Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2020 » شمارہ مارچ تا ستمبر » آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو داغدار کرکے رکھ دیا، آزادی کا نعرہ یوں زور دار آواز میں لگا کہ جیسے پہلے وہ قید تھی!حالانکہ اغیار تک اعتراف کرتے ہیں کہ جو حقوق اسلام نے عورت کو دیئے وہ کوئی اور دنیا کا مذہب نہیں دے سکتا، لیکن ان آوارہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو مادر پدر آزادی کی طلب تھی جو اب’’میرا جسم میر مرضی‘‘ جیسےمکروہ نعرہ کی صورت میں سامنے آچکا ہے! ان ناپاک ذہنوں کامقصدحیا فروشی سے دولت اکھٹی کرنا تھی، دراصل ان کا ہدف صرف پردہ نہ تھا بلکہ ان کو مطلوب اصل حیا، غیرت اور شرم تھی، حسین عورتوں کی تصاویر بازاروں میں سجاؤ اور اپنی اشیا ء فروخت کرومطلوب تھا، ان بے حمیت ٹھگوں نے ایسے قوانین وضوابط بنائے کہ شادی کا راستہ بند کرکے کھلے عام برسربازار برائی کی اجازت مل جائے، اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک گھرانا ایک یونٹ ہے جس کا مرد سربراہ ہے، عورت اس کے لباس کی طرح ساتھی ہے، مرد کماتا ہے، عورت پورے گھر اور بچوں کی تعلیم وتربیت اوردیکھ بھال کرتی ہے لیکن مغرب کی بے رحم آندھیوں نے یہ تمام جائز بندھن پاکستان کی دھرتی پر بھی ایک ایک کرکےبند کردیئے، ناجائزنسل نے رشتوں کے تقدس پر کاری ضرب لگائی ہے، یہ کیا جا نیں رشتے کا تقدس؟ جنہوں نے اپنے بوڑھے والدین کو بڑی بے رحمی سے اولڈ ہاؤس سےسرٹکراتے ٹھنڈی آہیں بھرتے نظر آتے ہیں! اب شادی مشکل ہوچکی ہے، برائی بے راہ روی اور بے حیائی بہت ہی آسان!جو گھر کا ماحول کبھی امن وسکون باہمی محبت اور اخوت کا جذبہ پیدا کرتا تھا وہ ان نالائقیوں کیوجہ سے ختم ہوچکا ہے، آج ہر جانب دیکھو آزادی کے متوالوںکے کالے کرتوتوں کی وجہ سے صلہ رحمی، رشتہ داری حیا وشرم جیسی چیزیں معاشرہ سے’’عنقا‘‘ہوتی نظر آتی ہیں، اب بھائی کا بھائی سے ،اولاد کا والدین سے کوئی تعلق نہیں بچا، اس طرح اسلام کے جاندار قلعہ کی یہ دیوار ڈھائی جارہی ہے لیکن اکثریت خاموش تماشائی ہے، کیا یہ خانہ داری،پردے،غیرت،عزت کو ختم کرکے عزت کی دیوار کو زمین بوس کرکے عزتوں کو تار تار کرتے مغرب کی روشن خیالی پورے معاشرہ کوتہنس نہس نہیں کردے گی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتے رہیں گے :

مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا

جو دیدہ ور ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

یہ بدباطن جو گلے پھاڑ کر ’’آزادی ‘‘کے نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں دارصل یہ اسلامی تعلیمات سے فرار اور آزادی کے خواہاں ہیں، جو کسی صورت میں قوم کو قبول نہیں۔ایسا معاشرہ جہاں مرد عورت کا آزادانہ باہمی اختلاط عمل میں آتا ہو، وہاں سیکڑوں تباہیاں آتی ہیں انسانیت اور اخلاقیات اپنی موت آپ مرنے لگتی ہیں پھر مرد عورت اپنی غرض میں جانوروں سے بدترین بن جاتے ہیں سیکڑوں زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں ، سکیڑوں گھرانے ان کے بیہودہ کرتوتوں کی وجہ سے تباہ ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ کنواری مائیں بن جاتی ہیں اور ناجائز بچے جنم لیتے ہیں اسی عریاں اور بے پردہ زندگی کےنتیجہ میں’’ماوری سرمد‘‘ جیسی درندہ صفت انسان نماشیاطین جنم لیکر معاشرہ میں تعفن پھیلاتی ہیں جس کی ہم نوائی میں بڑی بڑی پارٹیوں کے بڑ ے سیاستدان پشتیبان بن کھڑے ہوتے ہیں، اس سلوگن میں بات کرنے والے مردوں کو کاش کسی بحر عمیق میں جاکر ڈوب مرنا چاہیئے ،دراصل عریاں زبان اور عریاں جسم کا نظارہ پورے معاشرے کو دعوت بے ہودگی اور دعوت شہوت دیتا ہے،پھر ایسے قوم کےلیڈر، ناموراینکر، اسکالر،کالم نویس، دانش وروں سے کیاخاک نیکی کی امید رکھی جائے؟پھر آئے دنوں یہ کیوں رونا رویا

جاتاہے کہ بے گناہ معصوم بچیوں سے ریپ کرکے پھر ان کا گلا گھونٹ کر موت کی نیند کیوں سلایاجاتاہے!؟ ایسے معا شرے میں تو روزانہ کوئی نہ کوئی ’’زینب‘‘ موت کی منہ میں جاتی ہوگی جہاں ایسے آزادی کے علمبردار ،شہوت کے پجاری، سیاستدان، سماجی کارکن اینکر پرسن ،کالم نگار ہونگے وہیں یکے بعد دیگر آفات الالٰہی کا مزید انتظار کرنا چاہیئے! پھر توعصمت دری کرنا،جنونی قاتل پیدا ہونا ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے، پھر کیوں شور مچاتے ہو، اگر آپ کی نگاہ میں عورت کو چند ٹکوں کے عوض بکتا،خریدتا، تباہ وبرباد ہوتا دیکھ کرآپ کے ماتھے پر شکن دکھائی نہ دے تو اس قوم کی اخلاقیات پر رونا چاہیئے ،ویسے بھی اگر آپ ماقبل تا ما بعد از اسلام عورت کے مقام کا تعین کرناچاہئیں تو قرآن وسنت اور تاریخ اسلام میں آپ کو ایمان افروز مواد ملے گا ،جہاں جاہلیت کے دور میں ، گھر میں بعد ازولادت لڑکی کی شکل دکھائی دے جاتی تو اس کو توذلیل کرکے کہیں کا نہ چھوڑتے تھے۔نومولودبچی کو عزت پر دھبہ سمجھا جاتا، اس ذلت سے چھٹکارے کی ایک ہی صورت ہوتی تھی کہ جلد از جلد اسے زندہ درگور کرکے جان چھڑائی جائے۔(ملاحظہ ہو النحل:58,59 الروم:21 البقرۃ:288 لقمان: 14الاحقاف:46)

پھرآپ کو اسلام کی حقانیت معلوم ہوگی ،بہرحال ایک ایسے معاشرہ میں جہاں مرد عورت کے آزادانہ باہمی اختلاط عمل کی حوصلہ افزائی کی جائے وہ معاشرہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجائے گا،ایسے حیوانات خود عورت ذات کے دشمن ہیں ایسے لوگ ہری بھری کھیتوں کو جلاکرخاکستر کرکے پھر بھوک کا رونا روتے ہیں! اللہ تعالیٰ اس قوم کو دشمن ودوست کی تمیز عطا فرمائے۔آمین

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

مولاناعبدالوکیل صدیقی خانپوری رحمہ اللہ

علماءِ اہل حدیث نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہما،محدثین عظام،ائمہ امت، مفسرین عظام ،فاتحین ملت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے