احکام ومسائل

مسئلہ وراثت

محترم جناب مفتی صاحب!

گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی چاہئےہم پانچ بھائی اور چاربہنیں اور ایک والدہ شرعی حصہ کرنا چاہتے ہیں ،والد نے اپنی حیات میں دومنزلہ گھر بنایا پھر تیسری منزل بڑے بھائی نے بنوائی اسی طرح پانچویں اور چھٹی منزل چھوٹے بھائی نے اپنی محنت سے بنوائی،سوال یہ ہے کہ پوری جگہ مشترکہ تقسیم ہوگی یا صرف والد کے بنائے ہوئے حصے کی تقسیم ہوگی؟شرعی اعتبار سے رہنمائی فرمائیں!

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

سائل فہیم نعمان ابراھیم نے وراثت کے مسئلہ میں رہنمائی طلب کی ہے، ہم بتوفیق اللہ تعالیٰ وعونہ اس کا جواب لکھتے ہیں ۔

والد نے اپنی زندگی میں اوپر نیچے گھر بنایا،اس کے بعد ایک بھائی نے اس کے اوپر اور پھر سب سے چھوٹے بھائی نے اس کے اوپر دومنزل بنائیں اگر تعمیر کا یہ عمل باپ کی زندگی میں ہوا ہے اور اس وقت تمام معاملات مشترک تھے تو پوری بلڈنگ میں وراثت نافذ ہوگی۔

اور اگر والد کی وفات کے بعد یہ تعمیرات ہوئی ہیں تو ان دونوں بھائیوں کاجو تعمیرات کی مد میں خرچ ہوا ہے اس کونکال کر بقیہ تمام میں وراثت نافذ ہوگی،اصل اہمیت جگہ پلاٹ کی ہے اگر جگہ نہ ہوتو تعمیرات کہاں ہوگی؟

لہذا اس مسئلہ میں زیادہ احتیاط اس آخری والی صورت ہی میں ہے۔

رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین   ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محترم جناب مفتی صاحب!

سوال یہ ہے کہ میرا ایک مکان ہے،شوہر فوت ہوچکے، میں، دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں زندہ ہیں سب اولاد شادی شدہ ہے ،یہ مکان میرا ذاتی ہے،میرے شوہر کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ،میں اپنی زندگی میں سب اولاد کو حصہ دینا چاہتی ہوں اس مکان میں بشمول میرے کس کا کتنا کتنا حصہ ہوگا؟اس مکان کی ویلیو باہمی رضامندی سے (پچاس لاکھ ) مقرر کی ہے ،قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں۔

الجواب بعون الوہاب

 صورت مسئولہ بر صحت سوال

سائلہ انواری بیگم زوجہ محمد یوسف مرحوم اپنے جس مکان کی بابت مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہیں اگر سائلہ خود اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرناچاہتی ہیںتو شرعاً وہ ایسا کرسکتی ہیں۔

اب اس سلسلہ میں وہ جتنا مال اپنے لئے رکھنا چاہے انہیں اختیار ہے، شرعاً اس حوالے سے ان کاکوئی حصہ مقرر نہیں ہے، باقی دو بیٹے اور پانچ بیٹیوں میں برابر کی بنیاد پر تقسیم ہوگی، یعنی بیٹے اوربیٹی کا جو وراثت میں فرق ہے کے بیٹے کو ڈبل اور بیٹی کو سنگل ملے گا،یہ اصول

زندگی میں تقسیم کے موقع پر لاگونہیں ہوگا،زندگی میں جو تقسیم ہوتی ہے اسے ہبہ کہاجاتاہے، اور ہبہ یعنی گفٹ میں بیٹا اور بیٹی کا حصہ برابر ہے،جیسا کہ صحیح مسلم میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  والی روایت میں صراحت موجود ہے ،جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اعدلوا بین اولادکم،یعنی: اپنی تمام اولاد کےدرمیان عدل کرو، اور سب کو برابردو۔مثلاً: اس پچاس لاکھ میں سے اگر آپ آٹھ لاکھ روپے اپنے لئے رکھ لیتی ہیں او ر بقیہ بیالیس لاکھ روپے اپنے سات بچوں میں برابر تقسیم کرتی ہیں تو ہر ایک کے حصے میں چھ لاکھ روپے آئینگے۔

جوانواری بیگم صاحبہ نے اپنے لئے رکھی ہوگی اس کو خرچ کرنے میں انہیں شرعااختیار ہے لیکن یہ کسی ایک اولاد کو نہ زندگی میں رقم دے سکتی ہیںاور نہ ہی وصیت کرسکتی ہیںکہ میرے بعد میرا جوکچھ بقیہ ترکہ وہ میری فلاں بیٹی یا بیٹے کو ملے،بلکہ وفات کے بعد اس تھوڑے بہت میں بھی وراثت ہوگی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت سوال : محترم جناب مفتی صاحب! میرے والد محترم 29نومبر2019ء کوقضائے الٰہی سےوفات …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے