Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ ستمبر » ۔ قسط 182 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب (بدیع التفاسیر)

۔ قسط 182 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب (بدیع التفاسیر)

قسط 182 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

میںنے بشر سےکہا:توسوال کرے گا یامیں پہلے سوال کروں؟ بشر نے کہا تو سوال کر۔ میں نےکہا توقرآن کومخلوق کہتا ہے؟ کہا:ہاں، میں قرآن کو مخلوق کہتا ہوں۔میں نے کہا اس صورت میں تجھے تین بات میں سے کوئی ایک بات ضرور کہنی پڑے گی۔
-1کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام خود میں پیدا کیا ہے۔
-2یا اپنے غیر یعنی مخلوق میں پیدا کیا ہے۔
-3یا قائم بالذات پید ا کیا ہے یعنی خود میں پیدا کیا ہے نہ اپنے غیر میں۔
تو ان تینوںمیں سے کس بات کا قائل ہے؟
کہنے لگا:میں کہتاہوں کہ جیسے اس نے دیگراشیاء پیدا کی ہیں ویسے ہی قرآن کو بھی پیدا کیا ہے۔
میں نے کہا اے امیرالمؤمنین !بشر کے راہِ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے میں قرآن وحدیث کی بحث ترک کرکے عقل وقیاس پربحث کرنے کیلئے آمادہ ہوا،جس کے متعلق اس کادعویٰ ہے کہ مجھ سے سب کچھ منوالے گا،اب اس میں بھی جواب دینے سے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ اگر مناظرہ کرنا ہے تواسے جواب دیناہوگا،اس کاخیال ہے کہ یہ کسی ایسے شخص سے مناظرہ کرے جسے عقل ورائے میں دست رس حاصل نہ ہو تاکہ یہ اسے شبہات میں الجھاکر اس پرغلبہ حاصل کرلے اور اس کاخون مباح کرلے۔
امیر المؤمنین نے کہا: اے بشر تو اسے جواب دے۔ یہ اپنا مسلک ترک کرکے تیرے مسلک پر تجھ سے مناظرہ کررہاہے، جس کے متعلق تیرا دعویٰ تھا کہ میں اس پر غالب آجائے گا۔ بشر کہنے لگا میں اسے جواب دے چکاہوں لیکن یہ ضد کررہا ہے۔خلیفہ نے کہ عبدالعزیز اپنے مطالبہ پر قائم ہے کہ تو تین باتوں میں سے کسی ایک کا اقرارکر۔ بشر نے کہا یہ مطالبہ پہلے مطالبے نصِ قرآنی سے زیادہ مشکل ہے۔ میرے پاس وہی جواب ہے جو میں پیش کر چکاہوں۔
تب خلیفہ نے مجھے کہا کہ تو بشر کوچھوڑدے کہ وہ ہراعتبار سے لاجواب ہوچکا ہے توخود ہی اس سوال کے متعلق وضاحت کر اس سے تیرا کیامقصد ہے؟
میں نے عرض کی کہ اے امیرالمؤمنین !جب بشرکہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے تو اسے تین باتوں میں سے کسی ایک کااقرار لازمی طور پر کرنا ہوگااگر کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اپنے آپ میں پیدا کیا ہے تو یہ کہنا عقل وقیاس ،ہراعتبار سے محال وباطل ہوگا کیوں کہ اس سے لازم آئے گا کہ نعوذباللہ!اللہ تعالیٰ ایسی چیز ہے جس میں نئی نئی اشیاء پیدا ہوتی رہتی ہیں نیز نعوذباللہ یہ بھی لازم آئے گا کہ کلام کوتخلیق کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ ناقص تھا اور اس میں اس صفت کی کمی تھی ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کی شان ایسی باتوں سے اونچی واعلیٰ ہے۔اور اگر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام اپنےغیر میں پیدا کیا ہے تو عقل وقیاس کےمطابق لازم آئے گا کہ پوری مخلوق کاکلام بھی کلام اللہ ہے۔ یہاں تک کہ کلام اللہ،اشعار،گالی گلوچ اور کلماتِ کفر، کے درمیان کوئی بھی انسان فرق نہیں کرسکے گا۔کیا پتہ کہ انسان کی آواز کلام اللہ ہے یاحیوان کی۔اس قول کافی نفسہ قبیح وشنیع ہونا ہی اس کے باطل ومحال ہونے کیلئے کافی ہے۔ اور اگر تیسری بات کہتا ہے یعنی اللہ نے کلام کو پیدا کرکے قائم بالذات کردیا ہے تو یہ بات بھی بالکل محال وباطل ہے ،جِسے عقل تسلیم کرتی ہے نہ قیاس،کیونکہ کلام متکلم (بات کرنے والے)سے جدا قائم رہہ ہی نہیں سکتا، بالکل اس طرح جس طرح ارادہ، ارادہ کرنے والے سے اور علم عالم سے اور قدرت، قدرت رکھنے والے سے الگ قائم نہیں رہہ سکتے۔ بلکہ عقل وقیاس میں کلام کو قائم بالذات سناگیا ہے نہ دیکھاگیاہے۔ پس جب یہ تینوں باتیں محال ہیں تو ثابت ہوا کہ کلام، اللہ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات غیرمخلوق ہیں اور بشر کاقول قرآن وحدیث کی طرح عقل کے اعتبار سے بھی رد ہوگیا۔
خلیفہ نے کہا:احسنت احسنت یا عبد العزیز! تو بشر سے کوئی اور سوال کر تاکہ بحث کی کوئی صورت نکل آئے۔
میں نے بشر سے کہا کہ تو اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ کوئی بھی شیٔ موجود نہ تھی، اللہ موجود تھااور بغیرکوئی فعل کرنے یابغیرتخلیق کرنے کے موجود تھا؟ بشر نے کہا :ہاں! میں نے کہاپھر یہ اشیاء کیسے وجود میں آئیں؟ خود ہی وجود میں آگئیں یااللہ انہیں وجود میں لایا؟ بشر نے کہا اللہ ہی انہیں وجود میں لایا۔ میں نے کہا اللہ انہیں کس کے ذریعے وجود میں لایا؟ بشر نے کہا کہ اپنی قدرت سے جو ہمیشہ سے قائم ہے۔ میں نے کہا تواللہ کوہمیشہ سےقادر مانتا ہے؟ کہا،ہاں! میں نے کہا کہ اس طرح تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ وہ ہر وقت فعل کرتا رہا ہے؟کہا :نہیں! میں نے کہا تجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ نے اشیاء کو اپنے فعل سے تخلیق کیا ہے، جو اس کی قدرت سے ہے اور فعل خود قدرت نہیں کیونکہ قدرت اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی صفت کو اس کاعین کہا جاسکتا ہے نہ اس کاغیر۔
تب بشر نے مجھے الزام دیتے ہوئے کہا کہ تجھ پر لازم ہے کہ تو یہ بات کہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ فعل کرتا اور تخلیق کرتا رہا ہے اور تیرے اس طرح کہنے سےثابت ہوگا مخلوق بھی ابدی ہے اور اللہ کے ساتھ ہمیشہ سے ہے۔میں نے جواباً کہا تجھے اس طرح کا حکم لگانے کاکوئی حق نہیں اور میں نے جو بات کہی نہیں تو اس کاالزام مجھ پر کیسے لگاسکتا ہے؟ میں نے اس طرح ہرگز نہیںکہا کہ خالق ہمیشہ پیدا کرتا رہتاہے ، اور فاعل ہمیشہ فعل کرتا رہتا ہے۔ بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ وہ خالق ہر شیٔ تخلیق کرنے اور ہر فعل کرنے پر قدرت رکھتا ہے اور اس کے لئے کس بھی وقت کوئی مانع نہیں ہے۔
بشر نے کہا: میں کہتاہوں کہ اللہ نے اپنی قدرت سے تمام اشیاء موجود کی ہیں باقی تیری مرضی جوچاہے کہتارہہ۔ میں نے خلیفہ سے کہا: اے امیرالمؤمنین ! بشر اقرار کرچکا ہے کہ دوسری کوئی بھی چیز نہیں تھی اور اللہ موجود تھا اوراللہ تمام اشیاء کو اپنی قدرت سے وجود میں لایا ہے وہ اشیاء پہلے نہیں تھیں اور میں کہتا ہوں کہ ان اشیاء کو اللہ نے اپنا امر اور قول فرماکر اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے لہذا جو چیز اللہ نے سب سے پہلے پیدا کی اس سے پہلے اس کاقول ،ارادہ اور قدرت کاموجود ہوناثابت ہوا، پس جو چیز تخلیق کرنے اور پیدا کرنے سے پہلے موجود تھی اسے مخلوق یا پیدا کردہ اشیاء میں ہرگز شمار نہیں کیاجاسکتا۔یوں اللہ گواہ ہے کہ میں نے بشر کے اپنے زبانی اقرار کے مطابق قرآن وحدیث ،لغت،نظر وعقل کے اعتبار سے اس کے قول کو توڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کی حجت کو باطل ثابت کرچکاہوں۔ باقی رہا قیاس تو اس اعتبار سے بھی بشر کاقول کو توڑ کر رکھ دوں گا۔ان شاء اللہ
خلیفہ نے حَکَم کی حیثیت سے مجھے گفتگو کاحکم دیا۔ میں نے عرض کی کہ اے امیرالمؤمنین!مثلاً! اگربشر نے اپنے قول کےمطابق دو غلام ہوں۔ ایک کانام خالد اور دوسرے کایزید ہے۔ اور ان کے متعلق مجھے کوئی خبر نہیں ہے بشر مجھ سے دور رہتا ہے اور وہ میر ی طرف یکے بعد دیگرے اٹھارہ خطوط بھیجتاہے اور ہرخط میں لکھتا ہے کہ یہ خط’’میرے غلام خالد‘‘کوپہنچادینا اورپھر چوّن خطوط میری طرف بھیجتاہے اور ہر خط میں لکھتا ہے کہ یہ یزید کوپہنچادینا اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ’’میراغلام یزید‘‘ صرف نام لکھتا ہےپھر دوبارہ ایک خط لکھتا ہے،جس میں ایک کے لئے غلام ہونے کاذکر کرتا ہے اور دوسرے کیلئے نہیں ،بلکہ لکھتا ہے کہ یہ خط میرے’’غلام خالد‘‘ کواور’’یزید‘‘ کوپہنچادینا۔ کچھ عرصے کے بعد بشر خود آتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ تجھے پتہ نہیں ہے کہ یزید بھی میراغلام ہے۔ تب میں جواباً کہتا ہوں کہ مجھے کوئی پتہ نہیں ہے، بلکہ تیرے چوّن خطوط میرے پاس آئے ہیں، کسی میں بھی تو نے اس قسم کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہر خط میں تو نے یہی لکھا ہے کہ یہ خط یزید کو پہنچادینا اور اس کے غلام ہونے کا تذکرہ تو نے کہیں بھی نہیں کیا اور نہ ہی اس سےقبل تو نے مجھے ایسی کوئی خبردی اور نہ ہی میں نے تیرے علاوہ کسی اور سے سنا کہ یزید بھی تیراغلام ہے۔ اور تو نے اس کے بعد پھراٹھارہ خطوط میری طرف بھیجے ان تمام میں بھی تو نے خالد کو اپنا غلام لکھا جن سے مجھے یہی معلوم ہوا کہ وہ تیراغلام ہے۔ اور پھر تو نے ان دونوں کےنام خط لکھا اس میں بھی خالد کوغلام لکھا اور یزیدکا صرف نام لکھا۔لہذا مجھے کیسے معلوم ہو کہ یزید بھی تیرا غلام ہے اور اس میںمیرا کیاقصور ہے؟ اور میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اس میں کوتاہی بشر کی ہے(اس لئے کہ اگر واقعتاً یزید اس کاغلام تھا تو اس کی مجھے اطلاع دیتا)بلکہ اتنی تعداد میں خطوط میں سے کسی ایک میں بھی اس نے یہ نہیں بتایا اور بشر اب مجھے قصور وار ٹھہرانے کیلئے قسم اٹھارہا ہے۔امیرالمؤمنین اب آپ انصاف کریں کہ ہم دونوں میں سے قصور کس کا ہے؟ خلیفے نے کہا کہ اللہ کی قسم اس میں قصور بشر کاہے(کیوں کہ اگر تیرے لئے اس بات کاجاننا ضروری تھا کہ یزید بھی بشر کا غلام ہے تو اس پر لازم تھا کہ وہ تجھے بتاتا کہ یزید میراغلام ہے اور اس نے نہیں بتایا لہذا یہ اس کی کوتاہی ہے)
تب بشر بول پڑا کہ جس مسئلہ کے متعلق ہماری بحث چل رہی ہے، اس سوال کا اس کے ساتھ کیاتعلق ہے؟
(جاری ہے)

About admin

Check Also

ختم قران ۔ المعھد السلفی

شیخ عبداللہ ناصررحمانی تاریخ 2018-06-12, بمقام مسجد نورالعلم نیا نام مسجد جنید  (المعھد السلفی للتعليم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے