Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2020 » March to September Megazine » مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ ہوتا ہے ،جیسے:[ نِعْمَ الثَّوَابُ۝۰ۭ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۝۳۱ۧ] (الکھف:۳۱)

ھ:اسم ضمیر غائب ہے، جرونصب کے لئے استعمال ہوتاہے، جیسے: [فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ ](الکھف:۳۴) پہلی ضمیر مجرور اور دوسری منصوب ہے ۔ نیز یہ حرف غیبت کابھی ہے جو ایا کے بعد مذکور ہوتا ہے،جیسے:[اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۳۷ ](البقرہ:۱۷۲، النحل:۱۱۴، حم السجدہ:۳۷)

تحقیق کے مطابق یہ حرف تنہا غائب کا معنی دیتا ہے اور مرجع ضمیر غائب پر دلالت کرتا ہے، اور اکیلی ضمیر ایا ہے۔(حاشیہ الدسوقی علی المغنی :۱۱؍۲)

نیز سکتہ اور وقف کو بیان کرنے اور حرف کو لمبا(طویل) کرنے کے لئےبھی آتاہے،جیسے: [وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَہْ۝۲۶ۚ](الحاقہ:۲۶) دسوقی کے بقول یہاں اگر ھ کے سوا وقف ہوتا تو ي کی حرکت حذف ہوجاتی ۔

ھا:تین طرح سے استعمال ہوتا ہے:1اسم فعل بمعنی خذ(لو) اس کے الف کو مد کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، اس وقت تثنیہ وجمع کےلئے استعمال ہوتا ہے جیسے:[ہَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَہْ۝۱۹ۚ] (الحاقۃ:۱۹) 2اسم ضمیر مؤنث کے لئے،جیسے:[فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ](الشمس:۸) 3حرف تنبیہ اور اشارہ پر داخل ہوتا ہے جیسے:[ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّہِمْ۝۰ۡ](الحج:۱۹) [اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ۝۲۴](المائدۃ:۲۴) [ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً۝۰ۭ](الکھف:۱۵) یاضمیر مرفوع پر ہوجس کی خبر اسم اشارہ سے دی جائے:[ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ ](آل عمران:۱۱۹) یا نداء میں نعت پر داخل ہو، جیسے: [يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ ]

ھات:یہ فعل امر ہے اور منصرفہ نہیں ہوتا اس لئے بعض نے اس کے اسم الفعل ہونے کا دعویٰ کیا ہے،جیسے: [قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۱۱ ](البقرۃ:۱۱۱)

ھل:یہ حرف استفہام ہے جس سے تصدیق کی طلب کی جاتی ہے نہ کہ تصور کی، یہ حرف نہ منفی پر داخل ہوتا ہے نہ شرط پر، نہ ان پر ،نہ عاطفہ پر اور نہ ہی اکثر ایسے اسم پرداخل ہوتا ہے جس کے بعد فعل ہو، ابن سیدہ لغوی کہتے ہیں کہ یہ فعل مستقبل کے علاوہ کسی دوسرے پر داخل نہیں ہوتا لیکن اس آیت سے ان کا یہ قول رد ہوجاتا ہے:[فَہَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا۝۰ۭ ](الاعراف:۴۴)

یہ حرف بمعنی قد کے بھی آتا ہے جیسے: [ہَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ ](الدھر:۱) [ہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشِـيَۃِ۝۱ۭ ](الغاشیۃ:۱) یہاں مفسرین نے ھل کو بمعنی قد کہا ہے،نفی کے معنی میں بھی آتا ہے،جیسے: [ہَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۝۶۰ۚ](الرحمٰن:۶۰)

ھلم:یہ کلمہ کسی خاص چیز کی طرف بلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ،جیسے:[قُلْ ہَلُمَّ شُہَدَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ يَشْہَدُوْنَ اَنَّ اللہَ حَرَّمَ ھٰذَا۝۰ۚ ](الانعام:۱۵۰)

ھنا:اسم ہے جس سے کسی مکان قریب کی طرف اشار ہ کیا جاتا ہے، جیسے:[اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ۝۲۴](المائدۃ:۲۴)اور جب اس پر لام اور کاف ہوگا تو اس کا اشارہ بعید کی طرف ہوگا،جیسے:[ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ ](الاحزاب:۱۱) کبھی توسیع کی غرض سے اس سے زمانہ کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے،جیسے: [ہُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ ](یونس:۳۰) [ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّہٗ۝۰ۚ ]

(آل عمران:۳۸)

ھیت:اسم فعل بمعنی اسرع وبادر کے ہے،یعنی دوڑو اور جلدی کرو، جیسے:[ وَقَالَتْ ہَيْتَ لَكَ۝۰ۭ ](یوسف:۲۳)

ھیھات:اسم فعل بمعنی بعد کے ہے یعنی دور ہوا، جیسے: [ہَيْہَاتَ ہَيْہَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۝۳۶۠ۙ](المؤمنون:۳۶) اور لماتوعدون میں لام فاعل کےبیان کے لئے ہے۔

واؤ:جارہ،ناصبہ وغیر عاملہ ہوتاہے، جارہ قسم کے لئے جیسے: [وَاللہِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۝۲۳ ](الانعام:۲۳) اور ناصبہ بمعنی مع جو ایک قوم کے بقول مفعول معہ کو نصب دیتا ہے، جیسے: [فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ ](یونس:۷۱) ایسی دوسری کوئی مثال قرآن مجیدمیں نہیں ہے، ایسے مضارع پر داخل ہوتا ہے جو نفی کے جواب میں ہو یا کسی مطلوب کے جواب میں ہو،جیسے:جیسا کہ کوفیوں کا کہناہے،مثلا:[وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۴۲](آل عمران:۱۴۲) [ يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲۷ ](الانعام:)

یاواؤ صرف کا(صرفیہ)یعنی جو فعل اعراب کو چاہتا ہے اسے نصب کی طرف لے آئےاس کی متعدد صورتیں ہیں کمالایخفی علی من لہ ممارستۃ بکتب القواعد.(ابومحمد)

1جیسے:[اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۝۰ۚ](البقرۃ:۳۰) بعض قرأت کے مطابق یسفک کو منصوب پڑھاگیاہے۔

واؤ غیر عاملہ کی چند قسمیں ہیں:

1واؤ عطف کا جومطلق جمع کا معنی دیتا ہے ،سیرافی کہتےہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ واؤ ترتیب کا فائدہ نہیں دیتا، مگر ابن ہشام کہتےہیں کہ یہ دعویٰ مردود ہےکیونکہ کئی نحوی اسے ترتیب کےلئے بھی کہتے ہیں جیسے:قطرب، الربعی، فراء، ثعلب،ابوعمرو الزاہد ،ہشام اور امام شافعی ۔

نیز یہ واؤ ایک چیز کو اپنے ساتھی (قریبی ،مصاحب) پر عطف کرتا ہے، جیسے:[فَاَنْجَيْنٰہُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَۃِ ] (العنکبوت:۱۵) یا اپنے سے ماقبل(پہل اختیارکرنے والے)پر عطف کرتا ہے،جیسے: [وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰہِيْمَ] (الحدید:۲۶) یا اپنے سے لاحق یعنی بعد میں آنے والے پر جیسے: [وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ](الزمر:۶۵)

فائدہ:واؤعاطفہ عطف کی دوسری حروف سے کئی باتوں میں مختلف ہے مثلاً:اما کالاحق ہونا،جیسے:[اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝۳] (الدھر:۳)یالانفی کےبعد جیسے [وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي](سبا:۳۷) یالکن کے ساتھ جیسے: [وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۝۰ۭ ] (الاحزاب:۴۰) یا دہائی یا اکائی پر عطف جیسے احدوعشرون یاخاص کا عام پر عطف جیسے: [مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ](البقرۃ:۹۸) یا عام کا خاص پر عطف جیسے:[رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ؎](النوح:۲۸)یا کسی چیز کا اس کے مترادف پر عطف جیسے:[اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ ] (البقرۃ:۱۵۷) [اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللہِ] (یوسف:۸۶)یا مجرور کا اپنے قریبی (جوار) پر عطف ہو، جیسے: [وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ۝۰ۭ] (المائدۃ:۶) یہ اس قرأت کے مطابق ہے جس میں ارجل کےلام پر زیرپڑھاگیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ واؤ بمعنی أو بھی آتا ہے اور آیت:[اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ ] (التوبۃ:۶۰)کو اس معنی پر محمول کیاگیاہے، بعض کہتےہیں مضارع کو نصب دینے والاواؤ(جس کا ذکر واؤناصبہ میں ہوا) تعلیل کے لئے ہوتا ہے ،اسی طرح علامہ خارزنجی کا کہنا ہے ۔2واؤ استیناف جیسے:[ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا۝۰ۭ وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَہٗ] (الانعام:۲) 3واؤحالیہ جو جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے،جیسے:[يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَۃً مِّنْكُمْ۝۰ۙ وَطَاۗىِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّـتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ ](آل عمران:۱۵۴)[قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ] (یوسف:۱۴)4واؤ ثمانیہ: جیسے علامہ حریری، ابن خالویہ اور الثعلبی نے ذکر کیا ہے،ان کاخیال ہے کہ عرب سات اشیاء ذکرکرنے کے بعد آٹھویں چیز پر واؤ کا استعمال کرتے ہیں یہ بتانے کے لئے یہاں معدود عدد مکمل ہوگیا اور اس کے بعد استیناف ہے مثال کےلئے یہ آیت پیش کرتے ہیں:[اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ] (التوبۃ:۱۱۲)[مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا۝۵ ](التحریم:۵)جبکہ ابن ہشام اور سیوطی اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کاکہنا ہے کہ یہاں بھی واؤ عطف اور جمع کےلئے ہے۔5واؤزائدہ جیسے:[فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِيْنِ۝۱۰۳ۚ وَنَادَيْنٰہُ اَنْ يّٰٓــاِبْرٰہِيْمُ۝۱۰۴ۙ ] (الصافات:۱۰۳،۱۰۴) 6مذکر کی ضمیر اسم یا فعل میں ہو،جیسے:[قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱ۙ] (المؤمنون:۱) [وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا ](القصص:۵۵) [قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ ](ابراھیم:۳۱) 7اپنے سے ماقبل مذکورین کے لئے بطور علامت،جیسے: [ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْہُمْ۝۰ۭ](المائدہ:۷۱) 8وہ واؤ جو ہمزہ استفہام سےتبدیل شدہ ہو اس کا ماقبل مضموم ہو،جیسے:سورۂ ملک کی اس آیت کو بعض قرأت میں اس طرح پڑھا گیاہے:[وَاِلَيْہِ النُّشُوْرُ۝۱۵ وَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ](الملک:۱۵،۱۶)

ویکأن:اما م کسائی کہتے ہیں کہ یہ کلمہ بوقت ندامت وتعجب بولاجاتاہے،جیسے:[وَيْكَاَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ۝۰ۚ](القصص:۸۲)اخفش کہتے ہیں کہ وی اسم فعل بمعنی اعجب (یعنی میں تعجب کرتاہوں)کے ہے اور کاف حرف خطاب ہے اس سے قبل لام مقدر ہے معنی اس طرح ہوگا کہ:اعجب لان اللہ یبسط.

ویل:بقول اصمعی کسی کو برا کہنے کے لئے کلمہ ہے جیسے: [وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ۝۱۸](الانبیاء:۱۸)یہ کبھی دکھ وافسوس کے معنی میں بھی ہوتا ہے،جیسے: [قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا طٰغِيْنَ۝۳۱] (القلم:۳۱) [يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ](الکھف:۴۹) [يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۝۲۸](الفرقان:۲۸)

یا:یہ حرف نداہے جو اکثر بعید کے لئے استعمال ہوتا ہے، حقیقۃً خواہ حکماً کبھی قریب کے لئے بھی آتا ہے ،بعض کہتےہیں کہ یہ دونوں کے لئے مشترک ہے چونکہ یہ حرف کثیر الاستعمال ہے اس لئے حذف کی صورت میں اسے ہی مقدرماناجاتاہے،جیسے::[رَبِّ اغْفِرْ لِيْ] (النوح:۲۸)[يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۝۰۫ ](یوسف:۲۹) اسی

طرح سے اسم مبارک اللہ کوپکاراجاتاہے، نیز أیھا اور أیتھا بھی اس سے ملحق استعمال ہوتے ہیں،کبھی یہ تنبیہ کی خاطر بھی آتا ہے اس وقت فعل پر بھی داخل ہوتا ہے،جیسے: الایا اسجدوا اور حرف پر بھی جیسے: [يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۝۲۶ۙ](یس:۲۶)

تنبیہ: اس فصل کے مضمون کی وضاحت کے لئے سیوطی کی الاتقان سے کثرت سے مدد لی گئی ہے،کئی ایسے کلمات بھی ہیں کہ المغنی میں مذکور نہیں ہیں، انہیں الاتقان سے نقل کیاگیاہے۔

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

بدیع التفاسیر

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *