Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ ستمبر » صرف بکرے چھترے کانہیں اپنامطالعہ بھی ضروری ہے

صرف بکرے چھترے کانہیں اپنامطالعہ بھی ضروری ہے

شیخ اکرام اﷲ ساجد

دوسروں پر نکتہ چینی صرف آسان ہی نہیں،انسان کا بڑا ہی دلچسپ اورمرغوب مشغلہ بھی ہے خاص کرکمزور کی؛الامان والحفیظ !اگر وہ شے بے زبان بھی ہو تو اس وقت انسان کی نکتہ چینی اورتنقید کاطوفان خیز عالم تو اور ہی دیدنی ہوتاہے،کیونکہ بے زبان جواب دے سکتا ہے نہ بول سکتا ہے،اس کے پاس وکیل ہے نہ کوئی یارائے دلیل، پھرنقاد کو کھٹکا کاہے کا، اس لئے اس کی زبان کترنی کی طرح کترتی چلی جاتی ہے مثلاً کہے گا:
دیکھئے تو اس کاتوکان پھٹاہوا ہے،سینگ ٹوٹاہواہے، یہ تولنگڑاکر چلتا ہے،واہ یار!تم نے توحد کردی ،اس میں توجان ہی نہیں ہے،بہت ہی کمزورہے، ناک بہتی ہے،اون میلی ہے، نظرکمزورہے، ایک آنکھ تو سرے سے بیکار ہے!وغیرہ وغیرہ۔
اگرکوئی پوچھے کہ:جناب اس میں اس بے زبان کا کیاقصور ہے! کان پھٹا ہے توکیا اس نے کسی پیر کی نذر مانی تھی کہ اس کے نام کا چھید کرالیا ہے یاچیرادلواڈالا ہے۔سینگ ٹوٹا ہے تو کیااس نے عالمی باکسر محمد علی کلے کے ساتھ جاکردنگل رچایاتھا،لنگڑا ہے تو کیا عالمی کھیلوں میں جاکر اس نے دوڑلگائی تھی،کمزور ہے توکیا اس نے کنجوسی سے کام لیا تھا، پیسہ جمع کرتا رہا اور اپنے جسم وجان پرخرچ نہیں کیا ،آنکھ بے کار ہوگئی توکیا اس نے کہیں جاکرآنکھ مچولی کا ارتکاب کیا تھا۔آخر اس میں اس کا کیادوش ہے!سارے لوگ آخر ٹٹول کر اسے کیوں دیکھتے اور چاروں طرف سے اسے کیوں گھورتے ہیں؟ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی خود آپ کی غفلت اورکوتاہی کاکوئی دخل ہو،پھر ساری دنیا ایک چھترے کے پیچھے کیوں پڑگئی ہے؟
صحیح جواب تویہی ہے کہ یہ چھترے بکرے کے قصور کی بات نہیں ہے ،بات خدا کی حضور شایانِ شان نذرانہ پیش کرنے کی ہے،بے داغ ذات کے حضور ،بے داغ ہی نذرانہ کرنا چاہئے۔لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ
نذارنہ تو واقعی بے داغ چاہیے،نذرانہ دینے والے کے بارے میں کیاحکم ہے؟اس کوبھی بے داغ ہونا چاہئے یاتن ہمہ داغ داغ …؟
آپ یہ سن کرحیران ہوں گے کہ اﷲکے ہاں تو ان بکروں چھتروں کاکچھ بھی مذکورنہیں ،وہاں جتنا کچھ ہے صرف دینے والے کا ہے ۔ اس کاارشاد ہے کہ گوشت پوست کا میں گاہک نہیں میری نگاہ تو قربانی دینے والے کی دل کی دھڑکن پرہی لگی رہتی ہے۔
{لن ینال ﷲ لحومھا ولادمائھا ولکن ینال التقوی منکم}(الحج)
اے اہل دل دوستو!کہاں ہو؟سنتے ہو؟کیاکبھی سوچا کہ تم اپنا وقت کہاں ضائع کررہے ہواس پاک منڈی میں لوتھڑے جیسی پونجی کا تو کوئی گاہک نہیں ہے ،نہ اس کی وہاں بولی ہوتی ہے نہ وہاں اس کیلئے کوئی کمیشن ایجنٹ مقرر ہے!پھر تم وہاں یہ چند کباب ،جوتے اور ٹوپیوںکیلئے یہ گنتی کے چمڑے ،کمبل اورسوئیٹر کیلئے اون کے یہ چند تولے، کھاد اوردوسرے حیوانی مسالہ جات کیلئے ہڈیوں کایہ پشتارہ کس لئے لے چلے ہو،عطار سے کیوں کہتے ہو کہ گوبر کا سوداکرلو،جوہری سے کس لئے کہتے ہو کہ ہڈیاں لے لو۔
جناب !وہاں تو صرف آپ کی مانگ ہے،اگر آپ نہیں تو وہاں آپ کانذرانہ کس کام کا؟دیکھئے آپ کی زبان پکڑ کر آپ سے کہلوانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کہیے!الٰہی میری نمازہویاقربانی، میراجینا ہویا مرنا،سب کچھ تیرے لئے ہے۔
{قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین} ( الانعام)
آپ سے مطالبہ صرف قربانی کانہیں،آپ کابھی ہے، کہ وہ زندگی اپنے ہمہ پہلوؤں کے ساتھ، اس کے حضور پیش ہونی چاہئے جو تمہیںہرچیز سے عزیز ترہے۔اس لئے جہاں بکرے چھترے اور گائے بھینس کوقربانی پیش کرنے سے پہلے آپ ٹھوک بجاکردیکھ لیتے ہیں،وہاں خود ا پنا بھی جائزہ لے لیجئے اوربالکل اسی طرح جس طرح آپ قربانی کالیتے ہیں۔مثلاًحدیث میں ہے کہ:
جانور لنگڑا نہ ہو،کانانہ ہو،بیمار نہ ہو او ربے کار لاغر نہ ہو، اورسینگ ٹوٹا ہونہ کان داغدار ہو۔
سئل ماذا یتقی من الضحایا فاشاربیدہ فقال اربعا: العرجاء البین ظلعھا والعوراء البین عورھا والمریضۃ البین مرضھا والعجفاء التی لاتنقی (ابوداؤد وغیرہ عن البراء بن عازب)
نھی رسول ﷲ ﷺ ان نضحی باعضب القرن والاذن (رواہ ابن ماجہ)
امرنا رسول ﷲﷺا ن نستشرف العین والاذن وان لانضحی بمقابلۃ ولامدابرۃ ولا شرقاء ولاخرقاء(ترمذی)
اس کے مقابلے میںآپ سے یہ مطالبہ کیاجاسکتا ہے کہ آپ بھی لنگڑے ،لولے،کانے،بیمار،لاغر،ٹوٹے ہوئے سینگ اور کان کٹے نہ ہوں۔
لنگڑاپن: اس کے معنی ہوںگے کہ آپ صراط مستقیم سے پھسلنے نہ پائیں، ایسا نہ ہو کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر۔،بلکہ آپ کی اسلامی زندگی میں نفس وشیطان کا بالکل ساجھا نہ ہو،رفتار بے ڈھبی نہ ہو،راہِ حق کے راہی کج رفتار نہ ہوں۔{ادخلوا فی السلم کافۃ}
کانا ہونا: آپ کا کانا ہونا یہ ہوگا کہ آپ کی آنکھوں میںحیا نہ رہے کہ خدا کی شرم رہے نہ بندگان خداکی، کج بینی کامرض لاحق ہوجائے یاحق سے آنکھیں بند کرکے کوئی دل کے اندھے پن کاروگی ہوجائے اور کبھی ادھر دیکھے اورکبھی ادھر ،حالانکہ اسے حکم ہے کہ یکسو ہوکرصرف اسے دیکھے ،صرف اس کی راہ دیکھے ،صرف اس کی مرضی اورمنشا دیکھے، کیونکہ محبوب رب العالمین کا یہی اسوئہ حسنہ ہے۔
بیماری: قربانی دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ روحانی مدقوق نہ ہو،کتاب وسنت کی پاکیزہ تعلیمات سے اسے وحشت نہ ہوتی ہو،ایسا نہ ہو کہ اسوئہ حسنہ کے تصور سے اس کے دل کی دنیاپراوس پڑجاتی ہو، دنیا کی ہربدبلا سے دل باغ باغ ہوجاتاہومگر حق کانام سنتے ہی ٹی بی ہوجاتی ہو۔
رأیت الذین فی قلوبھم مرض ینظرون الیک نظر المغشی علیہ من الموت(محمد)
جن لوگوں میں روگ ہے، آپ ان کودیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف ایسے(خوف زدہ) دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پرموت کی بے ہوشی طاری ہو۔
لاغرنہ ہو: اس کے معنی ہوں گے کہ بکرا چھترا دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ راہِ حق پرچلنے سے اس کاسانس نہ پھولے۔ قرآن وحدیث کے بات آجائے توذہنی کوفت سے اس کادل پر انقباض طاری نہ ہو۔اسلامی سفرحیات میں تھکنے کانام نہ لے،چندقدم چل کر دم نہ لینے لگ جائے بلکہ دم بہ دم تازہ دم رہے اور جواں ہمت نکلے کیونکہ جن کو اﷲ کی معیت کااحساس ہوتا ہے وہ ایسا ہی کرتے ہیں:
{ومن عندہ لایستکبرون …یفترون}(الانبیاء)
ٹوٹے ہوئے سینگ :آپ کے سینگوں کاٹوٹا ہواہونا یہ ہے کہ دین حق کے سلسلے کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ آپ کا وہ دماغ ہی نہ رہے جودین کوسمجھنے کااحساس کرسکے اور سوچنے میں وہ دم خم نہ رہے کہ صحیح اورغلط میں امتیاز بھی کرسکیں۔آپ اور تو سبھی کچھ اپنے سرلے لیں اگرحوصلہ نہ پڑے ۔اگر فرامین الٰہیہ کی تعمیل کا مرحلہ درپیش ہوتو مرنے ہی لگ جائیں۔
{کانما یساقون الی الموت وھم ینظرون}(الانفال)
گویاان کو(زبردستی) موت کی طرف دھکیلا جاتا ہے اور وہ (موت کوآنکھوںسے) دیکھ رہے ہیں۔
داغدار کان: داغدار کان کے معنی ہوں گے کہ آپ کان کے ایسے کچے اورخام نہ ہوں کہ کسی کی چکنی چپڑی باتیں سن کر قرآن اوررسول سے آپ کادل ہی اکھڑنے لگ جائے۔ سوشلسٹ کے پاس دودن بیٹھے تو ان کے ہولیے ،عجمی دانشوروں کے دوبول سنے تو قرآن وحدیث ہی پھیکے نظرآنے لگے ،بد قسمتی سے بے خداحکمرانوں کے حضور شرف باریابی نصیب ہوگئی توخدا کادربار ہی بھول جائے۔
اورباطل کے بول سننے کے ایسے رسیا ہوجائیں کہ کلام اﷲ اور رسولِ پاک کے ارشادات سن کر ان کے دل بھینچنے لگ جائیں۔
{واذا ذکر ﷲ وحدہ اشمازت قلوب الذین لایومنون بالآخرۃ واذا ذکر الذین من دونہ اذا ھم یستبشرون}(الزمر)
اور جب اکیلے اﷲ کاذکر کیاجاتا ہے توجولوگ آخرت کایقین نہیں رکھتے ان کے دل بھینچنے لگتے ہیں اورجب اﷲ کے سوا (دوسروں) کاذکر کیاجاتا ہے تو بس یہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں آتاہے کہ:
رسول اﷲeنے جودنبے قربانی دیے تھے وہ سینگ دار،ابلق اورخصی تھے۔
ذبح النبی ﷺ یوم الذبح کبشین اقرنین املحین موجوئین (ابوداؤد وترمذی وغیرہ)
اس کے مقابلے میں آپ سے توقع کی جاسکے گی کہ
دین کے معاملے میں آپ کمزور نہ ہوں،جان رکھتے ہوں اور ہمت اوروسائل کے باوجود خلافِ شریعت کام کرنے کی آپ کے دل میں تحریک پیدانہ ہو۔
دین کے معاملے اﷲ کا یہی مطالبہ رہا ہے ،سیدنا موسیٰuسے کہا کہ اپنی قوم سے کہہ دیجئے ،کہ پوری ہمت سے کتاب الٰہی کا دامن تھام کر چلو!
{خذوا مااتیناکم بقوۃ}(البقرۃ)
(یہ)جوہم نے تمہیں دی ہے اسے ہمت سے پکڑے رہو۔
دسویں ذی ا لحجہ کے دن قربانی کے گلے پرچھری پھیر کرخون بہانا، اﷲ کے ہاں سب سے محبوب بات ہے۔
ماعمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی ﷲ من اھراق الدم (ترمذی)
خون بکرے چھترے کابہے اور’’حسن عمل‘‘ آپ کاشمار ہو،آخر اس میں کیا تک ہے؟سوچ سوچ کر اگر اس کاکوئی جواب بن پڑتا ہے تو یہی کہ:الٰہی !یہ مال کی قربانی ہے، تیری راہ میں جان کی بھی ضرورت پڑی تو اسی طرح اپنے خون کابھی ہدیہ پیش کردونگا۔
نبی کریمeجب قربانی پر چھری چلاتے تو اسے قبلہ رو رکرکے کہتے:
انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض ۔۔۔الخ
الٰہی! میں نے اپنا رخ تیری طرف کرلیا،سب طرف سے منہ موڑ کرتیراہی ہوکررہ گیا۔میراجینا مرنا رب تیرے لئے ہے۔
یہی آپ کوثابت کرنا ہے۔
وگرنہ حقیقتاً آپ اﷲ کے حضور یکسونہیں ہیں۔ نفس وطاغوت سے منہ موڑ کربالکل اﷲ کے نہیں ہوسکے،آپ کامرنا اورجینا اﷲ کیلئے نہیں رہا ۔اس کے بعد آپ خود غورفرمالیں کہ :اس قربانی کاانجام کیا ہوگا؟ اور اﷲ کے ہاں اس جھوٹ کی سزا آپ کوکیاملے گی؟
قربانی دراصل ’ماسوی اﷲ‘کے ہرشائبہ سے بے تعلقی کا اعلان ہے یہاں تک کہ یہ قربانی جواﷲ کے حضور پیش کی جارہی ہے اس کے بارے میں بھی یہ اعلان کرناپڑجاتا ہے کہ الٰہی! یہ بھی تیری عطا ہے اور تیری عطا ہی تیرے حضور پیش کررہاہوں ۔قبول فرما۔
اللھم منک ولک ۔(ابوداؤد)
بہرحال جن امور کی تلاش ایک بے زبان ،غیرمکلف اوربے خبر جانور میں کی جاسکتی ہے بعینہ ان کی تلاش ان میںکیوں نہ کی جائے ، جوزبان بھی رکھتے ہیں ،مکلف اورجواب دہ بھی ہیں اور باہوش اورباخبر بھی؟
اگر آپ د نیا کو اپنی ز ندگی کے مختلف شیئوں اوراحوال وظروف میں ان اقدار کے چراغ جلا کرنہیں دکھائیں گے توکہنے والے یہ کہہ سکیں گے بلکہ کہہ رہے ہیں اوربحالات موجودہ ان کو یہ کہنے کاحق بھی ہے کہ
’’جانوروں کی اتنی بڑی کھیپ کا یہ بہت بڑا ضیاع ہے اورمحض کام ودہن کوچسکاپورا کرنے کیلئے مگر فی سبیل اﷲ کے تصورکا فریب دیکر‘‘۔ ان کاکہنا ہے کہ ’’حج کے دن ایک بے بس اوربے زبان مخلوق پر اتنا بڑا اجتماعی ظلم پہلے آسمان نے کبھی نہیں دیکھا‘‘
گوان بے دانش دانشوروں کی یہ باتیں بھی فریب نفس سے زیادہ حیثیت نہیںرکھتیں تاہم اگرصرف جانوروں کاخون بہانا ہی ٹھہرا ہے جس کے خون سے خون بہانے والے کی اپنی زندگی رنگین نہیں ہوسکی، تو اسے بے زبان جانور کے ضیاع سے کوئی تعبیر کرے تو ان کی اس پھبتی کاکوئی کیاجواب دے؟بلکہ اگر کوئی یہ اندیشہ بھی پیش کردے تو اس کاجھٹلاناآسان نہیں رہے گا کہ:
’’جن لوگوں نے اپنی زندگی میں تقویٰ پیداکرکے اسے رنگین بنائے بغیر محض جانوروں کے گلے پرچھری پھیری ہے ،ہوسکتا ہے کہ قیامت میں یہ قربانیاں ان پر کیس کردیں کہ انہوں نے ناحق ہمارا خون کیا تھا۔‘‘
بہرحال یہ قربانیاں ’’حنیفیت‘‘ کی راہ کے سنگِ میل ہیں، جو اس سفر میں قربانی پیش کرنے والے کے انگ انگ میں نمایاں ہونی چاہیئے! اگربندہ حنیف میں’’حنیفیت‘‘ کروٹ نہ لے۔وقت کے جابرہ آپ کے نعرئہ مستانہ کے سامنے بے بس نہیں ہوگئے۔نفس وطاغوت کے صنم خانے مسمار نہیںہوسکے۔وقت کے آذروں نے اگر بت تراشی کاپھل نہیں پالیا۔حق وباطل کی اس رزمگاہ میں نماردہ اور فراعنہ کی بھڑکائی ہوئی آگ گلزار نہیں ہوسکی توپھر
سوچ لیجئے !کہ آپ کیا ہیں اور آپ کی یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ یہ قربانیاں بہرحال آپ کو دعوت ِمطالعہ دیتی ہیں۔
(بشکریہ :محدث لاہور جلد۶شمارہ۱۲۰)

About admin

Check Also

ختم قران ۔ المعھد السلفی

شیخ عبداللہ ناصررحمانی تاریخ 2018-06-12, بمقام مسجد نورالعلم نیا نام مسجد جنید  (المعھد السلفی للتعليم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے