہ

اِک دلیل نما تاویل کاجائزہ

اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ، اس کی کیفیت مجہول ہے لیکن یہ صفت قرآن کریم کی سینکڑوں آیات اور سینکڑوں احادیث سے ثابت ہے، بحمدللہ راقم کافی عرصہ قبل اس پر ایک مضمون لکھ چکا ہے جو ماہنامہ دعوت اہلحدیث ہی میں دو اقساط میں شائع ہوا۔ خیر اس ثابت شدہ عقیدے کا انکار باطل قسم کی تاویلات کے ذریعے کیا گیا اور حیران کن بات یہ ہےکہ ان سینکڑوں نصوص کے مد مقابل عقل پرستی کو بہت بڑی دلیل گردانا گیا، جیساکہ الیاس عطار صاحب لکھتے ہیں:
’’خدائےحنّان و منّان جل جلالہ کے جگہ ومکان سے پاک ہونے پر یوں تو بے شمار دلائل ہیں مگر میں صرف ایک دلیل عرض کرنے کی کوشش کرتاہوں، ان شاء اللہ عزوجل قبول حق کا جذبہ رکھنے والاذہن فوراً قبول کرے گا! یہ بات ذہن نشین فرمالیجئے کہ اللہ کریم عزوجل قدیم ہے یعنی ہمیشہ ہمیشہ سے ہے وہ تب سے ہے کہ جب اب تک کہ ،یہاں وہاں اوپرنیچے، دائیں بائیں کچھ بھی نہ تھا، اللہ عزوجل اور اس کی صفات کے علاوہ ہر چیز حادث ہے، حادث ،قدیم کی ضد ہے، حادث یعنی وہ کہ جو عدم سےوجود میں آئے…..الخ‘‘
(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال وجواب،ص:112)
الیاس عطار کی دلیل نما تاویل کاجائزہ:
اب دیکھیں کس طرح ایک مذموم تاویل کو بہت بڑی دلیل قرار دیا گیا ہے ، اگر دین اسی قسم کی ٹامک ٹوئیوں سے ثابت کرنا ہے اور اسے بڑی دلیل قرار دینا ہے تو پھر قرآن و سنت کس لئے ہیں؟ ؟ الیاس عطار نے اپنے تئیں جو بہت بڑی دلیل پیش کی ہے، قرآن وحدیث اور آثار سلف صالحین واجماع کے مدمقابل اس کی کوئی حیثیت ہے نہ ہی اسے دلیل کانام دیا جاسکتا ہے بلکہ یہ ایک مذموم عقلی تاویل ہے ، ان شرعی دلائل کے مقابلے میں یہ ایک عقلی جرأت کے سوا کچھ بھی نہیں، جبکہ سلف صالحین کا اللہ کی صفات کے بارے میں جو عقیدہ رہاہے وہ یہ ہے کہ شریعت جہاں کھڑا کردے بس وہیں کھڑا رہنا چاہئے ، مزید ٹامک ٹوئیوں کی ان کے یہاں کوئی حیثیت نہ تھی، جیسا کہ امام مالک aکا اللہ تعالیٰ کی اسی صفت استواء کے بارے میں عظیم قول ہے: "الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة” (العرش وما روی فیہ ،اصول الاعتقاد )
یعنی: اللہ کا عرش پر مستوی ہونا(قرآن و حدیث کے دلائل سے) معلوم ہےاور اس کی کیفیت مجہول ہے۔(لہذا اس پر ایمان لاناضروری ہے)
اسی مفہوم کا قول امام ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے بھی منقول ہے۔(اصول الاعتقاد)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ولم ينكر أحد من السلف الصالح أنه استوى على عرشه حقيقة.‘‘ (تفسیر قرطبی تحت آیۃ 54)
یعنی: سلف صالحین میں سے کسی ایک نے اللہ تعالیٰ کے حقیقی طور پر عرش پر مستوی ہونے کا انکا ر نہیں کیا ۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ من لم يقر بأن الله على عرشه استوى فوق سبع سمواته بائن من خلقه فهو كافر يستتاب فإن تاب وإلا ضربت عنقه وألقي على مزبلة لئلا يتأذى بريحته أهل القبلة وأهل الذمة ‘‘ (العلو لعلی الغفار، سیر اعلام النبلاء )
یعنی جواللہ تعالیٰ کےساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہونے، مخلوق سے علیحدہ ہونے کا اقرار نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ، اس سے توبہ طلب کی جائے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑادی جائےاور کسی کوڑا کرکٹ کی جگہ پھینک دیا جائے تاکہ مسلمان اور ذمی لوگ اس کی بدبو سے تکلیف میں مبتلا نہ ہوں ۔
ان اقوال سےواضح ہے کہ سلف صالحین نصوص آجانے کے بعد اسے مانتے تھے ، عقلیات کا سہارا لے کر ان نصوص سے فرار کی راہیں نہیں ڈھونڈھتے تھے۔
موصوف نے جو یہ لکھا کہ ’’اب اگر یہ کہاجائے کہ اللہ عزوجل اوپر ہے یا آسمان پر ہے یا عرش پر ہے یا ہرجگہ ہے تو پھر آسمان ،عرش بلکہ ہر جگہ کو قدیم ماننالازم آئے گا یا پھر یہ ذہن بنانا پڑے گا کہ پہلے اللہ عزوجل جگہ ومکان سے پاک تھا بعد میں جوں جوں وہ عزوجل چیزیں بناتاگیا، ان میں رہتاچلاگیا۔‘‘
(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال وجواب،ص:113)
صفات الھیہ کی دواقسام:
موصوف کی اس عبارت کے جواب میں ہماری گزارش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی دو اقسام ہیں۔ جیساکہ علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَمْ يَزَلْ مُتَّصِفًا بِصِفَاتِ الْكَمَالِ: صِفَاتِ الذَّاتِ وَصِفَاتِ الْفِعْلِ, وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ اللَّهَ وُصِفَ بِصِفَةٍ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ مُتَّصِفًا بِهَا، لِأَنَّ صِفَاتِهِ سُبْحَانَهُ صِفَاتُ كَمَالٍ، وَفَقْدَهَا صِفَةُ نَقْصٍ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ قَدْ حَصَلَ لَهُ الْكَمَالُ بَعْدَ أَنْ كَانَ مُتَّصِفًا بِضِدِّهِ, وَلَا يَرِدُ عَلَى هَذِهِ صِفَاتُ الْفِعْلِ وَالصِّفَاتُ الِاخْتِيَارِيَّةُ وَنَحْوُهَا، كَالْخَلْقِ وَالتَّصْوِيرِ، وَالْإِمَاتَةِ وَالْإِحْيَاءِ، وَالْقَبْضِ وَالْبَسْطِ وَالطَّيِّ، والاستواء والإتيان والمجيء، والنزول، والغضب والرضى، وَنَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ وَوَصَفَهُ بِهِ رَسُولُهُ، وَإِنْ كُنَّا لَا نُدْرِكُ كُنْهَهُ وَحَقِيقَتَهُ الَّتِي هِيَ تَأْوِيلُهُ، وَلَا نَدْخُلُ فِي ذَلِكَ مُتَأَوِّلِينَ بِآرَائِنَا، وَلَا مُتَوَهِّمِينَ بِأَهْوَائِنَا، وَلَكِنْ أَصْلُ مَعْنَاهُ مَعْلُومٌ لَنَا، كَمَا قَالَ الْإِمَامُ مَالِكٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
(شرح عقیدۃ طحاویۃ:124)
یعنی: اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیشہ سے صفات کمال سے متصف ہے جو کہ صفات ذاتیہ بھی ہیں اور صفاتِ فعلیہ بھی۔ اور یہ اعتقاد رکھنا جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی صفت سے متصف ہوا جبکہ اس سے پہلے اس صفت سے متصف نہ تھا، اس لئے کہ اس کی صفات، صفات کمال ہیں اس کا نہ ہونا تو نقص ہے، اور یہ کہنا بھی جائز نہیںکہ اللہ تعالیٰ کو بعد میں کمال حاصل ہوا پہلے نہیں تھا، اور اس بناء پر صفات فعلیہ واختیاریہ کو رد نہیں کیاجائے گا جیسا کہ اللہ کا پیدا کرنا، صورتیں بنانا، مارنا، زندہ کرنا اور کسی کو قبض کرلینا اور کسی (کے رزق وغیرہ) کو کشادہ کردینا۔اور اللہ تعالیٰ کا مستوی ہونا ،آنا، النزول، غضب، رضاو غیرہ،جن صفات کو اللہ تعالیٰ نے خود اور اس کے رسول ﷺ نے بیان کیا ہے۔
بے شک ہم اس میں اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے اور نہ ہم اس میں تاویل کرتے ہوئے اپنی آراء کو داخل کریں گے اور نہ ہی اپنی خواہشات کے ساتھ اس میں توھم پیدا کریں گے لیکن اس کا اصل معنی ہمیں معلوم ہے جیسا کہ امام مالک aسے جب اللہ کے فرمان [ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ]کے بارے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہے؟ امام مالک aکا جواب تھا:استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے۔
پھر آگے علامہ ابن ابی العز الحنفیaلکھتے ہیں:
لأن هذا الحدوث بهذاالِاعْتِبَارِ غَيْرُ مُمْتَنَعٍ، وَلَا يُطْلَقُ [عَلَيْهِ] أَنَّهُ حَدَثَ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ.(شرح عقیدۃ طحاویۃ:125)
یعنی: اس اعتبار سے یہ حدوث ممتنع نہیں ہے اور اس پر یہ اطلاق نہیں ہوگا کہ یہ عدم سے وجود میں آئی ہیں۔
مزید یہ کہ علامہ ابن ابی العز الحنفیaنے مثال بھی دی کہ اگر ایک شخص جو بولنے کی طاقت رکھتا ہو اور خاموش رہے اور پھر جب بولے مثلاً آج خاموش رہا کل بولاتو یہ نہیں کہاجائے گا کہ وہ پہلے گونگا تھا آج اس صفت سے متصف ہوا ہے بلکہ یہی کہاجائے گا کہ وہ کل بھی متکلم (یعنی بولنے والاتھاگونگا نہیں تھا) اور آج اس نے اس فعل کلام کا صدور کیا ہے۔
شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الصفات الثبوتية تنقسم إلى قسمين: ذاتية. وفعلية.فالذاتية: هي التي لم يزل ولا يزال متصفا بها، كالعلم والقدرة والسمع والبصر والعزة والحكمة والعلو والعظمة. ومنها الصفات الخبرية: كالوجه واليدين والعينين.والفعلية: هي التي تتعلق بمشيئته، إن شاء فعلها وإن شاء لم يفعلها، كالاستواء على العرش، والنزول إلى السماء الدنيا.وقد تكون الصفة ذاتية فعلية باعتبارين كالكلام، فإنه باعتبار أصله صفة ذاتية، لأن الله تعالى لم يزل ولا يزال متكلما، وباعتبار آحاد الكلام صفة فعلية، لأن الكلام يتعلق بمشيئته، يتكلم متى شاء بما شاء، كما في قوله تعالى: {إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ} . وكل صفة تعلقت بمشيئته تعالى فإنها تابعة لحكمته.
وقد تكون الحكمة معلومة لنا، وقد نعجز عن إدراكها، ولكننا نعلم علم اليقين أنه سبحانه لا يشاء شيئا إلا وهو موافق للحكمة، كما يشير إليه قوله تعالى: {وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً} .‘‘
(القواعد المثلیٰ: 25 )
استاد محترم علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے اس کا ترجمہ کچھ یوں فرمایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں:
(۱) صفاتِ ذ ا تیہ (۲) صفات فعلیہ
صفاتِ ذاتیہ : وہ صفات ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے ،اور ہمیشہ متصف رہے گا ۔جیسے ’’العلم، القدرۃ، السمع، البصر، العزۃ، الحکمۃ، العلو، العظمۃ ‘‘ان میں سے کچھ صفاتِ خبریہ ہیں ،جیسے ’’الوجہ (چہرہ) الیدین(دوہاتھ) العینین (دوآنکھیں)‘‘
صفاتِ فعلیہ:وہ صفات ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیئت وچاہت سے ہے ۔ چاہے وہ کرے اور چاہے نہ کرے۔ مثلاً: ’’عرش پر مستوی ہونایا آسمانِ دنیا پر نزول فرمانا‘‘
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں جو ذاتی بھی ہوسکتی ہیں اور فعلی بھی،مثلاً: صفتِ کلام : یہ صفت باعتبارِ اصل صفتِ ذاتیہ ہے ؛کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے ،اور ہمیشہ متکلم رہے گا، لیکن کسی کلام کے کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے یہ صفتِ فعلیہ ہے ؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی مشیئت کے تابع ہے ،جب چاہے ،جوچاہے کلام فرمالے (اس لحاظ سے صفتِ فعلیہ ہوئی)اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
[اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۸۲ ] ‘‘ (توحید اسماء و صفات : 75)
شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ کی اس حوالے سے مزید شاندار کلام جوکہ كاملة بنت محمد بن جاسم بن علي آل جهام الكواري نے المجلى في شرح القواعد المثلى میں شیخ محمد صالح العثیمین کی مخطوط شرح بلوغ المرام سے نقل کی ہے ، چنانچہ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وأفعال الله هل هي قديمة أو حادثة؟
جـ: نقول في هذا تفصيل أما من حيث الجنس وأصل الصفة فهي قديمة غير حادثة لأن الله لم يزل ولا يزال فعالاً.
وأما من حيث النوع أو الواحد فهي حادثة، مثال النوع الاستواء على العرش حادث لأنه كان بعد خلق العرش، النزول إلى السماء الدنيا حادث لأنه بعد خلق السماء الدنيا
الآحاد نزول الله كل ليلة إلى السماء الدنيا هذا آحاد كل ليلة يكون له نزول كذلك كل أفعال الله التي لا تحصى وهو دائماً عز وجل يخلق ويرزق ويحيي ويميت كل أفعاله هذه حادثة الآحاد بالنسبة لتعلقها بالمخلوق المفعول.‘‘
یعنی : کیا اللہ تعالیٰ کے افعال قدیم ہیں یا حادث؟
جواب : اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس میں کچھ تفصیل ہے، جنس اور اصل صفت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم ہیں، حادث نہیں ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک کام پر قادر رہے گا، جبکہ نوع اور علیحدہ ہونے کے اعتبار سے وہ صفت حادث ہے ، نوع کی مثال استواء علی العرش ہے،کیونکہ یہ عرش کی تخلیق کے بعد ہوا، آسمان دنیا کی طرف نزول بھی نوع کے اعتبار سے حادث ہے کیونکہ وہ آسمان دنیا کی تخلیق کے بعد ہوا، اسی طرح آحاد (علیحدہ) کے اعتبار سے جیسا کہ ہر رات آسمان دنیا پر نزول ہے، کیونکہ یہ ہر رات نزول ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات ہیں جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا اللہ تعالیٰ ہمیشہ پیدا کرتا رہے گا، رزق دیتا رہے گا ، زندہ کرتا رہے گا اور مارتا رہے گا اللہ تعالیٰ کی یہ تمام صفات علیحدہ علیحدہ واقع ہونے کے اعتبار سے حادث ہیں ، کیونکہ ان کا تعلق مخلوق سے ہے (لہذا اللہ تا قیامت مخلوق پیدا کرتا رہے گا اور پیدا ئش کے بعد انہیں رزق بھی دیتا رہے گا اور پھر ایک دن میں کئی کئی اموات کا ہونا بھی اللہ کا فعل ہیں۔)
پھر اس کے بعد سوال اٹھایا کہ
هل فيه من ينكر قيام الأفعال الاختيارية بالله؟
ج: نعم فيه من يقولون إن الله لا يفعل فعلاً حادثاً لماذا؟ قالوا لأن الفعل الحادث لا يقوم إلابحادث فلو جوزنا أن يفعل الله أفعالاً حادثة لكان لازم ذلك أن يكون الله حادثاً بعد أن لم يكن ولكن هذا قياس فاسد لمخالفته النص وقياس باطل من أصله لأن هذا التلازم الذي ذكروه ليس بصحيح.
أما الأول فلأننا لو أخذنا بهذا القياس لزم أن ننكر كل فعل من أفعال الله ومن العجائب أنهم لا ينكرون حدوث المفعول ثم ينكرون حدوث الفعل لا ينكرون أن زيداً وعمراً حادث بعد أن لم يكن ولكن تعلق الخلق به كان في الأزل وهذا في الحقيقة عندما تتأمله لا يصح إطلاقاً هل يمكن أن يقع فعل ولا يوجد المفعول يعني خلق زيد وعمرو ومتى كان؟ في الأزل الذي لا نهاية له وكيف يخلق من الأزل البعيد ثم لا يوجد في المخلوق إلا في هذا الزمن مثلاً هذا واضح بأنه باطل جداً
فالقول بأن الفعل قديم والمفعول حادث ثم الفعل أيضاً ليس فعلاً في نفس الله بل يفسرونه بالمفعول هذا كله شيء باطل.
فمذهب أهل السنة والجماعة الذي دل عليه السمع والعقل أن الله فاعل بإرادته يفعل ما يشاء ويختار وأن فعله يكون حادثاً لتعلقه بالمفعول لكن أصل الفعل وأن الله لم يزل ولا يزال فعالاً ولم يأت عليه وقت من الأوقات معطلاً عن الفعل هذا قديم أزلي ا. هـ
یعنی: کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جو اللہ کے افعال اختیاریہ کا انکار کریں؟
جواب جی ہاں ، جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فعل حادث نہیں کرسکتا کیونکہ فعل حادث تو ذاتِ حادث سے صادر ہوتا ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ افعالِ حادثہ فرماتا ہے تو یہ لازم آئے گا کہ (معاذاللہ ) اللہ بھی حادث ہے۔لیکن یہ قیاس نص کے مخالف ہونے کی وجہ سے فاسد ہے، اور اپنی اصل سے ہی باطل ہے، اس لئے کہ ان کا حدوث ِ فعل کے ساتھ حدوث فاعل کو لازم و ملزوم قرار دینا صحیح نہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم قیاس کو لیں (نصوص کو چھوڑتے ہوئے) تو لازم ہے کہ پھر ہم اللہ کے تمام افعال کا انکار کریں، ان کی یہ بات بڑی عجیب ہے کہ وہ حدوث مفعول کا انکار نہیں کرتے اور حدوث فعل کا انکار کرتے ہیں،یعنی زید و عمرو پہلے نہیں تھے بعد میں حادث ہوئے اس کا تو انکار نہیں کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ان کو پیدا کیا ہے یہ ازل میں ہوا ، جو کسی طور صحیح نہیں ، کیا بھلا یہ ممکن ہے کہ فعل تو واقع ہوچکا لیکن مفعول موجود نہیں ، یعنی زید و عمرو پیدا ہوئے اور کب پیدا ہوئے؟؟ ازل میں جس کی کوئی انتہاء ہی نہیں ، یعنی مخلوق پیدا تو ازل میں ہوئی اور موجوداس زمانے میں ہے، یہ تو واضح طور پر باطل ہے۔لہذا فعل کو قدیم ماننا اور مفعول کو حادث پھر فعل کی بھی نسبت اللہ کی طرف نہ کرنا بلکہ اس کی تفسیر بھی مفعول سے ہی کرنا یہ کلی طور پر باطل ہے۔ جبکہ اہل السنہ والجماعۃ کا مؤقف جو عقل و نقل سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کے ساتھ کام کرنے والا ہے، جب وہ چاہے اور اسے پسند ہو وہ فعل (جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں) کرتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا فعل مفعول کے تعلق سے حادث بھی ہوتا ہے لیکن اس فعل کی اصل قدیم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ازل سے ہے اور ازل تک ہے اور کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ سے اس فعل کی اصل ختم ہوجائے ۔
خلاصہ: یہ ہے کہ الیاس عطار کی اس عقلی مگرنامعقول دلیل سے اللہ تعالیٰ کی کتنی صفات کا انکار ہوجائے گا جن کی مثالوں کو ملاحظہ کیا گیا اور احادیث وغیرہ سے ثابت ہیںجیسا کہ اللہ کی صفت غضب، حدیث الشفاعۃ میں ہے کہ جب لوگ قیامت کے دن شفاعت کے لئے سیدنا آدم ، سیدنا نوح ، سیدنا ابراہیم ، سیدنا موسیٰ ، سیدنا عیسیٰ علیھم السلام کے پاس جائیں گے تو یہ تمام انبیاء شفاعت سے انکار کرتے ہوئے کہیں گے:
’’ إن ربى قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ، ولن يغضب بعده مثله‘‘
(صحیح بخاری: 4712، صحیح مسلم : 194)
یعنی: میرا رب آج ایسا غصہ ہوا ہے کہ آج سے پہلے کبھی ایسا غصہ نہیں ہوا اور آج کے بعد بھی ایسا غصہ کبھی نہیں کرے گا۔
کیا اس حدیث اور اس جیسی دیگراحادیث جن میں یہ صفات واضح ہیں،انہیں بھی اپنی نامعقول عقلیات کی بھینٹ چڑھادیا جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ موصوف نے اپنے تئیں جو دلیل پیش کی ہے وہ دلیل نہیں تاویل مذموم ہے، الصواعق المرسلۃ میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ایسی ہی تاویلات فاسدہ کی حقیقت کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس میںکوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء الحسنیٰ اور صفات کا تذکرہ کیا ہے، اور خود اپنے افعال کا بھی تذکرہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنا نام الرحمٰن،الرحيم الملك، القدوس، السلام، المؤمن، المهيمن، العزيز الجبار، المتكبر اور دیگر تمام اسماء حسنیٰ جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائے، اور اپنی صفات بھی بیان فرمائیں، جیساکہ سورۃ الاخلاص میں ہے، سورۃ الحدید کے شروع میں ہے، سورہ طہ وغیرہ کے شروع میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے اوصاف محبت، کراہت، مقت، رضا، غضب ، ناراضگی، مجیئت و اتیان،آسمان دنیا کی طرف نزول ، استواء علی العرش کو بیان کیا اور اپنے لئے علم، حیات، قدرت، ارادہ، سمع ، بصر، چہرہ، دو ہاتھ، اپنے بندوں کے اوپر ہونا، فرشتوں کا اس کی طرف چڑھنا ، اور اس کے حکم کے ساتھ اس کی طرف سے اترنا، اللہ تعالیٰ کا قریب ہونا، محسنین ، صابرین اور متقین کے ساتھ ہونا، اور آسمان کا اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹ جانا۔
نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان فرمائے کہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے ، ہنستا ہے، بندوں کے دل اللہ کی انگلیوں کے درمیان ہیں ، اسی طرح صفات جو اللہ تعالیٰ نے خود اور رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائیں ۔ اب تاویل کرنے والے سے یہی کہا جائے گا کہ کیا تو ان سب کی تاویل کرتے ہوئے ان کا مفہوم ظاہر کے خلاف لیتا ہے ، اور انہیں حقیقت پر محمول نہیں کرتا ، یا بعض کو ظاہر پر رکھتا ہے اور بعض میں تاویل؟؟اگر تمام صفات کی تاویل کی جائے اور سب کے ظاہری معنی کا انکارکردیا جائے تو یہ بالکل واضح عناد ہے اور صریح کفر ہے،بلکہ اللہ کی ربوببیت کا ہی انکار ہے ، ان صفات کے اقرار کے بغیر صرف رب کی ذات کے اقرار کا کوئی فائدہ نہیں ،یہ معاملہ تو دہریوں اور ملحدین سے ملا دیتا ہے کیونکہ وہ بھی کائنات کے خالق اور رب کے منکر ہیں۔‘‘
مزید اس حوالے سے تفصیلی کلام یہاں امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمائی جسے الصواعق المرسلہ میں ملاحظہ فرمایا جاسکتا ہے۔ (الصواعق المرسلۃ : 222)
تاویل مذموم اور احمد رضاخان :
احمد رضا خان کی ملفوظات جوکہ احمد رضا خان صاحب کے صاحبزادہ مصطفی رضا خان صاحب نے جمع و مدون کی ہیں: ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے راوی حضور مفتیء اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ تو ایسے ثقہ ہیں جن کے زہد و تقویٰ ، دیانت داری، علمی وجاہت، وسعت مطالعہ ،قوت حافظہ کی وجہ سے ثقاہت بھی ان پر ناز کرتی ہے۔ لہٰذا حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ کی تالیف کردہ ’’الملفوظ‘‘میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔‘‘[ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی:ص٤٦] جو مکتبۃ المدینہ سے شائع ہوئی اس میں یہ بات موجود ہے ،جیساکہ اس میں عنوان لگایا گیا کہ ’’ قرآن وحدیث میں بلا ضرورت تاویل باطل ہے‘‘ اور اس کے تحت احمد رضا صاحب کا ملفوظ مرقوم ہے:
’’اور نصوص کا اُن کے ظواہر پر حمل واجب ،بلا ضرورت ان میں تاویل باطل و نامسموع۔‘‘(ملفوظات اعلیٰ حضرت : 530، حصہ چہارم مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
تنبیہ: الیاس عطار جیسی مذکورہ دلیل نما تاویل دراصل معتزلہ، جہمیہ اور متکلمین کی جاری کردہ ہیں، جیسا کہ مجموع الفتاویٰ للامام ابن تیمیہ aشرح عقیدہ طحاویہ للعلامہ ابن ابی العز الحنفیaوغیرہ، کتب کے مطالعہ سے یہ حقیقت مزیدآشکارہ ہوجائے گی۔ اس قسم کی بعض تاویلات کا جائزہ ہم اپنے ایک مضمون جو ماہنامہ دعوت اہلحدیث ہی میں شائع ہوا تھا میں پیش کرچکے ہیں۔ واللہ المستعان

About شیخ یونس اثری

Check Also

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے