Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ جولائ » میں اہل حدیث کیوں ہوا؟

میں اہل حدیث کیوں ہوا؟

عبدالشکور دل،سعیدآباد1
یہ مضمون والد محترم کے ایک جگہ دیئے گئے درس کی ترتیب وتہذـیب ہے یقینا اس سے کئی بھٹکے ہوئےمسلمانوں کی اصلاح ہوگی، ان شاء اللہ بالخصوص وہ تبلیغی بھائی جو ابھی تک جہالت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ا ن سےالتجا کی جاتی ہے کہ خدارا اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کریں اور حق کے متلاشی بنتے ہوئے والدمحترم کی طرح سفینۂ حق میں سوار ہوجائیں۔ ھداکم اللہ تعالیٰ، ابن المحاضر عبدالرزاق دَل
2آپ عظیم محدث نذیرحسین دھلوی کے شاگرد تھے اور 137سال کی درازعمر پانے کے بعد وفات پائی۔

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأمین ،أما بعد
معزز قارئین کرام میں اس مضمون میں اپنے اہل حدیث ہونے کے حوالے سے اہم ترین گزارشات سپردقرطاس کرنےکی کوشش کرتا ہوں اللہ سے مدد مانگتےہوئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے گویائی حق کی توفیق عطا فرمائے اور اس مضمون کے ذریعے اللہ تعالیٰ بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو صراط مستقیم پرگامزن کرے۔آمین
معز ز قارئین کرام میرا تعلق حنفی خاندان سے تھا اور میرے آباء واجداد کا بھی یہی مسلک تھا، اور میں نے نماز وغیرہ کا طریقہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھا تھا اور انہیں کودیکھا دیکھی حنفی نماز ہی پڑھتا تھا۔
میں نے پرائمری تعلیم اپنے آبائی گاؤں خدا بخش دل (جو کہ سعید آباد سے ۱۷کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے) میں ہی حاصل کی اس کے بعد میٹرک کی ڈگری ہائی اسکول لُنڈو شہر سے حاصل کی اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے میں شہداد پور میں رہنے لگا، وہاں پر معلوم ہوا کہ یہاں کوئی اہلحدیثوں کی مسجد ہے لیکن مجھے اہلحدیثوں سےاتنی نفرت تھی کہ میں نے کبھی بھی اس مسجد میں اپناپاؤں تک نہیں رکھا۔جس وقت اس مسجد سے گزرتا تو یہ سوچتا تھا یہ لوگ مسلمان ہی نہیں ہیں۔
ہماراایک عزیز ہمارے ساتھ شہداد پور میں رہتا تھا وہ ہمیں کہتا تھا کہ یہ لوگ اللہ کے علاوہ کسی نبی یا ولی کو نہیں مانتے بلکہ یہ نبیوں اور ولیوں کے گستاخ ہیں لہذا ان سے بچتے رہنا، شاہ صاحب (محدث دیارِ سندھ سید ابومحمدبدیع الدین شاہ راشدی a)کے بارے میں ہماری یہ ذہن سازی کی گئی تھی کہ آپ نے اپنے بڑوں کی، مکتبہ میں موجود گمراہ کن عقائد والی کتب پڑھیں ہیں لہذا آپ بھٹک گئے ہیں اور انہوں نے اپنے بڑوں کا دین چھوڑ کر گمراہ کن نیا دین کھڑا کیا ہے۔ بہرحال جب میں نے B.Aکی ڈگری حاصل کر لی تھی تو مزید تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے مالی وسائل کی بہت زیادہ قلت تھی اس وجہ سے ملازمت کے لئے میرا احتیاج بڑھ گیا اور کوشش کےساتھ میں پرائمری اسکول ٹیچر منتخب کیا گیا ۔
میرا تقرر 1982ء میں بہادر کلوئی گاؤں میں کیاگیا جو کہ شہداد پور شہر کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ بس اس گاؤں میں داخلہ کو میں زندگی میں بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں کیونکہ یہاں اہلحدیث تھے۔ وہاں مولانا محمد حیات لاشاری2aکی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔وہاں پہنچنے کے بعد میرا اہلحدیثوں سےتکرار شروع ہوگیا۔ ساتھی نماز میں پاؤںملاتے میں پاؤں دور کردیتا، رفع الیدین کرتے، آمین بالجہر کہتے میں سخت ناراض ہوتا۔
ایک دن میں نے طلبہ سےکھجور کی گٹھلیاں اور کنکریاں جمع کروا کے مسجد میںرکھ لیں تاکہ نماز کے بعد ان پر صلوۃ پڑھینگے۔ لیکن شیخ صاحب نے وہ کنکریاں اورگٹھلیاں پھینک دیں مجھے بہت زیادہ غصہ آیا، اور مولانا صاحب سے سوال کیا آپ نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ میں نے تو درود اور ذکرپڑھوانے کے لئے یہ سب کیا تھا؟ آپaنے فرمایا: آپﷺ ہمیشہ انگلیوں پر ہی ذکر کیا کرتے تھے۔ کنکریوں وغیرہ پر پڑھنا بدعت ہے کیونکہ یہ عمل آپﷺ نے کبھی نہیں کیا۔
اس جواب پر میں خاموش ہوگیا کیونکہ میرے پاس کوئی دلیل نہیں تھی جسے میں پیش کرسکوں۔
کچھ دنوں بعد میں بازار سےپلاسٹک وغیرہ کی بنی ہوئی ٹوپیاں خرید کر لایا تاکہ ننگے سرنماز پڑھنے والےلوگ انہیں پہن کر نماز ادا کریں لیکن لاشاری صاحب نے پھر سے میری وہ ٹوپیاں پھنکوادیں اور طلبہ سے کہا کہ ماسٹر صاحب سے کہیں آپ جب آفس میں افسروں کےسامنے جاتے ہو تو کیا اس طرح کی ٹوپی پہنوگے؟؟ جب آپ اپنے افسروں کےسامنے نہیں پہنتے تو اللہ ان سے کہیں زیادہ ادب وعزت کا لائق ہے۔ یہ جواب میرے دل میں داخل ہوگیا اور بے ساختہ کہنےلگا واقعۃ میں نے غلط کیا تھا۔
اس طرح میں آپ کی تقاریر سنتا رہا جن کے اندر قرآن وسنت کی ہی باتیں ہوتی تھیں اور احادیث طیبہ کا بڑے ہی عقیدت اور محبت سے ذکر کیا جاتا تھا اور آہستہ آہستہ سننے کے ساتھ میری مسلک اہل حدیث کےخلاف شدت اور نفرت میں بھی کمی آنے لگی۔
اور میں دل ودماغ میں سوچتا تھا جو کچھ اس مذہب کے حوالے سے مجھے بتایاگیا ہے وہ بے جا تھا اور میرے سامنے عیاں ہورہا تھا کہ جو لوگ ہر بات کی دلیل فرمان رسول uسےذکر کریں وہ گستاخ رسول کیسے ہوسکتے ہیں؟؟ اور پھر اس کے بعد میں شہداد پور شہر میں واقع محی الدین مسجد اہل حدیث میں بھی جانے لگا اور ہمارے محلہ میں بریلویوں کی دو مسجدیں تھیں ان میں بھی جاتا تھا پھر میں اللہ سے بہت زیادہ دعا مانگتا تھا کہ اللہ مجھے ضایع مت کرنا مجھے جنتی جماعت اور فرقہ ناجیہ میں داخلہ نصیب فرما۔ اور پھر حق کی تلاش کیلئے میں نے جستجو شروع کردی۔ جمعہ پہلے اہلحدیثوں کے پیچھے پڑھتا اور پھر دیوبندیوں اور بریلویوں کے پیچھے پڑھتا تاکہ حق معلوم ہوجائے دونوں تقریروں کو سننے کے بعد موازنہ کرتا کہ حق کس کے پاس ہے؟ بالآخر کئی ایک تقاریر سننےکے بعد میں نے دونوںمسلکوں کی منہجیت معلوم کرلی اور معلوم ہوا کہ اہل حدیث اپنی تقریروں میں قرآن وحدیث ہی بیان کرتے ہیں جبکہ ہمارے مولوی قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ یہ نتیجہ معلوم کرنے کے بعد میں مسلک اہل حدیث کے اور بھی قریب ہوگیا، اب میرے ذہن میں آیا کہ میں نماز کون سی پڑھوں اس خواہش کی تکمیل کے لئے میں نے مولانا لاشاری صاحب سے سوال کیا کہ شیخ صاحب مجھے صحیح نماز کہاں سے ملے گی؟ آپ نے فرمایا آپ صحیح بخاری خرید کر پڑھیں وہاں سے آپ کو صحیح نماز ملےگی۔ پھر میں دیوبندی اور بریلوی مولویوں سےملا اور ان سے دریافت کیا مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز کاصحیح طریقہ کہاں سے ملے گا؟ تو ان مولویوں نے کہا آپ کو طریقہ کتب حدیث سےملےگا میں نے پوچھا ان کتابوں میں سے صحیح ترین کتاب کون سی ہے؟؟ سب مولویوں کا کہنا تھا صحیح ترین کتاب صحیح بخاری شریف ہے ۔ اب میرے لئے حق سمجھنا اور بھی آسان ہوگیا ،کیونکہ سب فرقوں نےبخاری کو تسلیم کرلیاتھا۔
اب میں نےعزم کرلیا کہ صحیح بخاری خرید کر جوقول وعمل اس کتاب میں موجود ہوگا اسی پر عمل کرونگا۔ بس عزم پورا کرنے کیلئے میں اپنے پیارے دوست محمد یعقوب خاصخیلی کےہمراہ حیدرآباد گیا اور صحیح بخاری مترجم علامہ وحیدالزماں کےد ونسخے جن میں کتاب الصلاۃ تھا خرید کر لایا۔جب میں نے اس کتاب کامطالعہ شروع کیا بس جیسے جیسے میں مطالعہ کرتا گیا میرا ذہن صاف ہوتاگیا ہرقول وفعل جو مجھے احادیث میں ملتا بفضل للہ وہی قول وفعل صحیح معنوں میں مجھے جماعت اہل حدیث کے اندر نظر آتا بالآخر جب یہ کتاب اول سے پڑھتے ہوئے رفع الیدین کے باب تک پہنچااورحدیث کے اندر نماز شروع کرتے وقت ،رکوع کرتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے کے بعد اٹھتے وقت کا رفع الیدین جب میری اپنی آنکھوں نے دیکھا تو اللہ کی قسم میرے لئے روزروشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ صرف اور صرف جماعت اہل حدیث ہی جماعت حق، فرقہ ناجیہ اور عامل بالحدیث ہے، باقی صرف اور صرف بے دلیل دعویٰ ہی کرتے ہیں۔
اب میں نے سوچا ان احادیث پر عمل کرنا چاہئے بس میں بخاری شریف لئے اپنے تبلیغی جماعتی ساتھیوں کے پاس گیا اور انہیں بخاری شریف کےاندر موجود احادیث رفع الیدین دکھائیں، وہ ساتھی بھی احادیث دیکھنے کے بعد حیران پریشان رہ گئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے علماء ان احادیث پر عمل نہیں کرتے؟ بس یہ معلوم کرنے کے لئے وہ ساتھی مولانا دوست محمد بروہی امام وخطیب سنہری مسجد شہداد پور کےپاس مجھے لے گئے جو کہ صاحب علم اور اچھے اخلاق کے حامل انسان ہیں ،ھداہ اللہ تعالیٰ
میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں ایک عام سا مسلمان ہوں مجھے کوئی دینی علم نہیں ہے میں نے صحیح بخاری کےاندر یہ احادیث رفع الیدین پڑھیں ہیں، اب آپ مجھے اس کتاب سے رفع الیدین نہ کرنے کی حدیث دکھائیں یا یہ دکھائیں کہ آپﷺ پہلےکرتے تھے بعد میں چھوڑ دیا۔
مولانا صاحب نے فرمایا کہ جناب ہم اس کے قائل ہیں کہ رفع الیدین حدیث سے ثابت ہے جو رفع الیدین کرتے ہیں ان کی نماز بھی ٹھیک ہے اور جو نہیں کرتے ان کی بھی ٹھیک ہے۔
بس مولانا کا اتنا ہی جواب تھا، اس کے بعد ہم ملدسی روڈ پر موجود مدرسےگئے جہاں مولوی محمد رحیم بروہی دیوبندی موجود تھے ہم ان سےملے اور میں نے ان سے بھی وہی سوال کیا، مولانا صاحب نے مجھے جواب دیا کہ آپ کو ایسے سمجھ نہیں آئے گا،آپ ہمارے پاس پڑھیں درس نظامی کا کورس کریں، پھر آپ کو سمجھ آئے گا کہ رفع الیدین کی احادیث کا کیاحکم ہے؟ میں نےکہا کہ مولانا صاحب مجھے اپنی زندگی کےبارے کوئی اعتماد نہیں مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ کل تک زندہ رہونگا یا نہیں،لہذا میںچاہتا ہوکہ جواحادیث اپنی آنکھوں سے دیکھیں ہیں ان پر عمل کروں ،مولانا کا وہی جواب تھا کہ ایسے آپ مسئلہ سمجھ نہیں سکینگے لہذا آپ ہمارے پاس پڑھیں۔ میںنے کہا مولانا خدارا کوئی ایک صحیح حدیث شریف دکھادیں کہ آپuنے رفع الیدین ترک کردیا تھا۔ بس مولانا مذکورہ جواب ہی دہراتے رہے۔
اب ہم وہاں سے لوٹے سینہ اور بھی مسلک اہل حدیث کی سچائی اور حقانیت سے بھرگیاتھا اب ایک حق کامتلاشی بندہ، اپنے فطری ذہن کو استعمال کرنے والا، سنت رسولuپر عمل کرنے سے کیسے رک سکتا ہے؟ بس اب بصیرت کےساتھ اور اپنی تلاش حق کی دعا کو عنداللہ مقبول سمجھتے ہوئے، بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ جماعت اہل حدیث والی نماز شروع کردی۔ الحمدللہ الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولاان ھدانا اللہ.
الحمدللہ اس کے بعد میںنے سنت والی نماز شروع کردی اپنے محلہ میں موجود بریلویوں کی مسجد میں جاتا وہاں بھی سلفی نماز ادا کرتا۔ بالآخران لوگوں نے مجھے روک دیا کہ آپ ہماری مسجد مت آئیں۔ اگر آئیںتو رفع الیدین کےبغیر ہی نمازا دا کریں۔ میں نے ان سے کہا آپ تو دعویٰ کرتے ہوکہ ہم عاشق رسول ہیں1، خدارا میں اسی رسول مقبولuکی مبارک سنت پر عمل کرتا ہوں تم مجھے روکتے ہو؟؟
آؤ میں تمہیں بخاری شریف سے یہ مبارک سنت دکھاؤں، ان لوگوںنے کہا محترم حدیث دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (استغفر اللہ یہ ہے ان لوگوں کی حدیث سے عداوت اور کھوکھلی محبت رسولuکا دعویٰ، اعاذنااللہ منہ)
ان لوگوں نے کہا بس آپ ہماری مسجد میں نہ آئیں، میں نے کہا ٹھیک ہے آج کے بعد میں مسجد میں نہیں آؤنگا۔ کچھ دنوں کے بعد اس مسجد کا امام میرے پاس آیا اور کہنے لگا عبدالشکور دل صاحب آپ نے ہماری مسجد میں آنا کیوں ترک کردیا؟ میں نے کہا: مولانا صاحب آپ کی جماعت نے مجھے روک دیا ہے اس وجہ سے میں نہیں آتا۔
باقی رفع الیدین وغیرہ میںنے صحیح بخاری شریف سے پڑھی ہے اور میں نے بخاری شریف مولانا کو کھول کر دی اور کہا کہ کیا محمد ﷺ کی اس نماز کومیں ترک کردوں؟؟
مولانا نے کہا عبدالشکور صاحب آپ اپنے گھر میں بھلے یہ نماز ادا کریں اور مسجد میں ہماری والی نماز ادا کریں، میں نےمولانا سے دوٹوک الفاظ میں کہا جناب میں اللہ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک زندہ رہونگا ہر وقت ہر جگہ رفع الیدین والی نماز پڑھتا رہونگا جو کام آپ بتا رہے ہیں مجھ سے نہیں ہوسکتا۔
بہرحال وہ مولانا اس جواب کو سن کر لاجواب ہوکر چلاگیا اور میں نے بریلوی مسجد میں جانا چھوڑ دیا، جبکہ تبلیغی جماعت سے میرا واسطہ تھا میں ان کے ساتھ تبلیغ کرنے بھی جایاکرتا تھا 1984ء کی بات ہے میں ان کے ساتھ تبلیغ کرنے گیاموجودہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے اندر ۲۱دنوں کے لئے،میں نے اپنےساتھ مترجم قرآن مجید اور صلوۃ الرسول لصادق سیال کوٹی aاٹھائےتھے،میں انکامطالعہ کرتاتھا، ایک دن یہ کتاب ایک تبلیغی ساتھی ھادی بخش جلالانی صاحب نے پڑھنا شروع کردی، جب رفع الیدین کی احادیث دیکھیں تو مجھ سے سوال کیا کہ عبدالشکور یہ کیا ہے
میں نے کہا رفع الیدین کرنے کی احادیث ہیں جوبخاری کے اندر پائی جاتی ہیں، جب ہماری گفتگو ایک دوسرے ساتھی جس کانام محبوب صاحب تھا سنی توغصہ میں آکر مجھ سے کہا یہ کتابیں آپ نے اپنے ساتھ کیوں اٹھائیں ہیں، ہمارے بزرگ فضائل اعمال کے علاوہ کتابوں کوتبلیغ پر لے جانے سے منع کرتے ہیں، میں نےکہا محترم اس کتاب میں محمدرسول اللہ ﷺ کی نماز اور ان سے ثابت شدہ ادعیہ ہیں میں بزرگوں کی وجہ سے ایسی مبارک چیز کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔
بہرحال رات کو ہم لوگ جب سوگئے تو صبح کو اٹھنے کے بعد اس کتاب کو میں نے گم پایا ساتھیوں سےپوچھاخدارا مجھے اپنی کتاب لوٹادو، لیکن ا نہوں نے ایسا نہیں کیا اور وہ کتاب آج تک مجھے نہیں ملی۔ اس معاملہ کو دیکھنے کے بعدمجھے تبلیغی جماعت کی حدیث سے نفرت کا اندازہ ہوگیا۔
اسی طرح میرے پاس مترجم قرآن مجید تھا میں اس سےتلاوت کرتا تھا اورھادی بخش جلالانی صاحب نے بھی اس سے تلاوت شروع کردی ،ترجمےکے ساتھ،محبوب جواپنے آپ کو اہل علم سمجھتاتھا کہنے لگا آپ ترجمہ والاقرآن مت پڑھیں کیونکہ علماء احناف کا کہنا ہے کہ جوقرآنی آیات کے شان نزول سے ناواقف ہے وہ کبھی بھی قرآن کا ترجمہ نہ پڑھے ورنہ گمراہ ہوجائے گا۔محبو ب صاحب کی یہ بات مجھے دل میں تیر کی طرح لگی کہ رب العالمین کاپیغام جوھدی للناس ہے اس کے پڑھنے سے بھلا بندہ گمراہ کیسے ہوگا؟
یہ شکایت لےکر میں اپنے امیر(HST)میرمحمد ڈینو کے پاس گیا اور اسے معاملہ بتایا کہ مجھے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے سے روکا جارہا ہے تو محترم امیر صاحب نےفرمایا حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بزرگ علماء قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے روکتے ہیں کیونکہ جسے شان نزول معلوم نہیں وہ ترجمہ پڑھے گا تو گمراہ ہوجائے گا۔اس بات کی وجہ سے میرے دل پر اور بھی بڑی ضرب لگی اور اناللہ واناالیہ راجعون کے جملے زبان پر جاری ہوگئے۔
اور پروردگار عالم نے میرے دل میں ایک الہامی جواب ڈال دیا حالانکہ میرے پاس کوئی علم نہیں تھا بس حق تک پہنچنے کا حقیقی جذبہ تھا، میں نے امیر سے کہا: امیرصاحب آپ عام عجمی کو توترجمہ پڑھنے سے روکتے ہیں مجھے بتائیں کہ کیاعرب میں سارے علماء ہیں؟ بلکہ بہت سے ایسے افراد ہیں جوعربی توسمجھتے ہیں لیکن شان نزول سے بے خبر ہیں، کیا ایسے عام عرب قرآن مجید کی تلاوت نہ کریں؟ کیونکہ وہ مفہوم تو سمجھ رہے ہوتےہیں شان نزول نہیںجانتے بس اس جواب کو سن کر امیر صاحب خاموش ہوکر سوچتے رہ گئے۔
اب میں نے ان سےکہا میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا مجھے اجازت دیں میں واپس چلاجاؤں۔انہوں نے مجھے منتیں کیں کہ آپ مت جائیں آئندہ ایسی بات نہیں ہوگی، بہرحال میں ان کے ساتھ آگے جانے لگا تو ہم لوگ لاہورکے قریب وارنگ منڈی کے علاقے میں پہنچے جوانڈیا کے بارڈر کے بالکل قریب ہے۔ تو عصر کی نماز کا ٹائم ہوا محبو ب صاحب نےکہا کہ امام مسافر ہے دورکعت پڑھ کر سلام پھیرے گا اور مقتدی حضرات اپنی رہی ہوئی دورکعات بعد میں پڑھیں اور ان رکعتوں کے اندرقیام میں کچھ نہیں پڑھیں ۔اب یہ بات عقل میں نہ آنے والی تھی اور دین حنیف تو پورا عقل سلیم کےموافق ہےمیںنے کہا محبوب صاحب یہ کیا بات ہے؟ ہم قیام میں کھڑے ہوں اور پڑھیں کچھ بھی نہ!حالانکہ امام تو سلام پھیرچکا پھر قیام کرنے کافائدہ !اس نے کہا ہمارے بزرگ منع کرتے ہیں، ایسی صورت میں قیام میں خاموش رہنا چاہئے ،ان چیزوں کی وجہ سے میرےدل میں تبلیغی جماعت کامنہج عیاں ہوتاگیا، بس اختلافات سے پُر یہ چالیس دنوں کاسفر میںنے پورا کیا اور شہداد پور واپس لوٹا اس حال میں کہ جماعت اہل حدیث کی حقانیت میرے دل میں اور بھی زیادہ پختہ ہوگئی اب لوٹنے کے بعد میں محی الدین جامع مسجد اہل حدیث میں جانے لگا ایک تبلیغی ساتھی میرےپاس آبیٹھے کہ عبدالشکور آپ پرانے چِلّے والےساتھی ہیں ہمارے ساتھ تبلیغ پر چلیں ،میں نے کہا بھائیو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے کہ میں اپنے ساتھ مترجم قرآن مجید اور مترجم بخاری شریف اٹھاؤنگا اور درس اس سے دونگا۔جیسے میں نے یہ بات کہی ایسے لگا کہ یہ بات انہیں آگ کے انگاروں کی طرح لگی ان میں سے ایک بزرگ طیش میں آکر بولا اسے چھوڑو،یہ گمراہ ہے اور وہ لوگ وہاںسے چل پڑے پوری مسجد کی جماعت حیران رہ گئی کہ ان لوگوں کو قرآن وسنت سے کتنی عداوت ہے۔
دوستو!آخر کیاوجہ ہے کہ یہ لوگ قرآن وسنت پڑھنے اورتبلیغ کرنے سے روکتے ہیں؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ان کاپورا مذہب ہی قرآن وسنت کے برعکس ہےلہذا یہ سوچتے ہیںکہ لوگ قرآن وسنت پڑھینگے تواہل حدیث ہوجائیں گے۔لیکن جسے رب ہدایت دے تو اسے تبلیغی کبھی نہیں روک پائینگے۔ا ن شاء اللہ تعالیٰ
محترم ساتھیو !اس کے بعد میں نے مزید مطالعہ شروع کردیا بالخصوص مندرجہ ذیل کتب نے مجھے بڑا فائدہ پہنچایا۔
1مترجم بخاری شریف
2مترجم تفسیر ابن کثیر
3درس توحید مولانا سراج الدین a
3دستور المتقی فی احکام النبی ﷺ
4اصلی اہلسنت لعبداللہ بہاولپوریa
5توحیدخالص لمحدث دیار سندھ سیدابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی a
6بدیع التفاسیر لہ أیضا
تبلیغی بھائیوں سےمیری عاجزانہ التماس ہے کہ خدارا ان کتب کو ضرور ایک بارپڑھیں تاکہ آپ حقیقت سمجھ سکیں۔
بہرحال ا ن کتب کے مطالعے کے بعد میں بصیرت کے ساتھ مکمل اہل حدیث بن گیا اور ہر وقت اللہ سےدعا ہے کہ اللہ مجھےاسی مسلک پر ہی وفات دے اور اللہ تمام فرقوں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کو فرقہ ناجیہ یعنی جماعت اہل حدیث میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اہل حدیث بننے کے بعد میں محدث دیار سندھ سیدابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی اور شیخ الاسلام سید محب اللہ شاہ الراشدی رحمھمااللہ کے پاس بہت ہی زیادہ آتا رہتا تھا اور مطالعہ کے اندرپیش آنے والی دشواریاں ان سے ہی حل کرواتاتھا، ان دونوں کا مجھ پر بہت بڑا حسان ہے جس کو میں کبھی نہ بھلاؤنگا۔اللھم نور قبرھما وأنزل علیھما الرحمۃ والسکینۃ الی یوم القیامۃ.
vvvvvvvvvvvvv
vvvvvvvvvvvv

About عبدالشکوردل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے