Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » November Magazine » کتاب ایک بہترین دوست

کتاب ایک بہترین دوست

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

’’کتب خانہ‘‘ عشاق کتب کا مقام ہے،مشتاقانِ فن کا منصب جلیل ہے، شائقین علم وادب کا مذہب ہے، محبان ادب وثقافت کی منزل مقصودہے، اصحاب علم وفکر کامایہ ناز مسکن ہے

فراغتے وکتاب وگوشہ چمنے

ورنہ تو آئےدنوں دور جدید میں عوام الناس کا کتابوں سے تعلق خاطر نہ ہونے کے برابر جابچاہے،آج کل ہمارے معاشرہ میں مطالع کتب کوغیر ضروری اوربے اہمیت سمجھا جاتا ہے،ہمارے معاشرہ میں بدقسمتی سے یہ حال ان پڑھ یاجاہل لوگوں کانہیں ،چونکہ ہمارے ہاں کمپیوٹر کے ر سیااُن تعلیم یافتہ افراد کا بھی ہے،جن کو کبھی کتب کی شکل تک پسند نہیںآتی، وہ بوقت ضرورت نیند نہ آنے کے موقع پر کتب کی چند سطور پڑھنے سے جلدی نیند کی آغوش میں آجاتے ہیں۔ باقی بس ستم بالائے ستم تو یہ کہ ہمارے ہاں لکھے پڑھے اعلیٰ تعلیم یافتہ علمائے کرام فضلاء عظام، فقیہاں عزیز مفتی حضرات کے علاوہ نامور خطباء، مدرسین کرام کی تعداد بھی کم نہیں جوذوق کتب بینی سے ناآشنا نظر آتے ہیں ،جنہیں پڑھنے کے بجائے زیادہ گفتگو میں لطف آتا ہے شاید ہی کبھی ان کو مزید مطالعہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہو ، چونکہ وہ پہلے ہی عالم فاضل ،پوسٹ گریجویٹ، پی ۔ایچ۔ ڈی پروفیسراور افسربن چکے ہیں کچھ مہربان تو بفضل الٰہی مدرسہ سے فراغت حاصل کرچکے ہیں اب پھر مطالعہ میں کون وقت ضایع کرے؟آخربال بچوں،دوست احباب کے علاوہ سماٹ فون کو بھی وقت دینا ہے!ایسے میں ہمارے موجودہ معاشرہ میں ایسے صرف چند فارغ لوگ ملیں گے جنہیں کتب خانوں ،لائبریریوں ،دار المطالعوں کی آبرووعزت کا ابھی خیال ہے،یہی’’زندانہ تشنہ لب‘‘ ہیں جن کے وجود مسعود سے علم وادب ،تہذیب وثقافت ،تحقیق وتدقیق کے یہ قم خانے شاد وآباد ہیں،علم وعرفان کے ان دیوانوں کو کتب خانہ کی پربھار وپروقار فضامیں سکون وطمانیت ،لطف وسرور اور اجڑے دل کوراحت نصیب ہوتی ہے،چاروں اطراف ڈھیرساری ضخیم کتب کے درمیان بیٹھے ہوئے ان علمی دیوانوں پر ایک جذبہ صادق اور بے خودی وعالم انہماک طاری ہوتا ہے،مطالعہ کرتے وقت وہ بچارے وقت گزرنے کو بھی بھول جاتے ہیںکہ ہم کتنا وقت ان بے جان کتابوں کی آغوش میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تجربہ گواہ ہے کہ وہ کتابوں کے سحر میں اس قدر مصروف ومجذوب ہوجاتے ہیں کہ ان کے فکر وفہم یادداشت سے زماں ومکان تک کاتصور ختم ہوجاتا ہے ،اور وہ کتابوں کے ہی ہوجاتے ہیں کسی نے کیاخوب کہا ہے:

و کعبہ عشاق باشد ایں مقام

ہرکسے ناقص آمد ایں جاشد تمام

انہیں گرمی سردی، بھوک وپیاس کی شدت کا احساس تک ختم ہوجاتا ہے۔۔۔

مے چھٹی ہم سے مہ کدہ نہ چھٹا

جب بھی گزرے ،ادھر سے گزرے ہیں

کتابوں سے محبت ویگانگت اپنائیت کا احساس علامہ ابو الکلام آزاد کے اس واقعہ سے بخوبی لگاسکتے ہیں،کہ:

جب سرسید احمدخان کی سوانح ’’حیات جاوید‘‘ چھپ چکی تو مولانا بے تاب وبے قرار اس کتاب کےمطالعے کے لئے ماہی بے آب کی طرح بے تاب وبے قرار تھے۔کتاب کا پارسل جب ہاتھ میں آیا تو وہ وقفہ جو اس کتاب کے(بنڈل) کھولنے میں لگا وہ لمحہ مضطرب تھا جو اس کے لوح کودیکھتے وقت طاری ہو، اب تک نہ صرف یاد ہے بلکہ محسوس ہورہا ہے کہ ۔۔۔میں نے پوسٹ مین کو روپیہ دیا اور پارسل لے کر اوپر کے پڑھنے والے کمرہ کی جانب بھاگا۔۔۔پھر ’’حیات جاوید‘‘ جس کی ضخامت ایک ہزار صفحات تھی، میں نے اول تاآخر دو شب میں ختم کرڈالی، مجھےیہ بھی یاد ہے کہ اپنے اس معمول مطالعہ کے مطابق کسی نئی کتاب کے حصول پر کم از کم ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتا اس خوف سے کہ اتنی دیر تک مطالعہ سے محروم رہ جاؤںگا۔

مطالعہ فکر وذہن کے لئے ایندھن کی حیثیت رکھتا ہے ،اصل میں فکر کو علمیت کا رنگ دینے کی غرض سے صحیح بصیرت ،فہم وفراست،ذہن وذکاء کی گہرائی اور گیرائی درکارہوتی ہے، جو وسیع مطالعہ کے بغیر حاصل ہونا ناممکن ہے،مختصراجس کو وسعت قلبی، بصیرت وبصارت افروزی انسانی اور بنیادی اعلیٰ اخلاقی اوصاف حمیدہ مطلوب ہوں اسے چاہئے کہ زندگی بھر مطالع شاہد،اور کتابوں کو اپنا اعلیٰ رفیق بنائے، چونکہ کسی مہذب ومتمدن ترقی یافتہ معاشرہ کاخواب کتب خانوں کے بغیر ناقص ہے، ماضی میں اگرجھانکیں تومسلمانوں کی علوم وافکار کی ترقی وترویج کتب خانوں کے مرہون منت تھی، مثلا دور عباسیہ میں کتابوں اور لائبریریوں سے مسلمانوں کی وابستگی عالم گیر شہرت کی حامل ہے، بغداد اور دیگر متعدد مقامات پر نادر ونایاب کتب کا بیش بھا گرانقدر سرمایہ جمع ہوچکا تھا،برصغیر میں خلجیوں نے دہلی اور مغل حکمرانوں نے اپنے ہاں جوگرانقدر معیاری کتب جمع کرکے کتب خانے قائم کیے ،انہوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ سرفراز رکھا، حافظ ابن رشدؒ نے ساری حیاتی کتب کے مطالعے میں صرف کردی، ان کی زندگی میں صرف دوراتیں ایسی تھیں جن میں وہ مطالعہ سے محروم رہے،ایک شادی کی شب اور دوسری وہ رات جس میں ان کی والدہ کا سانحہ ارتحال پیش آیا۔مشہور عالم جاحظ نےتو اپنی جان ہی ذوق مطالعہ کی نذر کردی،جبکہ وہ آخری عمر میں مفلوج ہوگئے تھے،لیکن اس حالت میں بھی کتابیں ان کے چاروں اطراف  ڈھیروں پڑی رہتیں اور مطالع سے مستفید ہوتے رہتے تاآنکے یہ کتب ایک دن جاحظ پرگرپڑیں اور انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔جاحظ  کا ایک قول ہے کہ جب آپ چاہیں کتاب خاموش رہتی ہے،مگر جب آپ بات کرناچاہیں تو کتاب فصاحت وبلاغت کےساتھ بولنا شروع کردیتی ہے،مگر جب تنہائی محسوس کریں تو یہ رفیق شفیق بن جاتی ہے، کتاب ایسی پرخلوص ہے کہ جو آپ کو زندگی بھر دھوکا نہیں د ے سکتی یہ آپ کی خوشامدنہیں کرتی اور نہ ہی کبھی اکتاتی ہے،آج بھی مغربی ممالک  سائنس وٹیکنالوجی وغیرہ میں آگے اس لئے ہیں کہ ان کے ہاں کمپیوٹر، انٹرنیٹ نے کتابی دنیا کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچایا،بلکہ اب تو مغرب میں لاکھوں کی تعداد میں کتب شایع ہوکرہاتھوں ہاتھ خریدی جاتی اور پڑھی جاتی ہیں، کتابیں تو ہمارے ہاں بھی شایع ہوتی ہیں لیکن ہزاروں کی جگہ اب سینکڑوں کی تعداد میں شایع ہوکر فروخت نہ ہونے پرمجبوراً مصنف اعزازی طور پر تقسیم کر کے جان خلاصی کرتا ہےورنہ تو

بیٹھ کر سیر دو جہاں کرنا

یہ تماشا کتاب میں دیکھا

اسلامی تہذیب وتمدن ،جس کی ابتداء ہی لفظ ’’اقرأ‘‘ سے ہوئی ہے یہ اس بات کی غماز ہے کہ ا نسان جب تک اس جہاں رنگ وبوء میں موجود ہے، اسے رہنمائی علم وکتاب سے ہی حاصل ہوگی، وہ ہمیشہ طالب علم رہتا ہے علمی تشنگی اسے ہمیشہ محسوس ہوتی رہتی ہےچونکہ مطالعہ انسان کی فکر ونظر میں وسعت،آفاقیت، تدبر وتفکر میں بالیدگی پیدا کرتا ہے، مفید معیاری ،علمی وادبی ،بلند فکرات کی حامل کتب ،شائستہ اور شستہ تحریریں، نہ صرف ذہن وفکر پرخوشگوار اثرات پیدا کرتی ہیں بلکہ بلند نگاہی،وسعت ظرف وقلبی سنجیدگی اور اصابت راء کی صلاحیت بھی عطاء کرتی ہیں، زندگی کے شب وروز میں درپیش آنے والے گھمبیر مسائل سے بحسن وخوبی نبردآزما ہونے کاحوصلہ پیدا کرتی ہیں، زندگی کے نشیب وفراز میں مطالعے کا عادی انسان کبھی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا، قوت مطالعہ اس کے تھکے مار ے اعصاب کو تقویت پہنچاتی ہے۔ زندگی سے بیکسی، فرار،بے چارگی اور تنہائی کا احساس مٹادیتی ہے، جبکہ عملی حل، تقریر،

وتحریر،تدریس ،مجلس مذاکرہ میں تقویت نکھار،جاذبیت اجاگر کرنے کی غرض سے مطالعہ ومشاہد ہ میں وسعت انتہائی لازمی ہے،لہذا اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد بھی اگر مطالعے سے منہ موڑ لیں گے تو ان کی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری علمی حلقوں میں یا اعلیٰ امتحانات میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی

جودیکھا ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *