Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » July Magazine » ثقات سے وہم اور خطاءکا امکان اور آل تقلید کا باطل اصول

ثقات سے وہم اور خطاءکا امکان اور آل تقلید کا باطل اصول

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

قارئین کرام :خطاء، وہم،غلطی اور نسیان سے کوئی بھی انسان مبرا نہیں،اس لئے ثقہ رواۃ سے وہم یا خطا کا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ، بلکہ عین ممکن ہے۔ علم حدیث ورجال سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اصول حدیث کی رو سے ایسے ثقات کی صرف وہی مرویات ضعیف متصور ہوں گی جن میں وہم یا خطا ثابت ہوجائےٍ۔ جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتےہیں:

وهذا أيضا مما ينبغي ان يتوقف فيه فإذا جرح الرجل بكونه أخطأ في حديث أو وهم أو تفرد لا يكون ذلك جرحا مستقرا أولا يرد به حديثه .

یعنی اس طرح کی جرح میں توقف کرناچاہیے کہ جب کسی راوی پرصرف اس وجہ سے جرح کی جائے کہ اس سےکسی روایت میں غلطی ہوئی ہےیا وہم سرزد ہوگیاہے یا وہ کسی روایت میں منفردہے،یہ کوئی مستقل جرح نہیں ہے اور نہ ہی اس بنیادپراسکی (ہر)حدیث کو ضعیف کہاجائیگا۔[لسان المیزان ج۱ص۲۱۴طبع دارالبشائر]

اسی اصول  کے پیش نظر محدثین  عظام نے  آمین بالسر والی روایت کو شعبہ بن الحجاج العتکی(ثقہ بالاتفاق) کے وہم کی وجہ سے ضعیف قرار دیا۔

[سنن الدارقطني ج۲ص۱۲۸ح۱۲۷۰بتحقیق شعيب الارنؤوط، العلل الکبیر للترمذی ج۱ص۶۸ح۹۸،معرفة السنن والآثار ج۲ص۳۹۰]

انہی کے مبارک نہج پر گامزن ذہبی دوراں محدث العصرحافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ  نے اس روایت کی تضعیف کی تو  جامعہ فاروقیہ کراچی کے فارغ التحصیل مولوی عطاءاللہ عمر دیوبندی نے ایک روایت  پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:اس روایت کی سند میں ایک راوی امیر المؤمنین فی الحدیث شعبہ کو یہ محققین(شیخ زبیرعلی زئی) تسہیل الوصول صفحہ۱۵۹ پر احناف کی مستدل روایت نقل کرنے کے جرم میں وہم اور خطاء کے مریض ٹھہرا چکے ہیں۔۔۔جب احناف کی مستدل روایت نقل ہورہی ہے تو شعبہ جیسے محدث بھی ضعیف ٹھرتے ہیں یہ قوم شعیب کے پئمانے (لینے کے اور دینے کے اور) ان کے پاس ہیں،جس کو چاہے ضعیف کہہ دیں ۔فواہ! علی ضعیۃ الانصاف[نمازنبوی کا جائزہ ص۲۹۹ ناشر:ادارۃ الرشید کراچی]

موصوف کی اس عبارت سے یہ بات مترشح ہورہی کہ ثقہ راوی پر خطاء  یا وہم کا الزام لگنے سے اس کی تضعیف ہوجاتی ہے۔ آنجناب کی یہ بات اصول محدثین بلکہ اپنے علماء کی کتب سے جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محدثین کرام نے کئی ثقات کی بعض روایات کو وہم کی وجہ سے ضعیف کہنے کے باوجود اس راوی کی  ثقاہت  وعدالت پر آنچ تک نہیں آنے دی۔ اس طرح کی امثلہ سے کتب حدیث  وعلل بھری پڑی ہیں۔اطمئنان قلب کے لئے  صرف  جامع ترمذی سے چند مثالیں  پیش خدمت ہے۔

اسی راوی (شعبہ) کو  زیدبن يُثَيع کا نام لینے میں غلطی ہوئی، تو امام ترمذی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۹ھ) نے شعبہ کے وہم کی  نشاندہی  کرتے ہوئے فرمایا:

 وَقَالَا زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَهَذَا أَصَحُّ وَشُعْبَةُ وَهِمَ فِيهِ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ.

سفیان بن عیینہ اور ابواسحاق نے  زیدبن یثیع نام لیا ہے اور یہ ہی صحیح ہے اور شعبہ کو اس کا نام لینے میں وہم  لگا ہے۔[جامع ترمذی تحت حدیث۸۷۲)

دوسری طرف امام ترمذی رحمہ اللہ نے شعبہ سے مروی متعدد احادیث کی تصحیح بھی کی ہے، جو کہ ان کی طرف سے امام شعبہ کی توثیق ہے۔

معروف صحیح العقیدہ وثقہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے ایک مروی روایت کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

 وَحَدِيثُ ابْنِ المُبَارَكِ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ ابْنُ المُبَارَكِ.

یعنی اس  حدیث میں ابن مبارک سے خطا ہوئی ہے ۔[جامع ترمذی تحت حدیث۱۰۵۱] جبکہ ابن مبارک کی بھی امام صاحب  نےتصحیح حدیث کے ذریعہ توثیق کردی ہے۔

امیرالمؤمنین فی الحدیث امام محمدبن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ مشہور ثقہ راوی جریربن حازم کی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي هَذَا الحَدِيث.

اس حدیث میں جریر بن حازم رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے۔ حالانکہ جریر بن حازم امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ راوی ہے اس پر صحیح بخاری کی کئی احادیث شاہد ہیں۔  ہمارا مقلدین سے سوال ہےکہ کیا شعبہ بن حجاج ، عبداللہ بن مبارک اور جریربن حازم aکی بعض  احادیث میں خطا و وہم کی وجہ سے محدثین نے تضعیف کی ؟ یا ان کے وہم کی نشاندھی کرنے والے ائمہ کے نزدیک ان کوکسی نے ضعیف سمجھا؟حاشاوکلا،بلکہ ان کی تو ثیق پر ائمہ حدیث کا اجماع  واتفاق ہے۔ تو انہی کے علم ومنہج کے سچے امین محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کاشعبہ کی روایت کو (ثابت شدہ)وہم کی وجہ سے  ضعیف کہنے سے ان کے نزدیک شعبہ کو ضعیف کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ جبکہ محدث زبیرعلی زئی نے تو شعبہ کے بارے میں واضح طورپرلکھاہے:شعبہ بن الحجاج کتب ستہ کے راوی اورثقہ ،حافظ ومتقن ہیں ۔

[القول المتین ص۳۶مکتبہ اسلامیہ لاہور]

 مزید اس اصول کو اپنے اکابرین کی زبانی سمجھئے:

آل دیوبند کے سنجیدہ طبقے میں بہت بڑامقام رکھنے والے مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:۔۔۔کیونکہ خطاء ونسیان ثقہ سے بھی ممکن ہے،اور اس کا امکان ہے کہ کسی راوی سے کوئی وہم ہواہو۔[درس ترمذی ج۱ ص۸۳ طبع مکتبہ دارالعلوم کراچی]

ایک اور مقام پر زیر بحث راوی(شعبہ) کے بارے میں فرماتے ہیں:۔۔۔یعنی شعبہ کو کبھی کبھی لوگوں کے نام ذکر کرنے میں وہم ہوجاتا تھا۔۔۔اس لئے بعض اوقات اسانید میں انہیں وہم ہوجاتا ہے۔۔۔ کہ اگرچہ شعبہ سے رجال کے ناموں وغیرہ  میں کبھی کبھی غلطی ہوجاتی ہے۔۔[درس ترمذی ج ۱ص۵۱۷طبع مکتبہ دارالعلوم کراچی]

اب اس نادان مقلد کو چاہئے کہ اہلحدیث کے سرخیل محدث زبیرعلی زئی رحمہ اللہ پر غصہ کرنے کے بجائے اپنے شیخ الاسلام تقی عثمانی پر کریں جو کہ واضح طور پر شعبہ کواسانید میں متوہم قرار دے رہے ہیں۔

معروف دیوبندی عالم جناب سرفرازخان صفدرصاحب لکھتے ہیں: اورفن اصول حدیث کایہ طے شدہ قاعدہ ہے کہ معمولی وہم،تغیر یسیراور نسیان کی وجہ سے ثقہ رواۃ کی روایات کو ہر گزردنہیں کیا جاسکتا۔

[احسن الکلام ج۱ص۳۰۸مکتبہ صفدریہ]

مزید لکھا:یعنی متن اورسند میں خطا سے کون محفوظ رہ سکتاہے۔

[احسن الکلام ج۱ص۳۰۹مکتبہ صفدریہ]

مزید لکھتے ہیں:امام عبداللہ بن مبارک فرماتےہیں کہ وہم سے کون بچ سکاہے۔امام احمدفرماتے ہیں کہ امام یحیی بن سعیدپختہ کارمحدث تھے اوربہت کم خطاءان سے سرزد ہوتی تھی مگرباوجوداس کے چند حدیثوں میں ان سے بھی خطاء ہوئی ہے۔[احسن الکلام ج۱ص۲۴۹طبع مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ]

اور اسی طرح جریربن ابی حازم کی ایک روایت کے بارے  میں مشہور حنفی عالم علامہ زیلعی (المتوفی۷۶۲ھ) فرماتے ہیں:اخطأ فیہ جریربن حازم. یعنی اس حدیث  میں جریربن حازم نے خطا کی ہے۔[نصب الرایہ ج۳ص۱۸۵ طبع دارنشرالکتب الاسلامیہ لاہور]

نیزاسی راوی کے متعلق مفتی تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:جریربن حازم کو وہم ہوگیا ہےاوراسے نماز جمعہ کا واقعہ قرار دیا۔

[ درس ترمذی ج ۲ص۲۹۷طبع مکتبہ دارالعلوم کراچی]

کیا مولوی موصوف اپنے بناوٹی باطل اصول پر چلتے ہوئے یہ دعوی کرینگےکہ صحیحین کا راوی جریربن حازم احناف (بالخصوص زیلعی اورتقی عثمانی )کے نزدیک ضعیف ہے؟ حالانکہ اس راوی کی زیلعی حنفی نے بھی توثیق کی ہے۔[نصب الرایہ ج۴ص۹۶طبع دارنشرالکتب الاسلامیہ لاہور]

  اوراسی طرح یزیدبن ابی زیاد احناف کے نزدیک ثقہ راوی ہے، جیسا کہ یہی مولوی عطاءاللہ صاحب لکھتا ہے: یزیدبن ابی زیاد کویوں علی الاطلاق ضعیف کہنا صرف مذکورہ بغض کا اثر انصاف کا خون اور دیانت کا سودا ہے ۔[نمازنبوی کا جائزہ ص۲۴۱ناشرادارۃ الرشید کراچی]

دیوبندی حضرات اس کی روایات( بالخصوص ترک رفع الیدین والی روایت)استدلال بھی کرتے ہیں ،(مثلا دیکھئے انوار خورشید دیوبندی کی کتاب حدیث اوراہلحدیث ص 397طبع مکتبہ اہلسنت لاہور]دوسری طرف دیوبندی مناظر ماسٹر امین اوکاڑوی  نے  یزیدبن ابی زیاد سے مسح  علی الجوربین  کے متعلق مروی  روایت کو  ان کا وہم قرار دیکر اسے ضعیف کہہ دیا  ۔

[تجلیات صفدر ج۲ص۱۸۶طبع مکتبہ امدادیہ ملتان]

مولوی عطاءاللہ اور ان کی تائید کرنے والے دیوبندی مناظر منظور مینگل صاحب سے گذارش ہےکہ اپنے خود ساختہ اصول پر چلتے ہوئے یزیدبن ابی زیاد کی تضعیف کریں کیونکہ ان کو ماسٹر اوکاڑوی نے  متوہم قرار دیا ہے جو کہ موصوف کے اصول کے مطابق تضعیف ہے۔

تنبیہ:یزیدبن ابی زیاد محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ (تفصیل ملاحظہ کیجئے نورالعینین فی اثبات رفع الیدین ص۱۴۵ طبع جدید) احناف کا اسے ثقہ کہنا انصاف کا خون  اور دیانت کا سودا ہے۔

معلوم ہوا کہ اکابرین دیوبند کے نزدیک بھی  موصوف کا  اصول باطل اور محدثین کا اصول صحیح وبرحق ہے۔ موصوف  جس بات کی وجہ سے اہلحدیث پر برس رہے تھے وہی بات ان کے اکابرین سے ثابت ہوگئی۔ الحمدللہ علی ذلک

About محمدابراھیم ربانی

Check Also

اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *