Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » August and September Magazine » التحقیق والبحث فی تحسین حدیث اعادۃ الصلاۃ عندالحدث

التحقیق والبحث فی تحسین حدیث اعادۃ الصلاۃ عندالحدث

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

اہل سنت(اہلحدیث)اور مقلدین احناف کے مابین مختلف فیہ مسائل میں سے ایک  مسئلہ یہ بھی ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک  نماز  میں تکبیر تحریمہ سے سلام تک کہیں بھی حدث واقع ہوجائے تو وضوء کرکے نماز لوٹائی جائیگی جبکہ تقلیدیوں کاکہناہےکہ اگر تشہد کے بعد سہوا  وضوء ختم ہوجائے تو ایسا شخص وضوء کرکے وہیں سے(جہاں وضوء ختم ہواہے) بنیاد ڈال کر نماز مکمل کرےگا لیکن اگرکوئی جان بوجھ کر تشہد کےبعد ہوا خارج کردے تو سلام کے بغیر نماز مکمل ہوجائےگی!

جیساکہ ان کی معتبر ترین کتب میں لکھاہواہے:

وإن سبقه الحدث بعد التشهد توضأ وسلم وإن تعمد الحدث في هذه الحالة أو تكلم أو عمل عملا ينافي الصلاة تمت صلاته ۔

اگر کسی(نمازی)کی تشہد کے بعدغیردانستہ طور پرہوا خارج ہوجائے تو وہ وضوء کرکے سلام پھیردےگا،اگرجان بوجھ کرہوا خارج کردی یاکلام کرلیا یانمازکے منافی کوئی کام کیا تو اسکی نماز مکمل ہوگئی۔

[ القدور ی  ص۱۲۲باب الجماعۃ واللفظ لہ        ط مکتبۃ البشرٰی، الھدایہ  ج۱صب۲۰۸ا باب الحدث فی الصلاۃ ط مکتبۃ البشریٰ کراچی]

درج ذیل حدیث سےاہل حدیث کا موقف ثابت  ہوتاہے:

حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن عاصم الأحول، عن عيسى بن حطان، عن مسلم بن سلام، عن علي بن طلق، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا فسا أحدكم في الصلاة، فلينصرف فليتوضأ وليعد الصلاة۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:نماز میں تم میں سے جو کوئی ہوا خارج کردے تو اسے چاہیے کہ وہ(نمازچھوڑکر)چلاجائے،وضوء کرے اورنماز دہرائے۔

 [سنن ابی داؤدبرقم۲۰۵، صحیح ابن حبان ج۶ص۸ح۲۲۳۷ط مؤسسۃ الرسالۃ،سنن الکبرٰی للبیھقی ج۲ص۶۲برقم۳۳۸۱ط دار الکتب العلمیۃ  واسنادہ حسن]

اس حدیث سےواضح ہواکہ جو شخص نماز میں بےوضوء ہوجائے وہ نماز دہرائےگا،نہ کہ وضوء کرکے پڑھی ہوئی نماز پر بنیاد ڈالےگا۔ محدثین نے اسی حدیث سےیہی سمجھاہے۔

امام بیہقی(المتوفٰی۴۵۸ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:  وهذا يصرح بإعادة الصلاة ۔

یہ حدیث  ازسرے نو نماز پڑھنے کی تصریح  کرتی ہے۔

 [ السنن الكبرى ج۲ص۳۶۲ تحت۳۳۸۱ط دار الكتب العلمية]

امام ابن حبان اس حدیث کو درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وفيه دليل على أن البناء على الصلاة للمحدث غيرجائز۔

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ بے وضوء ہوجانے والےکاپڑھی ہوئی نماز پر بنیاد ڈالنا ناجائز ہے۔

نیز اس حدیث سے پہلے فرمایا:

ذكر الأمر لمن أحدث في صلاته متعمدا أو ساهيا بإعادة الوضوء واستقبال الصلاة ضد قول من أمر بالبناء عليه۔

یعنی جو شخص نماز میں قصدا (جان بوجھ کر)یا سہوا(بھول کر)بے وضوء ہوجائے تو اسےوضوء کرکے ازسرےنونماز پڑھنی ہوگی ، برخلاف (احناف کے)اس قول کے جو ایسے شخص کو بناء(یعنی وہیں سے نمازپڑھنے)کا حکم دیتےہیں۔

[ صحیح ابن حبان ج۶ص۸ح۲۲۳۷ط مؤسسۃ الرسالۃ ]

مصحیحین حدیث

اس حدیث کو درج ذیل ائمہ حدیث نے صحیح یاحسن کہاہے۔

امام ابوحاتم محمدبن حبان البستی(المتوفٰی۳۵۴ھ)نے  اس حدیث کو اپنی صحیح میں ذکرکیاہے۔

[صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان ج۶ص۸ ح۲۲۳۷ ط  مؤسسة الرسالة]

یہاں پر یہ بھی ملحوظ رہے کہ امام ابن حبان نے اپنی اس کتاب(صحیح ابن حبان)میں صحت کاالتزام کیاہے اس میں موجود تمام احادیث امام صاحب کےنزدیک صحیح متصور ہونگیں،بلکہ آل دیوبند کےنزدیک اس میں موجود سب احادیث صحیح ہوتی ہیں،جیساکہ مولوی خیر محمد جالندھری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: وہ کتابیں جن میں سب حدیثیں صحیح ہیں جیسے موطا امام مالک ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،صحیح   ابن حبان ،صحیح حاکم ، مختارہ ضیاء مقدسی ،صحیح  ابن خزیمہ ،صحیح  ابوعوانہ ، صحیح ابن سکن ، منتقٰی ابن جارود-

[خیر الاصول فی حدیث رسول ص۱۱ طبع قدیمی کتب خانہ کراچی]

اور اسی طرح مولوی زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں:پہلا درجہ: حدیث کی وہ کتابیں جس میں صرف  اور صرف صحیح حدیثیں ہیں، ان میں کوئی موضوع تو کیا ضعیف حدیث بھی نہیں۔مثال:موطاامام مالک،صحیح بخاری،صحیح مسلم،صحیح ابن حبان،حاکم،ضیامقدسی کا المختارہ،صحیح ابن خزیمہ،ابوعوانہ،صحیح ابن سکن،ابن جارود کی المنتقی۔

[مقدمہ الکوکب الدری ج۱ص۵۱طبع مکتبہ الشیخ کراچی]

امام ابوعیسٰی محمدبن عیسٰی التر مذی(المتوفٰی۲۷۹ھ)فرماتےہیں: حديث علي بن طلق حديث حسن۔[سنن الترمذی برقم۱۱۶۴]

امام  ابو علي الحسن بن علي بن نصر الطوسي(المتوفٰی۳۱۲ھ) نے بھی اس حدیث کا حسن ہوناتسلیم کیاہے۔

[مختصر الأحكام ص۴۵۳ح۱۰۰۷ط مؤسسۃ الریان]

امام طوسی کے متعلق الیاس گھمن  کے رسالہ قافلہ میں لکھا ہوا ہے :

سیدنا امام ابوعلی الطوسی رحمہ اللہ۔۔

[قافلہ گھمن جلد۵شمارہ۱ص۵۷ناشر اتحاد اہل سنت والجماعۃ]

امام  ابوحفص عمربن علی، ابن الملقن رحمہ اللہ (المتوفٰی۸۰۴ھ) هذا الحديث جيد الإسناد۔

[البدرالمنیرج۴ص۹۷ط دار الهجرة]

مولوی الیاس گھمن حیاتی نےامام ابن الملقن کی تعریف کرتے ہوئے لکھا:علامہ ابوحفص سراج الدین عمربن علی بن احمد،ابن المقن الشافعی رحمہ اللہ۔

[فرقہ مماتیت ص۲۰۶ط مرکز گھمن سرگودھا]

علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ (المتوفی۸۸۴ھ)فرماتےہیں:رواه أبو داود بإسناد جيد من حديث علي بن طلقْ۔

[المبدع في شرح المقنع ج۱ص۳۷۳ط دار الكتب العلمية]

حسین بن سلیم اسد صاحب اس حدیث کےبارے میں لکھتے ہیں: إسناده صحيح۔

[تحقیق موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان  ج۱ص۳۳۳،ط دار الثقافة العربية]

حسین سلیم اسد کے بارے میں گھمن کے’’قافلہ‘‘میں لکھا ہوا ہے: امام حسین بن سلیم رحمہ اللہ۔۔

[قافلہ گھمن جلد۷شمارہ۴ ص۲۴ناشر اتحاداہل سنت والجماعۃ ]

شیخ عبداللہ بن بسام رحمہ اللہ (المتوفٰی۱۴۲۳ھ) نے اس حدیث کی تحسین کی ہے۔[توضیح الاحکام ج۲ص۴ط مکۃ المکرمہ]

علاوہ ازیں متعدد معاصر اہل علم نے بھی اس روایت کی تصحیح یا تحسین کی ہے۔

فائدہ:احناف کے نزدیک امام ابوداؤد کاکسی حدیث پرسکوت (خاموشی)اختیارکرنا دلیل ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہے۔ [ فتح القديرلابن الھمام ج۲ص۷۵ط دارالفکر]

اس حدیث پر بھی امام ابوداؤد نے سکوت فرمایاہے لہذاان کے اس اصول کے پیش نظر مذکورہ حدیث امام ابوداؤد کے نزیک صحیح ہے۔

توثیق رجال الحدیث

مذکورہ حدیث کے تمام رواۃ ثقہ اورقابل حجت ہیں انکی  مختصر توثیق پیش خدمت ہے:

عثمان بن محمد بن أبي شيبة

صحیحین کے رجال میں  سے ہیں،انکا ثقہ،ثبت اور محدث ہونا مسلم ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے : ثقة حافظ شهير۔۔

[تقریب التھذیب ص۶۶۸ت۴۵۴۵بتحقیق الشیخ ابی الاشبال ط دارالعاصمۃ]

جرير بن عبد الحميد

صحیحین  کےراوی ہیں،محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں،حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ثقة صحيح الكتاب۔۔

[تقریب التھذیب ص۱۳۹ت۹۱۶بتحقیق الشیخ ابی الاشبال ط دارالعاصمۃ]

   عاصم بن سليمان الأحول

یہ بھی صحیحین کے راوی ہیں،ائمہ اسلام نے انکی توثیق کررکھی ہے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:ثقۃ۔

[تقریب التھذیب ص۲۸۵ت۳۰۶۰ ط دارالعاصمۃ]

عيسى بن حطان الرقاشی

کئی کتب حدیث کے راوی ہیں،محدثین نے توثیق کررکھی ہے ۔

مسلم بن سلام الحنفی

یہ بھی کئی کتب  حدیث کےرواۃ میں سے  ہیں ،محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ان دونوں کی مفصل توثیق آنےوالی سطور  پر ذکر کی جائیگی۔

سیدناعلی بن طلق رضی اللہ عنہ

سیدناعلی بن طلق رضی اللہ عنہ  صحابی  ہیں۔

[دیکھئے سنن الدارمی ص۲۰۸ح۱۱۴۶وغیرہ]

    اعتراضات کاجائزہ

اس حدیث پر ہونے والے اعتراضات کا بترتیب جائزہ پیش  خدمت ہے۔

اعتراض: اس کی سند میں مسلم بن سلام الحنفي مجہول  ہے۔

[ بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام  ج۵ص۱۹۱ط دارطیبۃ]

جائزہ:مسلم بن سلام  پرکسی بھی طرح سےجہالت کاالزام درست نہیں ، کیونکہ ان سے روایت کرنے والے ایک سے زائدراوی ہیں  اور انکی توثیق بھی ثابت ہے۔

ظفراحمدتھانوی صاحب کہتےہیں:ولیس بمجھول من روی عنہ ثقتان۔

جس سے دو ثقہ روایت کریں وہ مجہول(العین)نہیں رہتا۔

[اعلاءالسنن ج۱ص۱۱۴ح۱۵۳]

مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں:۔۔۔اور اصول حدیث میں  یہ بات طے ہوچکی ہے کہ جس شخص سے دو راوی  روایت کریں اس کی جہالت مرتفع ہوجاتی ہے۔[درس ترمذی ج۲ص۲۷۱]

اس مسلمہ قانون کے پیش نظرمسلم بن سلام مجھول العین نہیں رہےنیزائمہ حدیث سے توثیق ثابت ہونے کے بعد مستوربھی نہیں رہے والحمدللہ

جیساکہ مشہورامام ابن الملقن  رحمہ اللہ  (المتوفٰی۸۰۴ھ)امام ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ کاتعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ومسلم هذا روى عنه ابنه عبد الملك وعيسى بن حطان. وذكره ابن حبان في ثقاته وأخرج عنه الحديث في صحيحه فزالت عنه الجهالة العينية والحالية۔

مسلم بن سلام سے ان کے بیٹےعبدالملک اور عیسٰی بن حطان نےروایت لی ہے اور اسے امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا اوراس کی حدیث کو اپنی صحیح میں بیان کیاہے تو اس سے جہالت عینیہ وحالیہ دونوں ختم ہوجاتی ہیں۔

[ البدرالمنیرج صج۴ص۹۸ط دارالھجرۃ]

درج ذیل ائمہ نے مسلم بن سلام کی توثیق کی ہے۔

امام ابن حبان  رحمہ اللہ (المتوفٰی۳۵۹) نے ثقات میں ذکر کیاہے۔

[ کتاب الثقات ج۵ص۳۹۵ت۵۳۷۳ط دار الفكر]

نیزامام ابن حبان رحمہ اللہ  نےان سے مروی حدیث کی تصحیح فرمائی ہے۔

[صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان ج۶ص۸ح۲۲۳۷ط مؤسسة الرسالة]

امام ابونعیم فضل بن عمربن حمادابن دکین الکوفی رحمہ اللہ  (المتوفٰی۲۱۹) فرماتےہیں:

كان مسلم أحد الثقات المأمونين ۔

[مسائل محمدبن عثمان بن ابی شیبۃ ت۷بتحقیق الشیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ]

امام ابن شاہین رحمہ اللہ (المتوفٰی۳۸۵ھ) نے ثقات میں ذکرکیاہے۔[تاریخ اسماءالثقات ص۲۲۸ط الكويت]

امام ابوعیسٰی  محمدبن عیسٰی ترمذی رحمہ اللہ  (المتوفٰ۲۷۹ھ)نے ان سے مروی حدیث کو حسن کہاہے۔۔[سنن الترمذی برقم۱۱۶۴]

امام ابن الملقن  رحمہ اللہ (المتوفٰی۸۰۴ھ)نے  مسلم بن سلام کازبردست دفاع کررکھاہے۔

[ البدرالمنیرج صج۴ص۹۸ط دارالھجرۃ]

امام ابوعلی الطوسی رحمہ اللہ (المتوفٰی۳۱۲ھ) نے بھی  ان سے مروی حدیث کو حسن کہاہے۔

[مختصر الأحكام ص۴۵۳ح۱۰۰۷ط مؤسسۃ الریان]

ائمہ حدیث کی توثیق  کے بعد بھی مسلم بن سلام کو مجہولین میں شمار کرنا ناانصافی ہےکیونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ جس راوی کی محدثین توثیق کردیں تو اس کی جہالت زائل ہوجاتی ہے ،یہی بات مسلم بن سلام کے متعلق علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ نے ابن القطان کاتعاقب کرتےہوئے لکھی ہے کمامر

معروف دیوبندی سرفرازصفدر صاحب لکھتےہیں:حضرات محدثین کرام کایہ ضابطہ ہے کہ اگر کسی راوی کی دیگر محدثین توثیق کریں۔۔۔۔۔تو اس پر جہالت کا الزام نہیں رہتا۔

[احسن الکلام ج۱ص۲۸۰ط مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ]

مفتی تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتےہیں:۔۔۔اور قاعدہ یہ ہےکہ کسی راوی کی محدثین توثیق کریں تو اس پر جہالت کا الزام نہیں رہتا۔۔

[درس ترمذی ج۲ص۹۰ط مکتبہ دارالعلوم کراچی]

نیز اس کے بعد کہتےہیں:۔۔۔اور ابن اکیمہ کے غیر مجہول اور ثقہ ہونےکی اس سے بڑی اور کیادلیل ہوسکتی ہے کہ امام مالک نے مؤطا میں انکی روایت ذکرکی ہے۔[ایضا]

قارئین غورکریں!  امام مالک کا ابن اکیمہ کی حدیث ذکر کرنے سے اس کی جہالت رفع ہوسکتی ہے توکیا اتنے ائمہ کی توثیق کی وجہ سے   مسلم بن سلام کی جہالت زائل نہیں ہوسکتی !؟

اگر کوئی کہے کہ مسلم بن سلام کو بعض علماء نے مجہول کہاہے تو عرض ہے کہ احناف کے نزدیک ثقہ راوی  ابن اکیمہ کو بھی کئی ائمہ نے جہالت سے متصف کیاہےتو کیا اس کی بھی مقلدین کے نزدیک توثیق ثابت ہونے کے بعد جہالت ختم نہیں ہوئی؟

 سرفرازصفدردیوبندی صاحب لکھتے ہیں:پہلا اعتراض امام بیہقی،علامہ حازمی،علامہ ابن حزم،امام نووی اور مبارکپوری صاحب وغیرہ لکھتے ہیں کہ ابن اکیمہ لیثی مجہول ہے۔۔۔۔ جواب ان اکابر کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے اولا پوری تشریح کے ساتھ ابن اکیمہ کی توثیق نقل کی جاچکی ہے۔۔۔پھر بھی اعتراض کیےجانا انصاف کے بالکل منافی ہے۔ [احسن الکلام ج۱ص۲۸۰ط مکتبہ صفدیہ]

معلوم ہوا کہ مسلم بن سلام کو محدثین کی توثیق کے بعد بھی مجہول کہنا بقول سرفرازصفدر  انصاف کے سراسرمنافی ہے۔

اسی طرح احناف کے نزدیک ثقہ راوی ابوعائشہ کو بہت سے ائمہ نے مجہول کہاہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اسے ثقہ گردانتے ہیں مفتی تقی عثمانی صاحب ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے کہتےہیں:اس حدیث پر دوسرا اعتراض  یہ کیاگیاہے کہ  ابوعائشہ بقول ابن حزم وابن قطان مجہول ہیں۔[درس ترمذی  ج۲ص۲۷۱]

اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مفتی صاحب کہتے ہیں:حافظ ابن حجر نے  انکےبارے میں تقریب میں لکھاہے ابوعائشۃ الاموی مولاھم جلیس ابی ھریرۃ مقبول من الثانیۃ۔ نیز حافظ صاحب نے تہذیب میں ان کے بارے میں لکھاہے:ویروی عنہ مکحول وخالد بن معدان ۔اور اصول حدیث میں  یہ بات طے ہوچکی ہے کہ جس شخص سے دو راوی  روایت کریں اس کی جہالت مرتفع ہوجاتی ہے لھذا جہالت کا اعتراض درست نہیں اور یہ حدیث حسن سے کم نہیں۔[درس ترمذی ج۲ص۲۷۱]

قارئین کرام! مفتی صاحب کا مذکورہ کلام غور سے پڑھیں اور دیکھیں موصوف نے ابوعائشہ پر جہالت  کے الزام کےجواب میں حافظ ابن حجر کا جو قول نقل کیا اس سے بھی یہ مجھول ہی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ حافظ صاحب  کی اصطلاح مقبول سے مراد مجہول ہوتاہے  اس کے باوجود مفتی صاحب نے ابوعائشہ کی بغیر توثیق پیش کئے صرف ان (ابوعائشہ)سے دو راویوں کےروایت کرنے کی بناء پر ان کو مجہولین کی صف سے باہر نکال دیا!!

جبکہ زیر بحث راوی (مسلم بن سلام )کی توثیق بھی ثابت  ہے والحمدللہ  جب صرف دو راویوں کے روایت کرنے سے کوئی مجہول نہیں رہتا تو کیا توثیق ثابت ہونے کے بعد بھی کسی کو مجہول کہاجاسکتاہے؟

اوراسی طرح ابوالعنبس راوی  کو بعض علماءنے مجہول کہا ہےلیکن  سرفراز صفدر صاحب نے بعض ائمہ کی توثیق کے پیش نظر لکھا:یہ مجہول نہیں بلکہ معروف وثقہ ہے۔

[خزائن السنن ج۲ص۵۷ط مکتبہ صفدریہ]

اعتراض:بعض علماء کی طرف سےعیسٰی بن حطان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ لیس ممن يحتج به (یعنی ان سے حجت نہیں پکڑی جاتی)۔۔۔۔

[ الاستيعاب لابن عبدالبر ج۳ص۱۲۰۶ط دار الجيل]

اور اسی طرح بعض نے اسے مجہول قراردیاہے۔

جائزہ:

عیسٰی بن حطان کی محدثین نے توثیق کررکھی ہے۔ مثلا

امام ابن حبان  رحمہ اللہ  (المتوفٰی۳۵۹) نے ثقات میں ذکر کیاہے۔

[ کتاب الثقات ج۵ص۲۱۱۵ت۴۵۷۸ ط دائرة المعارف]

اور ان سے مروی حدیث کو صحیح کہاہے۔؎

[صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان ج۶ص۸ح۲۲۳۷]

امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ العجلی رحمہ اللہ (المتوفٰی۲۶۱ھ)فرماتے ہیں:  ثقۃ ۔۔[الثقات ص۳۷۹ت۱۳۳۰ط دار الباز]

امام ابوعیسٰی ترمذی رحمہ اللہ  (المتوفیٰ۲۷۹ھ)نے ان سے مروی حدیث کی تحسین کی ہے۔۔[سنن الترمذی برقم۱۱۶۴]

امام ابو الحسن  ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ فرماتےہیں: ثقۃ۔

[بیان الوھم والایھام ج۵ص۱۹۱ط دارطیبہ]

امام ابوعلی الطوسی رحمہ اللہ  (المتوفٰی۳۱۲ھ) نے بھی  ان سے مروی حدیث کی تحسین کی ہے۔

[مختصر الأحكام ص۴۵۳ح۱۰۰۷ط مؤسسۃ الریان]

امام ابن الملقن  رحمہ اللہ (المتوفٰی۸۰۴ھ)نے  مسلم بن سلام کی مذکورہ روایت کا دفاع کررکھاہے۔

[ البدرالمنیرج صج۴ص۹۸ط دارالھجرۃ]

اس توثیق کے مقابلے میں ابن عبدالبر کی مذکورہ جرح اور بعض کا مجہول کہنا درست نہیںہے۔

ملحوظہ: محدثین میں سے کوئی بھی کسی روایت کی تصحیح یاتحسین کردے تو اس محدث کے نزدیک مذکورہ روایت میں موجود تمام راوی ثقہ ہوتے ہیں ۔

ائمہ حدث نے اس اصول کو اپنی کتب استعمال کیاہے دیکھیے:

[بیان الوھم والایھام لابن القطان الفاسی ج۵ص۳۹۵ ط دار طیبہ،البدرالمنیر لابن الملقن ج ۴ص۲۶۹ طدار الهجرة،الامام فی معرفۃ الاحکام لابن دقیق ج۳ ص۱۶۶ شاملہ،نصب الرایۃ ج۱ص ۱۴۹ط مؤسسۃ الریان،تھذیب التھذیب  ج۵ص۳۱۰ت۵۳۰ط قدیم، تعجیل المنفعۃ  ج۱ص۷۹۳ت۹۱۹ط دارالبشائر]

بطور الزام عرض ہے کہ اسی اصول کو علماء احناف نے بھی تسلیم کیاہے۔

معروف حنفی عالم محمدبن علی نیموی (المتوفٰی۱۳۲۲ھ)ابوبکربن عیاش کے متعلق لکھتےہیں:

قلت ابوبکربن عیاش ثقۃ قداخرجہ البخاری فی صحیحہ محتجابہ وقال الذھبی فی المیزان وقداخرج لہ البخاری۔

میں کہتاہوں ابوبکربن عیاش ثقہ راوی ہےامام بخاری نے اپنی صحیح میں انکی روایت بطورحجت نقل کی ہےاورامام ذہبی میزان (الاعتدال)میں فرماتےہیں کہ امام بخاری نے انکی روایت کوصحیح میں درج کیاہے۔

[التعلیق الحسن ص۱۱۰ط مکتبہ حبیبیہ رشیدیہ لاہور]

جمہورکےنزدیک ثقہ راوی شہربن حوشب کے بارے میں سرفرازصفدر صاحب  کہتےہیں:

۔۔اورخودامام ترمذی نے ج۲ص۲۲۷کتاب المناقب میں ایک روایت پیش کی ہے جس میں یہی شہربن حوشب واقع ہے اور پھر آگے لکھاہے ھذاحدیث حسن،صحیح ۔

[خزائن السنن ج۱ص۱۰۲ط مکتبہ صفدریہ]

عامر بن شقیق کے متعلق تہذیب التھذیب کے حوالے سے کہتےہیں:انکو ابن حبان نے ثقات میں ذکرکیاہے اورامام ترمذی نے ان سے مروی حدیث کو صحیح کہاہے۔

[خزائن السنن ج۱ص۹۵ ،ملخصامکتبہ صفدریہ]

ابوالعنبس کے بارے میں حافظ ابن حجرسےنقل کرتےہوئے کہتے ہیں:۔۔۔دارقطنی وغیرہ نے انکی حدیث کو صحیح کہاہے۔

[خزائن السنن ج۲ص۷۵  ،ملخصامکتبہ صفدریہ]

مفتی تقی عثمانی صاحب ایک روایت پر بحث کرتےہوئے کہتے ہیں:۔۔۔۔اس کے جواب میں علامہ زیلعی نے فرمایاکہ امام ترمذی نے اس حدیث کو شہربن حوشب کی وجہ سے ضعیف کہاہے حالانکہ وہ ایک مختلف فیہ  راوی ہیں،اور بہت سے حضرات نے انکی توثیق بھی فرمائی ہے،بلکہ خودامام ترمذی نے باب اسم اللہ الاعظم میں ایک ایسی حدث کی تحسین کی ہے جوشہربن حوشب سے مروی ہے اسی طرح باب فضل فاطمۃ میں شہربن حوشب کی روایت کردہ حدیث کو حسن صحیح کہاہے۔[درس  ترمذی ج۱ص۲۵۹ط مکتبہ دارالعلوم]

 لیث بن ابی سلیم کی توثیق بیان کرتےہوئے کہتےہیں:امام ترمذی نے باب التمتع کےتحت انکی ایک حدیث کی تحسین کی ہےلہذا ان کی حدیث حسن سے کم نہیں ہوتی۔

[درس ترمذی ج۲ص۹۳ مکتبہ دارالعلوم]

اعتراض:اس حدیث میں لیعد الصلاۃ کی زیادتی بیان کرنے میں جریربن عبدالحمید متفردہیں۔

جائزہ:جریر بن عبدالحمید  بخاری ومسلم کےرجال میں سے ہیں، ائمہ حدیث نے انکی توثیق کررکھی ہے۔

امام یحیٰی بن معین،ابن سعد، ابوحاتم،ابوزرعہ،عجلی،ابن شاہین، ابن حبان  وغیرہ رحمہ اللہ  نے جریربن عبدالحمیدکی توثیق کی ہے۔

[ تاريخ ابن معين برواية عثمان الدارمي ص۶۰،ط دارالمامون،الطبقات لابن سعدج۷ص۳۸۱ط دار صادر، الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ج۲ص۵۰۶ت۲۰۸۰ط دائرۃ المعارف، الثقات للعجلی ص۹۶ت۲۰۵ط دارالکتب العلمیہ الثقات لابن شاھین ص۸۹ت۱۶۶ط دارالکتب العلمیہ۔الثقات لابن حبان ج۶ص۱۴۵ ت۷۰۹۲ط دائرۃ المعارف]

متاخرین میں سے امام ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے  بھی جریر کی زبردست توثیق کی ہے۔

[تذکرۃ الحفاظ ج۱ص۱۹۹ت۲۵۶ط دارالکتب العلمیہ، تقریب التھذیب ص۱۹۶ت۹۲۴ط دارالعاصمہ]

امام خلیلی رحمہ اللہ (المتوفٰی۴۴۶ھ) فرماتے ہیں:ثقة متفق عليه مخرج في الصحيحين۔

[الإرشاد في معرفة علماء الحديث ج۲ص۵۶۸ط مکتبۃ الرشد]

علاوہ ازیں جریر کا ثقہ ہونا احناف کو بھی تسلیم ہے،سرفرازصفدر صاحب انکی توثیق کرتے ہوئے لکھتےہیں:

علامہ ابوالقاسم لالکائی کا بیان ہے کہ جریربن عبدالحمید کی ثقاہت پرسب کااتفاق ہے اورانکی بڑی خوبی یہ تھی کہ تدلیس نہیں کرتےتھے۔۔۔علامہ ذہبی انکوالحافظ الحجۃ لکھتے ہیں۔۔۔

[احسن الکلام ج۱ص۲۳۴حاشیہ۱ط مکتبہ صفدریہ]

کمال الدین مسترشد حنفی کہتےہیں:کتب ستہ کےرجال میں سےہے ثقہ ہے۔

[تشریحات ترمذی ج۱ص۱۵۳،ط قدیمی کتب خانہ کراچی]

سابقہ کلام سے واضح ہواکہ جریر بن عبدالحمید محدثین بلکہ خود احناف کےنزدیک بھی ثقہ ہیں ،محدثین کاطےشدہ اصول ہے کہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے  ۔

علل کے امام علی بن عمر دارقطنی(المتوفٰی۳۸۵ھ) فرماتے ہیں: وزيادة  الثقة  مقبولة  عندنا۔

ہمارے نزدیک ثقہ روی کی زیادتی مقبول  ہے۔

[ الإلزامات والتتبع ص۳۷۰بتحقیق مقبل بن هادي الوادعي]

مشہورامام عبدالرحمن بن ابی حاتم رحمہ اللہ (المتوفٰی۳۲۷ھ)نے ایک  حدیث کے متعلق اپنے والد محترم امام ابوحاتم اور امام ابوزرعہ  رحمہ اللہ سے سوال کیا تو دونوں نے فرمایا:

ولم يذكر هذه الزيادة، إلا أن أبا عوانة ثقة، وزيادة الثقة مقبولة۔

اس زیادتی کو ابوعونہ ثقہ کے سوا کسی نے بھی بیان نہیں کیا جبکہ ثقہ کی زیادتی قبول کی جاتی ہے۔

[العلل لابن ابی حاتم ج۴ص۲۴۸ط مطابع الحميضي]

امام ابوعبداللہ الحاکم النیشاپوری  رحمہ اللہ اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

وهذا شرط الصحيح عند كافة فقهاء أهل الإسلام أن الزيادة في الأسانيد والمتون من الثقات مقبولة۔

یعنی اہل اسلام کے تمام تر فقہاء کے نزدیک صحیح حدیث کی شرط یہ ہے کہ اسانید اورمتون میں ثقہ راویوں کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔

[المستدرک  ج۱ص۳ط دار الكتب العلمية]

امام صاحب نے اپنی اسی کتاب میں متعدد مقامات پر اس اصول پر عمل بھی کیاہے۔

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفٰی۴۶۳ھ)اپنی مشہورکتاب الکفایۃ میں لکھتےہیں:

قال الجمهور من الفقهاء وأصحاب الحديث زيادة الثقة مقبولة إذا انفرد بها۔

جمہور فقہاء ومحدثین نے فرمایا: ثقہ راوی کی زیادت قبول کی جاتی ہے جس میں وہ منفرد ہو۔[الکفایۃ۴۲۴ط المکتبۃ العلمیہ]

مزیدفرماتےہیں: والذي نختاره من هذه الأقوال أن الزيادة الواردة مقبولة على كل الوجوه ومعمول بها إذا كان راويها عدلا حافظا ومتقنا ضابطا۔

ان اقوال میں سے ہم اس بات کو اختیار کرتےہیں کہ  وارد ہونے والی زیادت(اضافہ)تمام وجوہ پر مقبول اور معمول بہاہے، بشرطیکہ اس کا راوی عادل،حافظ،متقن اور ضابط ہو۔[ص۲۵]

اختصار کے پیش نظر ان چند ائمہ کی تصریحات پر اکتفاء کیا جاتا ہے، ورنہ  بیسیوں ائمہ حدیث  نے اس اصول کو اپنی کتب میں ذکر کیاہے۔

(اس مسئلہ پر تفصیلی بحث ہم نے اپنےزیر تالیف کتاب تعلیق الربانی علٰی درس الترمذی للعثمانی  میں کی ہے۔ )

بطور الزام عرض ہے کہ اس اصول کو علماء احناف نے بھی تسلیم کیاہے،دیوبندی مکتب فکر کے موجودہ مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں:۔۔۔۔ایسےہی مواقع کے لیے زیادۃ الثقۃ مقبولۃ کا قانون بنایاگیاہے۔۔۔۔۔۔جہاں تک قتادہ سے واذاقرا فانصتوا کی زیادتی نقل کرنے میں سلیمان کے تفردکاتعلق ہے سو بالاتفاق ثقہ ہیں اور زیادۃ الثقۃ مقبولۃ ہی کے قاعدہ سے ان کا تفرد مضر نہیں۔۔۔

[درس ترمذی ج۲ص۸۷ط دارالعلوم کراچی]

سرفرازصفدر دیوبندی صاحب اس اصول پر اپنی کتاب احسن الکلام  میں مفصل بحث کرتےہوئے لکھتےہیں:۔۔اورتمام محدثین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ثقہ کی زیادتی قابل قبول ہے۔

[احسن الکلام ج۱ص۲۴۱ مکتبہ صفدریہ]

آئمہ حدیث کےبیان کردہ اصول   اور احناف کےاعتراف سے معلوم ہواکہ جریر بن عبدالحمید  کا ولیعد الصلاۃ کے الفاظ بیان کرنے میں تفرد چنداں مضر نہیں کیونکہ ثقہ کاتفردوزیادتی قبول کی جاتی ہے ۔

امام محمدبن علی الشوکانی رحمہ اللہ (المتوفٰی۱۲۵۵ھ)اس حدیث کا دفاع  کرتےہوئے   فرماتےہیں:

ولا يضر تفرد جرير بن عبد الحميد بالزيادة وهي قوله وليعد الصلاة فإنه إمام ثقة۔

ولیعدالصلاۃ کی زیادتی بیان کرنےمیں جریربن عبدالحمید کاتفرد نقصان دہ نہیں کیونکہ وہ امام اورثقہ ہیں۔

[السيل الجرار ص۱۴۳ط دارابن حزم]

اعتراض:جریربن عبدالحمید کاآخری  عمرمیں حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔[الكواكب النيرات ص۲۲طدار العلم]

جائزہ:

اولا:راجح تحقیق کے مطابق جریر بن عبدالحمید کومختلط کہنا درست نہیں،ان کو سب سے پہلے اختلاط سے متصف کرنے والے امام بیھقی رحمہ اللہ ہیں۔ دیکھیے:

[السنن الكبرى للبیھقی ج۶ص۱۴۳تحت۱۱۴۶۶]

امام بیہقی ہی پر اعتماد کرتے ہوئے بعض متاخرین نے جریربن عبدالحمید کو مختلطین میں شمارکیاہے۔

شارح بخاری حافظ  ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بیھقی  رحمہ اللہ کا تعاقب کرتےہوئے لکھا:

ولم أر ذلك لغيره بل احتج به الجماعة۔

ان(بیہقی )کے علاوہ  اس طرح کی بات کسی نے بھی نہیں کہی  بلکہ ان(جریر)سے ایک جماعت نے حجت پکڑتی ہے۔

[ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص۳۹۵ط دارالمعرفۃ]

ملحوظہ:جریربن عبدالحمید کو مختلط کہنے والوں  کی طرف سے امام ابوحاتم رحمہ اللہ  کا قول(تغير قبل موته) بیان کرنا بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ یہ بات امام صاحب نے جریربن حازم کے متعلق کہی ہے نہ کہ جریر بن عبدالحمید کے متعلق۔

جریربن عبدالحمید کو تو امام صاحب نے مطلقا ثقہ کہاہےجیساکہ امام ابوحاتم  رحمہ اللہ کے بیٹے امام عبدالرحمن اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں فرماتے ہیں:

میںنےاپنے والد(ابوحاتم)سے جریربن عبدالحمید کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے فرمایا:نعم جرير ثقة۔

جی ہاں جریر ثقہ ہے ۔

اسی کتاب میں جریر بن حازم کے ترجمہ میں ابوحاتم کا یہ قول موجودہے:تغير جرير بن حازم قبل موته بسنة۔

جریر بن حازم کا وفات سے ایک سال قبل  حافظہ خراب ہوگیاتھا۔

[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج۲ص۵۰۴ت۲۰۷۹]

اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ انکی یہ بات جریر بن عبدالحمید کے متعلق نہیں ہے،لھذا  امام بوحاتم کی جریربن حازم پر اختلاط  والی جرح کو جریر بن عبدالحمید پر چسپاں کرنا درست نہیں۔

ثانیا:اگر انکامختلط ہوناثابت بھی ہوجائے تو بھی یہاں پر ان کا اختلاط مضر نہیں کیونکہ  مختلط راوی کےبارے میں محدثین نے یہ ضابطہ بیان کیاہے کہ اس کی اختلاط سے پہلے بیان کی گئی رایات صحیح اور اختلاط کے بعد بیان کی گئی ضعیف متصور ہونگیں، جبکہ یہ  حدیث ان سے قبل از اختلاط  بیان کی گئی ہے والحمدللہ

کیونکہ اس حدیث کوجریر سے روایت کرنے والے صحیحین(بخاری ومسلم)کےرجال ہیں اور ان کی جریر سے بیان کردہ احادیث بھی صحیحین میں موجودہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ صحیحین میں جن مختلط  ومتغیرالحفظ رواۃ سے احتجاج کیاگیاہے تو ایسے مختلطین کے ان شاگردوں(جن کی بخاری ومسلم میں  روایات ہیں) کی احادیث  اختلاط  سے پہلے کی ہوتی ہیں۔

[مقدمہ ابن الصلاح ص ۳۹۸،تقریب النووی مع تدریب الراوی ص۸۹۵ نوع۷۲،التقییدوالایضاح  للعراقی ص۴۴۲،النکت لابن حجر۱ص۳۱۵نوع۱]

مشہور حنفی عالم ظفراحمدتھانوی صاحب لکھتےہیں:فاذا جاءت روایۃ المختلطین  من اخرج الشیخان  حدیثہ  من طریقہ  کان حجۃ   ودل علیٰ سماع ھذا الراوی  منہ قبل الاختلاط ۔

جب ایسے مختلط راویوں کی روایت آجائے جن کی حدیث اسی طریق سے شیخین(بخاری ومسلم) نے لی ہو تو وہ روایت حجت  ہے اور یہ دلیل ہے کہ اس روای نے اپنے استاذ سے قبل ازاختلاط سماع کیا ہے۔

[قواعد علوم الحدیث مع نقض الشیخ بدیع الدین الراشدی ص۲۳۰]

گویاکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ بخاری ومسلم میں مختلطین کی روایات قبل الاخلاط متصور ہوتی ہیں۔

(اس مسئلہ پر بھی بندہ نے اپنی کتاب تعلیق الربانی علیٰ درس الترمذی للعثمانی میں مفصل معلومات ذکر کی ہے والحمدللہ)

یہ حدیث جریر بن عبدالحمیدسے تین رواۃ نے   بیان کی ہے  ۔

عثمان بن محمد بن أبي شيبة۔۔۔۔۔۔۔۔

[سنن ابی داؤدبرقم۲۰۵ ]

ان کی جریر سے مروی احادیث صحیحین میں بکثرت موجود موجود ہیں۔مثلا دیکھیے

[صحیح بخاری برقم۷۰،۲۱۶وغیرہ،صحیحی مسلم۷۷،۸۵ وغیرہ]

 ابوخیثمہ زہیربن حرب۔۔۔۔۔۔۔۔

[ صحیح ابن حبان ج۶ص۸ح۲۲۳۷ط مؤسسة الرسالة]

انکی بھی  جریر سے مروی احادیث صحیحین  موجود ہیں۔مثلا دیکھیے[صحیح البخاری برقم۲۵۴۳،صحیح مسلم برقم۱۳۲]

یوسف بن موسیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[سنن  دارقطنی ج۱ص۲۷۹ح۲۰۵ط بتحقیق الارنؤوط]

ان کی جریر سے مروی احادیث صحیح البخاری میں موجود ہیں۔[صحیح البخاری برقم۶۵۳۰]

خلاصہ یہ ہواکہ اس حدیث کو کسی بھی طرح سے جریر بن عبدالحمید   کےاختلاط کی وجہ سے ضعیف نہیں کہاجاسکتا کیونکہ پہلی بات یہ کہ انکا مختلط ہونا ہی ثابت نہیں دوسری بات یہ کہ اگر ان کا مختلط ہونا تسلیم بھی کیاجائےتو بھی ان تینوں شاگردوں کی روایت قبل ازاختلاط پر محمول ہوگی۔

فائدہ:امام ابن الملقن اس حدیث کا دفاع کرتےہوئے جریر کے متعلق لکھتے ہیں:

قد نسبه البيهقي وغيره إلى سوء الحفظ في آخر عمره، لكنه من رجال الصحيحين۔

[ البدرالمنیرج صج۴ص۹۸ط دارالھجرۃ]

اعتراض:امام احمد بن حنبل(المتوفٰی۲۴۱ھ)فرماتے ہیں  جریر بن عبدالحمید پر اشعث بن سوار اورعاصم الاحول کی احادیث خلط ملط ہوگئی تھیں،یہ روایت بھی جریر نے عاصم سے بیان کی ہے۔

[ العلل ومعرفة الرجال ج۱ص۵۴۳رقم۱۲۸۹بتحقیق الشیخ وصی اللہ عباس]

جائزہ:امام احمد کا مکمل کلام  اور اس کی توضیح پیش خدمت ہے ،امام صاحب فرماتے ہیں:كان اختلط عليه حديث أشعث وعاصم الأحول حتى قدم عليه بهز بن أسد قال فقال له هذا حديث عاصم وهذا حديث أشعث قال فعرفها ۔۔۔

جریر پر  اشعث بن سوار اور عاصم الاحول کی احادیث  خلط ملط ہوگئیں تو بہزبن اسد آئے اور انہوں نے جریر کو بتایا کہ یہ حدیثیں عاصم کی ہیں اور یہ حدیثیں اشعث کی ہیں تو جریر نے ان حدیثوں کو پہچان لیا ۔۔[ العلل ومعرفة الرجال ج۱ص۵۴۳رقم۱۲۸۹بتحقیق الشیخ وصی اللہ عباس]

یہاں پر دوباتیں اچھی طرح سمجھنی چاہئیں۔

امام صاحب کے مذکورہ کلام میں اختلط سے اصطلاحی اختلاط مراد نہیں ہے۔

جریر بن عبدالحمید بیشتر روایات صحیفوں سے بیان کرتےتھے یہاں پر اشعث وعاصم کی احادیث خلط ملط ہونےکا مطلب یہ ہے کہ  ان کے صحیفے خلط ملط ہوگئے تھے۔

جیساکہ امام العصرعلامہ ذہبی(المتوفٰی۷۴۸ھ)  امام احمد کے درج بالا قول کی توضیح کرتے ہوئے لکھتےہیں:

…لا يكتبون على النسخة طبقة سماع، ولا اسم الشيخ، فكتب جرير عن هذا كتابا، وعن هذا كتابا، وفاته أن يرقم على كل كتاب اسم من كتبه عنه، وطال العهد فاشتبه عليه۔وبكل حال هو ثقة، نحتج به في كتب الإسلام كلها۔

وہ(جریربن عبدالحمید وغیرہ)نسخوں پر طبقہ سماع اور شیخ کا نام نہیں لکھتےتھے تو اسی طرح جریر(بن عبدالحمید)نے بھی اس شیخ(اشعث بن سوار) سے بھی(روایات) نقل کیں اور اس (عاصم الاحول)سے بھی،اوران دونوں(شیوخ)کے صحیفوں پر ان شیوخ کے نام لکھنا بھول گئےتوطویل عرصہ گذرنے کے بسبب وہ(صحیفے)اس پرمشتبہ ہوگئے۔اب وہ(جریربن عبدالحمید)ہر حال میں ثقہ ہیں،ہم ان کی کتب اسلام میں(بیان کردہ احادیث )سے حجت پکڑتےہیں۔

[تاريخ الإسلام ج۴ص۸۲۰ط دارالغرب العربی]

 علل کےامام ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی (المتوفٰی۳۸۵ھ)  فرماتےہیں:

ويقال إن جريرا اختلف عليه صحيفة عاصم من صحيفة أشعث بن سوار وميزها له بهز بن أسد۔

اور کہاجاتا ہے کہ جریر پر  عاصم کے صحیفے اشعث کے صحیفوں  سے  بدل گئے تو بہزبن اسدنے  انکونے دونوں صحیفوں میں تفریق کردی۔[العلل للدارقطنی ج۱۲ص۹۸ح۲۴۷۲ط دارابن الجوزی]

امام احمد کےقول اوربیہقی ودارقطنی کی توضیح سے معلوم ہواکہ  جریر پر ان دونوں اساتذہ  کے صحیفے مختلف ہوگئے تھے لیکن بعد میں بہزبن اسد نے انکو  دونوں صحیفوں کے متعلق واضح کردیاکہ یہ صحیفہ اشعث کا ہےاوریہ عاصم کاہے،تو اس وضاحت کے بعد صحیفوں کا  اختلاف اور ان کے خلط ملط ہونے کااندیشہ ختم ہوگیالھذاس کے بعد جریر کی اپنےان دونوں اساتذہ (عاصم واشعث) سے روایات صحیح  متصور ہونگیں۔

خلاصۃ التحقیق:اصول محدثین کی رو سے یہ حدیث حسن ہے اس پر ہونے والے اعتراضات  باطل ہیں نیز اس حدیث کےمعنوی شواہد بھی موجودہیں۔

About محمدابراھیم ربانی

Check Also

اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *