Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ اگست » سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ ۔ ایک عہد ساز شخصیت

سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ ۔ ایک عہد ساز شخصیت

سر پے سندھی ٹوپی سجائے، سفید شلوار وقمیص میں ملبوس، خوبصورت سفید گھنی داڑھی، آنکھوں میں مروت، لہجہ میں دھیماپن، زبان صاف وشستہ، جیسے کوثر میں دہلی ہو، میانہ قد ،سرخ وسفید رنگت، خوبصورت جھیل سی آنکھیں، نشست وبرخواست میں مسکنت، خندہ جبین یہ تھے محدث العصر علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی برصغیر پاک وہند میں متعدد علمی گھرانے ایسے باوقار ہیں جنہوں نے کتاب وسنت کی ترقی وترویج نشرواشاعت، تعلیم وتعلم میں نسل درنسل کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جس طرح غزنوی، روپڑی، لکھوی اور سلفی خاندانوں نےہمیشہ دینی مذھبی سیاسی سماجی اقدار کے فروغ میں مثالی مقام حاصل کیا، اسی طرح وادی مہران باب الاسلام سندھ میں راشدی خاندان ایک انتہائی معزز ومحترم علمی ادبی سیاسی سماجی روحانی اور تاریخی خاندان شمار ہوتا ہے۔ جس میں فضیلۃ الشیخ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی صاحب العلم السادس (12 اکتوبر 1921ء -1995ء) بن سید احسان اللہ شاہ راشدی (متوفی 13 اکتوبر 1938ء) بن سید رشد اللہ شاہ راشدی (متوفی 1340ھ) اپنے وقت کے ماہرین علوم اسلامیہ شمار ہوتے ہیں۔ علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی بھی اپنے وقت کے بلند پایہ عالم باعمل باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے جنہیں شیخ الاسلام ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسریؒ (متوفی 1948) نے فن حدیث واصول حدیث کا امام قرار دیا تھا۔
جنہوں نے با ب الاسلام سندھ میں پہلا اسلامی دارالعلوم بنام دارالرشاد 1901ء میں پیر جھنڈو میں قائم کیا، جہاں سے علم وفن کے ہزاروں ماہرین پیدا ہوکر پورے سندھ میں مدارس اسلامیہ کا جال پھیلانے کی سعادت حاصل کی، بہرحال علامہ سید محب اللہ شاہ راشدیؒ اپنی طغیانیوں سے کام رکھنے والا دریا دل محدث العصر تھے، سید راشدیؒ جیسا مرد طرحدار کی رحلت کو اتنے سال بیت چکے مگر ان کی یاد کی گرد بیٹھنے نہیں پائی، مجھے ان کی تدفین میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، انسانوں کا ایک سمندر تا حد نگاہ تک پھیلا ہوا تھا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس میں ہر سیاسی، سماجی، اور مذہبی مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بتارہے تھے کہ جانے والا کتنا عزیز تر انسان تھا!!

؎ اس کو ناقدرئ عالم کا صلہ کہتے ہیں،
مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا۔

وہ جب تک زندہ رہے جواں ہمت رہے، آخری دن تک ان کے جواں سال اسلوب حیات کا بانگپن قائم ودائم رہا۔ محسوس ہوتا تھا کہ چمن علم وعمل انہی کے نغموں سے معمور ومزین ہے ۔ نہ معلوم کیوں مجھے آج تک وہ بڑی شدت سے یاد آتے رہتے ہیں۔

؎ دل کی جن سے تھیں بستیاں آباد
اب کہاں ہیں وہ ہستیاں آباد

وہ مجتہدانہ طبع کے بڑے باحوصلہ ، سندھ کے مایہ نا ز سپوت تھے، بیمارئ دل کو بھی انہوں نے کبھی اپنے اوپر حاوی ہونے نہ دیا، میرے مدت مدید سے ان سے عقیدت مندانہ تعلقات رہے، میں نے محسوس کیا کہ وہ ہر وقت فرقہ واریت،عدم رواداری تشدد پسندانہ ذہنیت کی ہولناک آگ پر قابو پانے اور قرآن وسنت کی دل وجان سے خدمت کرنا چاہتے تھے، اور اس قوم کو تفرقہ، تشدد، جذباتیت، سطحیت کے عفریت سے نجات دینے کے خواہاں تھے، وہ ملت مسلمہ میں بڑے مختلف اور منفرد مزاج کے مالک تھے، وہ گھنٹوں بھر لمبی چوڑی دہواں دھار تقریر کے بجائے کم بولتے لیکن درد دل سے اندر کی بات اس طر ح کہتے کہ۔

؎ از دل خیرد بردل ریزد

کی مصداق ہوتی۔ بعض اوقات آپ اشاروں کنایوں کی زباں میں بہت ساری داستان درد بیاں کردیتے تھے،

؎ خموشی گفتگو ہے،
بے زبانی ہے زباں میری

ان کی اعتدال پسندی، صلح جوئی سے اختلاف رکھنے والے بھی ہوسکتے ہیں لیکن بلاشبہ وہ بڑے ہمہ جہت تصور کے مالک تھے، ان کی طبیعت میں بلا کا سوز وگداز تھا، دوسرے الفاظ میں وہ موجودہ ماحول میں جنس گراں مایہ تھے، آپ قرآن ، علوم القرآن کے ماہر ہونے کے ساتھ علوم الحدیث، معقولات ومنقولات میں بلند مقام پر فائز تھے، اس کے ساتھ سادگی، سچائی، ہمدردی اور غم خواری، حب رسولﷺ بھی ان کے جسم وجاں میں رچ بس رہی تھیں، میں نے متعدد بار مشاہدہ کیا ان کی ہم نشینی سرد وخوابیدہ جذبات کو بھی گرمادیتی تھی، وہ ایک فرد نہ تھے، ایک انجمن، ایک مکتبہ فکر، ایک دبستان علم وادب تھے، ان کے نحیف ونازک جسم وجاں میں گل ولالہ سب سمائے ہوئے تھے، اتفاق سے ابھی چند ہی ماہ قبل پھر سے ان کے مدرسہ دارالرشاد اور مثالی کتب خانہ میں ان مقامات کو نمناک آنکھوں سے دیکھ آیا ہون جہاں موصوف مجھ سے کوتاہ قد کو عصر سے مغرب تک خصوصیت سے صحیح البخاری، تفسیر بیضاوی، دیوان ابن الفارض، شرح عقائد نسفی اپنے منفرد اور مثالی انداز میں پڑھاتے تھے کیا میری قسمت اور کیا وہ خوبصورت ماضی کے مثالی لمحات۔ اس وقت بھی ان کی مترنم آواز میری سماعت میں رس گہول رہی ہے۔

؎ خواب بن کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کررہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا

دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے، اور بے پایاں نعمتوں سے نوازے۔ آمین۔
مختصراََ آپ جامع المعقولات ومنقولات تھے، متقی اور معتدل مزاج شخصیت کے مالک ، ان کے مقاصد جلیل اور امیدیں قلیل تھیں، آپ موجودہ عہد ستم ہائے روزگار میں بھی قرون اولی کے مسلمانوں کی خوبصورت خوشبوء چھوڑگئے ہیں آپ اپنے عہد کے مرد درویش اجلے ذھن، اجلی سوچ، اجلی یادیں اور اجلی گفتگو کے مالک تھے، آپ شرافت، ونجابت کی زندہ تصویر، صاف دل، صاف گو، صاف فکروذہن، صاحب فکر وفراست شخصیت کے مالک تھے، ان کے ضمیر وخمیر میں نہ منافقت، نہ مصلحت پسندی کی عادت کبھی بھٹکی، آپ صاف کھری باتیں کہنے اور سننے کے عادی تھے، وہ زیادہ سنتے اور غور وفکر کے بعد کم بات کرتے لیکن جو کرتے وہ کام کی بات کرتے، ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے ردائے زہد وتقوی میں کبھی ایک دھبہ بھی تلاش نہ کرسکا، آپ شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی (متوفی 1996ء) کے برادر اکبر تھے، یہ خاندان علمی لحاظ سے بڑا باوقار اور تاریخ ساز تھا۔

؎ حاصل عمر نثار ے رہ یار کردم۔
شادم از زندگی خویش کار ے کردم

آپ ساری زندگی اللہ تعالی کے لیے محبت اور اللہ تعالی کے لیے عداوت کے اصول پر کارفرماتھے، انکے شگفتہ مزاج اور پر نور چہرے کو دیکھ کر کتنے زمانے کے دکھی لوگ اپنا غم بھول جاتے تھے۔

؎ کہاں کہاں دل صد چاک اشک خون روئے
دبے ہیں سینکڑوں افلاک ان زمینوں میں

وہ کسی غیر سے بھی نفرت روا نہ رکھتے، علم وفکر کی تلاش میں آئے ہوئے محبت کرنے والوں کو بڑی محبت، مروت اور چاہت سے سینے لگاتے تھے، آپ ساری حیاتی شہرت کی تمنا سے بے نیاز، صلے کے آرزو سے بے پرواہ رہے۔ آج بھی ان کا دارالعلوم مدرسہ دارالرشاد درگاہ شریف عظیم الشان کتب خانہ اور مسجد کی دائیں جانب ان کی آخری آرام گاہ سے ایک خوشبوء فکر وذہن کو معطر کئے دیتی ہے۔

؎ ہنوز آں ابر رحمت درخشاں است
خم وخم خانہ با مہر نشاں است

آپ کو اللہ تعالی نے تین فرزندوں 1۔ سید محمد یاسین شاہ راشدی، 2- سید محمد راشد شاہ راشدی اور سید محمد قاسم شاہ راشدی دامت فیوضہم جیسے اصحاب علم وفکر سے سرفراز کیا جو اپنے والد گرامی کا عکس نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس پورے خاندان کو علم پرور باذوق اور بااخلاق بنایا ہے۔ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی نے 21 جنوری 1995 کو اس جہاں سے الوداع کیا۔ موت العالم موت العالم کے مصداق ایک عالم کی موت ایک عالم کی موت ہوتی ہے آپ ایسے علماء ربانی کے قافلے سے تھے جو نگاہ بلند، سخن دلنواز، اور جان پرسوز سے متصف تھے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمیں۔

؎ حق مغفرت کرے
عجب آزاد مرد تھا۔

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے