Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جولائی » نعمتوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کریں

نعمتوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کریں

کاوش :شیخ عبداللہ محمدی (امام وخطیب زبیدہ مسجد قاسم آباد،حیدرآباد)

خطبہ مسنونہ کے بعد!

حدیث کی کتاب جامع ترمذی کی ایک حدیث میں پیارے پیغمبر ﷺ کی ایک دعا مذکور ہے اللہ کے نبی ﷺ یہ دعامانگا کرتے تھے: اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی واھلی والماء البارد .

یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں تومجھے اپنی محبت عطا کردے اور ہر اس شخص کی محبت عطا کردے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھے ایسے عمل کی توفیق عطا کر جو عمل تیری محبت تک پہنچادے اور یا اللہ!تو میرے نزدیک اپنی محبت سب سے زیادہ محبوب کردے یہاں تک کہ میری جان سے بھی زیادہ میں تجھ سے محبت کروں میں اہل عیال سے بھی زیادہ تجھ سے محبت کروں اور میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ تجھ سے محبت کروں۔

یہ پیارے پیغمبر ﷺ کی دعا ہے اس کا مفہوم بڑا ہی وسیع ہے، بڑا ہی کشادہ ہے ،اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کا مل جانا وہ عظیم نعمت ہے جس شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت مل گئی پھر اس کااللہ تبارک وتعالیٰ کےساتھ تعلق جڑ جاتا ہے پھر اسے جو بھی بھلائی ملتی ہے،جو بھی خیر ملتی ہے،جو نعمت ملتی ہےاورجو انعام ملتا ہے تو فورا اس کاذہن محبوب یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جاتا ہے پھر اس کاذہن اپنی صلاحیت کی طرف نہیں جاتا،اور اپنے کمال کی طرف نہیں جاتا ،اور اپنی کارکردگی کی طرف نہیں جاتا بلکہ فورا اس کاذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جاتا ہے کہ یہ مجھے جو کچھ ملا ہے یہ بھلائی، یہ انعام ،یہ نعمت یہ سب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اور یہ ایک عظیم عقیدہ ہے کہ نعمت کے ملنے پر آدمی کاذہن فورا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے یہ نہیں کہ وہ اس کو اپنا کمال سمجھے، میں یہ ہوں، یہ ہے میری صلاحیت، یہ ہے میرا کمال کہ میں نے یہ بھی حاصل کرلیا ،مجھے یہ بھی مل گیا ! نہیں جس شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت مل جائے پھر وہ اس خیر بھلائی جوا سے ملتی ہے ملتے ہی اس کاذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے آنے والی ہر نعمت کی نسبت اللہ کی طرف کرنا یہی اللہ تبارک وتعالیٰ کو مطلوب ہے ،یہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی چاہت ہے ۔

صحیح بخاری (الرقم:1038,846)میں حدیث موجود ہے،حدیبیہ والی رات بارش ہوئی صبح کو اللہ کے نبی ﷺ نے نماز فجر پڑھائی :

فلماانصرف واقبل علی الناس ،جب پیارے پیغمبر ﷺ نماز سے فارغ ہوئے لوگوں کی طرف چہرہ کیا تو لوگوں سے ایک سوال کیا :ھل تدرون ماذا قال ربکم؟ کیا تم جانتے ہوں کہ آج تمہارے رب نے کیا فرمایاہے:قالوا اللہ ورسولہ اعلم، صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین نے جواب دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو علم ہے کہ اس نے کیا کہا اور پھر اس نے اپنے رسول کو وحی کے ذریعے بتایا کہ اس نے کیا کہا،اصل علم اللہ کو ہے پھر اللہ نے وحی کے ذریعےاپنے رسول کو بتایا کہ اس نے کیا کہا، یعنی ہمارے علم میں نہیں اب آپ ہمیںبتائیں گے تو ہمیں پتا چلے گا، پیارے پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ نے آج فرمایا ہے :أصبح عبادی مؤمن بی وکافر ،یہ جو بارش ہوئی ہے اس بارش کی وجہ سے میرے بندے جو ہیں انہوںنے کفریہ کلمات کہے پھر پیارے پیغمبر ﷺ نے آگے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے:جنہوںنے یہ کہا:مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ، آج کی جو بارش ہوئی ہےہم پر یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی وجہ سے ہوئی ہے ،جس جس نے یہ کہا وہ مجھ پر ایمان لایا ،اس نے اپنے ایمان کی تجدید کی اور جس نے یہ کہا: مطرنا بنوع کذا وکذا۔کہ فلاں سیارے اور فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے اس نے کفریہ کلمہ کہا اس حدیث سے کیا معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو کیا چیز پسند ہے کہ جو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نعمت نازل ہو،جو بھی بندے کو خیر پہنچے….بندے اگراس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں تواللہ تبارک وتعالیٰ خوش ہوتا ہے ہاں اگر کوئی اس کی نسبت کسی اور کی طر ف کرتا ہے کسی اور مخلوق کی طرف،تو اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ چیز پسند نہیںہے، بات وہی ہے میرے بھائیو! کہ ضرورت ہے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی محبت مانگیں جس خوش نصیب کو،جس سعادتمند کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت مل گئی پھر اس کو جو بھی خیر ملے گی جو بھلائی ملے گی اس کا ذہن فوراً اپنے محبوب یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا پھر اس کا ذہن اور کسی طرف نہیں جائے گا،اپنی طرف نہیں جائے گا کہ یہ میرا کمال ہے ،یہ میری صلاحیت ہے، میں نے اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے یہ چیز حاصل کی۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہوگی تو نعمت کے ملتے ہی ذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا۔

[وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ ](البقرۃ: ۱۶۵)

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کی نشانی بتائی کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ٹوٹ کے محبت کرتے ہیں ۔یہ چیز کیوں احادیث میں مذکور ہوئی ؟ اس لئے کہ یہ اہم ترین ضرورت ہے بندوں کی کہ بندوں کو اللہ کی محبت مل جائے ،اس میں بندوں کی دنیا کی بھی خیر ہے اور آخرت کی بھی خیر ہے، اور جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت میسر تھی جن پر یہ انعام ہوا تھا واقعتا پھر ان کی زندگی ایک نمونہ بن گئی ،آئیڈیل بن گئی انہیں جوخیر عطا ہوتی،بھلائی عطا ہوتی فورا اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کرتے ۔

آیئے!چند مثالیں آپ کے سامنے رکھوں:سیدہ مریم iزیر کفالت ہیں سیدنا زکریا علیہ السلام کے اور جس حجرے میں وہ مقیم ہیں اس میں صرف سیدنا زکریا علیہ السلام ہی کا آنا جانا ہے۔ایک مرتبہ سیدنا زکریا علیہ السلام سیدہ مریمiکے پاس گئے حجرےمیں،جس میں وہ رہتی تھیں خالو تھے سیدہ مریم کے سیدنا زکریا علیہ السلام وہاں جاکر دیکھا کہ کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی ہیں ،انہوں نے سوچا کہ یہاں میرا ہی آناجانا ہے میں نہیں لایا تو پوچھا :[قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا](آل عمران:۳۷)اے مریم! یہ کہاں سے آئیں،کھانے پینے کی چیزیں ؟آج ہم جیسا اگر کوئی ہوتا تو یہ موقعہ تھا اپنے آپ کی تعریف کرنے کا کہ دیکھا تم مانتے نہیں ہو ہم ایسے ہیں ،اس طرح کے جملے ہماری زبان سے نکلتے ہیں، ایسے جملے زبان سے نہیں نکلنے چاہئیں ،سیدہ مریم iنےکہا:[قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ ](آل عمران:۳۷)یہ اللہ کی طرف سے ہے، اللہ نے مجھ پر انعام کیا ہے، یہی عقیدہ یہی منہج اختیار کرنا چاہئے ،کون اختیار کرے گا؟ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ملے گی ،جس کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت موجزن ہوگی اس کو جیسے ہی کوئی خیر ،بھلائی ملے گی ،کوئی نعمت ملے گی فورا اس کاذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا۔

ذوالقرنین کاتذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ،سورۂ کہف میں ہے:[اِنَّا مَكَّنَّا لَہٗ فِي الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰہُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا۝۸۴ۙ ](الکھف:۸۴)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑا انعام عطا کیا تھا،حکمرانی عطا کی تھی، ذوالقرنین کو ،اورہرچیز کے وسائل اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذوالقرنین کو عطا کیے تھے ،ہرچیز کے اسباب عطا کیے تھے، وہ زمین کا سفر کرتے ہیں ایک جگہ پہنچتے ہیں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے وہ شکایت کرتے ہیں کہ: [ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ]

(الکھف:۹۴)

یہ یاجوج وماجوج قوم جو ہے انہوںنے ہمیں بڑا پریشان کیا ہے آپ کوئی بند باندھ دیں تاکہ یہ ہمارے پاس نہ آسکیں ،ذوالقرنین نے کیا کہا:[اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا۝۰ۭ ](الکھف:۹۶)

لوہے کے بہت بڑے ٹکڑے لے آؤ ،وہ ٹکڑے جہاں سے وہ آئے تھے وہاں پر لوہے کے وہ ٹکڑے رکھے ،آگ جلائی اور گرم تانبا بھی ڈال دیا یوں ایک پورا بند بن گیا ،بہت بڑا کمال ،بہت بڑی صلاحیت کا اظہار ہوا تھاذوالقرنین سے کتنی دانائی کے ساتھ ایک مضبوط بند باندھا، یاجوج ماجوج کے درمیان ان کے سامنے کتنا مضبوط بند اب یہاں لوگوں کا ذہن ذوالقرنین کی طرف جاسکتا تھا کہ یہ اتنے باکمال آدمی ہیں، اتنی صلاحیت والے آدمی ہیں اور اتنے عقلمند ہیں اور اتنے دانشور ہیں کس طرح مضبوط بند باندھا ہے لیکن یہ سارا کام کرنے کے بعد کہتے ہیں:[قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّيْ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَہٗ دَكَّاۗءَ۝۰ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّيْ حَقًّا۝۹۸ۭ](الکھف:۹۸)

تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ میرا کوئی کمال ہے یہ میرے رب کی رحمت ہے یہ جوکچھ تم نے دیکھا ،بڑی صلاحیت والاکام تھا ،بڑے کمال والاکام تھایہ ساری صلاحیت یہ سارا کمال میرے رب کی رحمت کا نتیجہ ہے آج ہمارا مزاج کیا ہے تھوڑی سی صلاحیت کا اظہار ہوجائے ،ہم سے تھوڑے سے کسی کمال کا اظہار ہوجائے تو ہم پھولے نہیں سماتے جابجا اس کا تذکرہ ہم نے یہ کردیا، ہم نے یہ کردیا، ہم ایسے ہیں ،ہم ویسے ہیں، لیکن ذوالقرنین کیا کہتے ہیں؟ میرے رب کی رحمت کا نتیجہ ہے ،کیوں ہوا اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب کیا ہے؟بھائی اس لئے کہ دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت موجزن ہے ،محبت کا نتیجہ ہے، جس کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہوگی وہ ہر ملنے والی خیر کی نسبت اپنی محنت اوراپنے کمال کی طرف نہیں کرے گا۔

قرآن مجید میں طالوت کا ذکر ہے یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے صالح بندے تھے ان کا مقابلہ جالوت سے ہوا، باقاعدہ لشکروں کی لڑائی ہوئی، قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جب دونوں لشکرایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے ،طالوت کا لشکر بہت ہی کم تھااور جالوت کا لشکر ،لشکر جرار تھا تو طالوت کے لشکر کے کچھ ساتھی کہنے لگے:[قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۝۰ۭ](البقرۃ:۲۴۹)کہ آج ہم میں جالوت اور جالوت کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت وطاقت اور قوت نہیں ہے ہم مقابلہ نہیں کرسکتے، لیکن ان میں سے چند لوگ جن کا اللہ کے ساتھ ملاقات پر یقین تھا کہنے لگے:[كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ](البقرۃ:۲۴۹) کہ گھبراتے کیوں ہو تاریخ دیکھو کہ پہلے اس طرح ہوا ہے کہ بہت ساری کم جماعتیں وہ بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں، اللہ کے حکم سے۔ وہ مؤمن کہنے لگے جن کا آخرت پر اللہ کے ساتھ ملاقات پر یقین تھا، کہ گھبراؤنہیں یہاں قلت اور کثرت کی کوئی بات نہیں فتح اس کی ہوتی ہے جس کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مددہو اور نصرت ہو جس کے لئے اللہ کاحکم ہو، پھرایسا ہوا لڑائی ہوئی اور واقعتا وہی ہوا طالوت اور اس کالشکر جو کہ تعداد میں کم تھے وہ غالب آگئے جالوت کے لشکر پر ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں طالوت اور اس کے لشکر کی فتح کا ذکر کیا،جالوت اور اس کے لشکر کی شکست کا ذکر کیا الفاظ کیا ہیں:[فَہَزَمُوْھُمْ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۣۙ] (البقرہ:۲۵۱)کہ انہوں نے جالوت اور اس کے لشکرکوشکست دی اللہ کے حکم سے، یہی تعلیم ہے کہ جو فتح ملے، جو کامیابی ملے، جو کامرانی ملے، جو خیر ملے، جوبھلائی ملے، جو نعمت ملے اپنی صلاحیت اور کمال کی طرف ذہن نہیں جاناچاہئے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جانا چاہئے کہ یہ جو کچھ ملا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کافضل ہے اللہ کے حکم اوراللہ کی توفیق سے ملا ہے، ایسا کب ہوگا جب ہمارے دل ودماغ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہوگی تو ضروری ہے ہم دعاؤں میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی محبت مانگا کریں،پھر تمہارا اللہ کے ساتھ تعلق جڑ جائے گا ،پھر کسی اور کی طرف ذہن نہیں جائے گا ۔قرآن کی نصوص کی یہی تعلیم ہے اورصالحین کی یہی تربیت ہے۔

سیدنا یوسف  علیہ السلام سورۂ یوسف میں تفصیل سے واقعہ موجود ہے کہ انہیں دعوت گناہ دی گئی :[وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَيْتَ لَكَ](یوسف:۲۳)دعوت گناہ دی گئی ،بچ گئے،کہنے لگے:[قَالَ مَعَاذَ اللہِ](یوسف:۲۳) اللہ کی پناہ ،اللہ کی پناہ میں یہ کام کرنے والانہیں،میں اس گناہ کا ارتکاب کرنے والانہیں،بچ گئے یہ لمحہ گزر گیا جب اپنے بچنے کا ذکر کرتے تو کن الفاظ میں…. قرآن مجید میں ہے: [وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝۰ۭ ](یوسف:۵۳) دیکھیں دل میں اللہ کی محبت ہونا پھر آدمی  اپنی صلاحیت کا تذکرہ نہیںکرتا، اپنے کمال کاتذکرہ نہیں کرتا، سیدنا یوسف علیہ السلام کیا کہہ رہے ہیں ؟ میں اپنے نفس ،اپنی جان کو اپنے آپ کو، بری قرار نہیں دیتا،یہ جو نفس ہے یہ جو اپنا آپ ہے یہ جو جان ہے یہ برائی پر اکسانے والی ہے :[اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝۰ۭ ]بچتا وہ ہے جس پر میرے رب نے رحم کیاہو، مجھ پر بھی میرے رب نے رحم کیا ہے مجھے اس گناہ سے میرے رب نے بچایا ہے ،یہ ہے اللہ تبار ک وتعالیٰ کی محبت کانتیجہ ،اللہ کی محبت ہمارے دل ودماغ میں بھی موجزن ہوجائے پھر اسی طرح کے تذکرے ہماری زبانوں سے بھی نکلیں گے ۔سیدنا یوسف علیہ السلام کی تعلیم کتنی بڑی بات تھی ،کتنی بڑی بات عزیز مصر کی بیوی دعوت گناہ دےرہی ہےاور بچ گئے،دیکھنے والاکوئی نہیں ،دروازے سارے بند ہیں، کتنی بڑی صلاحیت کا اظہار ہوا تھاسیدنا یوسف  علیہ السلام سے،اپنا کوئی ذکر نہیں بلکہ اپنے آپ کا تذکرہ کررہے ہیں نفس برائی پر اکسانے والاہے میں اپنے آپ کو بری قرار نہیں دیتا میں جوبچا ہوں اللہ کی رحمت کی وجہ سے بچاہوں، کیا مضبوط تعلق ہے سیدنا یوسف  علیہ السلام کا اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ،وجہ کیا ہے وہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت، تواگر ہمیں یہ عطا ہوتی ہے ،ہمیں مل جاتی ہے تو ہماری زبان سے بھی یہی تذکرہ ہوگا، یہی باتیں نکلیں گی، اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا یوسف  علیہ السلام پر انعامات ہی انعامات کیے ،کنوئیں سے نجات دی، کنویں میں پھینک دیا گیا قافلے والوں سے نجات دی، ان کو بیچ دیا گیا تھا ،دعوت گناہ دی گئی اس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نےبچایا ،قید میں ڈال دیا گیا وہاں سے اللہ نےنجات دی ،یہاں تک کہ تخت پر بٹھادیا ،کتنی کٹھن مرحلوں سے گزرے لیکن ان ساری باتوں کاتذکرہ کن الفاظ سے کرتے ہیں:[قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَيْنَا۝۰ۭ](یوسف:۹۰) سارے مراحل سےہمیں اللہ نے نکالا، اللہ نے ہی ہم پر احسان کیا ہے آج ہم میں سے اگر کوئی دشوار گذار راستوں سے گزرے ،کٹھن مراحل اس پر آئیں، اور پھر جاکر ایک منزل تک پہنچے تو کیا باتیں کرتا ہے کہ بڑے مراحل سے گزراہوں ،اپنے دل سے، اپنے دماغ سے میں نے اتنے مراحل کا مقابلہ کیا ہے ، تب جاکر اپنی صلاحیت کی وجہ سے، اپنے کمال کی وجہ سےمنزل تک پہنچا ہوں، اللہ تبارک وتعالیٰ کاکوئی تذکرہ نہیں اور یہاں سیدنا یوسف علیہ السلام ساری باتوں کے بارےمیں کہہ رہےہیں: [قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَيْنَا۝۰ۭ](یوسف:۹۰) جہاں جہاں جو کچھ دشوار گھاٹی آئی مجھے میرے رب نے نکالااور مجھ پر میرے رب نے احسان کیا ہے، یہی تعلیم ہے میرے بھائی ،یہی تربیت ہے جوصالحین کی زندگی ہماری تربیت کرتی ہے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی محبت مانگیں جب اللہ کی محبت مل جائے گی تو پھر جوخیر ،جوبھلائی ملے،ہرخیر وبھلائی کےملنے کے بعد یقینا ہمارا ذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے گا۔

سیدناعیسیٰ علیہ السلام قرآن مجید میں آپ کے معجزات کاذکر ہے اپنی قوم بنی اسرائیل کےسامنے آتے ہیں ،انہیں اپنے معجزات دکھاتے ہیں، فرماتے ہیںکہ یہ معجزہ بھی میرے پاس ہے کہ:[اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَہَيْــــَٔــۃِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْہِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۚ](آل عمران:۴۹)

 مٹی سےپرندہ بناتا ہوں، جب مٹی سے پرندہ بنالوں کہ مٹی سے بنایاہوا ایک مجسمہ پرندے کا اس میں اگر پھونکوں تو پرندہ بن جائے اور اڑ جائے اس میں میرا کوئی کمال نہیں ،میری کوئی صلاحیت نہیں اللہ کے حکم سے ہے ،کوئی برص والامریض ہو ،کوئی نابینا ہو اگر وہ میرے پاس آجائے میں اس کو چھوؤں وہ تندرست ہوجائے گا ، میری صلاحیت اور میرا کمال نہیں اللہ کے حکم سے ہے ، کسی مردے کو میں کہوں :اللہ کے حکم سے کھڑے ہوجاؤ تو وہ کھڑا ہوجائے گا،اس میں میری کوئی صلاحیت نہیں ،میرا کوئی کمال نہیں، اللہ کے حکم سے ہے۔ دیکھتے جائیں یہ قرآن مجید ہے ہمیں کیا تعلیم دے رہا ہے ،ہماری کیا تربیت کررہا ہے ،کیا رہنمائی کررہا ہے ،اللہ کا کلام کہ جو بھی ہماری ذات سے کسی صلاحیت کا اظہار ہوتو اترانے کی ضرورت نہیں، بس یہی کہیں کہ یہ مجھ پر اللہ کا فضل ہے، میرا کوئی کمال نہیں ،یہ باتیں ہم کرتے نہیں ہیں ہمارے ذہن میں فورا اپنا آپ آتا ہے اور زبان پر بھی اپنے ہی تذکرے شروع ہوجاتے ہیں، ایسا ہوناچاہئے اور ایسا کب نہیں ہوگا جب دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ہوگی یہی وجہ ہے کہ پیارے پیغمبر ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے: اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی واھلی والماء البارد .

یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں تومجھے اپنی محبت عطا کردے اور ہر اس شخص کی محبت عطا کردے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھے ایسے عمل کی توفیق عطا کر جو عمل تیری محبت تک پہنچادے اور یا اللہ!تو میرے نزدیک اپنی محبت سب سے زیادہ محبوب کردے یہاں تک کہ میری جان سے بھی زیادہ میں تجھ سے محبت کروں میں اہل عیال سے بھی زیادہ تجھ سے محبت کروں اور میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ تجھ سے محبت کروں۔

یہ امت کو تعلیم ہے ،پیارے پیغمبر ﷺکی اللہ کی محبت مل گئی تو اللہ کے ساتھ ایک خاص تعلق جڑ جاتا ہے اور یہ ہے کہ جیسے ہی نعمت ملے فورا اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف۔

سیدناسلیمان علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں :[وَہَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ۝۰ۚ ](ص:۳۵)کہ یا اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا کر ،ایسی حکمرانی عطا کر جو میرے بعد کسی کونہ ملے۔ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی، یہاں تک کہ یہ جواڑنے والے پرندے ہیں ،یہ جو زمین پر رینگنے والی چیونٹیاںہیں ان سے بھی ہم کلام ہوتے تھے،قرآن مجید میں بھی تذکرہ موجود ہے ،حدیث میں تذکرہ موجود ہے ،ہدہدپرندہ تھا اس سے باقاعدہ سیدنا سلیمان علیہ السلام ہم کلام ہوئے جو اس نے باتیں کہیں سیدناسلیمان علیہ السلام نے سنیں اور جوابات دیے، سوالات کیے، اسی طرح چیونٹی کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ سیدناسلیمان علیہ السلام  لشکر جرار لیکر نکلے اور جب ایک میدان میں پہنچے ایک چیونٹی دوسری چیونٹیوں سےکہتی ہے :[قَالَتْ نَمْــلَۃٌ يّٰٓاَيُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ۝۰ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ۝۰ۙ] (النمل:۱۸) کہ ہٹ جاؤ،اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ ایسا نہ ہوکہ سلیمان اور سلیمان کا لشکر تمہیں رونددے، سیدنا سلیمان علیہ السلام سن رہے ہیں اور پھر اس میدان میں دیکھا ایک چیونٹی لیٹی ہوئی ( مُسْتَلْقِيَةٍ عَلَى قَفَاهَا، رَافِعَةٍ قَوَائِمَهَا إِلَى السَّمَاءِ) چت لیٹی ہوئی اپنی پیٹھ کے بل لیٹی ہوئی ہے اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگیںآسمان کی طرف کی ہوئی ہیں :(وتقول اللھم انا خلق من خلقک لیس بنا غنا عن سقیاک) (مصنف ابن ابی شیبۃ :۲۹۴۸۷،حلیۃ الاولیاء:۳۲؍۱۰۱)

کہ ہمیں بارش کی طلب ہورہی ہے ہمارا پروردگارتو ہے تو اگر ہمیں پانی نہیں دیگا اور کون دیگا۔

سیدنا سلیمان علیہ السلام اپنے لشکر سے کہتے ہیں :ارجعوا فقد سقیتم بدعوۃ غیرکم،واپس لوٹو اب ہمیں بارش مانگنے کی ضرورت نہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے چیونٹی کی دعا کوسن لیا ہے،اتنابڑا انعام ،پھر بھی لوگوں سے کہتے ہیں :[وَقَالَ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ](النمل:۱۶) یہ الفاظ ہیں سیدنا سلیمان  علیہ السلام کہ ہمیں پرندوں کی باتیں بھی سکھلائی گئی ہیں ،ہمیں ہر چیز دی گئی ہے ،ہر چیز عطا کی گئی ہے یہ ساری نعمتوں کاذکر کرنے کے بعد کیا کہتے ہیں:[اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْفَضْلُ الْمُبِيْنُ۝۱۶] (النمل:۱۶)یہ سب کچھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا واضح اور کھلا فضل ہے، کتنی باتیں تھیں ،اپنے آپ کو بیان کرسکتے تھے، پرندوں سے بات کرنا ،چیونٹی سے بات کرنا، کتنی بڑی حکمرانی ہے، ہوا میں تخت اڑ رہا ہے ،لیکن تمام نعمتوں ،ان تمام صلاحیتوں کی نسبت اپنی ذات کی طرف نہیںکی، کہتے ہیں یہ سب کچھ جو عطا ہوا اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل ہے ،ایسا ہی ہمارا عقیدہ ہوناچاہئے ،یہی ہمارا نظریہ ہوناچاہئے ، اور یہ عقیدہ،یہ منہج،یہ نظریہ، کب بنے گا جب ہمارے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت موجزن ہوگی، اس کے لئے ہم کیا کریں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کریں کہ یااللہ ہمیں اپنی محبت عطا کردے ،اللہ کی محبت ملی تو پھر ہر نعمت جیسے ہی ملے گی فورا زبان سے نکلے گا:الحمدللہ، اللہ کے لئے حمد ہے، اللہ کی تعریف ہے، یہ جو کچھ ملا ہے ،اللہ نے دیا ہے، سیدنا سلیمان علیہ السلام  کوملکہ سبا کا تخت منگوانا ہے ،ایک جن کہتا ہے :[قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ۝۰ۚ] (النمل:۳۹) قرآن مجید کے الفاظ ہیں کہ وہ تخت میں لے آنے کے لئے تیار ہوںآپ کے پاس لاؤنگااور اتنا جلدی لاؤنگا کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں اس سے پہلے لاؤنگا،ایک صالح مومن کہتا ہے: [اَنَا اٰتِيْكَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ۝۰ۭ] (النمل :۴۰) میں لاؤنگا کتنی دیر میں؟آپ اپنی پلک جھپکیں اس سے پہلے لاؤنگا، اور وہی ہواابھی پلک جھپکی ملکہ سبا کا تخت سامنےپایا ،کتنی بڑی بات ہوگئی،کہاں سے تخت آیا اور آیا کتنی دیر میں لیکن کہتے کیا ہیں:[ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ۝۰ۣۖ ]قرآن مجید کے الفاظ ہیں۔ سیدناسلیمان علیہ السلام کیا کہتے ہیں:[ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ۝۰ۣۖ ] یہ میرے رب کافضل ہے ،دیکھتے جائیں میرے بھائی غور کرتے جائیں!کیا تعلیم مل رہی ہے ،انبیاءاور صالحین کے واقعات ہماری کیا تربیت کررہے ہیں ،کیسی کیسی صلاحیتوں کا اظہار ہواان سے لیکن جیسے ہی صلاحیت کا اظہار ہوتا گیا اور وہ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے گئے ،اللہ کا شکر ادا کرتے گئے، میرا کوئی کمال نہیں ،میری کوئی صلاحیت نہیں جو کچھ ہوا یہ میرے رب کافضل ہے۔

محمدرسول اللہ ﷺ پیارے پیغمبر ﷺ کی بھی یہی تعلیم تھی، پیارے پیغمبر ﷺ کا اسوہ حسنہ بھی یہی تھا صبح اور شام کی دعاآپ بھی پڑھتے ہیں اور اللہ کی توفیق سے ہم بھی پڑھتے ہیں الفاظ کیا ہیں،صبح کے وقت:اللھم مااصبح بی من نعمۃ او باحد من خقلک فمنک وحدک لاشریک فلک الحمد ولک الشکر . (ابوداؤد:۵۰۱۳)اور شام کو :اللھم ماامسی ۔صبح یعنی دن کاآغاز کررہے ہیں اور پیارے پیغمبر ﷺ کی زبان پر یہ الفاظ ہیںکہ یااللہ یہ صبح میں نے کی ہے اس صبح کے وقت میرے اوپر جوجو نعمت ہوئی، صرف میرے اوپر ہی نہیں تیری مخلوق میں سے ہر کسی پر جو جو نعمت ہوئی وہ اکیلے تیری طرف سے ہے وہ نعمت کرنے میں تیرا کوئی شریک نہیں، حمد بھی تیرے لئے ہے اور شکر بھی تیرے لئے ہے۔یہ پیارے پیغمبر ﷺ کی دعا ہے اور جامع ترمذی میں اسی دعا کے بارے میں پیارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا جو صبح کو یہ دعا پڑھتا ہے وہ دن بھر جو جونعمتیں ہوتی ہیں اس نے ان نعمتوں کا شکر ادا کردیااور جو شام کو یہ دعا پڑھتا ہے رات کو جو جونعمتیں اس پر ہوئی ہیں اس نے ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کاحق ادا کردیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کتنا مہربان ہے کہ نعمتیں بھی عطا کرتا ہے اور چھوٹے چھوٹے اذکار بھی اس نے پیارے پیغمبر ﷺ پر اتارے کہ یہ کام کرو تو ان نعمتوں کے شکر ادا کرنے کاحق اداہوجائے گا،اتنا اللہ تبارک و تعالیٰ مہربان ہے۔

تودیکھیں!اللہ کے نبی ﷺ کی اس دعا سے پیارے پیغمبر ﷺ کی سیرت معلوم ہوئی کہ جو نعمتیں مل رہی ہیں ان سب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کریں ،کہیں کسی اور کی طرف نہیں،کسی مخلوق کی طرف نہیں ،نہ ہی اسے اپنی صلاحیت اور اپناکمال سمجھیں ،نہیں جو کچھ دیا اللہ تعالیٰ نے دیا ۔ سنن ابی ابوداؤد میں یہ واقعہ موجود ہے پیارے پیغمبر ﷺ کاایک یہودی بیمار ہے ،آپﷺ بچے کے سرہانے بیٹھتے ہیں، عیادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی دعوت دیتے ہیں کہ :’’اسلم‘‘ کہ بیٹے اسلام قبول کرلو، فنظر الی ابیہ وہ یہودی بچہ اپنے باپ کی طرف دیکھتا ہے ،یہاں ایک چھوٹی سی بات ذہن میں آگئی کہ اللہ کے نبی ﷺ ایک بچے پر اسلام پیش کررہے ہیں ۔ قرار دا جو منظور ہوئی تھی سند ھ اسمبلی مین جو واپس لے لی گئی کہ بچہ اسلام قبول نہیں کرسکتا، یہاں دیکھیں اللہ کے نبیﷺ بچے پر اسلام پیش کررہے ہیں ،فنظر الی ابیہ وہ بچہ اپنے باپ کی طرف دیکھتاہے،باپ کیا کہتا ہے :اطع باالقاسم ﷺ۔ ابوالقاسم ﷺ جوفرمارہے ہیں وہ مان لو، یہ دین پر عمل کرنے کی برکات ہیں، عیادت کاحکم دین نے دیا ہے ہم کریں گے برکات باقاعدہ ہمیں نظر آئیں گی، وہ بچہ جو ہے اسلام قبول کرلیتا ہے دیکھیں اللہ کے نبی ﷺ سے صلاحیت کا اظہار ہوا آپ تشریف لے گئے بچے کی عیادت کی، بچے کے سامنے اسلام پیش کیا،بچے نے اسلام قبول کرلیا اپنی امت کو کیا تعلیم دے رہے ہیں یہ نہیں کہ اپنا تذکرہ کیا کہ دیکھیں یہ میری صلاحیت، میں نے اسلام پیش کیا میری وجہ سے بچے نے اسلام قبول کرلیا، نہیں:فقام النبی ﷺ وھو یقول الحمدللہ الذی انقذہ بی من النار۔اللہ کے نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرماتے ہوئے جارہے ہیں ہر قسم کی حمد اور تعریف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھے استعمال کرتے ہوئے بچے کو جہنم سےبچالیا، مجھے استعمال کرتے ہوئے یعنی جو کچھ میں نے کیا ہے وہ اللہ کی توفیق سے وہ اللہ کا فضل ہے، میرا کوئی کمال نہیں، میری کوئی صلاحیت نہیں، یہ اللہ کے نبیﷺ کی تربیت ہے،اپنی امت کے لئے ہمارا بھی یہی ذہن بننا چاہئے جوتھوڑا بہت ہم کرتے ہیں کہیں اترائیں نہیں یو ں تکبر اور نخوت کا شکار نہ ہوں، اس لیے اس کی نسبت اللہ تبار ک وتعالیٰ کی طرف کریں۔

سنن نسائی کی حدیث ہے اللہ کے نبی ﷺ کےپاس پانی ختم ہوگیا،،پیارے پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں پانی تلاش کرو، جوتھوڑا بہت ملے وہ لے آؤ،تقریبا بہت ہی کم پانی چند بوندیں پانی کی ملتی ہیں اللہ کے نبیﷺ کے سامنے وہ پانی پیش کیا جاتا ہے اللہ کے نبی ﷺ اپنا مبارک ہاتھ پانی میں ڈالتے ہیں ،صحابی کہتے ہیں :اللہ کے نبی ﷺ نے جیسے ہی پانی میں ہاتھ ڈالااورباہرنکالاانگلیوں کے درمیان سے پانی جاری ہوگیا یہ اللہ کے نبی ﷺ کا معجزہ تھا انگلیوں کے درمیان سےپانی جاری ہوگیا اور اتنا پانی ملا کہ سب نے پیا اپنے جانوروں کو پلایا بلکہ اپنے جو برتن تھے وہ بھی بھر لیے ،لیکن جیسے ہی پانی نکلنا شروع ہوا تو پیارے پیغمبر ﷺ کی زبان سے کیا جملہ نکلا یہ بہت بڑی صلاحیت کا اظہار ہورہا تھا ،پیارے پیغمبر ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے پیارے پیغمبر ﷺ نے سوچا کہ اس وقت ان کاذہن یقینا میری طرف جارہا ہوگا فرماتے ہیں: توضؤ بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ، کہ وضوکرنا شروع کرو اللہ کا نام لیکر اور یہ وہ پانی ہے جو اللہ کی طرف سے برکت بن کر آیا ہے،تمہارا ذہن کہیں میرے ہاتھ اور میری انگلیوں کی طرف نہ جائے بلکہ یہ ذہن نشین کرلو جو کچھ ہورہا ہے یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے برکت ہے،یہ اللہ کے نبی ﷺ کی سیرت ،یہ پیارے پیغمبر ﷺ کی تعلیم ہے ،تربیت ہےکہ ہماری ذات سے اگرکسی صلاحیت کا اظہار ہو ،ہم اترائیں نہیں،غرور اور تکبر کا شکار نہ ہوںبلکہ اسے نعمت سمجھیں اور اپنی زبان سے اس نعمت کاتذکرہ کریں کہ یہ نعمت ہمیں ملی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے یہ اللہ کےنبی ﷺ کی تعلیم وتربیت ہے یہ ذہن نشین کرلیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کروگے اللہ تبارک وتعالیٰ بڑھا چڑھا کر دے گا :[لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ] (ابراھیم:۷) توشکر ادا کرنے کا سب سے پہلا قدم کیا ہے سب سے پہلی سیڑھی کیا ہے کہ جیسے ہی کوئی نعمت ملے فورا ہمارا ذہن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف جائے اور ہم اظہار کریں کہ یہ اللہ کا فضل ہے،یہ اللہ کی توفیق ہے،یہ اللہ کی تعریف ہے ،یہ اللہ کی رحمت ہے، یہ اللہ کافضل ہے اور یہ بات ذہن نشین کرلیں اگر ہمیں کوئی نعمت ملی ،کوئی بھلائی ملی، ہم نے اس کو اپنا سمجھا اپنی صلاحیت سمجھی ،اپنا کمال سمجھا یہ چیز اللہ تبارک وتعالیٰ کو پسند نہیں قرآن مجید میں موجود ہے قارون کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی دولت دی ،بڑا مال دیا ،بڑی نعمت کی اس پر لوگ اس کوسمجھاتے جب وہ فخر کرتاکہ:[وَاَحْسِنْ كَـمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَيْكَ] (القصص:۷۷) کہ تم اللہ کا احسان مانو جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا تم اسی طرح اللہ کی مخلوق پر احسان کرو۔

وہ کیاجواب دیتا:[اِنَّمَآ اُوْتِيْتُہٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ۝۰ۭ ]

(القصص:۷۸)

نہیں کوئی احسان نہیں ہے یہ جو کچھ کمایا ہے اپنے علم کی وجہ سے کمایا ہے۔ یعنی اترانا ،اپنا کمال سمجھنا پھر کیا:

[فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ۝۰ۣ ](القصص:۸۱)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے شخص کو سارے گھر اور مال کے ساتھ زمین میں دھنسادیا۔

معلوم ہوا کہ ایسی باتیں اللہ تبارک وتعالیٰ کو پسند نہیں جوخیر ملے، جوبھلائی ملے، جو نعمت ملے اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کریں ۔یااللہ!میں اس قابل نہیں تھا بس تو نے انعام کیا ،مجھ میں کوئی کمال کی بات نہیں ہے ،عاجزی انکساری اختیار کریں ۔

نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ ہے کتاب الثقات لابن حبان ۸؍۱۰،۱۱ترجمۃ:۱۲۰۴۶)میں یہ واقعہ موجودہےکہ خراسان کا ایک کاتب تھا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر یہ انعام کیا تھا وہ پورا قرآن مجید تین دن میں لکھ لیتا تھا اتنی بڑی صلاحیت ،آج کمپیوٹر پر بیٹھ کر بھی شاید کوئی لکھ سکے ،اللہ تعالیٰ نے اسے یہ صلاحیت دی تھی ، یہ انعام دیا تھا، ایک مرتبہ ایک شخص نے اس کو کہا کہ آپ قرآن مجید تین دن میں کیسے لکھ لیتےہیں ؟اس نے بڑا فاخرانہ انداز اختیار کیا،اپنی تین انگلیوں کی طرف اشارہ کیا کہ :کتبتہ بثلاثۃ ومامسنا من لغوب. لاحول ولاقوۃ الاباللہ میں یہ لکھتاہوں ان تین انگلیوں سے یہ تین انگلیوں کا کمال ہے ،لیکن مجھے کوئی تھکاوٹ بھی نہیں ہوتی ،یہ وہ جملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لیے استعمال کیا ہے [وَّمَا مَسَّـنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۝۳۸ ](ق:۳۸)تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی، ظالم نے وہ جملہ اپنی ذات کے لئے استعمال کیاحالانکہ وہ نعمت اللہ نے عطاکی تھی وہ صلاحیت اللہ نے عطا کی تھی فجفت اصابعہ الثلاث جیسے ہی اس نے یہ جملہ کہا اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اس کی ان تین انگلیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، خشک ہوگئیں ،ہلنا چھوڑ دیا، پتا چلا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو اس طرح کے جملے پسند نہیں تو میرے بھائیو! خلاصہ کلام یہ ہے کہ: ہم اپنی دعاؤں میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی محبت مانگا کریں جیسے کہ پیارے پیغمبر ﷺ مانگا کرتے تھے اس کافائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت ملے گی جب ہمارے دل ودماغ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت موجزن ہوگی تو پھر ہمیں جو خیر ملے گی، جو بھلائی ملے گی ، جو نعمت ملے گی فورا ہمارا ذہن اللہ کی طرف جائے گا ،ذہن اللہ کی طرف گیا ہم ٹوٹ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکراداکریں اس میں دنیاوآخرت ،قبر اور قیامت کی خیر ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ قرآن وحدیث کی ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے،اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین.

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

کاوش : شیخ عبداللہ محمدی (مدرس : مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ،ساماروموری) خطبہ مسنونہ کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے