’’محا سبۂ نفس‘‘
تجھ کو کیاہوگیا، تیراحال ہے عجیب
کچھ فکر کر حشر کی، جو بہت ہے قریب
ہے یہ دنیا کی زینت، متاعِ غرور
دل لگاتا نہیں یاں کوئی بندہ لبیب
دنیا کی زندگی ہے، مومن کا قید خانہ
خود کو لام بناتو، اپنے نفس کا حسیب
وقت کم ہے بہت، سنبھل جا ذرا تو
آخرت کی فکر کر اور بن جا منیب
ہولناکیاں حشر کی، پرخطر ہیں بہت
ہیں بہت سے عذاب واں اور گھاٹیاں مہیب
نہ رہے گا ہمیشہ یہاں تو اے غافل
ہیں یہاں پہ سبھی ،مثل مسافر غریب
نقش پا پہ تو نہ چل، شیطاں کے کبھی
روپ میں خیرخواہ کے، وہ ہے تیرارقیب
رب کو تو یاد رکھ، نہ بھلا تو اسے
وہ بڑا ہے مہرباں اور سمیع مجیب
اس کی رحمت طلب کر اوقاتِ سحر میں
اس کی طاعت میں آکر، بن جا اس کا حبیب
خیر کی راہ پہ، گامزن گر رہا تو
آخرت میں تو ہوگا، کامراں خوش نصیب
ہوش کر اثری، تو ہے کھویا کہاں
رب کوراضی تو کرلے، ہے یہ پیغامِ ادیب