شیخ العرب والعجم سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

شیخ العرب والعجم سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

بانی اور امیر اول
مختصر تعارف
مؤسس وامیر اول جمعیت اہل حدیث سندھ
شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی؛ حیات و خدمات
نام
سید بدیع الدین شاہ الراشدی
کنیت
ابو محمد
ذات
سید
تاریخ پیدائش
بدھ۱۳۴۴/۱۰/۲۹، مطابق ۱۹۲۶/۵/۱۲ع
پیدائش کامقام
گوٹھ فضل اللہ شاہ (پرانا پیر جھنڈو) نزد نیو سعید آباد ،ضلع مٹیاری،(سابقہ ضلع حیدر آباد) سندھ
خاندانی پس منظر: علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے : بدیع الدین بن احسان اللہ بن رشد اللہ بن رشید الدین بن سید محمد یاسین بن سید راشد شاہ الحسینی ۔
قاضی فتح محمد نظامانی تفسیر مفتاح رشد اللہ؟میں سید راشد شاہ کا نسب نامہ سیدنا حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہماسے ملایا ہے ۔ اس طرح علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ اپنی چالیسویں پشت میں سیدناحسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتےہیں ۔
جناب سید راشد شاہ کی اولاد کو راشدی حسینی کہا جاتا ہے ۔سید راشد شاہ کےبڑوں میں سید علی مکی عراق کے شہر کاظمین سے ہجرت کر کے موجودہ ضلع دادو میں لکی شاہ صدر کے پاس آکر ٹھہرے ،ان کی اولاد کو لکیاری سادات کہا جاتاہے ۔راشدی لکیاری سادات میں سے ہیں ۔ سیدراشد شاہ کے خاندانی اور دینی جانشینی کے لحاظ سے اولاد میں دو سلسلے چلے:
(1)پیر پگاروخاندان (2) پیر جھنڈو خاندان۔ علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی کا تعلق پیر جھنڈو خاندان سے ہے ۔
پیر جھنڈو خاندان کا علمی مقام بلند رہا ہے ۔شاہ صاحب کے پرداداسید رشید الدین شاہ الراشدی نے عمل بالحدیث کو ترجیح دی اور تصوف کے بعض غلط مسائل کا رد کیا ،ان کے فرزند سید رشد اللہ شاہ سید نذیر حسین دھلوی اور امام شوکانی کے تلمیذ رشید علامہ حسین بن محسن الانصاری الیمانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگردتھے، انہوں نے حدیث کی خدمت کی اور مسلک اہل حدیث کی تائید میں، اور مخالفین کے رد میں بیشتر کتابیں لکھی ہیں۔

بانی اور امیر اول

تعلیم وتربیت : علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی  نے اپنے خاندانی مدرسہ “دار الرشاد”میں تعلیم حاصل کی اور شروع میں اپنے والد احسان اللہ شاہ الراشدی  کے زیر تربیت رہے، ان کے والد ماجد محب السنۃ اور سلفی العقیدہ عالم دین تھے۔ ۱۹۳۸ء میں سید احسان اللہ شاہ الراشدی نے وفات پائی، اس وقت علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی   کی عمر چودہ یا پندرہ سال تھی۔

اساتذہ:علامہ سید محب اللہ شاہ الراشدی، شیخ محمد اساعیل بن عبدالخالق سندھی، شیخ ولی محمد بن عامر کیریو، شیخ محمد نور عیسیٰ خیل، شیخ

بہاؤ الدین جلال آبادی، شیخ محمد مدنی، شیخ عبداللہ بن عمر بن عبدالغنی، شیخ محمد بن خلیل بن محمد سلیم۔

سنداجازہ: تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی  نےدرج ذیل علماء کرام سے سند اجازہ حاصل کی۔

۞علامہ ابوالوفاء ثناء اللہ امر تسری۔۞ شیخ حافظ عبداللہ روپڑی امرتسری۔۞ محدث ابوسعید شرف الدین الدھلوی۔۞ شیخ محدث ابو اسحاق نیک محمد۔ شیخ محدث ابو محمد عبدالحق بھاولپوری رحمہم اللہ تعالیٰ

قوت حافظہ: اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب  کو بڑی قوت حافظہ سے نوازا تھا۔ آپ نے تین مہینوں میں قرآن مجید حفظ کیا اور بے شمار احادیث کے حافظ تھے۔ تصنیف وتالیف کے لئیے ایک ہی وقت میں مختلف کاتبوں کو املاء کراتے جس سے محسوس ہوتاکہ آپ اپنے عظیم مکتبہ کے حافظ ہیں۔

علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کے کچھ کارہائے نمایاں:

جمعیت اہل حدیث سندھ کا قیام:

شاہ صاحب کی دعوتی وتعلیمی سرگرمیوں کا میدان اگر چہ پوراپاکستان اوردیگر اسلامی ممالک تھے مگر زیادہ طورپر آپ کی توجہ صوبہ سندھ پر رہی ، صوبہ سندھ اپنی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں  نیز مساجد ومدارس کے قیام کے معاملات کو منظم اورمربوط کرنے کیلئے “جمعیت اہل  حدیث سندھ ” کے نام پر باقاعدہ ایک نظم قائم کیا۔

جمعیت اہل حدیث سندھ ،صوبہ سندھ کی سطح پرمسلک اہل حدیث کی ایک نمائندہ تنظیم ہے، جو اپنے آغاز (قبل از قیام  پاکستان )سے لیکر آج تک مسلک اہل حدیث کی نمائندگی کرتے ہوئےخدمت قرآن وحدیث ،دعوت توحیدوسنت، عوام الناس کی دینی تربیت اور ان کی حتی الامکان دنیوی خدمت  میں مصروف عمل ہے۔

دعوت توحیدا ورشرک وبدعت:سندھ کی جہالتوں اورشرک وبدعات کی کثرت کو دیکھتے ہوئےشاہ صاحب نے دعوت وتبلیغ کے سلسلہ کوپورے سندھ تک پھیلایااوروسائل کی کمی،بعض علاقوں میں راستوں کی مشکلات کے باوجود طوفانی دورے کئےبالخصوص ضلع تھرپارکرجو سندھ کاانتہائی پسماندہ علاقہ ہے اورشاہ صاحب کے دورمیں توشاید پورے تھرپارکر میں کوئی ایک پکاروڈیاپکی سڑک تک نہ تھی ،تھرپارکر میں شاہ صاحب نے بہت توجہ دی اوربہت زیادہ دورے کیے۔شاہ صاحب کی اس محنت کانتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آج ضلع تھرپارکراہل حدیث کا مرکزہے،جہاں کثیر تعدادمساجد اورتمام بڑے شہروں میں مدارس ہیں۔

شاہ صاحب نے جب دعوت وتبلیغ کا آغاز کیا اس وقت سندھ میں جماعت اہل حدیث کی چند مساجد تھیں،آپ کی وفات کے وقت بحمدللہ تعالیٰ وفضلہ سندھ میں زیر نظم جمعیت اہل حدیث سندھ  800مساجد اہل حدیث موجود تھیں۔اللَّهُمَّ زد فزد

خطابت :شاہ صاحب  ایک  اچھے خطیب تھے، انہیں سندھی، اردو، اور عربی زبان  میں خطابت کی  مہارت تامہ حاصل تھی، شاہ صاحب کے خطابات،تقاریراوردروس کے اہم موضوعات توحید ، رد شرک وبدعت ،اتباع سنت اور ردِ تقلید تھے۔ اپنی جوانی کے دور میں شاہ صاحب ۳ سے ۴ گھنٹے تک تقریر کرتےتھے اور قرآن کو میٹھی آواز اور اچھے انداز میں پڑھا کرتے تھے۔ ان کی تقریر میں بھی استدلال اور مناظرے کا انداز غالب تھا، لوگ کبھی بھی ان کی تقریر سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس نہیں کرتے تھے۔

شاہ صاحب حرمین شریفین میں بھی کافی سال قیام پذیر رہے، بیت اللہ شریف میں روزانہ درس دیا کرتے تھے، وہاں عربی کے ساتھ ساتھ اردو اور سندھی میں بھی دروس ہواکرتے تھے۔

مناظرہ: شاہ صاحب نے جس ماحول میں سندھ کے اندر کام شروع کیا تھا وہاں مخالفت اور مناظرہ ہونا لازمی امر تھا۔ شاہ صاحب نے اثبات حق اور ردِ باطل کے لئے بہت سارے مناظرے کئے، رموز راشدیہ میں بھی شاہ صاحب کے کافی مناظروں کی تفصیل آئی ہے، ان کے علاوہ شاہ صاحب نے تحریری مناظرے بھی  کئے جن میں سے کچھ مطبوع اور کچھ غیر مطبوع ہیں۔

تالیف وتصنیف: توحید وسنت کی دعوت عام کرنے کیلئے شاہ صاحب نے سندھی، اردو اور عربی زبان میں تقریباً ۱۵۰ کتابیں تصنیف فرمائیں۔

(۱)”بد يع التفاسير” (سندھی زبان میں )، یہ تفسیر قرآن مجید کی سورۂ الحجر کی ابتدائی آیات تک چند کاتعارف پیش خدمت ہے، جو کہ ایک مقدمہ اور دس جلدوں پر مشتمل ہے اور مطبوع ہے۔ بد يع التفاسيرعقیدۂ سلف کے بیان ،توحید وسنت کی دعوت اوراحقاق حق وابطال باطل میں ایک عظیم الشان تالیف ہے۔

(۲)توحید خالص ،توحید اسماء وصفات اور وسیلہ کے موضوع پر بے نظیر کتاب عقیدہ توحید جس میں عقیدۂ توحید کو عام فہم انداز سے سمجھایا گیا ہے اس کتاب سے بہت سوں کو توحید کی معرفت حاصل ہوئی اوروہ شرک وبدعات سے تائب ہوئے۔

(۳)عقیدہ توحید اور علمائے سلف کی خدمات

(۴)حق و باطل عوام کی عدالت میں

(۵)اسلام میں داڑھی کا مقام

(۶)مروجہ فقہ کی حقیقت

(۷)مقالاتِ راشدیہ

(۸)اتباع سنت

(۹)امامت کے اہل کون؟

(۱۰)تحقیق جزء القرأۃللبخاری

تدریس:شاہ صاحب کازیادہ تروقت توتبلیغی دوروں میں صرف ہوااوراس بات کافائدہ بھی بہت ہواالبتہ شاہ صاحب تدریس سے بھی وابستہ رہے، شاہ صاحب  نے ابتداء میں اپنے مدرسہ “المدرسہ المحمدیہ”میں پڑھایا، ۱۹۷۴ءسے ۱۹۷۸ءتک مکۃ المکرمہ میں قیام پذیر رہے، وہاں حرم شریف میں حدیث اور تفسیر کی کتابیں پڑھاتے تھے جہاں دنیا کے کونے کونے سے بے شمار  طلباء وعلماء نے آکر ان سے استفادہ کیا، اس کے  ساتھ ہی کچھ عرصے تک وہاں “دار الحدیث الخیریہ”میں مدرس کی حیثیت سے رہے، پاکستان واپس آنے کے بعد ملک اور بیرون ممالک سے طلباء آکر شاہ صاحب سے  استفادہ کیا کرتے تھے اورمختلف علوم وفنون پڑھتے تھے۔

تلامذہ: آپ کے شاگردوں نے دنیا کے کونے کونے میں توحید وسنت کی دعوت عام کی، آپ کے شاگردوں کی تعداد بے شمار   ہے۔ جن میں سے علامہ مقبل بن ھادی  الوادعی ، شیخ عاصم عبداللہ القریوتی ، شیخ حسن حیدر یمنی،  شیخ حمدی عبد المجید سلفی ،شیخ محمد موسیٰ افریقی، شیخ عمر بن محمد بن عبداللہ السبیل، شیخ عبد اللہ بن محمد الحربی شہیر، شیخ ربیع بن  ھادی المدخلی ،شیخ وصی اللہ عباس الہندی ،شیخ محمد شاہ الراشدی،شیخ نور اللہ شاہ الراشدی ،شیخ سعیدی بن مہدی البغدادی ، شیخ عبدالقادر بن حبیب اللہ السندی المدنی،  شیخ حافظ فتحي جهلمي،شیخ علی بن عامر یمنی ،شیخ نور اللہ بن شہباز الہندی ،شیخ حسن سعودی، شیخ اسلم بن محمدالاردنی ،شیخ سیف الرحمٰن بن مصطفی المکی ، شیخ صلاح الدین مقبول احمد ،شیخ شمس الدین افغانی ،شیخ محمد رفیق الاثری ،  شیخ ارشاد الحق الاثری ،شیخ عبداللہ ناصر الرحمانی، شیخ حافظ زبیر علی زئی ،شیخ عبدالرحمٰن چیمہ ،شیخ افضل اثری ،شیخ محمد ابراھیم بھٹی ،شیخ حافظ محمد سلیم ،شیخ محمد داؤدشاکر،حافظ مطیع الرحمٰن ، شیخ یعقوب ھوساوی المکی ،شیخ محمد حسین ظاھری ،شیخ محمد قاسم وغیرہ ،شاہ صاحب  کے شاگردوں میں سےہیں۔

مکتبہ راشدیہ کا قیام :شاہ صاحب  کو کتب بینی اور مطالعہ کا شوق ورثے میں ہی ملا تھا ،آپ کے جد امجد علامہ سید رشد اللہ  شاہ الراشدی  نے باقاعدہ مکتبہ کی بنیاد رکھی تھی جس میں بے شمار نادر و نایاب قلمی کتب موجود تھیں ،شاہ صاحب نے اس مکتبہ کو منظم کیااوراس میں مسلسل کتب کااضافہ کیا، شاہ صاحب کے دور میں یہ مکتبہ علماء ،مؤرخین اورمحققین کامرجع تھا،مکتبہ پرانی عمارت کے خستہ حال ہونے کی وجہ سے چند سال پہلے نئی عمارت میں منتقل ہوچکاہے۔

وفات

۸ جنوری ۱۹۹۶ء کی رات بعد نماز عشاء موسی لین لیاری کراچی میں شاہ صاحب  کی روح اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرواز کرگئی(إنا لله و إنا إليه راجعون)۔۹ جنوری کو جامع مسجد فردوس آزاد پیر جھنڈو نیو سعید آباد میں نماز جنازہ ہوئی، نماز جنازہ ان کے تلمیذ خاص اور علمی جانشین فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے پڑھائی بعد ازاں  قریہ  پیر جھنڈو نزد نیو سعید آباد میں اپنے والد ماجد اور بڑے بھائی علامہ محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ  کے پہلو میں دفن کئے گئے۔

اللّٰهُمَّ اغفرلہ وارحمہ