Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » November Magazine » مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں

مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

مسعودی اصول {6} جس روایت پر امام منذری رحمہ اللہ سکوت اختیار کریں وہ صحیح ہوتی ہے جیساکہ مسعود صاحب ’’سکتتین کی احادیث کو کس کس نے صحیح تسلیم کیا‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ:

’’۹ امام منذری نے سکوت اختیار کیا‘‘ ۔

 (جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک ص 733)

اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’جس حدیث پر امام منذری سکوت اختیار کریں وہ حدیث بھی حسن سے کم نہ ہوگی‘‘

( محمد ناصرالدین البانی فن حدیث کے آئینے میں ص 1)

جائزہ:ہم پچھلے صفحات پر اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ روایات پر حکم لگانے کے سلسلے میں محدثین کے اصولوں کو ترجیح وتقدیم حاصل ہے ، رہی بات امام منذری کے سکوت کی تو عرض ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے سکوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے امام منذری نے ضعیف بلکہ موضوع روایات پر بھی سکوت اختیار کیا ہے جن کی مثالوں سے ’’الترغیب والترهیب‘‘ بھری ہوئی ہے بطور نمونہ صرف ایک مثال پیش خدمت ہے ۔اَلْعَاقِلُ تَكْفِيْهِ الْإِشَارَةُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَلَّى عَلَيَّ فِيْ كِتَابٍ لَمْ تَزَلِ الْمَلاَئِكَةُ تَسْتَغْفِرُ لَهُ مَا دَامَ اِسْمِيْ فِيْ ذَالِكَ الْكِتَابِ

’’جس نے کسی کتاب میں مجھ پر درود بھیجا جب تک اس کتاب میں میرا نام ہوگا اس وقت تک فرشتے اس کیلئے بخشش کی دعا مانگتے رہیں گے‘‘

(معجم الأوسط للطبراني 2/496 الرقم 1856 طبع مكتبة المعارف الرياض،الترغيب والترهيب للمنذري 1/144 الرقم 157 طبع دارابن كثير دمشق)

اس روایت پر امام منذری نے سکوت اختیار کیا ہے جبکہ یہ روایت دو علتوں کی بناء پر سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔

{1} یزید بن عیاض کذاب اور وضاع ہے اس کے متعلق

٭ امام ابوجعفر احمد بن صالح المصری المتوفی (248ھ) فرماتے ہیں:

 كَانَ يَضَعُ لِلنَّاسِ يَعْنِي الْحَدِيْثَ

’’وہ لوگوں کیلئے حدیثیں گھڑتا تھا‘‘

(الجرح والتعديل9/347الرقم 16847وسنده صحيح)

 ٭ امام ابو زکریا یحیی بن معین المتوفی(233ھ) فرماتے ہیں: ضَعِيْفٌ لَيْسَ بِشَيْءٍ ۔(حوالہ مذکورہ)

٭ امام ابوحاتم محمد بن ادریس بن منذر الرازی المتوفی (277ھ) فرماتے ہیں:

ضَعِيْفُ الْحَدِيْثِ مُنْكِرُالْحَدِيْثِ ۔ (حوالہ مذکورہ)

٭ امام ابو زرعۃ عبیداللہ بن عبد الکریم بن فروخ الرازی المتوفی(264ھ) فرماتے ہیں:

ضَعِيْفُ الْحَدِيْثِ ۔ (حوالہ مذکورہ)

٭ امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری المتوفی (256ھ) فرماتے ہیں:

 مُنْكِرُالْحَدِيْثِ (الضعفاءالصغير رقم الترجمة 406 طبع عالم الكتب بيروت)

٭  امام ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی المتوفی (279ھ) فرماتے ہیں:

ضَعِيْفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيْثِ ’’محدثین کے نزدیک ضعیف ہے‘‘

(جامع ترمذى تحت حديث 645 طبع دارالسلام الرياض)

٭ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی المتوفی(303ھ) فرماتے ہیں:مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ

 (الضعفاء والمتروكون للنسائي رقم الترجمة 678)

٭ امام ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی المتوفی(385ھ) نے بھی ’’ضعیف ومتروک‘‘ قرار دیا ہے

(الضعفاء والمتروكون للدارقطني رقم الترجمة 588 طبع مكتبة المعارف الرياض)

٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(354ھ)فرماتے ہیں:

كَانَ مِمَّن يَنْفَرِدُ بِالْمَنَاكِيْرِ عَنِ الْمَشَاهِيْرِ وَالْمَعْلُوْلَاِت عَنِ الثِّقَاتِ فَلَمَّا كَثُرَ ذَالِكَ فِيْ رِوَايَتِه صَارَ سَاقِطُ الِاحْتِجَاج بِه

’’ یعنی ثقہ راویوں سے بہت زیادہ منکر اور معلول روایات بیان کرنے کی وجہ سے اس کی روایات سے حجت پکڑنا چھوڑ دیا گیا‘‘ ۔

(المجروحين 2/459 الرقم1186دارالصميعي الرياض)

٭ امام ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی المتوفی(365ھ) فرماتے ہیں:وَيَزِيْدُ ضَعِيْفٌ

 (الکامل فی الضعفاء9/142طبع دار الکتب العلمية بیروت)

٭ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی المتوفی(597ھ) نے ’’ ضعیف ومتروک‘‘  قرار دیا ہے دیکھئے

(الضعفاءوالمتروکین 3/211الرقم 3798طبع دارالکتب العلمية بیروت)

٭ امام ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(748ھ) نے  بھی ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے

(المغنى في الضعفاء 2/542رقم الترجمة 7135 طبع دار الكتب العلمية بيروت)

٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(852ھ) فرماتے ہیں:كَذَّبَهُ مَالِكٌ

امام مالک نے انکو کذاب قرار دیا ہے ۔ (تقريب التهذيب 7761)

{2} بشر بن عبید الدراسی سخت ضعیف ومتروک ہے اس کے متعلق

 ٭ امام ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی المتوفی(365ھ) فرماتے ہیں:

مُنْكِرُ الْحَدِيْثِ عَنِ الْأَئِمَّةِ ’’ آئمہ سے منکر حدیثیں بیان کرتا تھا‘‘

(الکامل فی الضعفاءوالمتروکین 2/170 طبع دارالكتب العلمية بيروت)

٭ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی المتوفی(597ھ) نے ’’ ضعیف ومتروک‘‘  قرار دیا ہے دیکھئے

(الضعفاءوالمتروکین 1/143الرقم 528طبع دارالکتب العلمية بیروت)

 ٭ امام ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(748ھ)فرماتے ہیں:

ضَعِيْفٌ عِنْدَهُمْ ’’محدثین کے نزدیک ضعیف ہے‘‘

(ديوان الضعفاء والمتروكين 1/119 الرقم 594 طبع دارالقلم بيروت)

نیز اس روایت کو امام ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے بھی موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہےدیکھئے:

ميزان الاعتدال2/32الرقم 1207 طبع دارالكتب العلمية بيروت‘لسان الميزان 2/44الرقم 1627 طبع داراحياءالتراث العربى بيروت)

ثابت ہوا کہ امام منذری رحمہ اللہ کے سکوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے فرقہ مسعودیہ کا یہ اصول بھی باطل ہے اور علمائے احناف کی تقلید کا نتیجہ ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ تقلید کو کفر اور شرک کہنے والے بھی مقلدین کی تقلید کر رہے ہیں ۔

اب تک نہ تھی مجھے اپنے اجڑے گھر کی خبر

تم آئے تو گھر بے سر وسامان نظر آیا

مسعودی اصول }7{ضعیف روایات کی اگر متعدد ضعیف اسانید ہوں تو وہ حسن بن جاتی ہیں‘جیساکہ مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ:’’دو حدیثیں اگر ضعیف ہوں تو دونوں مل کر قوی ہو جاتی ہیں اور یہاں تو آٹھ حدیثیں ہیں یہ سب مل کر قوی ہو جاتی ہیں‘‘ ۔ (اعتراضات اور ان کے جوابات ص 37)

جائزہ:یہ بات اصول حدیث سے شغف رکھنے والے عام طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے کہ ضعیف روایت مردود اور ناقابل قبول ہے لہذا ایسی روایات نہ ہونے کے برابر ہیں جیساکہ

امام محمد بن حبان البستی المتوفی(354ھ) ایک ضعیف راوی کے متعلق فرماتے ہیں:

لَايَجُوْزُ الْاِحْتِجَاجُ بِه لِأَنَّ رِوَايَةَ الضَّعِيْفِ لَا تُخْرِجُ مَنْ لَيْسَ بِعَدْلٍ عَنْ حَدِّ الْمَجْهُوْلِيْنَ إِلَى جُمْلَةِ أَهْلِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّ مَا رَوَى الضَّعِيفُ وَمَا لَمْ يَرْوِ فِي الْحُكْمِ سِيَانٌ

’’اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں‘کیونکہ ضعیف کی روایت کو کوئی غیر عادل راوی مجہولین کی صف سے نکال کر عادل راویوں کی فہرست میں داخل نہیں کر سکتا‘کیونکہ ضعیف راوی کی روایت اور جس کو کوئی بھی بیان نہ کرے دونوں حکم (عدم قبول) میں برابر ہیں‘‘ ۔ (المجروحين 1/104الرقم 402طبع دارالصميعى الرياض)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ:

وَلَمْ اَعْتَبِرْ ذَالِكَ الضَّعِيْفَ لِأَنَّ رِوَايَةَ الْوَاهِيْ وَمَنْ لَّمْ يَرْوِ سِيَانٌ

’’میں نے اس ضعیف راوی کا کوئی اعتبار نہیں کیا کیونکہ ضعیف کی روایت اور جس کو کوئی (سرے سے) بیان ہی نہ کرے برابر ہیں‘‘ ۔

(الثقات 9/294طبع دارالفكر بيروت)

جب ضعیف روایات کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے تو وہ ایک دوسری سے مل کر تقویت کیسے حاصل کریں گی ۔ ؟؟ اور جو خود ناقابل عمل (مردود) ہے وہ دوسری کو قابل عمل کیسے بنائے گی ۔ ؟؟ اسی بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے امام الجرح والتعدیل ابو زکریا یحیی بن معین المتوفی (233ھ) فرماتے ہیں:

لَيْتَهُ يُصَحِّحُ نَفْسَهُ فَكَيْفَ يُصَحِّحُ غَيْرَهُ

’’ کاش!کہ وہ خود صحیح ہوتی پس دوسری کو صحیح کیسے کرے گی؟‘‘

 (من كلام يحيى بن معين في الرجال برواية طهمان ص 45 )

اسی وجہ سے جلیل القدر آئمہ ومحدثین نے ایسی کئی روایات کو ’’غیر ثابت‘‘ قرار دیا ہے جن کی متعدد سندیں ہیں تفصیل کیلئے دیکھئے: (محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے علمی مقالات5/173)

کیونکہ ضعف کے ہوتے ہوئے تعدد اسانید کا کوئی فائدہ نہیں ۔ فَافْهَمْ وَتَدَبَّرْ

اسی وجہ سے امام ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی المتوفی (456ھ)فرماتے ہیں:

وَلَوْ بَلَغَتْ طُرُقُ الضَّعِيْفِ أَلْفًا لَا يُقَوِّيْ وَلَا يَزِيْدُ انْضِمَامُ الضَّعِيْفِ إِلَى الضَّعِيْفِ إِلَّا ضَعْفًا

’’اور اگر ضعیف روایت کی ہزار سندیں ہوں تو وہ (ایک دوسری سے مل کر) تقویت حاصل نہیں کریں گیں اور ضعیف کا ضعیف سے ملنا ضعف میں اضافہ کرتا ہے‘‘ ۔

( النكت للزركشى 1/322 طبع مكتبة أضواء السلف الرياض)

تنبیہ:علامہ زرکشی المتوفی (794ھ) نے اگرچہ اسکی سند ذکر نہیں کی لیکن ابن حزم کا یہی منہج انکی اپنی کتب سے ثابت ہے تفصیل کیلئے دیکھئے :(مقالات المحدث الحافظ زبيرعليزئی 5/186)

 اور ضعیف اسانید کے ہجوم کی بناء پر روایات کو حسن قرار دینے والے مسعودی مقلدین تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ بہت ساری روایات ایسی ہیں جو مسعود صاحب کے اس اصول کے مطابق ’’حسن‘‘ قرار پاتی ہیں لیکن مقلدین مسعود بھی ان روایات کو نہیں مانتے جیساکہ مسعود صاحب کے شاگرد نومولود فرقے کے امیر دوم محمد اشتیاق صاحب پندرہ شعبان کی فضیلت کے متعلق تمام روایات کو ضعیف ثابت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ: ’’اسی مضمون کی احادیث اور بھی صحابہ کرام سے مروی ہیں مگر سب ضعیف ہیں‘‘ ۔ (شعبان کا مہینہ اور شب براءت ص 9)

مزید لکھتے ہیں: ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شعب الایمان میں اور بھی کئی روایات مروی ہیں مگر تمام ضعیف ہیں‘‘ (حوالہ مذکورہ ص 5)

اسی طرح ’’ كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ‘‘ والی روایت کئی سندوں سے مروی ہے جو مسعودی اصول ضعیف+ضعیف= حسن کی رو سے ’’حسن‘‘ بنتی ہے لیکن اسکی تمام سندوں کو ضعیف ثابت کرنے کے بعد اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’الغرض چار دن قربانی کے سلسلے میں کوئی حدیث صحیح ہے نہ حسن محض کھینچا تانی ہے‘‘

(کیاخصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ ص 24)

اب مقلدین مسعود کیلئے دو صورتیں ہیں یا تو ان روایات کا صحیح وحسن ہونا تسلیم کریں یا پھر مسعود صاحب کے اصول کو باطل قرار دیں اگر روایات کو ضعیف مانتے ہیں تو اصول ہاتھ سے جاتا ہے اگر مسعود صاحب کے اصول کو سینے سے لگاتے ہیں تو اشتیاق صاحب کا ان ورایات کو ’’ضعیف‘‘ کہنا باطل قرار پاتا ہے دونوں صورتوں میں بطلان مسعودیت کا مقدر بنتا ہے ۔

مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے

آئینہ دیکھئے گا ذرا دیکھ بھال کے

مسعودی اصول}8{جس حدیث کو امام حاکم صحیح قرار دیں اور امام ذہبی انکی موافقت کریں وہ حدیث صحیح ہوتی ہے کسی علت قادحہ کی بناء پر اس کو ضعیف قرار دینا غلط ہے جیساکہ اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’ جب امام حاکم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں اور امام ذہبی امام حاکم کی موافقت کردیں تو وہ صحیح ہوتی ہے‘‘

(محمد ناصرالدین البانی فن حدیث کے آئینے میں ص 13)

مزید لکھتے ہیں کہ:

’’ البانی صاحب نے ثابت شدہ فن حدیث کے اصولوں کو بھی پامال کردیا جو آئمہ کے نزدیک مسلم ہیں مثلا ً

جس حدیث کو امام حاکم صحیح قرار دیں اور امام ذہبی انکی موافقت کردیں تو وہ حدیث صحیح تسلیم کی جاتی ہے‘‘

(حوالہ مذکورہ ص 22).

 جائزہ: وہ کون سے آئمہ ہیں جن کا یہ مسلم اصول ہے … ؟؟ اپنے ہی وضع کردہ اصول کو آئمہ کا مسلم اصول قرار دینا کہاں کا انصاف ہے … ؟؟

قارئین کرام!ہم گذشتہ سطور میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں احادیث پر صحت وسقم کا حکم لگانے میں محدثین عظام کے متفقہ اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے گا باقی مستدرک حاکم کی روایات کو حاکم اور ذہبی کی تصحیح کی وجہ سے صحیحین (بخاری‘مسلم) کی احادیث کی طرح قطعی الصحۃ قرار دینا سراسر غلط ہے کیونکہ امام ذہبی نے امام حاکم کی تصحیح میں موافقت کرتے ہوئے داود بن ابی صالح‘عبداللہ بن ابی الجعد‘ محصن بن علی الفہری‘عبداللہ بن عامر الاسلمی وغیرہم کی روایات کو بھی صحیح الاسناد قرار دیا ہے دیکھئے  ۔(تلخیص المستدرک)

جبکہ خود (امام ذہبی) نے بھی انکو ضعیف اور مجہول قرار دیا ہے دیکھئے ۔

(ميزان الاعتدال ،رقم الترجمة 7097،4250،2620 المغنى في الضعفاء الرقم 3226)

بلکہ بہت ساری روایات ایسی ہیں جنکو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے حافظ ذہبی نے انکی تصحیح میں موافقت کی ہے لیکن اصول محدثین کی رو سے وہ روایات سخت ضعیف ہیں اسکی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں یہاں پر صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں ۔( وَلَوِاسْتَزِدْتَنِيْ لَزِدْتُكَ.)

(۱)سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:

اَلدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ وَعِمَادُ الدِّيْنِ وَنُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

’’دعا مومن کا ہتھیار ہے دین کا ستون ہے اور آسمان وزمین کا نور ہے‘‘

اس روایت کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور ذہبی نے انکی موافقت کی ہے دیکھئے:

(المستدرك للحاكم 1/669 رقم الحديث 1812طبع دارالكتب العلمية بيروت)

جبکہ یہ رویت ’’موضوع‘‘ ہے اس کی سند میں ’’محمد بن حسن بن ابی یزید ہمدانی‘‘ کذاب ہے اسکے متعلق

٭ امام ابو زکریا یحیی بن معین المتوفی(233ھ) فرماتے ہیں:

لَيْسَ بِثِقَةٍ كَانَ يَكْذِبُ ’’ثقہ نہیں ہے جھوٹ بولتا تھا‘‘

(الجرح والتعديل 7/303 الرقم 1248طبع دارالكتب العلمية بيروت)

٭ امام ابوحاتم محمد بن ادریس بن منذر الرازی المتوفی (277ھ) فرماتے ہیں:

لَيْسَ بِالْقَوِيِّ۔(حوالہ مذکورہ)

 ٭ امام ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی المتوفی (241ھ) فرماتے ہیں:

ضَعِيْفُ الْحَدِيْثِ

 (العلل ومعرفة الرجال 3/162 الرقم 4724 طبع المكتب الاسلامى بيروت)

مزید فرماتے ہیں: ’’مَا أَرَاهُ يَسْوِيْ شَيْئًا‘‘

(المصدرالسابق 3/299الرقم 5328)

٭ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی المتوفی(303ھ) فرماتے ہیں:مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ

 (الضعفاء والمتروكون للنسائى رقم الترجمة564)

٭ امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی بن حماد العقیلی المتوفی(322ھ) نے بھی ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے:

(الضعفاءالكبير 4/48رقم الترجمة 1600طبع دارالبازمكه)

٭ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی المتوفی(597ھ) نے ’’ ضعیف ومتروک‘‘  قرار دیا ہے دیکھئے:

(الضعفاءوالمتروکون الرقم 2951 طبع دارالکتب العلمية بیروت).

تنبیہ بلیغ:مذکورہ بالا روایت کی سند میں محمد بن حسن ہمدانی سے امام حاکم رحمہ اللہ کا محمد بن حسن بن زبیر التل (صدوق) مراد لینا پانچ وجوہات کی بناء پر درست نہیں ہے ۔

(1) مذکورہ بالا رویت میں محمد بن حسن ہمدانی کا استاد جعفر بن محمد ہے جبکہ ابن الحسن التل (صدوق) کے اساتذہ میں جعفر بن محمد نہیں ہے اور ابن ابی یزید (کذاب) کے اساتذہ میں جعفر بن محمد کا ذکر موجود ہے ۔ دیکھئے:

(تـهذيب الكمال 16/210 الرقم 574 طبع دارالفكر بيروت)

(2) ’’ہمدانی‘‘ محمد بن حسن بن زبیر التل (صدوق) کی نسبت  نہیں ہے بلکہ یہ نسبت ابن ابی یزید (کذاب) کی ہے ۔

(3) خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا روایت (الدعاء سلاح المؤمن) کو محمد بن حسن بن ابی یزید ہمدانی (کذاب) کے ترجمے میں ذکر کرکے اس سے ہمدانی (کذاب) مراد لیا ہے دیکھئے:ـ

(ميزان الاعتدال 6/109 الرقم 7388 دارالكتب العلمية بيروت)

(4) امام ابن عدی نے اس روایت کو محمد بن حسن بن ابی یزید ہمدانی کے ترجمے میں ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:

(الکامل لابن عدی 7/372طبع دارالكتب العلمية بيروت)

(5) حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی المتوفی (807ھ) نے یہ روایت نقل کرکے صراحت کی ہے کہ:

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَى وَفِيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنُ أَبِيْ يَزِيْدَ وَهُوَ مَتْرُوْكٌ

(مجمع الزوائد 10/147 طبع دارالكتاب العربى بيروت)

مزید دیکھئے : (الضعيفة للالبانى رقم الحديث 179 مكتبة المعارف الرياض)

نیز اس روایت میں علی بن حسین اور انکے دادا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ’’انقطاع‘‘ بھی ہے امام ذہبی نے بھی اسکو منقطع قرار دیا ہے دیکھئے:

 (ميزان الاعتدال 6/109 الرقم 7388 دارالكتب العلمية بيروت)

{2} سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِنِصْفِ دِينَارٍ

’’جس نے کسی (شرعی) عذر کے بغیر جمعہ چھوڑ دیا وہ ایک دینار صدقہ کرے اگر ایک دینار کی طاقت نہیں رکھتا تو آدھا دینار صدقہ کرے‘‘

اس ورایت کو امام حاکم اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھئے:

(المستدرك للحاكم 1/416الرقم 1035 طبع دارالكتب العلمية بيروت)

جبکہ اس کی سند دو وجوہات کی بناء پر سخت ضعیف ہے

(1)قتادہ مدلس ہیں سماع کی صراحت نہیں ملی ۔

(2)قدامہ بن وبرہ کا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے دیکھئے:

(الضعفاء للعقیلی 3/484الرقم 1543 طبع دارالكتب العلمية بيروت)

اس روایت کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے دیکھئے :

(العلل ومعرفة الرجال 1/256 الرقم 367 طبع المكتب الاسلامى بيروت)

اب مقلدین مسعود اپنے بناوٹی اصول کے متعلق کیا کہیں گے …؟؟

ظلم کی حد یہ ہے کہ اشتیاق صاحب نے ان حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے ہی وضع کردہ اصول کو آئمہ کا مسلم اصول قرار دے دیا ہے ۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ

اگر ایک لمحہ کیلئے موصوف کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو ’’ آئمہ کے اس مسلم اصول‘‘ کی مخالفت خود مسعود صاحب نے بھی کر رکھی ہے مسعود صاحب نے سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے رکھنے کو راجح قرار دیا ہے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایات کو ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے دیکھئے :(صلوۃ المسلمین ص 377 تا 386)

جبکہ امام نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا:

أَنَّهُ كَانَ يَضَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ وَقَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَفْعَلُ ذَالِكَ

’’وہ (سجدہ میں جاتے وقت) پہلے ہاتھ رکھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے‘‘

اس روایت کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے انکی موافقت کی ہے ۔ دیکھئے:

(المستدرك للحاكم 1/349 الرقم 821 طبع دارالكتب العلمية بيروت)

اب اشتیاق صاحب ہی بتائیں کہ’’ آئمہ کے مسلم اصول‘‘ کو پامال کرنے والے کون ہیں ..؟؟

؎  الزام مجھے دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

( مسعودی اصول:9)جس روایت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سکوت اختیار کریں وہ حسن ہوتی ہے جیساکہ اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’جس حدیث پر حافظ ابن حجر سکوت اختیار کریں وہ حدیث حسن سے کم نہیں ہے‘‘

(پیش لفظ….فن حدیث کے آئینے میں  ص 2)

جائزہ:’’امیر فرقہ‘‘ کا یہ اصول فن مصطلح الحدیث اور اسماء الرجال سے انکی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ظفر احمد تھانوی دیوبندی کی تقلید کا نتیجہ ہے باقی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے .

لَايُنْسَبُ إِلَى سَاكِتٍ قَوْلٌ وَلَكِنَّ

السُّكُوْتَ فِيْ مَعْرِضِ الْبَيَانِ بَيَانٌ

اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جس روایت پر سکوت اختیار وہ انکے نزدیک حسن ہوتی ہے تو کیا دلائل کی بنیاد پر ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا …؟؟ اور حافظ ابن حجر ر حمہ اللہ کس روایت پر سکوت اختیار کرتے ہیں…؟؟ جو تمام آئمہ کے نزدیک حسن ہوتی ہے یا صرف حافظ ابن حجر کے نزدیک حسن ہوتی ہے ..؟؟

یقینا جواب یہ ہوگا کہ جو حافظ ابن حجر کے نزدیک حسن ہو تو عرض ہے کہ یہ انکی انفرادی رائے ہوئی اور خود مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’جرح وتعدیل کا فیصلہ تحقیق اور عامۃ المحدثین کی رائے سے ہوگا نہ کہ انفرادی رائے سے لہذا انفرادی رائے اگر اسماء الرجال کی کتابوں میں مل جائے تو اس کو بنیاد بناکر کسی ثقہ راوی کو غیر ثقہ بنانا صرف اپنی رائے کو نباہنے کا بہانہ ہوگا‘‘

 دیکھئے ۔ (ذہن پرستی از مسعود صاحب  ص 43)

مسعود صاحب کی اس تحریر سے معلوم ہوا کہ اصول حدیث اور جرح وتعدیل میں کسی محدث کی انفرادی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے متعلق خود مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’ابن حجر امام جرح وتعدیل نہیں ہیں وہ تو صرف ناقل ہیں‘‘ ۔ (ذہن پرستی ص 61)

قارئین کرام!غور فرمائیں جب کسی محدث کی انفرادی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو ایک ناقل کی انفرادی رائے کی حیثیت ہوگی..؟؟

فَسَوْفَ تَرَى إِذَا انْكَشَفَ الْغُبَارُ

أَ فَرْسٌ تَحْتَ رِجْلِكَ أَمْ حِمَارٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محمد بن مروان السدی جیسے کذاب راویوں کی روایات پر بھی سکوت اختیار کیا ہے دیکھئے:

(فتح البارى ،شرح كتاب فضائل أصحاب النبي،باب إتيان اليهود النبيﷺ7/323 مكتبة العبيكان الرياض)

 محمد بن مروان السدی کے بارے میں خود مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’محمد بن مروان السدی کذاب ہے‘‘

کیا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت کی وجہ سے کذاب راوی ثقہ ہوجائے گا …؟؟؟ اور اسکی روایت ’’حسن‘‘ بن جائے گی …؟؟؟ يَا ضَيْعَةَ الْعِلْمِ!

اسی طرح حافظ ابن حجر نے سنن ابی داود کی روایت (إِنْ كَانَ لِلَّهِ خَلِيفَةٌ فِى الْأَرْضِ فَضَرَبَ ظَهْرَكَ) پر بھی سکوت اختیار کیا ہے جبکہ مسعود صاحب نے  اس کو ضعیف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے دیکھئے:(جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک ص )

 اب کیا ’’امیر فرقہ‘‘ اپنے اصول سے وفا کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح تسلیم کریں گے ..؟؟

یا قوم شعیب کی طرح لینے اور دینے کا پیمانہ مختلف رکھیں گے ..؟؟ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِ

اب اگر موصوف اپنے اصول سے وفا کرتے ہوئے مذکور بالا حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں تو منصب’’ امارت‘‘ سے محروم ہونا پڑتا ہے اور مسعود صاحب کی ’’تحقیق‘‘ کی مخالفت کرنا پڑتی ہے جو بقول مسعود اسلام کی مخالفت ہے۔!!

چھپائیں گے کہاں تک راز محفل شمع کے آنسو

کہے گی خاک پروانہ کہ پروانہ پے کیا گذری

مسعودی اصول{10}محض سماع سے جہالت رفع ہو جاتی ہے جیساکہ اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’عطاء مولی ام صبیہ نے ابو ہریرہ سے سنا ہے تو مجہول کہاں ہوا‘‘ ۔ (فن حدیث کے آئینے میں ص 110)

جائزہ:کاش! اشتیاق صاحب کتب مصطلح الحدیث کو کھولنے کی زحمت کرتے اور مجہول کی تعریف دیکھ لیتے تو ایسی طفلانہ باتیں نہ کرتے کہ ’’سنا ہے تو مجہول کہاں ہوا‘‘ اگر محض سماع سے جہالت دور ہو جاتی ہے تو کوئی بھی راوی مجہول نہیں ہے حیف تو یہ کہ جس جاہل کو ’’مجہول‘‘ کی تعریف کا بھی پتہ نہیں ہے وہ بھی اٹھا ہے محدث البانی رحمہ اللہ کا رد لکھنے کے لئے ..!!!

آدمیت اور ہے علم ہے کچھ اور چیز

کتنا طوطے کو پڑھایا پھر بھی وہ حیوان ہی رہا

About ابوانیس عبدالجباراظہر

Check Also

مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *