Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ اگست » اختلاف میں منہج علماء

اختلاف میں منہج علماء

حافظ انس کاکا،متعلم:المعہد السلفی کراچی

الحمدللہ وکفی والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ، اما بعد
معزز قارئین کرام! اختلاف المسائل امت میں ہر وقت ہر دور میں علماء کرام کے درمیان رہا ہے۔ جس کی بنیادتفقہ ہے اور یہ اختلاف المسائل آپﷺ کی حیات مبارکہ سے چلاآرہا ہے جس کی کئی ایک امثلہ ہیں لیکن متقدمین ومتاخرین کے درمیان یہ اختلاف محض دلائل کی بناء پر ہر ایک کے الگ تفقہ پرتھا اور ہر ایک کے پاس دلائل موجود ہوا کرتے تھے جسے عام لفظوں میں اجتہاد کہاجاسکتا ہے اور اجتہاد ان شاء اللہ باعث اجر ہے۔
رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران واذا حکم الحاکم فاجتھد ثم أخطاء فلہ اجر واحد (بخاری ومسلم)
ترجمہ: ابوھریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاکم فیصلہ کرتا ہے اور جس میں وہ اجتہاد کرتا ہے (کوشش کرتا ہے) پھر وہ اجتہاد کی بناء پر صحیح بات کو پہنچ گیا تو اس کو دوگنا اجر ہے اور جب حاکم فیصلہ کرتا ہے پھر اگر وہ خطاء کوپہنچتا ہے کوشش کے باوجود بھی تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔
معلوم ہوا کہ اگر ایک سلفی متقی عالم بھی کسی مسئلے پرتحقیق، اجتہاد،کوشش ،محنت کرتا ہے،دلائل شرعی کی بناء پر تووہ بھی ان شاء اللہ اس حدیث کامصداق کہلائے گا۔
جی!تو بات یہ چل رہی تھی کہ علماء کے مابین بھی فقہ کی بناء پر اختلاف رہا ہے لیکن اختلاف کے باوجود بھی سلف آپس میں شیروشکر رہا کرتے تھے اور ایک دوسرے پر اختلاف المسائل کیوجہ سے فتویٰ نہیں لگایاکرتے تھے کہ فلاں شخص کافر ہے اور فلاں شخص جاہل ہے۔
الغرض! ایسی کوئی بات نہیں کرتے تھے جس طرح آج نادان نوجوان کبار علماء حق کوبرا بھلا کہنے سے گریز نہیں کرتے جن علماء نے اپنی زندگی کو دین کے لئے وقف کردیا ان کے متعلق ان نادانوں کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ علماء حق پر کہ جنہوں نے دلائل کی بناء پر کوئی موقف اختیار کیا ہے اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ دیں جبکہ رسول اللہﷺ کے مذکورہ فرمان کے مطابق اگر ایک عالم دلائل کی بناء پر اجتہاد کرنیکے بعد بھی خطا پائے تب بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔
لیکن آج کے نوجوانوں نے سلف کامنہج اختلاف المسائل میں جو تھا اس کوبھلادیاجس کی وجہ سے آج کے نوجوان بے دریغ کبار علماءِ حق پر زبان استعمال کرتے ہیں جس کی مثال سننے میں آئے تو جسم،دل بسم ہوتے ہیں۔
مثلاً: آج کے بعض نوجوانوں نے بعض کبار علماءِ حق کے بارہ میں صرف اس وجہ سے کلام کیا کہ اس عالم دین سے اختلاف ہے کسی مسئلے میں ایک اور کبیر عالم سے جس کا وہ نوجوان معتقد ہے۔کئی ایک مثالیں موجود ہیں جس کانام لینے کادل نہیں کرتا بعض صرف اپنے آپ کو بڑا عالم ثابت کرنے لئے ایک بہت بڑے عالم کی تحقیقی موقف پر اس قدر زبان استعمال کرتے ہیں ایک عام شخص بھی ایسی جرأت نہ کرے۔
مثال: ایک نوجوان شخص نے اجتہادی مسئلہ میں محدث دیارِ سندھ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی aپر شدید تنقید کی جس کااندازہ آپ قارئین کرام اس کی تحریر کی ہیڈنگ سے لگاسکتے ہیں اپنے کتابچے کانام رکھا:’’رکوع کے بعد ہاتھ باندھنےکافتنہ‘‘ پھر اس میں شیخ العرب والعجم پر شدیدتنقید کی اور نازیباالفاظ بھی استعمال کیے جس کو بیان کرنے پر دل نہیں مانتا۔
بہرحال یہاں یہ تمہید بیان کرنیکا مقصد صرف یہ ہے کہ اختلاف مابین علماءِ حق کوئی نئی چیز نہیں ہے اور دلائل کی بناء پر اختلاف رکھا جاسکتا ہے لیکن اختلاف میں ادب کاخیال رکھاجائے اور سلف صالحین کےمنہج کو اختلاف المسائل مابین علماء حق اپناناضروری ہے۔
1اختلاف الصحابۃ فی عھد النبی ﷺ
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہآپﷺ نےیوم احزاب سے واپسی پر ارشاد فرمایا: لایصلین احدالعصر الافی بنی قریظۃ فادرک بعضھم العصرفی الطریق وقال بعضھم لانصلی حتی ناتھا وقال بعضھم بل نصلی (اخرجہ البخاری مع الفتح ۲؍۵۶۲کتاب الخوف ،باب صلاۃ الطالب والمطلوب راکبا والمار،حدیث:946مسلم الرقم:1770)
تم میں سے کوئی بنوقریظہ میں پہنچے بغیر نماز نہ پڑھے توبعض لوگوں نے راستے میں عصر کی نماز کا وقت پالیا بعض نے کہا کہ ہم توبنوقریظہ میں پہنچ کر ہی نماز پڑھیں گے اور بعض نے کہا ہم توابھی پڑھیں گے۔
معلوم ہوا کہ ایک حدیث کو سمجھنے پر۲گروہ بن گئے،(۱) جس نے راستے میں وقت پالیا اور نماز نہیں پڑھی اس لئے ان کے پاس دلیل تھی نماز بنوقریظہ میں ہی اد ا کرنی ہے کہیں حکم کی بھی نافرمانی نہ ہوجائے۔(۲) جس نے وقت پالیا اور استے میںہی نماز پڑھنا شروع کردی گویا کہ ان کےذہنوں میں وہ حدیث بھی تھی کہ جس نے عصر کی نماز فوت کردی کانما وتر اہلہ ومالہ. گویا کہ اس نے اپنا اہل اور مال تباہ کردیا۔ جس کی بناء پر راستے ہی میں نماز ادا کرلی۔ وغیرہ وغیرہ
پھر جب آپﷺ کے پاس آکر مسئلہ ذکر کیا تو آپﷺ نے سب کو صحیح کہا یعنی ہر ایک گروہ کاا جتہاد صحیح تھا۔
پھر اس کے بعد ایک گروہ نے دوسرے گروہ پر جرح نہیں کی۔ جب کہ آج نوجوان دوسرے جید عالم دین کے اجتہاد کو غلط کہہ دیتے ہیں اور پھر اس عالم دین پرطعن وتشنیع بھی کرتے ہیں جو کہ سلف کے منہج کے بالکل برعکس ہے۔ اسی طرح آپﷺکی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام میں کافی مسائل پر اختلاف ہوا، اختصار کے پیش نظر ان کوبیان نہیں کیاجارہا۔
صرف ہلکا سا اشارہ کیے دیتاہوں،مثلاً: سیدنا ابن مسعود کا بقیہ تمام کبار صحابہ کرام سے اختلاف تھا یعنی وہ رکوع میں تطبیق کے قائل تھے۔ اسی طرح قربانی کے ایام کے متعلق علماء حق کے درمیان ایک بہت بڑا اختلاف رہا ہے ،جمہور صحابہ کرام اور ائمہ کرام یعنی سیدنا علی اور عبداللہ عباس یہ تمام صحابہ کرام قربانی کے ۳دن کے قائل تھے جبکہ ان کے مقابلے میں سیدنا امامہ بن سہل بن حنیف آخر ذی الحجہ تک قربانی کے قائل تھے ۔
قال یحی بن سعید سمعت ابا امامہ بن سہل بن حنیف یقول ان کان المسلمون یشری احدھم الاضحیۃ فیسعنا فیذبحھابعد الاضحی آخر ذی الحجۃ
(سنن الکبری للبیقھی ۹؍۵۰۱اسندہ صحیح)
نیز اس مسئلے کی تفصیل دیکھیں:(مقالات حافظ زبیر علی زئی۵؍۳۴۰)
تو معلوم ہواکہ سلف کا آپس میں مسائل میں اختلاف ہونےکے بعدایک دوسرے پر جرح نہیں کرتے اور نہ ہی ہماری طرح کبار علماء کو نشانہ بناتے تھے اختلاف رکھنے کا آپ کو حق ضرور ہے لیکن شرعی دلائل کی بناء پر اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔
اسی طرح ایک اور مثال سلف میں ائمہ کی ہے۔
مسئلہ: صدقۃ الفطر کے بارہ میں جمہور سلف کاموقف ہے کہ صدقہ فطر ہرصورت میں اجناس ہی دیں جائیں گی۔ مگر حسن بصری اور امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز نے جمہور سے اختلاف کیا اور یہ دونوں نقد رقم کی صورت میں صدقہ فطر دینے کے قائل تھے۔
حدثنا وکیع عن مرۃ قال جاءنا کتاب عمربن عبدالعزیز فی صدقۃ الفطر نصف صاع عن کل إنسان او قیمۃ نصف درھم عن ھشام عن الحسن قال لابأس ان تعطی الدراھم فی صدقۃ الفطر.
(باب فی عطاء الدراھم فی زکاۃ الفطر ۳؍۶۴مصنف ابن ابی شیبہ )
امام احمد بن حنبل سے کہاگیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز صدقہ الفطر میں نقد رقم قبول کرلیتے تھے تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کا قول چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں ایسے کہتا ہے۔(مغنی ابن قدامہ ۳؍۶۵،فتاویٰ علمیہ ۲؍۱۶۴)
اس مثال سے معلوم ہوا کہ حسن بصری اور امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز نے جمہور کی مخالفت کی ہے اور اپنی سمجھ فقہ کی بناء پر ،پھر جب اس کے بارہ میں وقت کے امام احمد بن حنبل سے پوچھاگیا تو انہوں نے کیاطریقہ کار اپنایا نہ ان کےبارہ میں براقول کہا نہ نسبت کی بلکہ صرف ان لوگوں کے بارہ میں کہا جوحدیث رسول اللہﷺ کے مقابلہ میں کسی کا عمل اجتہاد پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگ حدیث رسول کو چھوڑتے ہیں۔ سبحان اللہ
ماضی قریب میں ہمارے سلف کی ۲امثلہ دیتا ہوں(۱) فاتح قادیان مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری سے جب سوال کیاگیا شرب الدخان(دھویں کانشہ) کے بارہ میں توآپ نے اس کے جواب میں حدیث رسول پیش کی۔
نہی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر ومفتر.
(ابوداؤد:3686مسند احمد6/309)
کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر نشے والی اور عقل کوڈھانپ دینے والی چیز سے منع کیا ہے۔
یعنی ہر وہ چیز جو نشہ دے اور عقل کوڈھانپ دے اس سے منع فرمایا اس میںشرب الدخان بھی آگیا۔
حدیث پیش کی اور فرمایا کہ میرے نزدیک تمباکو ہر صورت میں ناجائز ہے کیونکہ یہ مضرصحت ہے باقی جواصحاب اس کو جائز سمجھتے ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے۔ مگر اس کی نسبت براگمان یابراقول استعمال نہیں کیا کیونکہ مسئلہ قیاسی ہے نہ کہ منصوصی۔
معلوم ہوا کہ فاتح قادیان مولاناثناءاللہ امرتسری نے بھی اختلاف کے موقع پر سلف کے منہج کو اختیار کیا نہ کہ اس سے ہٹ کر مخالف پر اپنی زبان کوہم طلباء کی طرح بے لگام چھوڑا۔
(۲) اسی طرح ہمارے مربی شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی کی مثال پیش خدمت ہے۔
شاہ صاحب ایک مرتبہ جلال پور پیروالاکے پروگرام میں تھے ایک شرارتی شخص نے جان بوجھ کر سوال کیا کہ آپ کا تعویذات کے بارہ میں کیا نظریہ ہے۔ جب کہ شاہ صاحب تعویذات کے بہت مخالف تھے بلکہ تعویذات کوتوحید کےمنافی سمجھتے تھے اب جہاں یہ سوال ہوا وہاں ایک اور وقت کے بہت بڑے جید عالم دین مولانا سلطان محمود جلال پوریa تھے جو قرآنی تعویذات کے قائل تھے یعنی کہ دونوں علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف تھا توشاہ صاحب نے سلف کے منہج کوا پناتے ہوئے صرف یوں کہا کہ میرے نزدیک ہر صورت میں جائز نہیں باقی جو لوگ اس کے قائل ہیں ان سے جواز کا فتویٰ دلائل سے لے لیں۔سبحان اللہ
یعنی اگر شاہ صاحب چاہتے تو دلائل پیش کرکے مخالف پر کچھ کہہ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ سلف کے منہج کو اپنایا۔اور جو اس کے قائل ہیں ان کے پاس بھی دلائل ہیں لہذا آپ اختلاف ضرور کرسکتے ہیں مگر ادب کاخیال رکھنا ضروری اورلازم ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان باتوں میں ہم مبتدی طالب علموں کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے کہ مسائل میں اختلاف ہونے کی وجہ سے ہم کبار علماء سلف پر طعن وتشنیع اور جرح نہ کریں۔ بلکہ سلف کا منہج اختیار کریں، کہ وہ شدتِ اختلاف کے بعد بھی محبت کا پیکر ہوا کرتے تھے۔ یعنی اختلاف صرف مسائل میں وہ بھی ادلہ کے ساتھ نہ کہ مسائل کی وجہ سے شخصیات سے اختلاف ،نفرت،بغض رکھا جائے۔ جس کی کئی مثالیں دی جاسکتیں ہیںلیکن اختصار کے پیش نظر ہمارے مربی کی ایک اورمثال پیش خدمت ہے:
شیخ العرب والعجم علامہ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کااپنے استاذ اور بڑے بھائی علامہ محب اللہ شاہ راشدی سے بعض مسائل میں اختلاف تھا ،مشہور اختلاف وضع الیدین بعد الرکوع تھا۔ جس پر شاہ صاحب نے ۱۶ کتابیں کبارعلماء کے جواب میں لکھیں اس کےبعد بھی محبت کی مثال دی۔ محب اللہ شاہ صاحب وفات پاگئے تو ایک مسئلہ پیش کیا اس وقت محبت کااظہار کیا اور کہا کہ کاش آج اگرمحب اللہ شاہ صاحب زندہ ہوتے تو میں اس مسئلے کے متعلق ان سے گفت وشنید کرتا ان کے علاوہ کوئی ایسا شخص دیکھنے میں نہیں آتا جس سے میں اس مسئلہ کے متعلق گفت وشنید کروں۔(سبحان اللہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اختلاف صرف اور صرف دلائل کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے اور مجھے شریعت ہرگز یہ اجازت نہیں دیتی کہ اگر میں کسی مجتہد سے اختلاف رکھوں تو پھر اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناؤں۔کیونکہ شریعت نے بتادیا ہے کہ اگر ایک مجتہد شرعی ادلہ کے پیش نظر کوئی موقف اپناتا ہے اگر وہ مصیب ہے تو اس کے لئے ڈبل اجر ہے اور اگر مخطی ہے تو ایک اجر ہے ۔پھر میں کیسے اس پرجرح اور طعن وتشنیع کا حق رکھتاہوں۔ اور ہاں یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ اگر میں کسی ایک محبوب عالم کے موقف کو لے کر دوسرے عالم جس نے اپنی زندگی دینی خدمات کے لئے وقف کرڈالی ہو اس پر جرح وطعن وتشنیع کرنا شروع کردوں تو اس کے بڑے بڑے نقصان ہیں جن کو اشارۃً بیان کرتاہوں:
1تقلید کاپیداہوجانا: جس کی مثال یہ ہے کہ احناف بھائیوں کو دیکھا جاسکتا ہے کہ اپنے محبوب عالم کی وجہ سے تقلید کاکرشمہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام پر جرح شروع کردی، کہ فلاں غیرفقیہ ہے وہ فلاں ہے ،فلاں ہے، مزید دیکھیں اصول الشاشی (بحث ثانی میں سنۃ رسول اللہ ﷺ فصل فی اقسام الخبر میں) اور آگے لکھا ہے کہ والقسم الثانی من امرواۃ ھم المعروفون بالحفظ والعدالۃ دون الاجتہاد. (اصول الشاشی،ص:185)
2تکفیریت پیدا ہوتی ہے،زیادتی شدت پر ان کی مثال دیکھیں خوارج کی’’ان الحکم الااللہ‘‘ کا نعرہ لگاکر سیدنا علی اور دیگر صحابہ کرام کو کافر کہنا شروع کردیا۔العیاذباللہ
اسی طرح ایک گروہ نے زکوٰۃ عشر یانصف العشر پر ایک دوسرے کوکافر کہنا شروع کردیا۔دیکھے خوارج کے فرقے ثعالبہ کے گروہ الرشیدیہ نے ایک دوسرے کو صرف عشر اور نصف العشر کی بناء پر کافر کہہ دیا۔ مزید دیکھیں :(الادیان والفرق والمذاہب المعاصرۃ من مطبوعات الجامعۃ الاسلامیہ بالمدینۃ المنورۃ،ص:135)
لہذا اختلاف کا آپ کو حق حاصل ہے لیکن صرف اور صرف ادلہ کی بناء پر اور وہ اختلاف صرف اختلاف المسائل ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں قرآن وحدیث کوسمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ساتھ ہی ساتھ اختلاف المسائل میں سلف کامنہج اپنانے کی بھی توفیق عطافرمائے۔ آمین
vvvvvvvvvvvvv

About حافظ انس کاکا

Check Also

اخبارالجمعیۃ

المعہد السلفی 22جون 2019ءبمطابق۱۷شوال، المعہد السلفی کے نئی تعلیمی سال کاآغاز ہوا، جس میں تمام …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے