Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » June Magazine » شیخ البانی رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ

شیخ البانی رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

محدث العصر علامہ ابوعبدالرحمن ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی شخصیت اہل علم کے حلقہ میں تعارف کی محتاج نہیں ،اللہ  پاک نے ان سے دین کی وسیع  خدمات لیں  ہیں ،احادیث پر احکام کے حوالے سے پوری دنیا میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جہاں پر ایسی علوم نبوی کی محبت  سے سرشار شخصیات کو اہل حق کی طرف سے مقبولیت عامہ حاصل ہوتی ہے  وہاں پر ہی ایسے  عظیم  لوگوں پر اہل باطل کی  طرف سے بے جا اعتراضات کی بوچھاڑ  بھی کی جاتی ہے۔

  تومخالفین کے ان نشتروں سے محدث البانی بھی محفوظ نہ رہ سکے اپنے فرقہ کے ہاں شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کیے جانے والے مفتی تقی عثمانی(استاد حدیث دارالعلوم کراچی)دل میں موجود غبار کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

شیخ ناصرالدین البانی(اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے)تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں چنانچہ انہوں نے بخاری ومسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا۔

اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی حدیث کے بارے میں بڑی شدومد سے کہہ دیاکہ یہ ضعیف ہے،ناقابل اعتبار ہے،مجروح ہے، ساقط الاعتبار ہے اور پانچ سال کے بعد وہی حدیث آئی اس پر گفتگو کرنے کے لیے کہاگیا تو کہا کہ یہ بڑی پکی ہے اور صحیح حدیث ہے، یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہاتھا تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں اور کہاجارہاہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ الماۃ ہے۔

بہرحال عالم کے لیے ثقیل لفظ استعمال نہیں کرناچاہیے لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحین کی جو بے ادبی ہے اور ان کے طریقہ تحقیق میں جو یک رخاپن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں اس لیے ان کا کوئی بھی اعتبار نہیں حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے۔

[انعام الباری ج۴ص۳۴۶،۳۴۷،طبع کراچی]

 دیوبندی شیخ الاسلام کے درج بالا کلام پر زیادہ متعجب ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس فرقہ کے پلیٹ فام سے ہمیشہ ایساہی مواد برآمد ہوتاہے لیکن یہاں پر اتنا عرض ضرور کرینگے کہ   ہمیں فرقہ دیوبندیہ میں سے کم از کم مفتی تقی عثمانی صاحب سے یہ توقع نہ تھی!!

مفتی صاحب کے متعصبانہ کلام سے درج ذیل  باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔

محدث البانی احادیث کی تصحیح وتضعیف میں تناقضات کے شکار ہیں۔

محدث البانی کے کلام میں اسلاف امت کے بے ادبی موجودہے ۔

محدث البانی اپنے مطلب کی روایات کو صحیح اور مطلب کے خلاف روایات کو ضعیف کہتے تھے۔

ھذا بھتان عظیم

 ان تینوں اتہام تراشیوں کا بترتیب جائزہ پیش خدمت ہے:

پہلے الزام کی حقیقت:

مفتی تقی عثمانی کا امام البانی پر یہ اعتراض وارد کرنا کہ ان کے تناقضات کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں نرا تعصب ہے!

محدث العصر علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ میں جس قدر حفاظت حدیث کا جذبہ موجود تھا ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تو حدیث کی محبت سے سرشار شخص کے بارے میں ایسی توقع رکھناہی بےکار ہے۔

باقی غیردانستہ طور پر  تناقض کا واقع ہوجانا بعید نہیں  کیونکہ ہم انہیں وقت کا محدث سمجھنے ساتھ انسان سمجھتے ہیں اور انسان سے خطا کا وقوع عین ممکن ہے۔

یہاں پر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ محدث البانی نے کئی احادیث پر صحت وضعف کے حکم سے رجوع بھی کیا ہے ان کے تراجعات پر مستقل کتاب(تراجعات الالبانی) بھی موجود ہے جو کہ ان کے حق پرست ہونے کی واضح دلیل ہے۔

حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرنا  ہر دور میں اہل حق کی شناخت رہی ہے مرجوع عنہ باتوں کو لیکر تناقض کا دعویٰ کرنا سراسر نا انصافی ہے۔

بلکہ معروف متعصب دیوبندی مولوی حبیب  اللہ ڈیروی صاحب کے بقول  مرجوع عنہ باتوں کی تشہیر کرنا تلبیس اور خیانت ہے ڈیروی صاحب  لکھتے ہیں:

کتنی زبردست جسارت اور خیانت وتلبیس ہے کہ جو رسالہ منسوخ ہے اس کا مصنف اس عمل سے رجوع کرچکاہے اس کی تشہیر کی جارہی ہے۔۔۔۔۔[نور الصباح حصہ دوم ص:۲۴]

الغرض تقی صاحب کا محدث البانی رحمہ اللہ  پر تناقض والا اعتراض  افواہ  وتعصب  کے سوا کچھ نہیں۔

البتہ علماء احناف کی کتب تناقض وتضاد سے بھری پڑی ہیں اس کی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اختصار کے پیش نظر ہم صرف  تین  مثالوں پر اکتفاء کرتےہیں:

مفتی تقی عثمانی  صاحب اپنی معروف کتاب درس ترمذی  میں ایک جگہ پر عبدالرحمن بن زیاد الافریقی کے متعلق کہتےہیں: ۔۔۔ رشدین بن سعد اور عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی واضح طور پر ضعیف ہیں۔[درس ترمذی ج۱ص۲۷۰]

جب یہی راوی اپنے مطلب کی روایت میں آیاتو تقی عثمانی صاحب نے اپنے مذکورہ بیان کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:۔۔۔۔ حدیث باب کو امام ترمذی نے عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے لیکن درحقیقت وہ ایک مختلف فیہ  راوی ہیں  جہاں بعض حضرات نے ان کی تضعیف کی ہے وہیں بعض نے انکی توثیق بھی کی ہے لھذا یہ حدیث  کم ازکم حسن  ضرور ہے۔

[درس ترمذی ج۲ص:۱۵۷]

قارئین!غور کیجیے دوسروں پر تناقض کا الزام لگانے والے تقی صاحب خود ہی وادی تناقض میں غوطہ زن ہیں۔

مفتی تقی کے ممدوح اور دیوبندی مکتب فکر میں محقق کہلائے جانے والے علامہ محمدبن علی نیموی کی کتاب آثارالسنن تناقضات سے  بھری ہوئی ہے مثلا نیموی صاحب نے  گیارہ رکعت تراویح کے ثبوت والی حدیث پر جرح کرتے ہوئے اس میں موجود حسن الحدیث راوی عیسٰی بن جاریہ کو ضعیف کہ دیا۔[آثارالسنن ح:۷۷۳ص:۳۹۱]

یہی راوی جب اپنےمطلب کی روایت میں آیا تو اسی صاحب نے  لکھا:رواہ ابویعلٰی واسنادہ صحیح۔

[آثارالسنن ح۹۶۰عن جابر]

کوفہ کے معروف قاضی شریک بن عبداللہ (ثقۃ قبل الاختلاط) کی بیان کردہ روایت احناف کی تائید  میں آئی تو مشہوردیوبندی عالم سرفرازصفدر صاحب نےلکھا:

علامہ ذہبی ان کوالحافظ الصادق اور احدالائمۃ لکھتے ہیں نیز لکھتےہیں کہ وہو احد الائمہ الاعلام حسن الحدیث،امام، فقیہ اور کثیرالحدیث تھے وحدیثہ من اقسام الحسن علامہ ابن سعد ان کو ثقہ مامون اور کثیرالحدیث کہتےتھے۔۔[احسن الکلام ج۱ص۲۵۷ط مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ]

اور جب اسی ہی راوی کے واسطہ سے دوسری روایت ان کے مطلب کے خلاف آگئی تو اسی سرفراز صفدرصاحب نے اپنی اسی ہی کتاب میں لکھا:

اس روایت کا مرکزی راوی شریک ہے،امام بیہقی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ: اکثر محدثین اس سے احتجاج نہیں کرتے اور دوسرے مقام پر لکھتےہیں کہ: یحیٰی قطان اس کی اشد تضعیف کرتے ہیں۔ عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ: اس کی حدیث قابل قبول نہیں ہے۔ جوزجانی اس کو سییء الحفظ اور مضطرب الحدیث کہتے ہیں۔ابراہیم بن سعد کہتے ہیں کہ: شریک نے چار سو احادیث میں غلطی کی ہے۔ علامہ جزائری لکھتے ہیں کہ: ان کی حدیث مردود اور غیر مقبول ہے حافظ ابن حجر اس کو کثیر الخطا کہتے ہیں۔

[احسن الکلام ج:۲ص:۱۲۸،ط گوجرانوالہ]

دوسرے الزام کی  حقیقت:

مفتی تقی  عثمانی صاحب کا محدث البانی رحمہ اللہ  کے بارے میں (بغیر کسی ثبوت پیش کیے)یہ کہنا کہ ان کے انداز گفتگو میں سلف کی بےادبی موجود ہے محدث البانی پر بہت بڑا اتہام ہے جس سے تقی صاحب کو توبہ کرنی چاہیے ورنہ  حساب وکتاب کا وقت دور نہیں!

محدث البانی کی دل میں جس قدر سلف کا حترام موجود تھا آج کے دور میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ صرف یہاں تک بس نہیں بلکہ اس پر فتن دور میں سب زیادہ منہج سلف کا پرچار کرنے والے یہی شخص تھے انہیں کتاب وسنت کی تفہیم میں سلف کے فہم پر مکمل بھروسہ تھا۔اس کی متعدد امثلہ موجود ہیں تو ایسے شخص کے بارے میں اس طرح کا تاثر ظاہر کرنا بددیانتی اور انصاف کا خون ہے۔

یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سلف صالحین کی بےادبی کرنے والے کون ہیں؟

سب سے زیادہ اسلاف امت(صحابہ تابعین وتبع تابعین وائمہ دین)کی بے ادبی وگستاخی کرنے والے مقلدین احناف ہیں،ان  کے نشتروں سے نہ صحابہ محفوظ ہیں اور نہ ہی ائمہ ہدی !

اس بارے میںایک جھلک دیکھنے کے لیے ہمارے دوست محترم المقام ابونعمان زبیرصادق آبادی کی کتاب’’آئینہ دیوبندیت‘‘ (ص۵۲تا۶۰و۳۸۲تا۴۰۷) ملاحظہ کریں۔

تیسرے الزام کی حقیقت:

مفتی صاحب کا محدث البانی پر تیسرا اتہام یہ ہے کہ وہ معاذاللہ اپنے مطلب  کی احادیث کوصحیح اور مطلب کے خلاف احادیث کو ضعیف کہتے تھے !

حالانکہ محدث البانی کی کتب کا مطالعہ کرنے والے بخوبی واقف ہیں کہ وہ  اس خصلت سے کوسوں دور تھے بلکہ محدث البانی رحمہ اللہ  اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے  اپنے موقف  کی تائید کرنے والی  کئی احادیث کو ضعیف کہاہے اور اسی طرح مخالف کے موقف کی تائید کرنے والی روایات کی تصحیح بھی فرمائی ہے۔

اس کی متعدد امثلہ بھی موجود ہیں۔

مفتی صاحب جو الزام محدث البانی پر لگارہے ہیں امام صاحب تو اس سے بری ہیں والحمدللہ۔۔۔۔باقی یہی عادت مفتی تقی صاحب اور ان کے ہم مسلک علماء  میں پائی جاتی ہے۔

جیساکہ مفتی تقی صاحب نے ایک ہی راوی کو اپنی کتاب میں ثقہ کہا وہی راوی جب مطلب کے خلاف روایت میں آیا تو اسے اسی ہی کتاب میں ضعیف قرار دے دیا۔کمامرمعنا

اوراسی طرح مفتی تقی صاحب کے ممدوح علامہ نیموی اپنی مرضی کے خلاف  روایت پر جرح کرتے ہوئے  شریک بن عبداللہ کی تضعیف کی۔[آثارالسنن ح:۳۲]

دوسری طرف انہی سے مطلب کے موافق مروی روایت کی تحسین  کردی۔[آثارالسنن ح۲۳۹]

سرفراز صفدر صاحب نےعبداللہ بن لہیعہ پر خزائن السنن میں کئی مقامات پر جرح کی۔[خزائن السنن ج۱ص۲۵،۶۱،۴۳۱]

 جب یہی راوی مطلب کی روایت میں آیاتو سرفراز صاحب نے اسی کتاب میں اسے حسن الحدیث کہ دیا۔

[خزائن السنن ج۲ص۳۸۵،۱۳۵]

اختصار کو مدنظر رلکھتے ہوئے ان چند امثلہ پر اکتفاء کیاجاتاہے ورنہ میری معلومات کے مطابق  کوئی بھی حنفی عالم تناقضات سے سالم نہیں ۔

مفتی صاحب نے جو الزام محدث وقت پر لگایا اسی ہی میں اپنے اکابرین بلکہ اپنے آپ کو بھی گرفتار پایا۔

محدث البانی اور صحیحین کی احادیث پر جرح:

ہمارے نزدیک صحیح البخاری وصحیح مسلم کی تمام تر مرفوع متصل روایات کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔

ہمیشہ سے علماء حق  صحیحین کی احادیث کا دفاع کرتے ہوئے آرہے ہیں بلکہ  ہم اس دفاع کو اپنے  ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

جیساکہ ذہبی عصر حافظ زبیر علی زئی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صحیح بخاری وصحیح مسلم اور مسلک حق: مسلک اہل حدیث کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔یہ باتیں جذباتی نہیں بلکہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے۔

[علمی مقالات ج:۶ص:۳۷۷،۳۷۸]

جہاں تک تعلق ہے محدث البانی کا کہ انہوں نے صحیحین کی بعض احادیث پر جرح کی ہے تو یہ انکی اجتہادی خطا ہے،اس پر وہ ماجور ہونگے ۔ان شاءاللہ

About محمدابراھیم ربانی

Check Also

اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *