Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ جولائ » فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی

فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی

فضیلۃالشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی بلاشبہ پاکستان کے لئے علمی لحاظ سے سرمایہ اعزاز افتخار ہیں۔آپ کی لِلاہیت،تقویٰ، طہارت، رسوخ فی العلم کے اپنے خواہ غیر سبھی معترف ہیں، آپ ایک اچھے منتظم، بلند پایہ محقق، مثالی مدرس، داعی الی الحق ،بیدارمغز ،صاحب طرز ادیب وانشاءپرداز، اور سنجیدہ خطیب شمار کیے جاتے ہیں۔آپ طلباء کے لئے مشفق ،علماء کرام کے قدردان، اپنے پرائے سبھی کی بات خندہ پیشانی سے سننے کی عادت سے سرفراز ہیں۔ آئے دن آپ کے مقالات ومحاضرات علمیہ، ملکی اور غیر ملکی جرائد کی زینت بنے نظر آتے ہیں، جن سے آپ کی علمی بصارت وبصیرت کا اندازہ لگانا مشکل نہیںفضیلۃ الشیخ مکرم کے متعلق مولانا محمد اسحٰق بھٹیaایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ عبداللہ ناصر رحمانی (نے مولانا عبدالخالق قدوسی سے بھی ) کراچی میں (علمی) استفادہ کیا۔ (شیخ صاحب) جماعت اہل حدیث کے بڑےمعروف اور قابل عالم ہیں، حدیث پر گہری نگاہ ہے۔
(نقوش عظمت رفتہ،ص:328)
آپ کی تحریر وتقریر کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ اس انتشار وافتراق کے دور میں بھی بلاوجہ کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرتے، آپ ذاتیات سے بلند وبالا ہوکرصرف کلمہ حق وسچ کواجاگر کرتے ہیں۔ علوم ومعارف اسلامیہ کے لحاظ سے بلاشبہ آپ ایک چلتا پھرتا ’’دبستان‘‘ ہیں آپ کی محنت سے عروس البلاد کراچی میں ایک عظیم اسلامی، علمی اور تربیتی دینی دانش گاہ المعہد السلفی للتعلیم والتربیۃ کا انتظام وانتصرام چلتا ہے، جہاں آپ اس پر فتن دور میں علماء ،طلباء وعوام الناس کی کتاب وسنت کی روشنی میں ذہن سازی کے سلسلہ میں لائق تحسین کام سرانجام دے رہے ہیں،آپ ہر کام سلیقہ ،سنجیدگی اور قرینے سے کرنے کے عادی ہیں، انتظامی ،مالی اور جماعتی امور میں آپ ہمیشہ مشاورت ومعاونت کو ترجیح دیتے ہیں، آپ نے طلباء کی ذہن سازی کرتے ہوئے نہ صرف ان کی تربیت ،تزکیہ پر توجہ دی بلکہ درس،تدریس ،تحقیق وتدقیق ،تصنیف وتالیف ،دعوت وتبلیغ جیسے اہم امور بھی ترجیحاً اپنے پیش نظر رکھے ہیں۔
آپ ہمیشہ اعلاء کلمۃ الحق کو اپنی زندگی کا شعار بناتے ہوئے وطن عزیز میں کتاب وسنت کے نفاذ کے لیے کوشاں ،اورموجودہ فرقہ واریت ،تشدد پسندی کے عفریت سے بھی نالاں نظر آتے ہیں، آپ کا مؤقف ہے کہ امت مسلمہ جب تک صرف کتاب اللہ وسنت رسول اللہ پر پوری طرح اجماع نہیں کرتی تب تک نجات کی دوسری کوئی راہ نہیں،آپ جمعیت اہل حدیث سندھ کے میرکارواں بھی ہیں، آپ کی تحریر، تقریر، تدریس، تبلیغ وتلقین میں اکرام المسلمین ،نرمی، محبت، مروت، اخلاص ،انسانیت اور لِلاہیت کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں، آپ کسی سے کینہ وبغض رکھنا روا نہیں رکھتے،آپ علمی فکری، اجتہادی اور محدثانہ انداز سے عموما شیٰخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ الراشدی، کی معیاری صفات سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور علامہ شاہ صاحب کے فکر وفہم ،جہد وسعی، زہد وتقویٰ سے بیحد متاثر نظر آتے ہیں، چونکہ آپ شاہ صاحب کے قریبی قابل اعتماد ساتھی بھی رہے ہیں۔
دور جدید کے بڑھتے ہوئے مسائل ومفاسد بالخصوص مغرب زدگی، مادرپدرآزادی، الحاد، ارتداد،بے حیائی،بےپردگی ،سیکولرزم،کمیونزم، قوم پرستی ،فتنہ انکارحدیث، اور تقلیدی جمود کے بڑھتے ہوئے نقصانات کو بڑی شدت سےمحسوس کرتے ہوئے، ان کے سد باب کے لیے ہمیشہ کوشاں نظر آتے ہیں چونکہ دورجدید میں مادہ پرستی ،مغرب زدگی، شتر بے مہارآزادی، آوارہ گردی، دہریت، باطل فرقوں،بالخصوص خارجیوں کی خصال،تکفیری نظریہ نے دنیائے اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں حقیقی اساس اسلام کی روح بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے چونکہ اس وقت عالم کفر سے بھی زیادہ باطل فرقوں کے مفاسد کیوجہ سے دہریت۔ خدا،آخرۃ،وحی، دین مذہب سے انکار میں المناک حد تک اضافہ ہوا نظر آتا ہے۔ایسے ہمہ ہمت پرآشوب اور طاغوتی دور میںجبکہ ملت مسلمہ کے لیے بے پناہ مصائب بڑھ گئے ہیں تو عوام الناس میں آپس کے اختلافات کی خلیج کو کم کرکے خالص قرآن وسنت پر عمل کرنے اور اسلام دشمن عناصر کے زہرآلود پروپیگنڈہ کامؤثر جواب دینا امت مسلمہ کے لئے بیحد ضروری ہوگیا ہے۔ لاریب یہ وقت امت کے لئے انتہائی کڑا ہے، ایسے میں شیخ صاحب بفضل خدا شب وروز دعوت وتبلیغ میں مصروف نظر آتے ہیں، اندورن اور بیرون وطن،دُور افتادعلاقوں تک قرآن وسنت کی دعوت پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کو منجملہ مفاسد اور نقصانات سے محفوظ ومامون رکھے یہ وطن عزیز ے پناہ مالی جانی قربانیوں سے اسلام کے پاکیزہ نام پر بنا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسلام کاحقیقی قلعہ بنائے ۔آمین
ایسے میں امت مسلمہ کا اغیار کی بھول بھلیوں میں مصروف ہوکر سلف صالحین کے فکر ونہج دینی اہداف سے ہٹ جانے کے سد باب کے لیے عصری باطل قوتوں کا جواب دینے کی غرض سے شیخ صاحب نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عرصہ سے حیدرآباد سندھ سے ماہنامہ دعوت اہل حدیث بیک وقت سندھی اور اردو میں جداجدا جاری کیے ہوئے ہیں جس میں حقانیت اسلام، متعرضین کے جوابات، دینی اعتبار سے اچھے معیاری مضامین منتخب کرکے نئی نسل کے لیے دورجدید کے تقاضوں کے تحت علماء ،طلباء اور عوام الناس میں اسلامی فکر وفراست پھیلانے کی کوششیں بھی جاری ہیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص عمل کی توفیق عطا فرمائے اور لوگوں کوخالص قرآن وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
علامہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی اللہ تعالیٰ کی دینی وملی خدمات کو کچھ اس طرح بیان کیاجاسکتا ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
مگر اس کی صنعت ہے روح انسانی
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ شیخ مکرم اتنے علمی تفوق کے باوجود رعونت، تعلی، خودشنائی، خود ثنائی کے بجائے مزاجاً آپ ہمیشہ محبت، مؤدۃ، اخوت، مروت، شرافت،شائستگی، دریادلی، وسیع النظری، وضع داری اور رواداری سے متصف نظر آتے ہیں۔
اگر آپ کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں توفضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی خاندانی لحاظ سے ایک انتہائی معیاری شریف خاندان سےتعلق رکھتے ہیں گو کہ آپ کے والد گرامی میاں عبدالرشید اگرچہ کوئی بڑے عالم نہ تھے، تا ہم آپ کا پوراگھرانہ، دیانت دار، خدا ترس اور دیندار تھا، آپ کے والد ماجد اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء کرام سے محبت کرتے تھے اور ان سے خوب علمی استفادہ کرتے رہتے تھے، قیام پاکستان سے قبل آپ کا خاندان کچھ وقت ’’پٹنہ‘‘ میں بھی قیام پذیر رہا تھا،وہاں ایک جید عالم دین مولانا عبدالخبیر رہتےتھےجن سے میاں عبدالرشید کی عقیدت مندی تھی ان سے بھی علمی لحاظ سے خوب استفادہ کیا کرتے شیخ مکرم بچپن میں قیام گوجرانوالہ کے دوران ایک بار گھر سے قریب تالاب میں ڈوبتے ڈوبتے بچے تھے بلکہ خالق کائنات نے انہیں معجزانہ طریقہ سے محفوظ رکھا، شاید رب العزت کو آپ سے دین قیم کا کام لینا تھا، اس دلچسپ واقعہ کو شیخ مکرم بڑے متاثر کن انداز میں فرماتے ہیں ۔
آپ کا ذاتی تعارف کچھ اس طرح ہے: عبداللہ بن عبدالرشید بن رحیم بخش، قبیلہ ورک جس کا تعلق ’’جاٹ‘‘ قبیلہ سے بنتا ہے۔ رحمانی شیخ صاحب کے والد گرامی قدر کا لقب تھا، یہ کسی قوم یاقبیلہ وغیرہ سے متعلق نہیں۔
فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی ۲۸دسمبر۱۹۵۵ء کو عروس البلاد کراچی میں پیدا ہوئے،آپ کا بچپن اور جوانی اسی شہر میں گزری آپ کا ابتدائی اسم گرامی شکیل احمد تجویز ہوا تھا، مگر آپ کے استا د گرامی قدر مولانا کرم الدین سلفی نے تبدیل کرکے عبداللہ رکھا جس سے آپ نے شہرت پائی ، آپ نےاپنی زندگی کے چند ابتدائی سال گوجرانوالہ میں بھی گزارے جہاں پر آپ نے چوتھی،کلاس پڑھی جبکہ پانچویں کلاس کاامتحان کراچی میں دیا، مزید یہ کہ آپ نے انٹر میڈیٹ پرائیوٹ بھی کراچی سے کیا، نہ صرف اتنا بلکہ آپ نے کراچی یونیورسٹی سےمولوی فاضل عربی بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیاتھا۔پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد آپ کے والد ماجد نے آپ کو تحصیل علوم اسلامیہ کے لئے وقت کردیا۔
اور سب سے پہلے آپ کاداخلہ دارالحدیث رحمانیہ کراچی میں ہوا، اس وقت یہ دینی دانش گاہ شہرت کی حامل تھی۔جہاں شیخ مکرم نے بڑی محنت شاقہ سےنہ صرف مروجہ درسی کتب باقاعدہ پڑھیں بلکہ آپ نے خارجی مطالعہ ومشاہدہ کے لئے خود کوہمہ تن وقف کردیا، جس سے جامعہ رحمانیہ کےاساتذہ کرام بیحد متاثر ہوئے اور آپ باقاعدہ ہر سال امتیازی نمبروں سے تعلیم کی تکمل کرتے رہے،اور آپ نےاس زمانہ میں بڑی استقامت کامظاہرہ کرتے ہوئے پورے آٹھ سال کانصابِ تعلیم پایہ تکمیل تک پہنچایا۔جہاں سے امتیازی نمبروں سے سندالفراغ اور دستار بندی سے سرفراز ہوئے۔ مزید علمی تشنگیٔ دور کرنے کی غرض سے آپ نے جامعہ الامام محمد بن سعود اسلامیہ یعنی ریاض یونیورسٹی میں داخلہ لیا، یہاں بھی آپ کا حسن اخلاق،عادات واطوار،ذہانت وذکاوت ، علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے بلاتاخیر داخلہ مل گیا،جوکام اس زمانہ میں کسی اعجازسے کم نہ تھا، پھر آپ علوم اسلامی کے ہی ہوکررہ گئے،اور پورے چار سال کا کورس بھی بحسن خوبی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے امتیازی نمبروں سے تکمیل تک پہنچایا۔ان چارسالوں میں دیارغیر میں بھی آپ کوہر شعبہ اور ہر کلاس میں بفضل خدا علمی تفوق حاصل رہا، علا مہ شیخ رحمانیdکی فطانت وذہانت کا اندازہ آپ اس امر سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ آپ کی دلجمعی محنت شاقہ سے پوری جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض میں 54 ممالک کے طلبا میں آپ کومارکس کے لحاظ سے پانچویں پوزیشن حاصل ہوئی۔ تکمیل تعلیم کے بعد آپ وطن عزیز آتے ہی جامعہ رحمانیہ کراچی جیسے باوقار اسلامی ادارہ میں پورے آٹھ سال تک’’شیخ الحدیث‘‘ کے منصب جلیل پر فائزہوکر وطن عزیز کے طلبا کو علمی فائدہ پہنچاتے رہے، فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی نے ایام طالب علمی میں مولانا حاکم دین سے خصوصی علمی استفادہ کیا تھا، جنہیں اس دور میں’’جامعہ المعقول والمنقول ‘‘کے لقب سے یاد کیاجاتاتھا۔ شیخ مکرم نے آپaسے تفسیر، حدیث، اصول حدیث، مغازی، فقہ، میراث ،ادب،صرف ونحو وغیرہ میں خوب علمی استفادہ کیا، انہیں بالخصوص حدیث اور اصول حدیث میں اس قدر استحضار تھا کہ ،صحیح البخاری ثانی پڑھاتے وقت بھی وہ کتاب سے بے نیاز ہوکرعبارت سنتے اوراصلاح کرتے ہوئے علمی وقار سے نادرنکات کی روشنی میں تشریح وتوضیح کرتے جاتے، افسوس کے ایسے ماہر علوم اسلامیہ کو زندگی کے آخری حصہ میں فالج لاحق ہوگیا، مگر پھر بھی طلباء کے اصرار پر آپ نے فن تدریس سے رشتہ منقطع نہ کیا، اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائےا ور ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماکر جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔آمین
اس کے علاوہ شیخ صاحب نے جن علماء عظام ،اساتذہ کرام سے علمی استفادہ کیا ان میں 1مولانا عبدالعزیزفیصل آبادی2مولانا کرم الدین سلفی3مولانا عبدالجبارخطیب موتی مسجد4مولانا عبداللہ مسعود بلتستانی5مولانا عبدالرشید لداخی6مولانا محمد یعقوب وغیرھم جیسے فضلاء کرام واساتذہ عظام شامل ہیں۔
ریاض یونیورسٹی میں بھی کافی علماء کرام سے خوب علمی استفادہ کیا، جن میں محدث العصرعلامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازaمحدث العصر علامہ محمد بن صالح العثیمین فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالرؤف جیسےزعماء کے اسماء گرامی ناقابل فراموش ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصررحمانی کے ریاض یونیورسٹی میں سب سے بڑا علمی استفادہ علم العقائد میں کیا اس موضوع پر نہ صرف چھوٹی بڑی کتب مطالعہ کیں بلکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہaکا رسالہ ’’التدمیریہ‘‘ خصوصی تحقیق وتوجہ سے پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے علاوہ امت مسلمہ میں پھیلے مختلف بدعی فرقے مثلاً: جہمیہ، قدریہ، معتزلہ،اشاعرہ،ماتریدیہ اور ’’خوارج‘‘وغیرھم کے افکار و نظریات پر کامل دسترس حاصل کی، جس کی غماز آپ کے دروسِ بخاری شریف ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کی علم العقائد پر لکھی گئی کتب کے مطالعہ سے بعد ایک پختہ عالم دین بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اس فن میں آپ کا کیا مرتبہ ومقام ہے؟؟؟
v ’’توحید الٰہ العالمین‘‘جس میں توحید ،اسماء وصفات پر بحث کی گئی ہے۔
v ’’القواعد المثلیٰ فی الاسماء والصفات کا ترجمہ۔
v مسند امام احمد کی ترتیب وتبویب پر بھی انتہائی معیاری کام کیا گیا ہے۔
جس کانام المنہج الاسعد فی ترتیب مسند احمد،چار مجلدات۔
آپ نے جن دنیائے اسلام کے مشاہیر سے اجازت روایت حاصل کی ہے ان میں حسب ذیل علمائے عظام شامل ہیں۔
1شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی
(متوفی1996ء)
2مولانا محمدحیات لاشاری(متوفی2006ء)
3علامہ سلطان محمود محدث جلالپوری(متوفی1995ء)
4مولانا عبدالرؤف جھنڈا نگری(نیپال)(متوفی1999ء)
5مولانا معین الدین لکھوی(متوفی2011ء)
6مولانا قاری عبدالخالق رحمانی(متوفی2006ء)
7مولانا حاکم علی محدث دھلوی
8فضیلۃ الشیخ عطیہ (محمد سالم)
آپ کے باوقار خانوادہ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ علامہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانیdکےچھ بھائی اور تین بہنیں ہیں، جبکہ علامہ صاحب کے چار صاحبزادے ہیں:1سفیان 2سلمان 3عثمان4بدیع الدین ۔
باالخصوص چھوٹے صاحبزادہ محترم بدیع الدین علمی لحاظ سے بےپناہ صلاحیتوں سے سرفراز نظر آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سے دین قیم کا کام لے۔آمین
علامہ رحمانی کو اندرون وبیرون ملک باالخصوص حجاز مقدس اور خلیجی ممالک میں بھی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور آپ کو بار بار دعوت وتبلیغ کے لئے مدعو کیا جاتا ہے اور لوگ جوق درجوق آکر علمی استفادہ کرتے ہیںاور آپ کے وہاں باقاعدہ علمی دروس ہوتے ہیں۔
تفسیر،حدیث،اصول حدیث،فقہ،تاریخ ،سیرو فن رجارل پر آپ کا مطالعہ وسیع ہے۔ باالخصوص فن رجال میں آپ بھی شاہ صاحب مرحوم کی طرح بڑے محتاط انداز میں محققانہ بات کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو حفظ وامان میں رکھے اور آپ کے علم وعرفان سےپوری ملت مسلمہ کو مزید مستفید فرمائے۔آمین

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے