Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اکتوبر » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

دیوبندی عقیدہ نمبر:3

المہند علی المفند میں پہلے اور دوسرے سوال کے جواب میں یہ عقیدہ اس طرح مذکور ہے:

فان البقعۃ الشریفہ والرحبۃ المنفیہ التی ضم اعضائہ ﷺ افضل مطلقا حتی من الکعبۃ ومن العرش والکرسی کما صرح بہ فقھائنا رضی اللہ عنھم.

اس لئے کہ وہ حصۂ زمین جو جناب رسول اللہ ﷺ کے اعضاء مبارکہ کو مس کئے ہوئے ہےعلی الطلاق افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ اور عرش وکرسی سےبھی افضل ہے،چنانچہ فقہاء نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔(المہندعلی المفند،ص:35مطبوع ادارہ اسلامیات)

خلاصہ المہند میں اس بات کو’’عقیدہ :۳‘‘ کا عنوان دیاگیا۔

(حوالہ بالا،ص:156)

’’اعتراض :یہ عقیدہ بدعت پر مبنی ہے اور اصول دین کے خلاف ہے فرمان ربانی ہے:

[  رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ](سورہ مومنون :۱۱۶،توبہ:۱۴۱)

[ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ   ](بروج:۱۵)

قال القاسمی: وتخصیصہ لکونہ عظیم المخلوقات، ان آیتوں میں عرش کی عظمت وکرامت وبزرگی کا ہونا اس لئے مذکور ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میںسب سے عظمت والاہے کرسی کے بارے میں ہے۔

عن ابن عباس الکرسی موضع القدمین قال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین.

کرسی اللہ کے قدموں کی جگہ ہے ۔(ابن کثیر ،قرطبی، الاسماء والصفات بیہقی ،ص:۴۴تفسیر احسن الکلام )

اللہ کے قدموں کی جگہ افضل ہے یانبی کی قبر کی مٹی؟نبیﷺ نے فرمایا:

واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ.

یعنی:اے مکہ اللہ کی قسم تو اللہ کی تمام زمینوں سے محبوب اور بہتر ہے۔

(رواہ احمد ،ابن ماجہ، ترمذی وصححہ ،نیل الأوطار۵؍۴۸)

…دیوبندیوں نے قاضی عیاض کی تقلید کی ہےاس سے قبل یہ دعویٰ کسی نے نہیں کیاتھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ قول اصول اسلام کے خلاف ہے اور بدعت پر مبنی ہے اور ہم نہیں جانتے کہ قاضی عیاض  رحمہ اللہ سے قبل یہ دعویٰ کسی نے بھی کیا ہو۔

(موازانہ کیجئے،ص:۴،۵)

گھمن :جواب: اس اعتراض میں شاہ صاحب نے سب سے پہلے قرآن کریم کی دوآیتیں اور اس کی تفسیر میں مولانا جمال الدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ کا قول اس کے دوسرے نمبر پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے کرسی کے معنی اور تیسرے نمبر پر ایک حدیث نقل کی ہے،اور آخر میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے، ہر ایک کا تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں:(ص:۵۳)

جواب: گھمن صاحب کا لگایاہوا یہ حساب وکتاب صحیح نہیں کیونکہ شاہ صاحب نےسب سے پہلے یہ واضح کیا ہے کہ :

یہ عقیدہ بدعت پر مبنی ہے، اور اصول دین کے خلاف ہے۔

(موازانہ کیجئے،ص:۴،۵)

اور گھمن صاحب نے خود بھی یہ بات شاہ صاحب کے حوالے سے نقل کی ہے لیکن غور نہیں فرمایا،ذرا توجہ مبذول فرماتے تو ان پر واضح ہوجاتا  کہ محترم شاہ صاحب نےاصول دین کے مطابق اس عقیدہ کی حقیقت مختصر اور دوٹوک الفاظ میں واضح فرمادی کہ یہ بدعتی عقیدہ ہے، گھمن صاحب پر ہم پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ اکابر دیوبند کا بھی یہی مسلمہ اصول ہے کہ:

عقیدہ قائم کرنے کے لئے دلیل قطعی کی ضرو رت ہے اور نفی کے لئے صرف عدم دلیل ثبوت کافی ہے۔(فتوحات نعمانیہ،ص:۳۵۵)

مزیدسنئے!دیوبندیہ کے شیخ الاسلام ’’شبیر احمد عثمانی صاحب‘‘ لکھتے ہیں:

آخرت میں مومنین کو حسبِ مراتب رویت ہوگی جیسا کہ نصوص کتاب وسنت سے ثابت ہے…باقی مواضع میں چونکہ کوئی نص موجود نہیں لہذا عام قاعدہ کی بناء پر نفیٔ رویت ہی کا عقیدہ رکھاجائے گا۔

(تفسیر عثمانی،زیر تفسیر سورۂ انعام ،آیت نمبر:۱۰۳)

اس عبارت سے بھی یہ عقیدہ واضح ہوتا ہے کہ جن باتوں کی کوئی نص نہیں ان میں نفی کا عقیدہ رکھاجائے گا یہی عام قاعدہ ہے لیکن حیرت ہے کہ دیوبندیہ کے’’متکلم اسلام‘‘ اپنے اکابر کے اس اصول کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے ایسے جیسے اس قاعدہ سے ہی بے خبر ہیں، یہ بامر مجبوری تجاہل عارفانہ اختیار کئے ہوئے ہیں، چونکہ گھمن صاحب جیسے دیوبندیوں کے تمام ’’متکلمین اسلام‘‘ ومفکرین جمع ہوکر بھی کوئی ایک ایسی عام نص قطعا پیش نہیں کرسکتے جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ’’زمین کا وہ حصہ جو رسول اللہ ﷺ کے جسد اطہر کو چھوئے ہو ئے ہیں سب سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘

چہ جائیکہ وہ کوئی قطعی الثبوت وقطعی الدلالت نص پیش کرسکیں، دیدہ باید!حالانکہ اصولاًیہ بات ان پر لازم ہے اور ان کی ذمہ داری ہے چونکہ حیاتی نظریہ کے حامل دیوبندی حضرات یہ بات عقیدہ کے درجہ میں تسلیم کرتےہیں ،یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں یکسر قاصر ہیں تو اس طرف توجہ ہی نہیں فرماتے، اور یاد رہے کہ کسی بھی جگہ کو اپنی من مرضی سے کوئی فضیلت قطعا نہیں دی جاسکتی جب تک کہ دلیل نہ ہو امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

المواضع کلھاوالبقاع أرض اللہ، فلایجوز أن یفضل منھا شیٔ علی شیٔ الابخبر یجب التسلیم لہ.

تمام مقامات اور مخصوص جگہیں اللہ کی زمین ہیں بس جائز نہیں کہ ان میں سے کسی حصہ کو کسی دوسرے حصہ پر فضیلت دی جائے سوائے اس کے کہ ایسی خبر (دلیل) ہوجس کا قبول کرنا لازمی ہو۔

(التمہید ،موسوعۃ شروح المؤطا ،مطبوعہ قاھرہ ،مصر۶؍۵۵۱)

رسول اللہ ﷺ کی شان وعظمت ،مقام ومرتبہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے لیکن ان کی نسبت کسی جگہ کو اپنی طرف سے فضیلت دینا صحیح نہیں چونکہ اس کے لئے بھی دلیل کی ضرورت ہے جیسا کہ امام ابن عبدالبر  رحمہ اللہ نے بیان فرمایا،دیوبندیہ کے’’شیخ الاسلام، مفسر قرآن ومحدث‘‘علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے سورہ حدید آیت نمبر:۲۷کی تفسیر کرتے ہوئے ’’بدعت‘‘ کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:

’’بدعت کہتےہیں ایسا کام کرنا جس کی اصل کتاب وسنت اور قرون مشہود لھا بالخیر میں نہ ہو، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیاجائے‘‘

(تفسیر عثمانی ،ص:۷۱۸)

زیربحث قول دیوبندیوں کے ہاں عقیدہ کا درجہ رکھتا ہے، جس سے واضح ہے کہ یہ اس بات کو دین سمجھتے ہیں جب کہ اس کی اصل نہ کتاب وسنت میں ہے اور نہ ہی قرون ثلاثہ میں لہذا اس بات وعقیدہ کے بدعی ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا، یہ ہوئی بدعت کی تفصیل اب آئیے گھمن صاحب کے دیگر دلائل کی طرف۔

خیانت کاباطل الزام:

گھمن: ’’غیر مقلدین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ دین اور علمائے کرام کی عبارتوں میں خیانت کرکے عوام الناس کو د ھوکہ دیتے رہتے ہیں، شاہ صاحب نے بھی اپنے ان اکابر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جمال الدین قاسمی صاحب کی عبارت میں خیانت کرتے ہوئے اسے ادھورا نقل کیا ہے، عوام الناس کو دھوکے سے بچانے کے لئے مکمل عبارت نقل کی جارہی ہے:

وھو[ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ]ای المحیط بکل شیٔ ۔۔۔ ترجمہ: وہ رب ہے عرش عظیم کا یعنی ہر چیز کو اپنےا حاطہ میں لیا ہوا ہےاور اس سے تمام مخلوقات کی طرف اللہ کاحکم اور فیصلے آتے ہیں اور اس کے لئے عرش کی تخصیص اس لئے کی ہے کہ وہ تمام مخلوق سے بڑا ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب اس کے اندر سما سکتے ہیں اور العظیم کو ایک قرأت میں بالرفع پڑھاگیا ہے تو اس صورت میں یہ رب کی صفت ہوگی، قاسمی صاحب کی اس عبارت سے شاہ صاحب کااستدلال بچند وجوہ باطل ہے۔‘‘(المہند اور اعتراضات،ص:۵۳)

جواب:گھمن صاحب یہ اہل حدیث کا طریقہ نہیں البتہ مقلدین دیوبند کا طریقہ ضرور ہے کہ وہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے یا اہل حدیث کی طرف باطل عقائد منسوب کرنے کے لئے علماء کرام کی عبارتوں میں خیانت کرکے عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں بطور مثال اپنی تنظیم کی طرف سے شائع کردہ ایک کتاب ’’آئینہ غیرمقلدیت‘‘ دیکھ لیجئے،الحمدللہ شاہ صاحب نے کوئی خیانت نہیں کی البتہ آپ نےاپنے ایسے اکابرین کی عادت سیۂ پر عمل کرتے ہوئے ضرور خیانتیں کی ہیں بعض کاثبوت ہم باحوالہ نقل کر آئے ہیں اور بعض آئندہ صفحات میں اپنے مقام پر واضح کی جائیں گی۔

گھمن صاحب نے قاسمی صاحب کی مکمل عبارت تو نقل کردی لیکن یہ نہیں بتلایا کہ ’’خیانت‘‘ کیا ہے اگر ان کے اس الزام کی وجہ یہ ہے کہ آگے قاسمی صاحب نےیہ لکھا ہے کہ’’العظیم کو ایک قرأت میں رفع کے ساتھ ’’العظیمُ‘‘ پڑھا گیا ہے اور اس صورت میں یہ عرش کے بجائے رب کی صفت ہوگی۔ تو عرض ہے کہ جو راجح قرأت قرآن مجید میں موجود ہے،وہ ’’العظیم‘‘ کسرہ کے ساتھ ہی ہے، اس کے مطابق قاسمی صاحب نے جو تفسیر کی ہے وہ شاہ صاحب نے نقل کردی،مختصرا۔اور اس صورت میں یہ ’’العرش‘‘ ہی کی صفت بنتی ہے جیسا کہ قاسمی صاحب نے تفسیر میں اس قرأت کے مطابق تفسیر کی ہے۔ لہذا خیانت کا الزام محض باطل پروپیگنڈہ ہی ہے۔

دیوبندیہ کے’’حکیم الامت مجدد الملت اشرف علی تھانوی صاحب نے[  رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ]کی تفسیر میں لکھا:

’’ف:عرش کا عظیم ہونا اس سے ظاہر ہےکہ آفتاب زمین سے ڈیڑھ سوحصہ سے بھی بڑا ہے اور آسمان میں کتنی ذرا سی جگہ میں موجود ہے پس آسمان کتنا بڑا ہوا ،پھر دوسراآسمان اس سے اور تیسرا اس سے وعلی ہذا القیاس کس قدر بڑ ا ہوگا اور سب آسمان کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے بڑی ڈھال میں سات درہم ڈال دیئے جاویں پھر کرسی عرش کے سامنے ایسی ہی چھوٹی ہے اس سےاندازہ کرلیاجاوے۔‘‘

(بیان القرآن ۲؍۱۶۶زیرآیت:التوبۃ:۱۲۳)

تھانوی صاحب کی اس تفسیر سےبھی واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ تفسیر ’’العظیم‘‘ کو عرش کی صفت مانتے ہوئے کی ہے، اگر دوسری قرأت بشرط ثبوت مان لی جائے تو کسی ایک قرأت کا بھی انکار نہیں ہوگا دونوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور دونوں صورتوں میں ثابت ہونے والی بات کو بھی، الغرض کہ خیانت کا الزام محض تعصب کانتیجہ ہے۔

(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے