Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ نومبر » بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور کرتارپور راہ داری!

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور کرتارپور راہ داری!

الحمدللہ والصلاة والسلام علی رسول الله وعلی آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد:

قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

9 نومبر2019ء کو جب ہمارے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا اورتمام ذرائع ابلاغ پر کرتاپور راہدری اور دنیا کے سب سے بڑے گردوارے کے افتتاح کی خبریں چھائی ہوئی تھیں اور بزعم خودہم  اس کو مذہبی رواداری اور انڈیا کی طرف محبت اور خیرسگالی کے عمل سے تعبیر کررہے تھے، اسی دن سرحدکے اس پار 25سال پرانے بابری مسجد کے مقدمہ کافیصلہ بھی سنادیاگیا،جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کوبالخصوص اور پاکستان کو بالعموم یہ واضح پیغام دے دیا گیاکہ مودی حکومت سے کسی بھی خیر کی توقع رکھنا محض اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ میں واضح جانبداری کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا : کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوگا، اور تین ماہ کے اندر اس کی تعمیر کا آغاز کردیاجائے کیونکہ سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کا زیادہ حق ہے،اور مسلمانوں کو با بری مسجد کی جگہ پانچ ایکٹر قطعہ ارضی کی بھیک ایودھیا کی کسی مقام پر دے دی جائے!

یہ خبر ہندوستان کےبائیس کروڑ مسلمانوں پر بجلی بن کر گری، ان کو ہندوستان میں اپنی وقعت کا اندازہ ہوگیا کہ کس طرح’’ ہندوستان کی سیکولر ریاست ‘‘ہونے اوردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کےتاثر کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ،اور دوٹوک انداز میں واضح کردیاگیا کہ بھارت میں اقلیتوں کا کوئی مستقبل نہیں، ہندوستان اب مودی کے ہندو توا اور اس کے سیوکوں کا ملک ہے، یہاں تک کہ سپریم کورٹ جس کی طر ف امید کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا کہ یہاں سے اقلیتوں اور کمزور طبقات کو عدل وانصاف کی فراہمی ہوگی، وہ بھی ان کے چرنوں میں گرچکا ہے!

ریاست اترپردیش کے ضلع ایودھیا میں ہماری تاریخی بابری مسجد جوکہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی طرف منسوب ہے 1527ءکوتعمیر کی گئی تھی، اس کےبلندوبالامینار درحقیقت مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی ایک جھلک تھے جن کو 1994ء میں آج کی سرکار میں شامل ہندوتوادہشت گردوں نے ایک منظم سازش کے تحت منہدم کردیا تھا۔۔۔!!!

اس کے ردعمل میں ہونے والے فسادات میں دوہزار کے قریب لوگوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔۔۔۔

ابھی وہ مقدمہ بھی عدالتوں میں چل رہا ہے گو کہ اس ظالمانہ فیصلے کے بعد یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اس کافیصلہ کیا ہوگاکیونکہ !

وہی قاتل وہی حاکم وہی منصف ٹھہرے

اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر

ہندوستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو بھی بول پڑی کہ اس فیصلے میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے ،موجودہ ہندوستان کے آئین کے بننے سے بھی پہلے جہاں نمازیں ہورہی تھیں، کس طرح سےیہ کہا جاسکتا ہے کہ اس جگہ مندر بنے گا؟ جب یہ جگہ ہی مندر کی ہے تو بابری مسجد کو جنہوں نے منہدم کیا وہ کیسے مجرم ہونگے؟ پھر تو یہ کبھی ختم نہ ہونے والاسلسلہ ہوگا کئی اور مساجد اور اقلیتوں کی عبادت گاہیں ایسی ہیں جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ مندروں کی جگہ بنی ہیں ان کو کیسے تحفظ دیاجائے گا؟بلکہ بابری مسجد انہدام کیس کے تحقیقی عمل میں شامل جج نے بجاطور پر کہہ دیاہے کہ’’اس فیصلے کے اثرات بابری مسجد انہدام کیس پر بھی پڑیں گے!

حاصل کلام یہ ہے کہ اس ظالمانہ فیصلے سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آچکا،ہمارے حکمران لاکھ کوشش کرلیں، جذبہ خیرسگالی کے تحت کتنے ہی اقدامات کرلیں، محبت کی کتنی ہی پینگیں بڑھالیں لیکن نتیجہ صفرہوگا،مودی حکومت اس کو اپنی طاقت اور ہماری کمزوری ہی سمجھے گی ،ہماری امن کوششوں کا اب تک کیا نتیجہ نکلا،کشمیر میں کرفیو کو آج سوروز ہوچکے ،ہم نے اقوام متحدہ سے لے کر او،آئی ،سی تک کس کس فورم میں اپیلیں نہیں کیں، آرٹیکل310تو کیا کرفیو تک بھی اپنے کشمیری بھائیوں اوربہنوںسے نہ اٹھواسکے!!!

جناب عالی!دنیا کا مسلمہ اصول ہے برابری کی سطح پر ڈائیلاگ ہوتے ہیں ،تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی،لیکن ہم ان اقدامات سے مزید اپنے آپ کو، کشمیری کازکو اور ہندوستانی مسلمانوں کوضعف واضحلال کی طرف دھکیل رہے ہیں!

قابل غور مقام ہے، اس فیصلے کو جو سالہہ سال طاق نسیان میں پڑا تھا،اسی دن جب کرتارپور راہداری کھولی جارہی تھی،نکالنے کی اور واضح جانبداری دکھانے کی کیاضرورت تھی؟ یہی کہ تم بھلے ا پنے دیدہ ودل فرش راہ کردو، ہماری راہوں میں لمبے لیٹ جاؤلیکن ہماری طرف سے تمہیں نفرتوں کے کانٹے ہی ملیں گے، ہم سے کسی خیر کی توقع رکھنا تمہاری حماقت اور بیوقوفی ہوگی…!

محسن اہل حدیث اورخطیب بے باک علامہ احسان الٰہی ظہیر  رحمہ اللہ کےیہ تاریخی الفاظ میرے دماغ میںگونج رہے ہیں کہ ’’بزدلی سے اگرقومیں بچا کرتیں توبہادروں پر کبھی موت نہ آتی‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں حالات کادرست فہم عطا کرے اور اس کی روشنی میں شجاعت اور بہادری کے ساتھ دیانتدارانہ اور ہوش مندانہ فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

About شیخ عبدالصمد مدنی

Check Also

فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

09 مارچ بروز پیر شب تقریباً آٹھ بجے، ایک روح فرسا اور المناک خبر موصول …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے