Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » November Magazine » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

گھمن : ابن عباس  رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کا جواب: شاہ صاحب نے حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ کےقول’’ الکرسی موضع القدمین‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے کرسی کو روضہ اقدس سے افضل قرار دیا ہے، حالانکہ یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ کرسی کے معنی میں اہل علم کا اختلاف ہے۔

مولانا محمد جونا گڑھی کی رائے: مولانا محمد جوناگڑھی نےترجمہ قرآن جو کہ سعودیہ سے چھپا ہے اس میں لکھا ہے کہ کرسی سے مراد بعض نے موضع قدمین، بعض نے قدرت وعظمت،بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے۔ (ترجمہ قرآن جوناگڑھی ،تفسیر صلاح الدین یوسف پارہ ۳ص:۱۱۱)

مولانا محمد جوناگڑھی صاحب کے قول کے مطابق اس قول میں کئی احتمال ہیں اور قاعدہ ہے کہ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال یعنی جب کئی احتمال ہوںتو استدلال باطل ہوجاتا ہے، لہذا آپ کا یہ استدلال باطل ہے۔(المہند اور اعتراضات ،ص:۵۴)

گھمن صاحب کی شیعیت ان کے اپنے اصول پر

جواب: قارئین کرام! ذرا غور کیجئے کہ گھمن صاحب نے سیدنا عبداللہ عباس  رضی اللہ عنہ کے اس تفسیر کو رد کرنے کےلئے کس پر اعتماد کیا؟ جی ہاں بعض اہل علم کے اقوال کو پیش کرکے سیدنا ابن عباس  رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کو باطل قرار دے دیا، حیرت ہوتی ہے کہ قول صحابی کی حجیت کے نعرے لگاکرہمیشہ اہل حدیث کو اس معاملہ میں موردِ الزام ٹہرانے بلکہ ان پر باطل طعن وتشنیع کرنے والے خود اپنی باری میں کیسے اسے نظر انداز ویکسر فراموش کردیتے ہیں!

دور جانے کی ضرورت نہیں اپنی اسی کتاب میں گھمن صاحب نے ایک عنوان قائم کیا: ’’غیر مقلدین کی نزدیک اقوالِ صحابہy حجت نہیں‘‘اس میں لکھتے ہیں:

شاہ صاحب نے تیسری شرط یہ لکھی ہے کہ جس عمل کی مثال آپ ﷺ کی زندگی میں یا آپ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام yکے عمل سے ثابت نہیں تو اس کے بدعت ہونے پر امت متفق ہے۔یہ شاہ صاحب کی اور ان کی جماعت کا صرف زبانی جمع خرچ ہے کیونکہ ان کے نزدیک اقوال وافعال صحابہyحجت نہیں۔

(المہند اور اعتراضات ،ص:۱۴۴)

پھر چندعبارات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

شاہ صاحب اور ان کے اکابرین کی تصریحات سے یہ بات روزِ روشن ک طرح واضح ہوگئی کہ غیر مقلدین کے نزدیک دین صرف قرآن و حدیث کا نام ہے۔ صحابہ کرامyکے اقوال وافعال ان کے یہاں حجت نہیں یہ حضرات شیعوں کی طرح عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام yکو مانتے ہیں۔

(المہند اور اعتراضات ،ص:۱۴۷)

اس بحث کا جواب تو اپنے مقام پر آئے گا اوروہیں مناسب بھی رہے گا ،یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ گھمن صاحب کے ان اعتراضات کو دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا ہے جیسےیہ اور ان کی جماعت والے سب کے سب اقوال وافعال صحابہ (y)کوحجت مانتے ہیں اور کہیں کسی مقام پر ان سے سرموانحراف نہیں کرتے ،لیکن مثل مشہور ہے کہ’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘

درحقیقت ان لوگوں کا’’نمائشی‘‘مذہب کچھ اور ہے اور حقیقی وعملی مذہب کچھ اور ہے، نمائشی مذہب میں تو یہ مقلدین حضرات اقوال وافعالِ صحابہ yکو ماننے کے سب سے بڑے چمپئن بنتے ہیں اور مخالفین کو شیعہ اور رافضی باورکرانے پر تلے رہتے ہیں ،لیکن عملی مذہب میں اپنے عقیدہ وعمل کے خلاف کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا قول وفعل مانتے نظر نہیں آتے،بس زبانی جمع خرچ ہی ہے۔ بطور ثبوت دیوبندیوں کے ’’متکلم اسلام ‘‘ گھمن صاحب کی زیر بحث تحریر آپ کےسامنے ہے، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا تفسیری قول جب ان کے سامنے آیا تو یہ حجت مان لیتے لیکن نہیں مانا، الٹا اس سے استدلال کو باطل قر ار دے دیا!

کیاحجت ماننے والوں کا یہ طرزِ عمل ہوتا ہے؟ یقینا نہیں تو واضح ہوا کہ شاہ صاحب تو نہیں البتہ گھمن صاحب اور ان کی جماعت والے ’’شیعوں کی طرح عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کرامyکو مانتے ہیں‘‘افسوس کہ گھمن صاحب اپنے ہی بیان کے مطابق شیعوں کی طرح عوام کو دھوکہ دینے والے ثابت ہوئے، ہمارے نزدیک تو ان کا یہ انداز واسلوب ہی غلط ہے۔ تفصیل اپنے مقام پر آئےگی، مذکور بالاسطور ان کے اپنے من پسند انداز کے مطابق لکھی ہیں۔

المختصر! جب قولِ صحابی رضی اللہ عنہ حجت ہے تو بعض سے ان کے قول کا تقابل کرکے قول صحابی کا جواب اور اس سے استدلال کو باطل قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہوسکتا، حجت کے مقابلہ میں غیر حجت کو پیش کرنا غلط ہےاور حجت کے مقابلے میں’’غیرحجت‘‘ کی کوئی حیثیت نہیں وہ تو حجت کے مقابلہ میں کالمعدوم ٹھہرنا چاہئے ،کاش کہ گھمن صاحب محض الزامات دیتےرہنےپر اکتفا کے بجائے اخلاص کے ساتھ اس پر غور کرتے۔

تفسیر صحابی اور دیوبندی امام اہل سنت:

گھمن صاحب کی دیگر باتوں سے پہلے دیوبندی حضرات کے ’’امام اہلسنت ،محدث اعظم  پاکستان شیخ الحدیث سرفراز خان صفدر صاحب سے تفسیر صحابی  رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ودرجہ ملاحظہ کیجئے:

آپ ایک مقام پر لکھتے ہیں:

اس سے قبل کہ ہم اس آیت کی تفسیر حضرات صحابہ کرامyسے نقل کریں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتےہیں کہ حضرات صحابہ کرامyکی تفسیر کا رتبہ،درجہ اور حیثیت کیا ہے؟ امام حاکم ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے نزدیک صحابی کی تفسیر مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتی ہے۔(مستدرک حاکم ۱؍۱۲۳) اور یہی امام حاکم کی اپنی تحقیق ہے۔ (معرفت علوم الحدیث:ص:۲۰)حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: کہ اکثر علماء کے نزدیک صحابی کی تفسیر مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔(البدایہ والنھایہ :۶؍۲۳۳)

حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: وتفسیر الصحابی مرفوع۔ (تدریب الراوی: ۶۵) علامہ جزائری ؒ لکھتے ہیں: جس صحابی نے نزول وحی کا زمانہ پایا ہو اس کاکسی آیت سے متعلق یہ کہنا کہ یہ فلاں اور فلاں حکم میں نازل ہوئی یہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔(توجیہ النظر ،ص:۱۶۵)

نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

وکذا حکم اقوالھم فی التفسیر فانھا اصوب من اقوال بعدھم وقد ذھب بعض أھل العلم إلی أن تفسیرھم فی حکم المرفوع ۔(الجنۃ فی الأسوۃ الحسنۃ بالسنۃ ،ص:۹۶)

یعنی حضرات صحابہ کرامyکی تفسیر بعد کے آنے والے مفسرین سےبہت زیادہ صحیح اور صواب ہے حتی کہ بعض (بلکہ اکثر) علماء کی تحقیق یہ ہے کہ حضرات صحابہ yکی تفسیر مرفوع حدیث کےحکم میں ہے۔

(احسن الکلام ،ص:۱۲۱، مطبوع مکتبہ صفدریہ گجرانوالہ)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا تفسیری مقام:

قارئین کرام! سرفراز خان صفدر کی تحریر سے یہ بات خوب واضح ہےکہ صحابہ yکی بیان کردہ تفسیر مرفوع کے حکم میں ہے یعنی حکما وہ رسول اللہ ﷺ کی تفسیر ہے اور یہ بات تو بالکل بین ومسلم ہے کہ بعد والوں پر صحابہ yکی تفسیر کو ترجیح حاصل ہے۔ اب خاص ’’حبرالامۃ، سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ کا تفسیرمیں جو مقام عالیشان ہے وہ بھی سرفراز خان صفدر صاحب کے قلم سے ملاحظہ کیجئے، لکھتے ہیں:

تمام حضرات صحابہ yمیں فن تفسیر میں حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ کے بعد نمبر حضرت (عبداللہ بن) عباس رضی اللہ عنہ کا آتا ہے۔ اور کیوں نہ (ہوکہ) جناب رسول خداﷺ نے ان کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی کہ’’اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تفسیر اور تاویل کی مہارت عطا فرما۔(مسند احمد ۱؍۳۲۸ قال الھیثمی رجالہ رجال الصحیح ،مجمع الزوائد ۹؍۲۷۶ وصححہ ابن کثیر ،البدایہ والنھایہ ۸؍۲۹۷) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ وہ ’’اعلم الناس بما ا نزل علی محمد ﷺ ‘‘تھے،(ایضا البدایہ ۸؍۳۰۰)علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ وہ دین کے امام ،علم کے سمندر اور بہت بڑے عالم تھے۔ (تذکرہ ۱؍۳۷) یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے محقق اور صاحب بصیرت بھی قرآن کریم کی تفسیر میں ان کی طرف مراجعت کرتے تھے۔(بخاری۲؍۴۳ۃ)

(احسن الکلام ،ص:۱۲۷،۱۲۸)

توصحابی سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ معنی جو حکما مرفوع کی حیثیت رکھتا ہے اسے چھوڑ کر گھمن صاحب کا دیگر اہل علم کے معنی کو اہمیت دینا غلط اور خلافِ اصول ہے۔ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:

قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر جب بسند صحیح جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوتو اس کے مقابلہ میں اگر کوئی بڑے سے بڑا مفسر بھی کچھ کہے تو اس کی بات مردود ہوگی اور جناب رسول ﷺ کی تفسیر ہی قابلِ اخذ ہوگی  جبکہ اس کی سند بھی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہو۔(آنکھوں کی ٹھنڈک ،ص:۲۶)

اسی طرح لکھا:

آیت کا وہی معنی اور مطلب صحیح ہوگا جو قرآن کریم کی دوسری آیات اور خصوصا بعد کو نازل ہونے والی آیات سے ٹکر نہ کھاتا ہو اور مطلب بھی وہی ہو جناب رسول اللہﷺ اور حضرات صحابہ کرامyاور تابعین نے اس کو پیش کیا ہو۔اس میںمفسرین کی ذاتی رائے خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں (اگر وہ قابل تاویل نہ ہوتو)مردود ہوگی۔

(آنکھوں کی ٹھنڈک ،ص:۲۶)

جب صحابی کی تفسیر حکما مرفوع کا درجہ رکھتی ہے تو اس آیت میں ’’کرسی‘‘ سے مراد وہی لیاجائے گا جو سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے ان کے مقابلہ میں باقی مفسرین کی آراء مردود ہوںگی۔ لہذا گھمن صاحب کا یہ کہنا کہ اس قول میں کئی احتمال ہیں درست نہیں چونکہ ان احتمالات کی کوئی حیثیت نہیں۔

(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *