Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2020 » شمارہ مارچ تا ستمبر » عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے سے کروایا ان میں اول صفت ایمان بالغیب ہے ، غیب ہر اس شے کو کہاجاتاہے جو انسانی حواس محسوس نہ کرسکیں اور انسان اس کا ادراک نہ کرسکے۔ امور غیب میں اللہ کا وجود، فرشتوں پر ایمان ، آخرت پر ایمان جنت و جہنم پر ایمان  وغیرہ شامل ہیں۔ یہی دین اسلام کی اساس ہے جبکہ جن قوموں نے انکار کیا ان کا نکتہ انکار اسی گرد گھومتا تھا جیسا کہ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں بیان فرمایا : ﴿ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗٔئنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ۭ لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا  فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا  ﴾ [الفرقان: 21]

یعنی : اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے یا ہم ہی اپنے پروردگار کو (آنکھوں سے) دیکھ لیں؟ یہ اپنے دل میں بہت بڑے بن بیٹھے ہیں اور بہت بری سرکشی میں مبتلا  ہوچکے ہیں ۔

 بلکہ ان کی سرکشی کو دیکھتے ہوئے اللہ رب العالمین نے بیان فرمایاکہ کہ اگر ان امور غیب  کا ادراک بھی انہیں ہوجائے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہیں چنانچہ فرمایا:  ﴿ وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَئْئ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗٔئ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ  ﴾ [الأنعام: 111]

یعنی : اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے بھی نازل کردیتے اور ان سے مردے کلام بھی کرتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا اکٹھا کرتے تو بھی یہ ایمان  لانے والے نہ تھے۔ مگر جس کے متعلق اللہ تعالیٰ چاہتا۔ لیکن ان میں سے اکثر  نادانی کی باتیں کرتے ہیں۔

اللہ رب العالمین کا ان امور کو ہم سے پوشیدہ رکھنا اور دنیاوی امور کا علم دے دینا یہ حکمت سے خالی نہیں بہرحال ایک مسلمان جب ان ایمانیات کوتسلیم کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ اس کے حواس کے ذریعے وہ ان کی حقیقتوں کو جان چکا ہے اور نہ ہی اس وجہ سے کہ سائنسی علوم ان اعتقادات کی تائید کرتے ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ قرآن و سنت اس کا حکم دیتے ہیں البتہ اگر سائنسی تائید حاصل ہوجائے تو یہ اس طبقہ کو سمجھانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے جو سائنسی اصولوں کی روشنی میں دین اسلام پر اعتراضات کرتا ہے۔ لہذا اس مضمون  میں جدید سائنس کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے اس کی مدد سے عقیدہ آخرت کا اثبات کیا جائے گا اور اس کی صحت کو بیان کیا جائے گا۔

منکرین آخرت کی ایک جھلک :

 ایک طرف دہریت ، بے دین قسم کے وہ لوگ ہیں جو  کفار کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں یہ لوگ سرےسے عقیدہ آخرت کا انکار کرتے ہیں جبکہ  دوسری  طرف وہ افراد بھی ہیں جو بظاہر کلمہ گو تو ہیں لیکن محض عقلانیت کی بنیاد پر عقیدہ آخرت کا یا اس کے بہت سے احوال کا انکار کرتے ہیں  مثلاً سرسید نےجنت و جہنم کے وجود کا سرے سے انکار کیا۔بلکہ جنت و جہنم کا سرے سے انکارکرنے والوں کو تربیت یافتہ دماغ اور اس کے وجود کے قائلین اور اس پر کما فی النصوص ایمان لانے والوں کو کوڑ مغز ملااور شہوت پرست زاہد قرار دیا، جس کی تفصیل آئینہ پرویزیت میں دیکھی جاسکتی ہے۔سرسید ہی کی سوچ اور وہی نظریہ پرویز اور ان کے پیروکار افراد میں نظر آتا ہے۔ پرویز نے آخرت کا سرے سےانکار کیا اور من مانی تاویلات گھڑیں اور قرآن مجید میں تفسیر بالرائے کی ،جوکہ تحریفِ معنوی کے مترادف ہے۔اس کے نزدیک یوم القیامۃ سے مراد انقلابی دور ، حق و باطل کی آخری جنگ ہےاور جنت و جہنم کیفیات کا نام ہے۔

چنانچہ قیامت کے بارے میں لکھتا ہے:

’’یوم القیامۃسے مراد ہوگا وہ انقلابی دور جو قرآن کی رو سے سامنے آیا تھا۔‘‘  (جہانِ فردا:ص 133)

اپنی کتاب لغات القرآن میں سورہ طہ کی آیت نمبر 15[اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ ]کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اس کا یقین رکھو کہ حق و باطل کی آخری کشمکش کا وقت اب آیا ہی چاہتا ہے۔ یہ آکر ہی رہے گا۔ ‘‘ (لغات القرآن : 1/919)

سورۃ الحجر کی آیت نمبر 85 [وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِيَۃٌ ] کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’آخری انقلاب کا وقت آنے والا ہے۔ وہ ضرور آکر رہے گا۔ یہ مخالفین ضرور تباہ ہوکر رہیں گے۔‘ ‘(ایضا)

جنت و جہنم کے بارے میں پرویز صاحب کا کیا نظریہ ہے؟ اس حوالے سے ایک جگہ اپنے باطل نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے پرویزلکھتاہے:

’’مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں ہیں انسانی ذات کی کیفیات ہیں ، جن کی حقیقت ہم آج سمجھ نہیں سکتے۔‘‘

(لغات : 1/449)

پرویز نے اپنی کتاب جہانِ فردا میں عنوان قائم کیا ’’ جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے ‘‘(جہان فردا: 231)

اور پھر اگلے ہی عنوان ’’ جہنم کی تفاصیل ‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے، لیکن قرآنِ کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ غیر محسوس، مجرد حقائق کو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے۔‘‘(جہان فردا: 235)

قرآن کریم میں آخرت کا بکثرت تذکرہ :

قرآن کریم میں 115 مرتبہ عقیدہ آخرت کا تذکرہ ہوا ہے ، اور کم و بیش اتنی ہی  بار دنیا کا تذکرہ ہوا ہے ، اس کے ساتھ موت اور آخرت کے دیگر احوال کا تذکرہ علیحدہ ہوا ہے ، اس مکرر اس عقیدہ کا ذکر ہوا ہے ، متعدد مقامات پر دنیا کی زندگی کو دھوکے کا سامان کہا گیا  اور اس کے مقابلے میں اصل زندگی آخرت کو قرار دیا گیا ،چنانچہ ایک مقام ملاحظہ فرمائیں :

[وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ]  (العنکبوت : 64 )

یعنی : یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ یہ بات جانتے ہوتے۔

ایک مقام پر دنیا کی بدمستیوں میں مست لوگوں کو کچھ یوں بھی جھنجھوڑا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : [فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍo وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ]

یعنی :اے ہمارے پروردگار! ہمیں سب کچھ دنیا میں ہی دے دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں:اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

قرآن کریم میں بیان کردہ یہ آخرت کا تذکرہ  پڑھنے والے اثر کرجاتا تھا یہی وجہ ہے کہ احادیث میں کہیں نبی کریم ﷺ قرآن کریم کو پڑھتے ، سنتے ہوئے رورہے ہیں تو کہیں صحابہ کرام کے رونے کے واقعات موجود ہیں بلکہ یہی خشیت دیگر سلف صالحین کی سیرتوں میں نظر آتی ہے ، فضیل بن عیاض نے نماز میں تلاوت کے دوران  جب سورہ الحاقہ کی آیت پڑھی   [خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ ]  (الحاقۃ : 30) یعنی اسے پکڑ لو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو ۔  زارو قطار روتے رہے حتی کہ بے ہوش ہوگئے (سیر اعلام النبلاء ) ایک موقع پر عمر بن عبدالعزیز ان آیات کی تلاوت کررہے تھے جن میں آخرت کا تذکرہ ہے تو صبح تک ان آیات سے آگے نہ بڑھ سکے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی کئے گئے تو اس موقع پر انہوں نے یہ کلمات کہے تھے : [وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي طِلَاعَ الْأَرْضِ ذَهَبًا لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَبْلَ أَنْ أَرَاهُ] (صحیح بخاری : 3692)  یعنی : اللہ کی قسم،  اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات کی کوشش کرتا۔سیدنا عثمان کا رو رو کر ڈاڑھی تر کرلینا تو معروف ہے۔

یہ وہ پاکباز ہستیاں تھیں اور ان کا تعلق باللہ اور آخرت کے حوالے سے فکر مندی کا معاملہ تھا اور آ ج دنیا کی محبت میں اندھا انسان  آخرت کے حوالےسے ایسا پختہ ایمان اور پھرآخرت  کا  ایسا ڈر پیدا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ دنیا کی چاہ اور محبت اس کے دل کا ایمان چھین چکی ہے۔

عقیدہ آخرت کے انکار کا ایک بڑا سبب :

عقیدہ آخرت کے انکار کے کئی اسباب ہیں ، بہرحال ان میں سے ایک برا سبب عقل پرستی ہے، بعض لوگ عقل پرستی کی روش کا شکار ہوتے ہیں اور لولی لنگڑی توجیہات و تاویلات کا سہارا لے کر عقیدہ آخرت کا انکار کرتے ہیں ، کبھی  تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دیتے ہیں تو کبھی ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ  کو قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہ ایسا  عقل سے بعید تر فلسفہ ہے ، جو کئی دینوی و سائنسی امور پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے ، جیساکہ آگے تذکرہ ہوگا۔

سائنس کی حیثیت :

 سب سے پہلے یہ بنیادی بات قابل فہم ہے کہ سائنس کی اپنی حیثیت کیا ہے ؟ سائنس کی دنیا کو جس قدر بھی ضرورت ہو ، اس کے دائرہ کار اور حدود سے کوئی ذی عقل انکار نہیں کرسکتا ، یہ حد بندی ہی ہے کہ سائنس اور فنون میں فرق کیا جاتا ہے ، ورنہ سائنس اگر علم کا نام ہے تو فنون سمیت دیگرامور بھی اس میں داخل ہوجائیں  گے ، گویا کہ انسان اپنی قدرتی صلاحیتوں کی بنیاد پر جو کرے وہ بھی سائنس کا جزو ہے ؟؟؟

دوسری اہم بات :

سائنس کے حوالے سے ذہن نشین رکھی جائے کہ سائنس کی ابتدا مفروضے سے ہوتی ہے اور مراحل طے کرتی ہوئی نتیجہ تک پہنچتی ہے ۔ لہذا اسے طے شدہ یقینی امور کے لیے معیار بنانا بے وقوفی ہوگا ۔مثال کے طور پر ثابت شدہ یقینی چیز آسمان کا محض کوئی مفروضے کی بنیاد پر انکار کردے  اور کہے کہ جسے آسمان سمجھا جارہا ہے وہ زمین اور زمین دراصل آسمان ہے  !! ، تو اس قسم  کی بات کو سائنسی بات قرار دے کر  اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے علاج کی ضرورت ہوگی۔

تیسری اہم بات :

تیسری اہم بات یہ ہے کہ سائنس مفروضے سے لے کر جب نتیجہ تک کے مراحل طے کرتی ہے اس کے فورا بعد ہی وہ حتمی سائنسی اصول نہیں بنتا بلکہ اب بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے قبول کرلیں ، ہاتھوں ہاتھ قبول کریں ، مزید تجربے کریں ،  یا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں اور کسی فرد واحد کے مفروضے سے نتیجے تک کے مراحل پر مشتمل کسی فلسفے کو قبول کرلیں۔یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں مفروضے نتائج کی صورت اختیار نہیں کرپائے اور سینکڑوں طے شدہ نتائج ہونے کے باوجود خود سائنسدانوں کے اختلاف کی نظر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں انسانوں کی بنائی گئی ان تجربہ گاہوں  کو رب العالمین کے احکامات پر فیصل بنایاجانا کون سا انصاف ہے ؟؟

چوتھی اہم بات :

اس حوالے سے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ سائنس کی اقسام ، اور شاخوں کے اصول ، تجربات وغیرہ کو ایک دوسرے پر لاگو نہیں کیا جاسکتا، یعنی ہر ایک شاخ یا نوع کا دائرہ کار ہے ، جن کے مابین یہ فرق بتلاتا ہے  ان شاخوں یا اقسام کو جب باہمی طور پر خلط ملط کردینا سراسر غلط ہوگا ،کیونکہ ہر ایک شاخ کا ایک دائرہ کار ہے بالکل اسی طرح سائنس کا بھی ایک دائرہ کار ہے اگر دیگر امور کے ساتھ اسے خلط ملط کردیا گیا تو خود سائنس ہی اس کی زد میں آجائے گی۔ کیونکہ یہ عملاً ممکن ہی نہیں بھلا کیسے  فلکیات کے ماہر شخص سے جرثوموں کے  ثبوت کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یا کسی فزکس دان سے فلکیات کے بارے میں مطالبہ کرنا سراسر برؤئے سائنس ہی غلط ہوگا۔ کیونکہ ہر شعبہ کے آلات علم اور میدانِ مہارت مختلف ہے۔

واضح رہے کہ  مذکورہ نکات قطعاً سائنس کے انکار پر مشتمل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ جو سائنس کا راگ الاپ کر اپنی باطل فکر کو  آوارہ کرنا چاہتے ہیں ، انہیں یہ بنیادی بات سمجھانا مقصود ہے کہ ان نکات کی روشنی میں سائنس  کے دائرہ کار کو سمجھا جائے۔ لہذا بنیادی طور پر  وہ تمام امور جو شرعی اصطلاح میں ایمان بالغیب کا حصہ ہیں یا امرِ الہی ہیں ، ایسے تمام امور سائنس کی رسأئی سے باہر ہیں۔  لہذا ایسے امور میں قطعا سائنس کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے دائرے سے باہر گفتگو کرے یا اسے ہم معیار بنالیں۔ بلکہ اہلِ سائنس کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ یہ امور سائنس کی آنکھ سے نہیں دیکھے جاسکتے۔  یہی سائنس کی حقیقی حد ہے جس تک اسے محدود رکھنا چاہیے۔

عقیدہ آخرت اور جدید سائنس :

سائنس کی حیثیت اور دائرہ کار کے حوالے سے گذشتہ سطور میں بنیادی باتیں ہوچکی ہیں ، جس کی روشنی میں یہ دو نکات قابل بیان ہیں ۔

اولاً : سائنس و عقلیات  کے ذریعے عقیدہ آخرت کو تختہ مشق بنانا  ہی بے جا ہے۔

  ثانیاً : اگر کوئی سائنس کی بات کرتا بھی ہے تو خوش قسمتی ہے آج سائنس بہت سی ایسی ایجادات یا دریافتیں کرچکی ہے جو عقیدہ آخرت کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً

علم فزکس کی روسے  رنگ سات اقسام سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، جبکہ ہزاروں رنگ ایسے ہیں جنہیں نہیں جانتے یا ہماری آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی۔

عرض یہ ہے کہ جب دنیا میں ہی سائنس تمام تر رنگوں کا احاطہ نہیں کرسکتی اور یوں اپنے دائرہ کار اقرار کرتی ہے تو پھر امورِ آخرت میں اس کا دخل کیوں؟

سائنس یہ کہتی ہے کہ  ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے،جسے عام آدمی دیکھ یا محسوس نہیں کرسکتا۔

بس سائنس کے اسی علم کی روشنی میں عقیدہ آخرت کو دیکھیں تو انکار کی کوئی راہ نہیں ملتی۔

 اب سائنس یہ کہتی ہے کہ  ہوا اس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے ۔ عام آدمی اس وزن کو محسوس کرتا ہے نہ واقف ۔

بس سائنس کے  اسی علم کی روشنی میں عقیدہ آخرت کو دیکھیں  تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا انکار کیونکر!!

جدید ٹیکنالوجی میں مخفی کیمر و ں ، سیکورٹی کیمروں کے ذریعے نگرانی اور عند الطلب  بنائی گئی ویڈیو کو بطور شہادت پیش کرنا اور عدالتوں کو اسے ایک مسلمہ گواہی تسلیم کرنا  ، فرشتوں کے نامہ اعمال کےلکھنے اور یوم آخرت اسے پیش کرنے اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ کئے جانے کو ثابت کرتا ہے۔

دوربین کے ذریعے دور کی چیز کو دیکھنا ممکن ہوجاتا ہے جو عام آدمی کی حدِ نگاہ سے دور ہوتی ہے۔ مأئیکرو اسکوپ کو ذریعے ان جانداروں کا دیکھنا ممکن ہے جن کے وجود کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جب ہمارے محسوس نہ کرنے سے کسی چیز معدوم ہونا لازم نہیں آتا ۔ بس یہی اصول آخرت کے بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بجلی کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اسے دیکھا بھی نہیں جاسکتا ، یہ معاملہ بھی عقیدہ آخرت کو سمجھنے میں مدد د دیتا ہے۔

ہوا ، بارش ، پانی ، بجلی ، درجہ حرات ، بخار ، سمیت سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جنہیں ماپا تولا جاسکتاہے ، ان سب کو تسلیم کرتے ہوئے  آخرت کےوزنِ اعمال کو خلافِ عقل سمجھنا یا خلافِ سائنس سمجھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

موبائل ، انٹرنیٹ دنیا کو سکیڑ گلوبل ولیج بنا دیا ، دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے کی مکمل خبر گیری ممکن ہے ۔ جسے کچھ عرصہ قبل تک عقل قطعاً تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی ، دنیا کا یہ سکڑجانا کیا ہماری عقلوں کو دستک دینے کے لیے کافی نہیں کہ جب دنیا میں ایک کونے کی ڈیٹا دوسرے کونے میں منتقل ہونا ممکن ہے تو قیامت کے دن دنیا کی تمام تر خبریں منتقل ہونا کیونکر ممکن نہیں اور ان کا حساب و کتاب کیونکر ممکن نہیں۔

مصنوعی ذہانت (آٹی فیشل انٹیلی جینس  ) 1956ء سے پہلے تک اسے کؤئی جانتا تک نہ تھا اب اس سے وہ کام لیے جارہے جو انسان کے کرنے کے ہیں ،  جس کی ایک شکل روبورٹ ہے ، جس سے سرجری تک کے کام لیے جارہے ہیں ، بعض پیشین گوئیاں کرنے والے یہ پیشین گوئی تو کرتے ہیں کہ 2029ء تک مشینیں انسانی سطح جیسی مصنوعی ذہانت کے حصول میں کامیابی ممکن ہے ، لیکن اس قسم کی نشانیوں  سے یہ بات بھی تو سمجھنے کی ہے کہ جس طرح آٹی فیشل انٹیلی جنس نامی مشینوں سے آج بہت کچھ ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی فرشتوں کی صورت میں اسپیشل انٹیلی جینس رکھی جو آخرت کے لیے نامہ اعمال تیار کر رہی ہے ، یہ بات ناقابل فہم کیونکر ہے۔ بلکہ حیرت ہوتی ہے اس دور کے سائنسدانوں پر جو آٹی فیشل انٹیلی جینس کو انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ، اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ انسان نے ایک بار مصنوعی ذہانت تشکیل دے لی تو پھر وہ خود بخود اپنے آپ میں بہتری لاتی جائے گی، وہ خود کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ خود کو ری ڈیزائن کرتی چلی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے، ’’انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاءکے باعث اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور نتیجتا ً  مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل جائے گی۔   کس قدر قابل حیرت بات یہ ہے اس انٹیلی جینس پر اس قدر اعتماد و یقین اور کائنات کے بنانے والے رب العالمین اور کاریگر پر کوئی یقین نہیں۔

بی بی سی کے مطابق موبائل کے ذریعے گوگل صارف کی معلومات حاصل کرلیتا ہے ، اس کے لیے خواہ لوکیشن سیٹنگ آف ہو اور خواہ موبأئل میں سم نہ ہو۔

اس سے ہمارا عقیدہ آخرت اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ جب دنیا میں یہ سب ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ بالاولیٰ قیامت کے دن ہمارے نامہ اعمال کے جمع پر قادر ہے۔

 دنیا بھر سے مختلف ممالک خلا میں سیٹلائٹ بھیج رہے ہیں تاحال یہ سلسلے جاری ہیں ، ان سیٹلائٹ کے ذریعے شہری منصوبہ بندی، دیہی وسائل اور انفراسٹرکچر میں پیش رفت اور ساحلی زمین کے استعمال سمیت مختلف امور میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔اس سے بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ جب دنیا میں اس حد تک نگرانی کے وسائل دستیاب ہیں اور خفیہ نگرانی ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔

آج سائنسدان یہ نظریہ رکھتے ہیں کائنات  ہر لمحہ بدل رہی ہے اور اس کے اندر تمام آبجیکٹس پیدأئش ، موت اور دوبارہ پیدائش کے چکر میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے یہ نظریہ جسے ایڈون ہبل نے پیش کیا اور hubblwes constant   کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اور یہ وہی بات کہ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ دعوت دیتا ہے کہ جو اللہ تمہیں  عدم سے وجود میں لاسکتا ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : [كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ   ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ  ] (البقرۃ : 28)

یعنی : (لوگو! ) تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو ۔ حالانکہ تم مردہ (معدوم) تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر زندہ کر دے گا۔ پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کا 95 فیصد حصہ اس وقت تاریک مادہ ہے یعنی نامعلوم کائنات۔ لیکن اس کے باوجود وہ اسے مانتے ہیں تو پھر آخرت کا کیونکر انکار کرسکتے ہیں۔

یہ تمام تر مثالیں مشت از خروارے کے طور پر ہیں ، سائنس کے طلبہ کے پاس یقیناً اس سے کہیں زیادہ اس حوالے سے مثالیں ہوں گی۔ ان سب کے بعد ضروری سمجھتا ہوں کہ سورۃ المومنون کی یہ آیات یہاں پیش کی جائیں، جو یقیناً ایسے دلوں پر دستک دینے کے لیے کافی ہیں۔

[وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَۃَ۝۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۷۸ وَہُوَالَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَاِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۹ وَہُوَالَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَلَہُ اخْتِلَافُ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۸۰ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ۝۸۱ قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲ لَقَدْ وُ عِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝۸۳ قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۴ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۸۵ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۸۶ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۸۷ قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ۝۸۹ ]

(المؤمنون:۷۸تا۸۹)

یعنی : وہی تو ہے جس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل  عطا کئے (تاکہ تم سنو، دیکھو اور غور کرو) مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو ۔ اور وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے  جاؤ گے۔ اور وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور رات اور دن کا باری باری آتے رہنا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کیا تم کچھ بھی نہیں سمجھتے؟ بلکہ انہوں نے بھی وہی کچھ کہہ دیا جو ان کے پہلے لوگ کہہ چکے ہیں کہ: جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو ہمیں پھر زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ؟ یہ بات تو ہمیں اور اس سے پیشتر ہمارے آباء  و اجداد کو بھی کہی گئی تھی۔ یہ تو محض پرانے افسانے ہیں  آپ ان سے پوچھئے کہ: اگر تمہیں کچھ علم ہے تو بتلاؤ کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کا ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ اللہ کا، آپ کہئے پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ پھر ان سے پوچھئے کہ: سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے۔ آپ کہئے پھر تم اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں؟پھر ان سے پوچھئے کہ اگر تم جانتے ہو حکومت کس کی ہے؟  اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟ وہ فوراً کہیں گے اللہ ہی ہے۔ آپ کہئے پھر تم پر کہاں سے جادو چل جاتا ہے؟

واقعتاً قرآن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سائنسی نشانیاں جب دیکھتے ہیں تو پھر نتیجہ وہی نکلتا ہو جو پروفیسر فلپ ہٹی کو بھی ماننا پڑا اس نے لکھا :

 The most impressive parts of the Koran deal with eschatology.

یعنی : قرآن کریم کے سب سے زیادہ پر اثر حصے وہ ہیں جو آخرت کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جس کے دل میں عقیدہ آخرت صحیح طور پر راسخ ہے وہ معاشرے کے لیے ایک بہترین فرد ثابت ہوتا ہے۔  دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عقیدے پر قائم و دائم رکھے ۔ آمین واللہ ولی التوفیق

About شیخ یونس اثری

Check Also

جشن میلاد سے متعلق ایک تحریر کا تحقیقی جائزہ

کچھ عرصہ قبل ہم تک ایک لٹریچر بنام ’’عید میلاد کی شرعی حیثیت‘‘ پہنچا ۔جو عوام …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے