Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ اکتوبر » مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں

مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں

﴿المعــونـة الصـمــديـة فـي إبـطـال أصــول الـفــرقـة المســعـوديـة﴾

تاریخ کےسنہرے اوراق اس بات پر شاہدعدل ہیں کہ علمائے اہلحدیث کا دفاع حدیث میں ایک مثالی کردارہے۔جب بھی کسی منکر حدیث یا محرف اور وضاع نے حدیث میں لفظی یا معنوی تحریف سے کام لیا تو ان حرّاس دین نے اس پر سخت جروحات کرکے اس کا اصلی چہرہ عوام الناس کے سامنے رکھ دیا اور اس راہ میں انہوں نے لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کی اور یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا یہاں تک کہ دور حاضر میں محدث العصر علامہ محمد ناصر الدین البانی اورذہبی دوراں محسن اہل حدیث حافظ زبیرعلی زئی رحمہمااللہ نے اس فریضےکو سرانجام دیا،اپنے دور کےمحرفین کی تحریفات وتخریبات کوبےنقاب کرکےرکھ دیا،ان علمائےحق کی جہود ومساعی اور لائق تحسین علمی خدمات اہل باطل سے برداشت نہ ہوسکیں تو انہوں نے تعصب وجمود اورتقلیدی آگ سے زخمی سینوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان علمائے حق کے خلاف باطل پروپیگنڈے شروع کردیے ۔۔!!

 اس سلسلے کی ایک کڑی  ۱۳۹۵؁ھ بمطابق ۱۹۷۵ ع میں جنم لینے والے نومولود اورتکفیری فرقے’’ فرقہ مسعودیہ رجسٹرڈ جماعت المسلمین‘‘ کے ’’بے اختیار امیر‘‘ جناب محمداشتیاق صاحب کی کتاب بنام ’’محمدناصرالدین البانی فن حدیث کے آئینے میں‘‘ بھی ہے جس میں موصوف نےمحدث البانی رحمہ اللہ کی شاندار علمی خدمات سے صرف نظر کرتے ہوئے محض چند روایات کو بنیاد بنا کر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقات کو نشانہ تنقید بنانے کی مذموم سعی کی ہے ۔

ستم کا عالم یہ ہے کہ موصوف نے اپنی اس کتاب میں تقریبا 112مرتبہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا نام لیا ہے لیکن کہیں بھی نہ اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے اور نہ ہی ’’رحمہ اللہ ‘‘ لکھا ہے جو جماعت التکفیر کی امامت اور قيادت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔!!

جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ وہ عظیم ہستی ہیں جن سے بغض وعناد کے باوجود فرقہ مسعودیہ کے بانی سید مسعود احمد صاحب نے ان کی تحقیق کو اپنی کتابوں میں بار بار نقل کیا ہے یہاں  تک کہ دیوبندیوں کے خلاف بھی علامہ البانی کی تحقیق کو پیش کیا ہے دیکھئے ۔

( التحقیق فی جواب التقلید ص:128)

محدث البانی رحمہ اللہ کی شان کا کیا کہنا کہ انکے مخالفین اور معاندین بھی انکی تحقیق کے محتاج ہیں ۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں

اشتیاق صاحب کا مبلغ علم:

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ’’لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ‘‘ ہر فن کیلئے چنیدہ لوگ ہوتے ہیں جن کو اس فن مین ’’ید طولی‘‘ اور بڑا ملکہ حاصل ہوتا ہے خود اشتیاق صاحب بھی ’’تنقید و تحقیق کا منصب ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ:

’’محدثین اور محققین نے یہ طے کردیا ہے کہ ہر فن میں اس شخص کے کلام کا اعتبار ہوگا جو اس فن کا ماہر ہوگا‘‘

(محمدناصرالدین البانی فن حدیث کے آئینےمیں ص:125)

جبکہ خود موصوف کی نہ علم سے کوئی نسبت ہے نہ فن مصطلح الحدیث اور اسماءالرجال سے واقفیت ہے لیکن محض ناموری اور سستی شہرت کے شوق نے موصوف کو یہ کتابچہ لکھنے پر مجبور کیا ۔۔!!

شہرت کے ہم حریص ہیں عزت سے کام نہیں

بدنام ہوئے تو کیا ہوا نام تو ہو جائے گا

ہم موصوف سے صرف یہی التماس کریں گے کہ :

زہریلا سانپ ہے سستی شہرت کا جنوں بھی

ڈس جائے گر یہ موذی پھر سنبھلنے نہیں دیتا

اب ہم موصوف کی چند جہالتیں ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام جان سکیں کہ جو شخص علامہ البانی رحمہ اللہ کا رد لکھنے اٹھا ہے خود اسکی علمی پوزیشن کیا ہے ؟

چنانچہ موصوف امام نووی رحمہ اللہ کی ایک عبارت نقل کرکے اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ :

’’تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نماز استسقاء سنت ہے نماز استسقاء مسنون ہے یا غیر مسنون اس سلسلے میں کچھ اختلاف ہوا ہے‘‘

(تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ،ص:12)

اس سے بڑھ کر جہالت کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف موصوف نماز استسقاء کے سنت ہونے پر علماء کا اتفاق نقل کر رہےہیں اور دوسری طرف  مسنون اور غیر مسنون ہونے میں اختلاف کی بات بھی کر رہے ہیں ۔ ذَالِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْم.

جبکہ امام نووی رحمہ اللہ کی مکمل عبارت اس طرح ہے :

أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ الِاسْتِسْقَاءَ سُنَّةٌ وَاخْتَلَفُوا هَلْ تُسَنُّ لَهُ صَلَاةٌ أَمْ لَا فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا تُسَنُّ لَهُ صَلَاةٌ بَلْ يُسْتَسْقَى بِالدُّعَاءِ بِلَا صَلَاةٍ.

’’یعنی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارش کیلئے دعا مانگنا سنت ہے اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس کیلئے باقاعدہ نماز ادا کرنا مشروع  ہے یا نہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز ادا کرنا مسنون نہیں ہے بلکہ نماز ادا کیے بغیر محض دعا کے ساتھ بارش طلب کی جائے گی‘‘

(شرح صحیح مسلم للنووی187/6طبع :دار احیاءالتراث،بیروت)

اسی طرح موصوف علامہ البانی رحمہ اللہ کی عبارت

’’إِسْنَادُه ضَعِیْفٌ فِيْهِ مَجْهُوْلٌ وَ ضَعِیْفَانِ‘‘ کا ترجمہ کرتے ہیں کہ:’’ اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس میں جہالت ہے اور مزید دو علتیں ہیں‘‘ (تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ص110)

’’ضعیفان‘‘کا ترجمہ ’’ مزيددو علتیں ‘‘سے کرنا موصوف کی نری جہالت ہے اسی طرح موصوف جامع ترمذی پر علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کی تعلیقات سے ایک عبارت نقل کرکے لکھتے ہیں:

’’رواہ الترمذی‘‘(۔۔۔۔فن حدیث کے آئینے میں ص12؛78؛79)

اسی طرح موصوف علامہ احمدشاکر رحمہ اللہ کی عبارت

’’ إِذَا کَانَ الرَّاوِيُّ ثِقَةً وَبَرِیْئًا مِنَ التَّدْلِیْسِ‘‘کا ترجمہ کرتے ہیں کہ:

’’ جب راوی ثقہ ہو تو وہ تدلیس سے بری ہے ‘‘

(۔۔۔فن حدیث کے آئینے میں ص12)

موصوف نے جہالت یا مفاد کی وجہ سے ’’واو‘‘  کا ترجمہ ہی ہضم کر دیا۔۔!!

اسی طرح موصوف نے کئی مقامات پر احادیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے

’’ رواہ فتح الباری‘ رواہ نیل الاوطار‘ رواہ کنزالعمال ‘رواہ الفتح الربانی‘ رواہ تلخیص الحبیر وغیرہ‘‘ دیکھئے

(یوسف لدھیانوی کے اعتراضات ص48 ‘92 ‘145 ‘196 ‘ فن حدیث کے آئینے میں ص 102 )

اب موصوف ہی بتائیں کہ الفتح الربانی صاحب اور علامہ کنزالعمال صاحب وغیرہم کس صدی کےمحدث ہیں اور انہوں نے اپنی کونسی کتاب میں یہ روایات نقل کی ہیں۔۔؟؟

جس جاہل کو نہ عام سی عربی عبارت کا  ترجمہ کرنا آتا ہے اور نا ہی حوالہ ذکر کرنے کا سلیقہ ہے وہ بھی اٹھا ہے محدث البانی رحمہ اللہ کا رد لکھنے کیلئے  ۔۔!!

گل گئے گلشن گئے جنگلی دھتورے رہ گئے

اڑ گئے دانا جہاں سے فقط بے شعورے رہ گئے

مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں:

 قارئین کرام! اس سے قبل کہ ہم اشتیاق صاحب کے تناقضات اور مزيد جہالتیں ذکر کریں،اعتراضات کے جوابات عرض کریں… فن حدیث کے متعلق فرقہ مسعودیہ کے چند جعلی اصولوں کا جائزہ لیں گے تاکہ اس نومولود فرقے کی حقیقت واضح ہوجائے۔

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

خوشبو آ  نہیں سکتی کاغذ کے پھولوں سے

مسعودی اصول {1}فن تدلیس لغوہے :جیسا کہ مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’ حقیقت یہ ہے کہ تدلیس جھوٹ سے بھی بدتر ہے‘‘ مزید لکھتے ہیں کہ :

’’ تدلیس کا فن کچھ نہیں بالکل بے حقیقت ہے‘‘

اور لکھتے ہیں کہ : ’’ ایسا شخص ہرگز امام یا محدث نہیں ہوگا بلکہ بہت بڑا دھوکے باز ہوگا اور حدیث مذکورہ بالا کی روشنی میں جماعت المسلمین سے خارج سمجھا جائے گا ‘‘

آگے لکھتے ہیں کہ :’’ لھذا وہ مدلس ایک بہت بڑے شرک کا مرتکب ہوا اس نے شرک فی التشریع شرک فی الشریعت یا شرک فی الدین کا ارتکاب کیا علماء پر تعجب ہے کہ ایسے دھوکے باز مشرک کو امام مانتے ہیں‘‘ (اصول حدیث از مسعود ص 13‘14)

جائزہ : تدلیس راوی کی عدالت اور ثقاہت میں قدح کا باعث نہیں ہے ’’ بانی فرقہ ‘‘ سے پہلے کسی نے بھی فن تدلیس کا انکار نہیں کیا اصول حدیث کی کوئی ایسی کتاب نہیں جس میں تدلیس کی بحث نہ ہو  بلکہ محدثین عظام نے اس فن کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں چند ایک کے نام پیش خدمت ہیں:

٭ ذکرالمدلسین للامام النسائی المتوفی(303ھ)

٭منظومة الحافظ الذهبى المتوفى (748ھ)

٭جامع التحصیل للعلائی المتوفی (741ھ)

٭منظومة ابی محمود المقدسی المتوفی (765ھ)

٭کتاب المدلسین لابن العراقی المتوفی (826ھ)

٭التبیین لأسماء المدلسین لابن العجمی المتوفی (841ھ)

٭طبقات المدلسین لابن حجر المتوفی(852ھ)

٭اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی المتوفی (911ھ)

٭الفتح المبین للمحدث الحافظ زبیر علی زئی المتوفی (1435ھ)

لھذا فن تدلیس کو لغو قرار دینا فرقہ مسعودیہ کا جدید اختراعی موقف ہے باقی ’’ بانی فتنہ ‘‘ کا یہ باور کرانا کہ امام شعبہ‘ بخاری اور مسلم رحمہم اللہ اس فن کو نہیں مانتے تھے سراسر غلط ہے

٭امام شعبہ بن حجاج العتکی المتوفی (160ھ) فرماتے ہیں کہ:

كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى فَمِ قَتَادَةَ فَإِذَا قَالَ لِلشَّيْءِ حَدَّثَنَا عَنَيْتُ بِهِ فَوَقَفْتُهُ عَلَيْهِ وَإِذَا لَمْ يَقُلْ حَدَّثَنَا لَمْ أَعُنْ بِهِ

’’ میں قتادہ کے منہ کی طرف دیکھتا رہتا تھا جب وہ حدثنا کہتے تو میں اس (حدیث) کو یاد کرلیتا جب وہ حدثنا نہیں کہتے تو میں اس کو چھوڑ دیتا ‘‘

(تقدمة الجرح والتعدیل 1/169 ‘170وسنده صحیح طبع: داراحیاءالتراث، بیروت)

٭ مزید فرماتے ہیں کہ:

كَفَيْتُكُمْ تَدْلِيْسَ ثَلَاثَةٍ: اَلْأَعْمَشِ، وَأَبِيْ إِسْحَاقَ،وَقَتَادَةَ

’’ میں آپ کیلئے تین بندوں کی تدلیس کیلئے کافی ہوں اعمش ابواسحاق اور قتادہ‘‘

(مسئلة التسمية لمحمد بن طاهر المقدسی ص 47وسنده صحیح طبع: مکتبة الصحابة، جده)

ثابت ہوا کہ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ اعمش ابو اسحاق اور قتادہ کو مدلس سمجھتے تھے اگر وہ مسعود صاحب کی طرح  مدلس کو جھوٹا دھوکے باز اور مشرک سمجھتے تو سماع کی صراحت والی روایات بھی قبول نہ کرتے۔ فَلْيُتَأَمَّلْ عَلیٰ ذَالِکَ.

٭ امام محمد بن اسمعیل البخاری المتوفی (256ھ) ابراہیم بن عطیہ الواسطی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

عِنْدَهُ مَنَاكِيْرُ كَانَ هُشَيْمٌ يُدَلِّسُ بِهِ

’’ یعنی اس کے پاس منکر روایتیں ہیں ہشیم اس سے تدلیس کرتے تھے ‘‘

(التاریخ الکبیر 1/298 رقم الترجمة 988طبع دارالکتب العلمية بیروت)

واضح رہے کہ ہشیم بن بشیر ثقہ امام اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی ہیں۔

٭ امام مسلم بن حجاج القشیری المتوفی (261ھ)  فرماتے ہیں کہ:

إِذَا كَانَ الرَّاوِيْ مِمَّنْ عُرِفَ بِالتَّدْلِيسِ فِي الْحَدِيثِ، وَشَهُرَ بِهِ، فَحِينَئِذٍ يَبْحَثُونَ عَنْ سِمَاعِهِ فِي رِوَايَتِهِ، وَيَتَفَقَّدُوْنَ ذَلِكَ مِنْهُ كَيْ تَنْزَاحَ عَنْهُمْ عِلَّةُ التَّدْلِيسِ

’’ جب راوی تدلیس فی الحدیث میں مشہور اور معروف ہو تو اس وقت محدثین اس کی روایات میں سماع کی صراحت تلاش کرتے ہیں تاکہ ان سے تدلیس کی علت دور ہوجائے ‘‘

(مقدمہ صحیح مسلم ص:22طبع: دارالسلام ،الریاض)

معلوم ہوا کہ امام شعبہ،بخاری اور مسلم رحمہم اللہ بھی فن تدلیس کو مانتے تھے ’’بانی فرقہ ‘‘ کے نزدیک مدلس راوی کذاب ہوتا ہے کیا مقلدین مسعود صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مدلسین کی روایات کو موضوع قرار دیں گے ۔؟؟ مسعود صاحب نے تدلیس کو شرک فی الدین اور مدلس کو مشرک کہا ہے جبکہ محدثین کی ایک بڑی جماعت نے کئی رواۃ کو مدلس قرار دیا ہے کیا مقلدین مسعود ان سب کی تکفیر کریں گے ۔؟؟ اگر نہیں تو ان آئمہ کرام کے بارے میں کیا کہیں گے جنہون نے باقاعدہ مدلسین پر کتابیں لکھی ہیں ۔؟؟

فن تدلیس اور امیر فرقہ:  فرقہ مسعودیہ کھوکھراپاری جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے امیر دوم محمد اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ:’’بنا بریں مدلسین راویوں کی احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں شامل کیا ہے اور صحیح تسلیم کیا ہے۔ امام ترمذی نے بھی اپنی جامع الترمذی میں مدلس راوی کی احادیث کو حسن یا صحیح تسلیم کیا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب جزء رفع یدین اور جزء القرأۃ میں مدلس راوی کی احادیث کو حسن یا صحیح مانا ہے‘‘

 (۔۔۔فن حدیث کے آئینے میں 61‘62)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ: ’’ ان تمام روایات میں عن قتادۃ عن الحسن ہے قتادۃ مدلس ہیں لھذا یہ تمام روایا ت منقطع ہیں ‘‘

(تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ص72)

مزید لکھتے ہیں کہ : ’’ حماد ثقہ ہیں مامون،کثیرالحدیث ہیں مگر تدلیس کرتے تھے اور یہ ا ثر عن سے مروی ہے ‘‘

آگے لکھتے ہیں کہ :’’ شریک تدلیس کرتے تھے‘‘

(تحقیق صلاۃ ص 100‘102)

مسعود صاحب نے مدلس کو مشرک قرار دیا ہے اشتیاق صاحب نےصحیح مسلم کے رواۃ سمیت تین آئمہ کرام (حماد بن سلمہ‘ قتادہ بن دعامہ اور شریک بن عبداللہ القاضی) کے نام لیکر انکو مدلس(اپنے أصول کے مطابق)مشرک قرار دیا ہے جبکہ یہ تینوں ہستیاں بالاتفاق مومن اور مسلم ہیں اب اسکی دو صورتیں ہیں:

(۱)مومن کو مشرک یا کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا

’’ جب آدمی اپنے بھائی کو کہے اے کافر تو ان دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا ‘‘

(صحیح البخاری، الادب،باب من اکفر اخاه بغیر تاویل رقم الحدیث 6103 طبع دارالسلام الریاض)

(۲)مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ : ’’ جماعت المسلمین ہی وہ جماعت ہے جو کہتی ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس کا  انکار کفر ہے ‘‘ (جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک ص19)

مزید لکھتے ہیں کہ : ’’ جماعت المسلمین سے نکلنا اسلام سے نکلنا ہے ‘‘  (حوالہ مذکورہ ص533)

جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے نزدیک کوئی بھی راوی مدلس نہیں ہے اشتیاق صاحب نے تین آئمہ کرام کو مدلس قرار دے کر مسعود صاحب کی ایجاد کردہ جماعت المسلمین رجسٹرڈ سے خروج اختیار کرلیا ہے جو  مسعود صاحب کے بقول  اسلام سے خروج ہے لھذا دونوں صورتوں میں کفر  اشتیاق صاحب کے سر کا تاج بنتا ہے ۔

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

لو  اپنے  دام  میں  صیاد  آ گیا

مسعودی اصول{2}ہر بدعتی راوی ضعیف ہوتا ہے:

مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ :’’ راوی کی ثقاہت کے سلسلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ۔۔۔۔ اس کے عقائد خالصتا اسلامی تھے یا غیر اسلامی اس کا تعلق کسی خاص فرقے سے تھا یا نہیں وہ کسی بدعت کا موجد تو نہیں وہ کسی بدعت پر عمل کرتا تھا یا نہیں وہ با عمل تھا یا نہیں اس کے اعمال سنت کے مطابق تھے یا نہیں غرض یہ کہ اگر اس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں تو وہ ثقہ ہوگا اگر اس میں تمام خوبیاں موجود نہ ہوں تو وہ ضعیف ہوگا ‘‘ (اصول حدیث ص7)

یعنی کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والا اور بدعتی راوی مسعود صاحب کے نزدیک ضعیف  اور دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔

جائزہ :مسعود صاحب کا وضع کردہ یہ اصول علم مصطلح الحدیث اور اسماءالرجال سے انکی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے اگر  راوی کا فرقہ سے تعلق اور بدعتی ہونا ضعف کی وجہ اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجانا ہے تو  صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بدعتی رواۃ کی احادیث کے بارے میں مقلدین مسعود کیا کہیں گے۔۔؟؟ حقیقت یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر جعلی اور بناوٹی اصولوں کا سہارا لینا اور مفاد کے خلاف انہی اصولوں سے انحراف کرنا ’’بانی فرقہ‘‘ اور انکے مقلدین کی ’’عادت مبارکہ‘‘ ہے یہ بات ہم بالوثوق کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی مسعودی ایسا نہیں جو مسعود صاحب کے وضع کردہ اس اصول سے وفا کرتا ہو بلکہ خود مسعود صاحب نے اپنے ہی قلم سے اس اصول کی کھلم کھلی مخالفت کی ہے چنانچہ موصوف ’’مصنف عبدالرزاق ‘‘کے حوالے سے دعائے قنوت ’’ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ ‘‘ ۔۔۔الخ نقل کرکے لکھتے ہیں ’’ سندہ صحیح ‘‘ دیکھیے:( حاشیہ صلوۃ المسلمین ص :307)

حالانکہ اسی روایت کی سند میں عمرو بن عبید معتزلی داعی بدعتی ہے اور اس پر سخت جروحات بھی ہیں

٭ امام ابو حفص عمرو بن علی الفلاس المتوفی( 249ھ) فرماتے ہیں:

’’ کَانَ مَتْرُوْکَ الْحَدِیْثِ صَاحِبَ بِدْعَةٍ ‘‘ یعنی متروک الحدیث بدعتی تھا

(الجرح والتعدیل 6/321رقم الترجمة1365 طبع: دارالکتب العلمية، بیروت)

٭ امام ابو حاتم محمد بن ادریس بن منذر الرازی المتوفی(277ھ) فرماتے ہیں:

’’مَتْرُوْکُ ا لْحَدِیْثِ ‘‘(حوالہ مذکورہ)

٭ امام یحیی بن معین المتوفی(233ھ )فرماتے ہیں :’’ لَیْسَ بِشَيْءٍ‘‘

(تاریخ یحیی بن معین بروايۃ الدوری2/159رقم الترجمۃ 4019 طبع: دارالقلم ،بیروت)

٭ امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری المتوفی(256ھ )نے بھی ’’ضعیف ‘‘ قرار دیا ہے دیکھیے

(الضعفاءالصغیر للبخاری رقم الترجمة262طبع:عالم الکتب، بیروت)

٭ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی المتوفی(303ھ) فرماتے ہیں :’’ مَتْرُوْکُ الْحَدِیْثِ‘‘

(کتاب الضعفاء والمتروکین رقم الترجمة469 طبع: مؤسسة الکتب الثقافية ،بیروت)

٭ امام ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی المتوفی(385ھ) نے بھی’’ ضعیف ومتروک ‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے

(الضعفاءوالمتروکون للدارقطنی الرقم401طبع:مکتبة المعارف ،الریاض)

٭ امام ابو اسحق ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی المتوفی(259ھ) فرماتے ہیں:’’ غَیْرُ ثِقَةٍ ضَالٌّ‘‘ گمراہ تھا ثقہ نہیں تھا۔

مزید فرماتے ہیں کہ ’’غَالِیًا فِي الْقَدْرِ مَا یَنْبَغِيْ یُکْتَبُ حَدِیْثُهُ‘‘ پکا قدری تھا اس لائق نہیں کہ اسکی حدیثوں کو لکھا جائے۔

(احوال الرجال للجوزجانی1/185،108طبع:الرسالة، بیروت)

٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(354ھ) فرماتے ہیں:

دَاعِيَة إِلَى الْإِعْتِزَالِ يَشْتُمُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ

’’یعنی داعی معتزلی تھا صحابہ کرام کی تنقیص کرتا تھا‘‘

(المجروحین 2/35الرقم 614 طبع :دار الصمیعی ،الریاض)

٭ امام ابو جعفر محمد بن عمرو بن موسی بن حماد العقیلی المتوفی (322ھ) نے(الضعفاءالکبیر3/277الرقم 1284طبع: دارالباز، مکہ)  میں اور

٭ امام ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی المتوفی(365ھ)نے (الکامل فی الضعفاء6/174طبع: دار الکتب العلميۃ ،بیروت)میں ذکر کرکےسخت جروحات نقل کی ہیں

٭ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی المتوفی (597ھ) نے ’’ ضعیف ومتروک‘‘  قرار دیا ہے دیکھئے

(الضعفاءوالمتروکین2/229الرقم2574طبع:دارالکتب العلمية ،بیروت)

 ٭ امام ابوحفص عمر بن شاہین المتوفی(385ھ) فرماتے ہیں : ’’لَیْسَ بِشَيْءٍ‘‘

(تاریخ اسماء الضعفاءوالکذابین لابن شاهين رقم الترجمة:444)

٭ امام ابونعیم الاصبہانی المتوفی(430ھ) فرماتے ہیں : ’’لَیْسَ بِشَيْءٍ‘‘

(کتاب الضعفاء لابی نعیم رقم الترجمة:164 طبع: دارالثقافة)

ایسے ضعیف ومتروک اور غالی بدعتی کی روایت کےبارے میں ’’ سندہ صحیح ‘‘ کہنا مضحکہ خیز ہے اور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں سے انحراف ہے۔

 اسی طرح ’’ ابوالصلت عبدالسلام بن صالح الھروی ‘‘ کی روایت کو مسعود صاحب نے’’حسن ‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے:

(جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک ص739)

 جبکہ ’’ ابوالصلت عبدالسلام الھروی ‘‘ پکا بدعتی تھا اسکے متعلق

٭ امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی بن حماد العقیلی المتوفی (322ھ) فرماتے ہیں : ’’ کَانَ رَافَضِیًّا خَبِیْثًا‘‘

خبیث رافضی تھا ۔

(الضعفاء الکبیر الرقم1036طبع: دارالباز، مكه)

٭ امام ابواسحق ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی المتوفی (259ھ) فرماتے ہیں:

’’زَائِغًا عَنِ الْحَقِّ ‘‘ حق سے منحرف تھا ۔

(احوال الرجال للجوزجانی الرقم:379طبع: الرسالة)

٭ حافظ شمس الدین الذہبی المتوفی (748ھ) فرماتے ہیں : ’’شِیْعِيٌّ جِلْدٌ‘‘ کٹر شیعہ تھا۔

(میزان الاعتدال4/348الرقم: 5056 طبع:دارالکتب العلمية بیروت)

ایسے رافضی بدعتی کی روایت کو ’’حسن‘‘ کہہ کر مسعود صاحب نے اپنے ہی اصول کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا مسعود صاحب کے شاگرد خاص رجسٹرڈ فرقے کے امیر دوم محمد اشتیاق صاحب نے بھی اپنے استاد کے اصول کا کوئی لحاظ نہیں رکھا اشتیاق صاحب نے’’ یونس بن خباب ‘‘ کو ثقہ قرار دیا ہے دیکھئے (۔۔۔فن حدیث کے آئینے میں ص6)

جبکہ ’’ یونس بن خباب ‘‘ کٹر رافضی بدعتی تھا جس کے متعلق

٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(354ھ)فرماتے ہیں:

وَكَانَ رَجُلٌ سُوْءٌ غَالِيًا فِي الرَّفْضِ كَانَ يَزْعُمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَتَلَ ابْنَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَا يَحِلُّ الرِّوَايَةُ عَنْهُ لِأَنَّهُ كَانَ دَاعِيَةً إِلَى مَذْهَبِهِ ثُمَّ مَعَ ذَلِك يَنْفَرِدُ بِالْمَنَاكِيْرِ الَّتِيْ يَرْوِيْهَا عَنِ الثِّقَاتِ

غالی رافضی تھا یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکی دونوں بیٹیوں کو قتل کیا تھا اس سے روایت لینا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے مذہب کی طرف دعوت دیتا تھا اور ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتا تھا(المجروحین3/140طبع: دارالباز،مكه)

٭ امام ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی المتوفی(385ھ) فرماتے ہیں : ’’سَيِّءُ الْمَذْهَبِ‘‘

بدترین مذہب والا تھا ۔

(الضعفاء والمتروکین الرقم:604طبع :الرسالة)

 ٭ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی (597ھ) فرماتے ہیں کہ :’’ کَانَ شَدِیْدَ الَّرَفْضِ ‘‘

پکا رافضی تھا۔

(کتاب الضعفاءوالمتروکین لابن الجوزی الرقم:3865طبع: دارالباز،مكه)

 ٭ امام ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(748ھ) فرماتے ہیں :’’ وَکَانَ رَافَضِیًّا‘‘ رافضی تھا۔

(میزان الاعتدال7/314 الرقم: 9911 طبع: دارالکتب العلمیة، بيروت)

٭ امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی بن حماد العقیلی المتوفی (322ھ) فرماتے ہیں :

’’  کَانَ مِمَّنْ یَغْلُوْ فِی الَّرَفْضِ ‘‘ غالی رافضیوں میں سے تھا ۔

(الضعفاءالکبیر للعقیلی4/458الرقم2089طبع دارالبازمكه)

قارئین کرام ! ایک طرف مسعود صاحب کا اصول ہے کہ راوی ثقہ وہ ہوگا جس کا  فرقے سے تعلق نہ ہو خالصتًا اسلامی عقیدے کا حامل ہو اگر اس کاتعلق کسی فرقے سے ہے تو اس کی روایت ناقابل قبول ہے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے دوسری طرف مسعود صاحب اور انکے مقلدین معتزلی،رافضی،شیعہ اور بدعتی راویوں کی احادیث کو صحیح اور حسن تسلیم کرتے ہیں انکو ثقہ ‘ثبت‘اور عادل سمجھتے ہیں یہ دوغلی پالیسی کیوں ۔۔؟؟ کیا روافض،معتزلہ، اور اہل تشیع کو مسعودی مقلدین فرقہ نہیں سمجھتے ۔۔؟؟ کیا انکے عقائد خالص اسلامی عقائد ہیں ۔۔؟؟اگر نہیں اور یقینًا نہیں تو اپنے ہی اصول سے انحراف کیوں ۔۔؟؟

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا

خواہش کا تابع ہو یا سنت کا پابند ہوجا

مسعودی اصول {3}جس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ سکوت اختیار کریں وہ صحیح ہوتی ہےجیسا کہ مسعود صاحب ’’سکتتین کی حدیث کو کس کس نے صحیح تسلیم کیا‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:’’۸ ابوداود نے اس پر سکوت کیا‘‘

(جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک ص: 733)

ایک اور روایت کی آئمہ کرام سے تصحیح نقل کرے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ امام ابوداود نے اس حدیث پر سکوت اختیار کیا اور امام حاکم نے اس کی تصحیح کی امام ذہبی نے بھی اس کو صحیح کہا‘‘

(اعتراضات اور انکے جوابات ص: 42)

 یعنی جس روایت پر امام ابو داود سکوت اختیار کریں مسعود صاحب کے نزدیک وہ صحیح ہوتی ہے ۔

جائزہ:اصولِ محدثین کو نظر انداز کرتے ہوئے محض امام ابو داود رحمہ اللہ کے سکوت کی وجہ سے کسی روایت کو صحیح یا حسن قرار دینا سراسر غلط ہے

٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی (852ھ) فرماتے ہیں:

فَالصَّوَابُ عَدَمُ الْاِعْتِمَادِ عَلَى مُجَرَّدِ سُكُوْتِهِ لِمَا وَصَفْنَا أَنَّهُ يَحْتَجُّ بِالْأَحَادِيْثِ الضَّعِيْفَةِ

’’درست یہ ہے کہ محض ان (امام ابوداود) کے سکوت پر اعتماد نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ وہ ضعیف احادیث سے بھی احتجاج کرتے تھے‘‘

(النكت على كتاب ابن الصلاح 1/443 طبع: دار الرأية، الرياض)

خود امام ابو داود سلیمان بن اشعث السجستانی المتوفی (275ھ) فرماتے ہیں :

وَمَا كَانَ فِيْ كِتَابِيْ مِنْ حَدِيْثٍ فِيْهِ وَهْنٌ شَدِيْدٌ فَقَدْ بَيَّنْتُهُ

’’میری کتاب میں (روایت کردہ) جس حدیث میں سخت ضعف ہے میں نے اس کو واضح کر دیا ہے‘‘

(رسالة ابي داود الى اهل مكة ص: 27 طبع :المکتب الاسلامی، بیروت)

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس روایت میں سخت ضعف نہیں ہے بلکہ ہلکا ضعف ہے اس پر امام صاحب سکوت اختیار فرماتے ہیں۔

اگر مطلق سکوت روایات کی تصحیح یا تحسین ہے تو امام صاحب رحمہ اللہ نے مرسل اور منقطع روایات پر بھی سکوت اختیار کیا ہے (جبکہ مراسیل خود امام ابوداود کے نزدیک بھی حجت نہیں ہیں) تو کیا محض سکوت کی وجہ سے مقلدین مسعود مراسیل کو صحیح تسلیم کریں گے ۔۔؟؟ حَاشَا وَكَلَّا.

امام ابوداود نے عبداللہ بن لہیعہ‘صالح بن نبھان مولی التوأمۃ ‘دلھم بن صالح‘محمد بن عبدالرحمن بن البیلمانی‘اسحق بن عبداللہ بن ابی فروۃ جیسےمجروح اور ضعیف راویوں کی احادیث پر بھی سکوت اختیار کیا ہے اور عبداللہ بن لہیعہ کے متعلق خود مسعود صاحب لکھتے ہیں: ’’عبداللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں‘‘

 (جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک751)

اب کیا سکوت ابوداود کی وجہ سے مقلدین مسعود عبداللہ بن لہیعہ کی حدیث کو صحیح تسلیم کرکے’’بانی فرقہ‘‘ کی مخالفت کریں گے ۔۔؟؟

تنبیہ:ہمارے علم کے مطابق عبداللہ بن لہیعہ کے بارے میں راجح یہ ہے کہ وہ صدوق حسن الحدیث ہیں البتہ مدلس اور مختلط تھے انکی قبل از اختلاط سماع کی صراحت والی روایات صحیح ہیں۔واللہ اعلم .

الغرض محض سکوت ابوداود کی وجہ سے روایات کو صحیح یا ضعیف قرار دینا درست نہیں ہے بلکہ ہر روایت کو محدثین کے اصولوں پر پرکھا جائے گا جو اصول محدثین کی رو سے صحیح ہے اس کو صحیح اور جو ضعیف ہے اس کو ضعیف کہا جائے گا باقی امام ابو داود نے کئی ایسی احادیث پر سکوت اختیار کیا ہے جو اصول محدثین کی رو سے سخت ترین ضعیف ہیں اسکی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں یہاں پر صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں :

عمارہ بن غراب کہتے ہیں کہ:

أَنَّ عَمَّةً لَهُ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ وَلَيْسَ لَهَا وَلِزَوْجِهَا إِلاَّ فِرَاشٌ وَاحِدٌ قَالَتْ أُخْبِرُكِ بِمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دَخَلَ لَيْلاً وَأَنَا حَائِضٌ فَمَضَى إِلَى مَسْجِدِهِ – قَالَ أَبُو دَاوُدَ تَعْنِى مَسْجِدَ بَيْتِهِ – فَلَمْ يَنْصَرِفْ حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي وَأَوْجَعَهُ الْبَرْدُ فَقَالَ ادْنِى مِنِّي فَقُلْتُ إِنِّى حَائِضٌ فَقَالَ وَإِنْ اكْشِفِى عَنْ فَخِذَيْكِ فَكَشَفْتُ فَخِذَىَّ فَوَضَعَ خَدَّهُ وَصَدْرَهُ عَلَى فَخِذَىَّ وَحَنَيْتُ عَلَيْهِ حَتَّى دَفِئَ وَنَام

انکی پھوپھی نے انہیں بتایا کہ انہوں نےعائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ ہم میں ایک حائضہ ہو اور اسکے لئے اور اسکے شوہر کے لیے صرف ایک ہی بستر ہو (تو ایسی صورت میں کیا کرے؟)عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی ایک بار کی بات بتاتی ہوں کہ آپ ﷺ (گھر میں) تشریف لائے اور اپنی مسجد میں چلے گئے  ۔امام ابو داود نے کہا کہ اس سے مراد گھر کی مسجد ہے ۔ پھر واپس نہ آئے یہاں تک کہ میری آنکھیں بوجھل ہو گئیں (یعنی نیند آگئی) اور آپ ﷺ کو سخت سردی لگی تو فرمایا :’’میرے قریب ہوجاؤ‘‘  میں نے کہا کہ میں حیض سے ہوں آپ نے کہا کہ اپنی رانوں سے کپڑا ہٹاؤ میں نے اپنی رانوں سے کپڑا ہٹایا تو آپ نے اپنا رخسار اور سینہ میری رانوں پر رکھا اور میں بھی آپ کی طرف جھک گئی یہاں تک کہ آپ ﷺ نے گرمی حاصل کی اور سو گئے

 (ابوداود‘الطهارة ‘باب في الرجل یصیب منها ما دون الجماع رقم  الحدیث: 267دارالسلام ،الریاض)

اس حدیث پر امام ابوداود نے سکوت اختیار کیا ہے ۔ جبکہ یہ حدیث تین علتوں کی بنا پر سخت ضعیف ہے

 عبدالرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہے انکے متعلق

٭ امام ابو زرعۃ عبیداللہ بن عبد الکریم بن فروخ الرازی المتوفی(264ھ) فرماتے ہیں:’’لَیْسَ بِالْقَوِيِّ‘‘

(الجرح والتعدیل 5/291 الرقم: 8445دارالکتب العلمیة، بيروت)

٭ امام ابو زکریا یحیی بن معین المتوفی(233ھ) اور

٭ امام یحیی بن سعید القطان المتوفی(198ھ) نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ (حوالہ مذکورہ)

 ٭ امام ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل البخاری المتوفی (256ھ) نے بھی ضعیف قرار دیا ہے دیکھیے

 (الضعفاء الصغیر رقم الترجمة: 207 طبع :عالم الکتب ،بیروت)

٭ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی المتوفی(303ھ) فرماتے ہیں:’’ضَعِیْفٌ‘‘

(الضعفاءوالمتروكون رقم الترجمة: 378 طبع:مؤسسة الكتب الثقافية ،بيروت)

 ٭ امام ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی المتوفی(385ھ) فرماتے ہیں:’’لَیْسَ بِالْقَوِيِّ‘‘

(الضعفاءوالمتروكون رقم الترجمة: 337 طبع: مكتبة المعارف، الرياض)

٭ امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی بن حماد العقیلی المتوفی(322ھ) نے بھی ضعیف قرار دیا ہے دیکھیے:

(الضعفاءالكبير 2/332رقم الترجمة: 927طبع: دارالباز،مكه)

٭ امام ابوحفص عمر بن شاہین المتوفی(385ھ) فرماتے ہیں :’’ضَعِيْفٌ‘‘

(تاريخ اسماءالضعفاءوالكذابين رقم الترجمة: 389 )

٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(354ھ)فرماتے ہیں:

’’ كَانَ يَرْوِي الْمَوْضُوْعَاتِ عَنِ الثِّقَاتِ وَيَأْتِيْ عَنِ الْأَثْبَاتِ مَا لَيْسَ مِنْ أَحَادِيْثِهِمْ‘‘

ثقہ راویوں سے موضوع اور ایسی روایات بیان کرتا تھا جو انکی احادیث میں سے نہیں ہوتی تھیں۔

(المجروحين 2/14رقم الترجمة: 581طبع: دار الصميعى،الرياض)

٭ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی المتوفی (597ھ) نے ’’ ضعیف ومتروک‘‘  قرار دیا ہے دیکھئے:

(الضعفاءوالمتروکین 2/94الرقم:1870طبع:دارالکتب العلمية، بیروت)

 ٭ امام ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی المتوفی(365ھ)نے (الکامل فی الضعفاء5/457طبع :دار الکتب العلمية ،بیروت)اور

٭ امام ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(748ھ) نے بھی ضعیف قرار دیا ہے دیکھیے:

(المغنى في الضعفاء 1/601رقم الترجمة 3566 طبع:دار الكتب العلمية ،بيروت)

٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی (852ھ) فرماتے ہیں:’’ضَعِيْفٌ فِيْ حِفْظِهِ‘‘

حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے۔

(تقریب التهذيب رقم الترجمة: 3862 دارالرشيد ،سوريا)

{2} عمارہ بن غراب مجہول ہے

٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی (852ھ) فرماتے ہیں:

تَابِعِيٌّ مَجْهُوْلٌ غَلَطَ مَنْ عَدَّهُ صَحَابِيًّا

’’مجہول تابعی ہیں جس نے انکو صحابہ میں شمار کیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے‘‘

(تقريب التهذيب رقم الترجمة 4857طبع دار الرشيد سوريا)

{3} عمة له (انکی پھوپھی) مجہولہ ہے ۔لَمْ أَعْثُرْ عَلَى تَرْجِمَتِهَا فِيْ كُتُبِ الرِّجَالِ وَاللهُ أَعْلَمُ بِحَقِيْقَةِ الْحَالِ.

ان تین اسباب ضعف کی موجودگی میں سکوت ابوداود چہ معنی دارد؟؟ کیا انکے سکوت کی وجہ سے مجاہیل اور ضعفاء کی توثیق ہو جائے گی ؟؟ إِذْ لَيْسَ فَلَيْسَ.

{2} سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ يَتَوَضَّأُ وُضُوْءَهُ لِلصَّلاَةِ ثُمَّ يُفِيْضُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ وَنَحْنُ نُفِيْضُ عَلَى رُءُوْسِنَا خَمْسًا مِنْ أَجْلِ الضُّفُرِ

رسول اللہ  ﷺ نماز کی طرح وضوء کرتے پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے تھے مگر ہم (اپنی)چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار سر پر پانی ڈالتی تھیں۔

(ابوداود،الطهارة،باب الغسل من الجنابة رقم الحديث:241 دارالسلام ،الرياض)

اس حدیث پر امام ابوداود نے سکوت اختیار کیا ہے ۔

جبکہ اسکی سند میں ’’صدقہ بن سعید کوفی‘‘ اور’’ جمیع بن عمیر ‘‘ دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں دیکھئے :

( تـهذيب التهذيب 4/380،الرقم:3012، 2/100 الرقم :1023طبع :دارالكتب العلمية ،بيروت)

قارئین کرام!ان امثلہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ محض امام ابوداود رحمہ اللہ کا سکوت کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ رجسٹرڈ فرقے کے امیر دوم محمد اشتیاق صاحب سنن ابی داود کی ایک روایت(جس پر امام ابوداود نے سکوت اختیار کیا ہے) پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’مندرجہ بالا حدیث شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اس حدیث کی سند میں عیسی بن عبداللہ ہے اس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی عبدالحمید بن جعفر کی مخالفت کی ہے‘‘

(تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ص 200)

معلوم ہوا کہ سکوت ابوداود کی اشتیاق صاحب کے ہاں بھی کوئی حیثیت نہیں اس لئے انہوں نے بھی ’’بانی فرقہ‘‘ کے اس اصول کی مخالفت کرکے ’’جماعت المسلمین‘‘ سے خروج اختیار کر لیا جو بقول مسعود اسلام سے خروج ہے۔

مانو نہ مانو جان جاناں تمہیں اختیار ہے

ہم نیک وبد جناب کو سمجھائے دیتے ہیں

مسعودی اصول {4} جس روایت کو کسی محدث نے صحیح قرار دے دیا وہ صحیح ہی ہے کسی علت قادحہ کی بناء پر اسکو ضعیف قرار دینا غلط ہےجیسا کہ محمد اشتیاق مسعودی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’ جن احادیث کو آئمہ نے حسن کہا ہے تو وہ حسن کے درجے کو پہنچ گئیں ‘‘ (۔۔۔فن حدیث کے آئینے میں ص1)

جائزہ: احادیث کی تصحیح وتحسین کے سلسلے میں جرح تعدیل کے اصول وضوابط کو تقدیم وترجیح حاصل ہے جو حدیث اصول محدثیں کی رو سے ضعیف ہے وہ ضعیف ہی تسلیم کی جائے گی چہ جائیکہ کسی محدث سے اس کی تصحیح منقول ہو کیونکہ تتبع واستقراء سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ بہت ساری احادیث ایسی ہیں جن کو کسی نہ کسی امام یا محدث نے صحیح قرار دیا ہے جبکہ انکی اسانید سخت ضعیف ہیں مثلا ترک رفع الیدین کے متعلق سیدنا عبداللہ بن  مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ورایت کو امام ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی المتوفی (279ھ) نے ’’حسن‘‘اور امام ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی المتوفی (456ھ) نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے :

(جامع ترمذی رقم الحدیث 257،المحلى 4/88 مسئله 442)

کیا اس روایت کو دو آئمہ کی تصحیح کی وجہ سے مقلدین مسعود صحیح تسلیم کریں گے ۔؟؟

 یہ بات اصول حدیث کے ادنی طالب علم سے بھی مخفی نہیں ہے کہ احادیث کی تصحیح کے سلسلے میں بشری تقاضا کے موجب محدثین عظام سے تساہل یا وہم کا سرزد ہونا بعید نہیں بلکہ عین ممکن ہے جیساکہ حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی (852ھ)ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

وَغَفَلَ ابْنُ حِبَّانَ وَاْلحَاكِمُ عَنْ عِلَّتِهِ، فَصَحَّحَاهُ

’’ ابن حبان اور حاکم اسکی علت(قادحہ) پر مطلع نہ ہو سکے اور اسکو صحیح قرار دے دیا‘‘

(نتائج الافکار 1/124طبع مکتبة ابن تیمية القاهرة)

کیا کسی محدث کی تصحیح سے صحت کی تمام شرائط پوری ہوجائیں گی ؟ اور سارے اسباب ضعف زائل ہو جائیں گے ؟

حق بات یہ ہے کہ اگر کسی محدث کی تصحیح کو سینے سے لگاتے ہوئے سند میں موجود اسباب ضعف کو نظر انداز کرکے ان روایات کو صحیح سمجھا جائے تو محدثین کے متفقہ اصولوں کی مخالفت لازم آتی ہے ۔ فَتَدَبَّرْ جِدًّا

اسی وجہ سے اپنےہی  اصول سے جان چھڑانے کیلئے رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے بے بس امیرمحمد اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ :

’’ بقول آئمہ کے امام ترمذی کی حسن تقریباًضعیف نکلتی ہے‘‘ ۔

 (تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ص 166)

مزید لکھتے ہیں کہ : ’’ امام ترمذی کی حسن تقریبا ضعیف ہی ہوتی ہے اور ابن حزم کی تصحیح بھی اتنی پائے کی نہیں ابن حزم کسی حدیث کو صحیح کہہ دیتے تھے پھر اس سے رجوع کر لیتے تھے ‘‘ ۔

 (حوالہ مذکورہ ص 171)

کیا امام ترمذی اور ابن حزم رحمہما اللہ محدث نہیں ہیں ۔؟؟ اگر ہیں اور یقینا ہیں تو انکی تصحیح وتحسین کا اعتبار کیوں نہیں ہے ۔؟؟ شاید فرقہ مسعودیہ کے نزدیک حق کی طرف رجوع کرنا کبیرہ گناہ ہے اس لئے وہ مسعود صاحب کی غلط باتوں کا بھی دفاع کرتے رہتے ہیں مسعود صاحب کی ’’تحقیق ‘‘ کو حرف آخر سمجھنا دلائل کی بنیاد پر ان سے اختلاف رکھنے والے کو ملت اسلامیہ سے خارج سمجھنا اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی تصحیح کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’انکی تصحیح کسی پائے کی نہیں‘‘ انصاف کا خون کرنے کے مترادف نہیں ۔؟؟

ذرا آپ اپنی اداؤں پے غور کریں

ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

مسعودی اصول {5}ضعیف راوی وہ ہوگا جس کو تمام آئمہ ومحدثین نے ضعیف کہا ہو جیساکہ مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’اگرچہ ابوالصلت ضعیف ہے لیکن سب کے نزدیک ضعیف نہیں ہے‘‘(جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک ص 739).

جائزہ:جب مسعود صاحب اور انکے مقلدین کو کوئی روایت اپنے مفاد میں ملتی ہے تو جمہور محدثین کی جروحات سے صرف نظر کرتے ہوئے کسی ایک محدث کا بے سند یا ضعیف قول نقل کرکے اس روایت پر’’ سندہ صحیح ،، کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ راوی ضعیف ہے لیکن سب کے نزدیک ضعیف نہیں ہے۔

 اور اگر انکے مفاد کے خلاف کوئی روایت آجائے تو جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں کسی راوی کے متعلق ایک امام کی تضعیف کا تراش خراش کرکوئی قول نقل کرکے اس روایت کو ضعیف کہہ دیتے ہیں ۔ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزى.

About ابوانیس عبدالجباراظہر

Check Also

مسعودی اصولِ حدیث محدثین کی عدالت میں

مسعودی اصول {6} جس روایت پر امام منذری رحمہ اللہ سکوت اختیار کریں وہ صحیح …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے