Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » November Magazine » مقدمہ بدیع التفاسیر

مقدمہ بدیع التفاسیر

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

قسط نمبر :217

لم: حرف جازمہ ہے اور مضارع کو ماضی منفی کے معنی میں کردیتا ہے،جیسے:[لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَد] (الاخلاص:۳) بعض لغات میں نصب بھی مذکور ہے،جیسے لحانی نے ذکر کیا ہے نیز بعض قرأتوں میں الم نشرح کو زیر کے ساتھ بھی پڑھاگیا ہے۔

لما: یہ حرف تین طرح سےاستعمال ہوتا ہے:1 مضارع کےلئے مخصوص اور اسے حرف لم کی طرح ماضی منفی کے لئے بنادیتا ہے مگر پانچ باتوں میں اس سے مختلف ہے:(۱)بخلاف لم یہ حرف شرط سے ملحق ہوتا ہے، جیسے: [وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ] (المائدۃ:۷۳) (۲)لما میں زمانہ حال تک ہمیشہ کےلئے نفی کا معنی ہوتا ہے بخلاف لم۔(۳) لما کا منفی زمانہ حال کے قریب ہوتا ہے جبکہ لم میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی،جیسے:لم یکن زید فی العام الماضی مقیما ،مگر اس جگہ لما یکن نہیں کہاجاسکتا ۔(۴) لما کی منفی کے بارے میں مستقبل میں وقوع کی امید کی جاسکتی ہے ،جیسے:[بَلْ لَّمَّا يَذُوْقُوْا عَذَابِ ](ص:۸) خلاصہ یہ ہے کہ اب تک انہوں نے عذاب نہیں چکھا،لیکن ممکن ہے کہ آئندہ انہیں عذاب ہو، زمخشری اس آیت کو بھی اس باب سے کہتے ہیں:[وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ] (الحجرات:۱۴) (۵) لما کی منفی کا حذف جائز ہے بخلاف لم کے جیسے قول شاعر :

فجئت قبورھم بداو لما

فنادیت القبور فلم یجبہ

اس کی تقدیر یوں ہے لما اکن، بعض اہل علم اس آیت کو بھی اس کی مثال کہتے ہیں:[وَاِنْ كُلٌّ لَّمَّا](یس:۳۲)۳۲ یعنی لما یھملوا یا لما یترکوا۔

بقول ابن حاجب ابن ہشام نے اسے بہترین وجہ قرار دیا ہے، بلکہ ابن ہشام کہتے ہیں کہ :اس سے بھی اولیٰ تقدیر یہ ہے:ان کل لما یوفوا اعمالھم ،یعنی اب تک انہیں اعمال کا بدلہ نہیں ملا لیکن عنقریب مل جائے گا۔

2۔ماضی پر داخل ہواس وقت اسے دو جملے مطلوب ہونگے، پہلے جملے کے وجود سے دوسرے کاموجود ہونا ضروری ہوجاتا ہے اس لئے اسے حرف وجودی بھی کہتے ہیں ،جیسے:[فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ  ۭ ](بنی اسرائیل:۶۷) بعض کہتے ہیں کہ اس جگہ لماظرفیہ بمعنی حین کےہے جبکہ ابن مالک کہتے ہیں کہ إِنْ کے معنی میں ہے کیونکہ یہی إِنْ ماضی کے لئے خاص ہے اور یہی جملہ کی طرف مضاف ہوتا ہے نیز لما کا جواب فعل ماضی ہوتا ہے جیسا کہ مثال میں ذکر ہوا یا جملہ اسمیہ پر ف کے ساتھ ہو،جیسے:[ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ  ۭ](لقمان:۳۲) یا اذا فجائیہ کے ساتھ جیسے: [فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ ](العنکبوت:۶۵) ابن عصفور اس کے جواب کا مضارع کے ساتھ آنے کو بھی جائز کہتے ہیں، جیسے: [فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْهُ الْبُشْرٰي يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ](ھود:۷۴) لیکن بعض اس مضارع کو ماضی کی تاویل میں کہتے ہیں اس لئے کہ کبھی مضارع ماضی کا معنی دیتا ہے،جیسے ابتداء میں ذکر ہوا کہ لما ماضی کےلئے خاص ہے اور اسے دوجملے مطلوب ہوتے ہیں۔(حاشیہ الدسوقی علی المغنی :۱؍۲۸۵)

3۔بمعنی :الا،حرف استثناء اور جملہ اسمیہ پرداخل ہوتا ہے جیسے: [اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِـظٌ]( الطارق:۴) یا ماضی پر داخل ہو جیسے:انشدک اللہ لما فعلت۔

لن: یہ حرف نفی ہے،مضارع کو نصب اور اس کے معنی کو استقبال کے لئے خاص کرتا ہے، اس کی نفی حرف لاکی نفی سے زیادہ مؤکد ہوتی ہےت جیسے:[لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا ](الحج:۷۳) اس میں ہمیشگی وابدیت کا معنی ہوتا ہے، کبھی توقیت کا معنی بھی جیسے:[ فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا ](مریم:۲۶) بعض کہتے ہیں کہ یہ کلمہ دعا کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے،جیسے:[قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْن](القصص:۱۷)

لو: یہ حرف شرط ہے اور ماضی کے لئے استعمال ہوتا ہے بخلاف إِنْ جو کہ استقبال کے لئے مستعمل ہوتا ہے، فعل کے عدم وقوع کے بارےمیں مختلف اقوال ہیں:(۱) بعض کہتے ہیں کہ اس قسم کا معنی نہ شرط میں ہوتا ہے اور نہ ہی جواب میں، ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ ایک بدیہی چیزکاانکار ہے اس لئے کہ جو شخص قائل سے یہ جملہ سنے گا کہ:لو فعل تو وہ بلاتردد فعل کے عدم وقوع کوتصور کرے گا اس لئے جہاں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے وہاں حرف استدراک کاآنا درست ہوتا ہے،جیسے: [وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ](السجدۃ:۱۳) (۲)بعض کہتے ہیں کہ یہ حرف شرط اور جواب کے امتناع کا فائدہ دیتا ہے کئی مقامات پر یہ قول باطل قرار پاتا ہے،مثلا: [وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا](الانعام:۱۱۱) (۳) بعض کا کہنا ہےکہ یہ حرف شرط کے امتناع کا فائدہ دیتا ہے مگر جواب کے ا متناع کے لئے اس میں کوئی دلالت نہیں ہوتی، صرف شرط سے عموم میں برابر ہونے کی وجہ سے شرط کے انتفاء کے ساتھ اس کا انتفاء بھی لازم آتا ہے ،جیسے:ولوکانت الشمس طالعۃ کان النھار موجودا،اگر شرط سے عموم میں برابر نہ ہو بلکہ اس سے اعم ہو تو اس صورت میں اس کا انتفاء لازم نہیںہوتا، جیسے: لوکانت الشمس طالعۃ کان الضوء موجودا  اور یہی محققین کا قول ہے۔

تنبیہ: لوشرطیہ مستقبل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگر ایسی جگہ جہاں اس کا استعمال ہوسکتا ہو،جیسے: [وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُهُنَّ] (الاحزاب:۵۲) نیز مصدریہ کےمعنی کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے لیکن وہاں پر جہاں اس کااستعمال ہوسکتا ہواور اس کا اکثر وقوع فعل ’’وَدَّ‘‘ یا اس کے ہم معنی کے بعد ہوتا ہے ،جیسے:[وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا] (البقرہ:۱۰۹) نیز تمنی کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن ایسی جگہ جہاں لیت کا استعمال نہ ہوسکتا ہو، جیسے: [فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ] (الشعراء:۱۰۲) نیز تقلیل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بعض نے اس کی یہ مثال دی ہے:[وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ] (النساء:۱۳۵)

لولا: چار وجوہ سےمستعمل ہے:(۱) حرف امتناع جو جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے اور اس کاجواب فعل ہوتا ہے اگر وہ مثبت ہوگا تو اس پر لام داخل ہوگا،جیسے: [فَلَوْلَآ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنo لَـلَبِثَ فِيْ بَطْنِهٖٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ](الصفت:۱۴۳،۱۴۴) منفی ہونے کی صورت میں لام سے خالی ہوتا ہے ،جیسے:[وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ](النور:۲۱) اور اگر اس کے بعد ضمیر ہوگی تو ضروری ہے کہ وہ مذکور ہو،جیسے: [لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ](سبأ:۳۱)

(۲)بمعنی ھلا: مضارع یا اس کی تاویل میں تخصیص کے لئےجیسے:[لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ](النمل:۴۶) یاعرض کےلئے جیسے: [لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ](المنافقون:۱۰) یا توبیخ وتندیم یعنی ڈانٹ یا پشیمان کرنے کے لئے جیسے:[فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا ](الانعام:۴۳) (۳) استفہام جیسا کہ ھروی نے ذکر کیا ہے اور ان آیات کو اس کی مثال بنایا ہے:مذکورہ آیت[لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ](المنافقون:۱۰) اور [لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ](الفرقان:۷) مگر دونوں آیات میں ظاہرا لولابمعنی ھلا ہے اکثر علماء یہی معنی ذکر کرتے ہیں۔(۴) نفی کے معنی میں اس صورت کو بھی ھروی نے ذکر کیا ہے اور اس کی یہ مثال دی ہے:[فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ] (یونس:۹۸) مگر جمہور علماءکے نزدیک یہاںیہ معنی ثابت نہیں ہے بلکہ لولایہاں توبیخ کے لئے ہے یعنی عذاب کےآنے سے قبل ایمان نہ لانے پرڈانٹا گیا ہے۔

لیت: یہ حرف ہے جو اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے تمنی وترجی کا معنی دیتا ہے اور اکثر مستحیل یعنی نہ ہونے جیسے چیز کےلئے ذکر کیاجاتا ہے،جیسے:لیت الشباب یعود ،اور قرآن کریم میں ہے: [يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا] (النبأ:۴۰) کبھی ایسی ممکن چیز کے لئے بولاجاتا ہے جس کا واقع ہونا مشکل ہو، علامہ تنوخی کے مطابق کبھی یہ کلمہ تاکید کافائدہ بھی دیتا ہے۔

لیس: یہ فعل جامد ہے اس لئے ایک قوم نے اس کے حرف ہونے کا دعویٰ کیا ہے، زمانہ حال میں جملہ کے مضمون کی نفی کرتا ہے، اور غیر حال میں نفی کرنے کے لئے کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے ،بعض کہتے ہیں کہ حال وغیرحال کی نفی کرتا ہے ،علامہ ابن حاجب  نے اس قول کو قوی قرار دیا ہے بطور دلیل یہ آیت پیش کرتے ہیں:[اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ ](ھود:۸) اس جگہ زمانہ مستقبل کی نفی ہے ،جبکہ علامہ ابن مالک کہتے ہیں کہ کبھی لانفی جنس کی طرح استغراق اور عام نفی کے لئے آتا ہے جیسے:[لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ ](الغاشیہ:۶)

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *