Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جون » صحیح مسلم کی ایک حدیث کی شرح

صحیح مسلم کی ایک حدیث کی شرح

خطبہ مسنونہ کے بعد!

حدیث کی کتاب صحیح مسلم میں پیارے پیغمبر ﷺ کی ایک حدیث موجود ہے ،ایک واقعہ کی صورت میں، آج کی گفتگو میں کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پورے واقعہ کو بیان کریں اور اس واقعہ سے جتنے بھی اسباق اور دروس ملتے ہیں ان کاتذکرہ کریں۔

امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح مسلم کتاب الجہاد(1780)میں یہ حدیث لائےہیں:ایک قافلہ سفر پہ رواں دواں تھا اس قافلہ میں سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،ان کے شاگرد تابعی فرماتے ہیں کہ اس قافلے میں اکثر سیدناابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کی طرف سے کھانے کی دعوت ہوتی تھی، اکثر پورے قافلے والوں کو وہ کھانا کھلاتےتھےوہ تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے سوچا آج پورے قافلے کو میں کھانا کھلاؤں گا تو میں سب سے پہلے سیدناابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں  نےکہاکہ آج کھانا میری طرف سے ہے یہ سنتےہی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :سبقتنی ،آپ مجھ سے سبقت لے گئے ،یعنی آج بھی میرا ہی ارادہ تھا اور یہ بات میں نے کہنی تھی ،کھانے کی دعوت میں نے دینی تھی لیکن آپ مجھ سے سبقت لے گئے اس سے یہ درس ملتا ہے،یہ سبق ملتا ہےکہ ایک دوسرے کو کھانا کھلانا،کھلانے کی دعوت دینا یہ بھی ان امور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو امور ہمارے اسلاف میں، ہمارے بڑوں میں ،سلف صالحین میں،صحابہ اور تابعین میں بدرجہ اتم موجود تھے، اور قرآن مجید میں اور اللہ کے نبی ﷺ کے فرامین میں اس کا تذکرہ خوب ملتا ہے :[وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝۸ ](الدھر:۸)

ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو ۔

 قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تذکرہ فرمایا مؤمنین کی صفات بیان کیں کہ وہ کھانا کھلاتےہیں ،[عَلٰي حُبِّہٖ]باوجود اس کے کہ کھانے کے ساتھ ایک لگاؤ ہوتا ہے آدمی یہی چاہتا ہے کہ یہ جو چیز پکی ہے وہ میں ہی کھاؤں، میرے بچے کھائیں، کافی دن ہم اس کو استعمال کریں یہ سوچ ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں یہ ایک اچھی خوبی ہے ۔

سیدنا عبداللہ بن سلام  رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے ،پیارے پیغمبر ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو یہ بھی اللہ کے نبی ﷺ کو دیکھنے کےلئے آپ کے پاس آئے، اس وقت اللہ کے نبی ﷺ جو حدیث بیان فرمارہے تھے اس حدیث کو سن کر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوگئے اس حدیث کے الفاظ کیا تھے ؟

«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّواالارحام وصلوا باللیل والناس نِيَامٌ تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ ربکم بِسَلَامٍ»(جامع ترمذی:2485)

کہ سلام کو عام کرو،سلا م کو پھیلاؤ اور صلح رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تم نماز پڑھو،تہجد کااہتمام کرو یہ امور سرانجام دوگے تو سلامتی کے ساتھ اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔

یہ حدیث سنی تو یہودیوں کے بہت بڑے عالم عبداللہ بن سلام مسلمان ہوگئے ،ان میں جتنے بھی احکامات دیئے گئے ہیں پہلے نمبر پر سلام کا حکم ہے ،دوسرے نمبر پر اطعام الطعام کا حکم ہے، ایک دوسرےکو کھاناکھلانا،طعام کی دعوت کرنا تو یہ چیزہمارے اسلاف میں،بڑوں میں،سلف صالحین میں،تابعین اور صحابہ میں بدرجہ اتم موجود تھی توتابعی نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کو دعوت دی اور جتنے بھی قافلے والے تھے سب کودعوت دی شام کی دعوت تھی ،رات کا کھانا تھا ،ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا ،تمام قافلے والے وہاں پہنچ گئے ،سیدناابوہریرہ  رضی اللہ عنہ بھی ساتھ ہیں جب وہ پہنچے تو کھانا ابھی تیار نہیں تھا توجتنے بھی قافلے والے تھے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ آپ ہمیں اللہ کے نبی ﷺ کی حدیثیں سنائیں یعنی جب تک یہ کھانا تیار ہوجائے تب تک آپ اللہ کے نبی ﷺ کی حدیثیں سنائیں ،اس سے سلف صالحین کی اس سوچ کا پتا چلتا ہےکہ وہ وقت گزارتے تھے ،وقت پاس کرتے تھے  اللہ کے نبی ﷺ کی حدیثیں سن کر آج یہی مرحلہ ہمارے معاشرے میں بھی پیش آتا ہے کہ مہمان پہلے پہنچ جاتے ہیں کھانا لیٹ ہوتا ہےتو یہ جو وقت پاس کیا جاتا ہے کس کے ذریعے موسیقی کے ذریعے ،گانوں کے ذریعے، لوگوں کو، مہمانوں کو گانے سنائے جاتے ہیں ،موسیقی سنائی جاتی ہے اور اگر کوئی بزعم خود مذہبی ہو تو وہ قوالیاں سناتا ہے ،شرکیہ نعتیں اور نظمیں سناتا ہے، دونوں ہی باتیں غیر شرعی ہیں ،تو یہ ہمارا معاشرہ ،یہ ہے ہمارے معاشرے کا کردار! جبکہ صحابہ کرام ،تابعین عظام وہ اس طرح کا وقت گزارتے تھے اللہ کے نبی ﷺ کی حدیثیں سن کر اور حدیثیں سناکر بلکہ ہمارے اس معاشرہ میں خصوصا وہ لوگ جو بہت زیادہ ترقی پر ہیں اسی طرح موسیقی کا پروگرام ،رقص کا پروگرام جتنی بھی غیر شرعی چیزیں ہیں لیکن جو اس امت کا اولین معاشرہ تھا ،صحابہ کرام کھانے سے فارغ ہونے کےبعد بھی پیارے پیغمبر ﷺ کی حدیثیں سنتے تھے اور حدیثیں سناتے تھے ۔

مسندا حمد میں یہ واقعہ موجود ہے صحابہ کرام اور تابعین ایک کھانے کی دعوت میں شریک تھے جب کھانا کھالیا گیا ،لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو سب نے امیر المؤمنین فی الحدیث سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ آپ ہمیں حدیثیں سنائیں ابھی کافی رات باقی تھی ،حدیث کے الفاظ ہیں :فقام فیھم ابوھریرۃ یحدثھم حتی اصبح.(سیراعلام النبلاء:۲؍۵۹۹)

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے حدیثیں بیان کرنا شروع کیں ،حدیثیں بیان کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، پوری رات پیارے پیغمبر کی احادیث کا تذکرہ چلتارہا یہ ہےسلف صالحین کا کردار،یہ ہے صحابہ کرام کا کردار ،وقت گزار رہے ہیں کونسے کام میں، پیارے پیغمبرکے فرامین سننے میں اور سنانے میں تو اس حدیث سے یہ بھی سبق ملا،یہ بھی درس ملا کہ ہمارا رتعلق پیارے پیغمبر کی احادیث کے ساتھ جڑا ہوا ہونا چاہئے کتب احادیث ترجمے کے ساتھ مل جاتی ہیں، ہمارے گھروں میں ہوں،ہمارے آفس میں ہوں جیسے ہی وقت ملے، فارغ وقت کتب احادیث کا مطالعہ کریں، صحیح بخاری کا مطالعہ کریں، صحیح مسلم کا مطالعہ کریں جوحدیث سمجھ میں نہیں آتی کسی عالم دین سے سمجھ لیں، ہمارا مطالعہ جاری رہےیہ ایک سبق ملتا ہے۔یہی واقعہ یہی حدیث آگےچلتی ہے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قافلے والوں میں سے جو انصار تھے ان کو فرماتے ہیںآؤ میرے پاس میں تمہیں تمہاری حدیث سناؤ ں،جتنی انصار کی اولاد وہاں موجود تھیں انہیں فرمایا یہ بھی ایک حوصلہ افزائی والی بات ہے جو ہمارے معاشرے میں تقریباًناپید ہے کہ باقاعدہ انصار کو بلارہے ہیں یہ فرماتے ہوئے بلارہے ہیں کہ تمہاری حدیث ہےکہ جس میں تمہارا تذکرہ ہے ،تمہارے آباؤاجداد کا تذکرہ ہے آؤ میں تمہیں وہ حدیث سناؤں! کتنی حوصلہ افزائی ہوئی ہوگی توانصار متوجہ ہوگئے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ فتح مکہ سے ایک دن پہلے پیارے پیغمبر ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ادعولی الانصار.(صحیح مسلم: 1780)جتنے بھی انصار صحابہ ہیںا بوہریرہ ان کا پکارو ،ان کو بلاؤ وہ سب میرے پاس آئیں اور یہی الفاظ ہیں کہ انصار کے علاوہ کوئی بھی نہ آئے، ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے پکارا:یاللانصار ! اےانصاریو! پیارے پیغمبر ﷺ بلارہے ہیں، جیسے ہی یہ آواز انصار کے کانوں سے ٹکرائی ،حدیث کے الفاظ ہیں :

فجاؤایھرولون .انصار بھاگتے ہوئے دوڑتے ہوئے آئے۔اور پیارے پیغمبر ﷺ کے ارد گرد جمع ہوگئے۔اس سے یہ بھی سبق ملا آج اگرچہ اللہ کے نبی ﷺ کی ذات ہمارے اندر موجود نہیں ہےلیکن اللہ کے نبی ﷺ کی بات حدیث کی صورت میں ہمارے پاس موجودہے تو جیسے ہی ہم حدیث سنیں اس حدیث پر عمل کرنے کے حوالے سے ہمارا کردار وہی ہونا چاہئے جو انصار صحابہ کا تھا وہ دوڑتے ہوئے، لپکتے ہوئے، بھاگتے ہوئے، اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے، پیارے پیغمبرﷺ نےانصار کو اشارہ کیا سامنے کی طرف :اترون اوباش قریش.انصار سامنے دیکھ رہے ہو،قریش کی ٹولیاں ہیں، انصار نےکہا: نعم۔ جی ہم دیکھ رہے ہیں ،فرمایا:اذا لقیتموھم غدا.جب تم کل ان سے ملو،ان تحصدوھمحصدا.اگر یہ مکہ میں داخل ہونے میں رکاوٹ بنیں تو ان کو کاٹ کر رکھ دینا ،کن کوحکم دے رہے ہیں؟ محمد رسول اللہ ﷺ کس قبیلے کے ساتھ تعلق ہے؟ قریش کے قبیلے کے ساتھ، کن کو حکم دے رہے ہیں؟ انصار کو یہ ہے دین کے ساتھ تعلق ،اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے ،اللہ کے دین کے لئے تعلق ،یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ کا دوست کون ہے اور اللہ کا دشمن کون ہے یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ میری قوم کا کون ہے اور میرے قبیلے کا کون ہے، حکم دینےوالے محمد ﷺ ہیں جو قریشی ہیں، اس میں سبق ہے ہماری تربیت ہےکہ ہماری نظر دین پر ہو، عقیدے پر ہو،توحید پر ہو، منہج پر ہو، قوم اور قبیلے پر نہ ہو ،گھرانے اور خاندان پر نہ ہو، انصار نے کہا ٹھیک ہے۔ اگلا دن شروع ہوا جو بھی سامنے آتا رکاوٹ بنتا انصار اس کو کاٹ کر رکھ دیتے، آگے بڑھتے گئے اس دوران ابوسفیان اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے اور آکر کہنے لگے کہ میں جو منظر دیکھ کر آرہاہوں، وہ منظر میں دیکھ کر کہہ سکتاہوں :بیدت خضراء قریش۔ قریش کی اکثریت آج ختم ہوجائے گی ،لاقریش بعد الیوم۔ آج کے بعد قریش کا نام ونشان نہیں رہے گا ،تو اللہ کے نبی ﷺ نے ایک آڈر جاری کیا :

من دخل دار ابی سفیان فھو امن ومن القی السلاح فھو امن ومن اغلق بابہ فھو امن .

(صحیح مسلم:1780)

جوابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اس کے لئے پناہ ہے ،جس نے اپنا اسلحہ پھینک دیا اس کے لئے پناہ ہے، اور جس نے اپنے گھر کادروازہ بند کردیا اس کے لئے پناہ ہے،اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔

یہ نیاآڈر تھا جوانصار تک پہنچا ،انصار کچھ حیران ہوئے کہ کل حکم دیا تھا کہ ان کو کاٹ کر رکھ دینا آج اس حکم میں تھوڑی سی نرمی پیدا ہوگئی ہے، کہیں ایسا تو نہیںکہ اللہ کے نبی ﷺ اپنے قبیلے کے حوالے سے نرمی برتنا چاہتے ہیں اور کل جب مکہ فتح ہوجائے اللہ کے نبی ﷺ یہیں قیام کرنے لگ جائیں یہ بات ان کی زبان سے نکلی اللہ کے نبی ﷺ تک پہنچ گئی وحی کے ذریعے پہنچی ،اللہ کے نبی ﷺ نے انصار کو اپنے پاس بلالیا اور ان سے پوچھ کہ آپ لوگوں نے یہ بات کہی ہے انصار نے کہا کہ جی ہاں!کہی ہے۔یہاں سے بھی ایک درس ملتا ہے ،چاہے کتنی سخت بات کسی موقع پر زبان سے نکل جائےتو اگر اس بات کے بارے میں استفسارکیا جائے پوچھا جائے توآدمی بتادےیہ نہیں کہ ایسے موقع پر آدمی جھوٹ بولنے لگ جائے کتنی بھی سخت بات ہو کوئی بھی اندیشہ ہو لیکن جب اس کے بارے میں پوچھا جائے تو آدمی سب کچھ سچ بتادے ،لیکن انصار نے ساتھ میں وضاحت کی کہ

واللہ ما قلنا الذی قلنا الاضنًّا باللہ ورسولہ.

(صحیح مسلم:1780)

پیارے پیغمبر ﷺ ہم اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ اللہ پر اور اللہ کے رسول ﷺ پر حرص کی وجہ سے کہا ہے کہ ہمیں ایک شوق ہے،ہمیں ایک ذوق ہے کہ آپ جہاں پر ہونگے وہاں پر اللہ کی وحی نازل ہوگی ،آپ مدینہ میں ہیں تو اللہ کی وحی مدینہ میں اتر رہی ہے ،فرشتہ اتررہا ہے ،جبریل آرہے ہیں ،ایک بہت بڑے شرف کی بات ہے، بہت بڑی سعادت کی بات ہے ،ہم یہ چاہتےہیں کہ یہ سعادت ہمارے پاس رہے ،ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہیں ایسا نہ ہو فتح مکہ کے بعد آپ مکہ میں قیام کرنے نہ لگ جائیں صرف اس وجہ سے ہم نے یہ جملہ کہا ہے ،محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمیں یقین ہے ہم مانتے ہیں ۔اس سے ہمیں یہ بھی درس ملا کہ اگر ہمارا کوئی بھائی،کوئی جماعتی، کوئی ساتھی اس پر کوئی اعتراض ہو وہ اس اعتراض کی وضاحت کردے تو ہمیں مان لینا چاہئے یہ نہیں کہنا چاہئے ،نہیں نہیں میں تجھے جانتاہوں ،مجھے تیرا پتا ہے، جو وہ وضاحت کررہا ہے اس کو مان لے ،اللہ کے نبی ﷺ نے دوسری کوئی بات نہیں کہی، کتنی بڑی بات کہی تھی انصار نے لیکن جیسی ہی وضاحت کی توپیارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے ہم مانتے ہیں لیکن انصار یہ بات سن لو ! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں فتح مکہ کے بعد یہیں پر قیام کروں:

ہاجرت الی اللہ والیکم فالمحیا محیاکم والممات مماتکم. (صحیح مسلم:1780)

میں نے اللہ کے حکم سے ہجرت کی ہے اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے یہ میرا فیصلہ ہے سن لو! جینابھی تمہارے ساتھ ہے اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے،میں یہاں قیام نہیں کروں گا میں نے تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے جینا بھی تمہارے ساتھ مرنا بھی تمہارے ساتھ ۔اس سےیہ پتا چلا اگر کوئی کسی پر احسان کرے ،یہ درس ملا،سبق ملا کوئی کسی پر احسان کرے تو خواہ کتنا وقت گذر جائے جس پر احسان کیاگیا ہے وہ اس کو بھولے نہ ،وہ طوطا چشمی اختیار نہ کرے اب چونکہ میں سیٹ ہوچکاہوں اب مجھے اس کی پروانہیںلہذا وہ اس کی عزت نہ کرے،اس کا اکرام کرناچھوڑ دے ایسا نہیں ہوناچاہئے اللہ کے نبیﷺ کافرمان ہے کہ کیسے ہوسکتا ہے میراجینا بھی تمہارے ساتھ ہے اور میرامرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔تم نے ہماری بڑی خدمت کی ہے اور تمہارے ہمارے اوپر بڑے احسان ہیں۔ آگے اللہ کے نبیﷺ نے ایک جملہ ارشاد فرمایا یہ میں کیسے کرسکتاہوں میں نے جب اپنے مکہ کو، اپنے وطن کو، اپنے بچپن کی جگہ کو فتح کرلوں تومیں یہیں پر ر ہنے لگ جاؤں اورمیں تمہیں چھوڑ دوں فرمایا: انامحمد، انامحمد،انامحمد (ﷺ) تین بارارشاد فرمایا۔

انامحمد(ﷺ) سے ملنے والے دروس

میرانام محمد ہے اور محمد کامعنی کیا ہے؟تعریف کیاہوا، جس کانام ہو محمد یعنی تعریف کیاہواوہ ایسے کیسے کرسکتا ہے یہ تو ہے بے وفائی والی بات وہ اس کاطرح کاکام کیسے کرسکتا ہے اس جملےسے بھی ہمیں کچھ اسباق ملتے ہیں کچھ دروس ملتے ہیں:

1پہلاسبق یہ کہ ہمارے نام اچھے ہونے چاہئیں جن کا معنی اچھا نکلے،جن کا مفہوم اچھانکلے ہمارے ویسے نام ہونے چاہئیں ہم اپنے بچوں اوربچیوں کےاچھے اچھے نام رکھیں جن کا اچھا مفہوم ہو اسی کی طرف محمد رسول اللہﷺ نے اشارہ کیا ہے کہ میں یہ کیسے کرسکتاہوں کہ انا محمد، میں تو محمد ہوں،محمد کا معنی تعریف کیا ہوا،کہ آج میں مکہ فتح کرلوں تو تمہارے سارے احسانات میں بھلادوں یہ کام محمد نہیں کرسکتا اس لئے کا محمد کاجومعنی ہے تعریف کیا ہوا ﷺ تو نام اچھے ہونے چاہئیں یہی شریعت ہمیں حکم دیتی ہے ،پیارے پیغمبر ﷺ نے اچھے ناموں کی ترغیب دی ہے ،صحیح مسلم کی حدیث ہے فرمایا:کہ:

ان احب اسماءکم الی اللہ عبداللہ وعبدالرحمٰن.

(صحیح مسلم:2132)

تمہارے جتنے بھی نام ہیں تمام ناموں میں سے جو اللہ کو محبوب ترین نام ہیں وہ دوہیں:ایک عبداللہ اور ایک عبدالرحمٰن۔

ان میں بندہ ہونے کی نسبت اللہ کی طرف ہے اور رحمان کی طرف ہے ،عبداللہ ،اللہ کا بندہ، عبدالرحمٰن، رحمٰن کا بندہ، یہ سب سے بہترین نام ہیں ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو محبو ب ہیں اس سے کیا سبق ملا کہ اچھے نام ہوں ایسے نام ہوں جن میں عبدیت کی،بندہ ہونے کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو ،قرآن مجید میں دوپیغمبروں کو عبداللہ کہاگیا ہے ایک سیدنا عیسیٰ  علیہ السلام  کو،سورۂ مریم میں:[قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللہِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا۝۳۰ۙ](مریم:۳۰) اور دوسرے پیغمبر جن کو قرآن مجید میں عبداللہ کہاگیا ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ سورۂ جن میں موجود ہے، اللہ کے نبی ﷺ کا تذکرہ عبداللہ سے ہوا،کہ آپ کو عبداللہ کہا گیا ہے، لوگ انہیںدوپیغمبروں کے بارے میں غلو کا شکارہیں ،سیدنا عیسیٰ  علیہ السلام  کو نعوذباللہ ،اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیٹا کہاجاتا ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ کا حصہ کہاجاتا ہے، اور محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی نورمن نوراللہ کہا جاتا ہے، اللہ کے نور میں سے ایک نور ،یعنی اللہ کاحصہ۔ سیدنا عیسی علیہ السلام  کے بارے میں بھی یہی عقیدہ کہ اللہ کاحصہ ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دونوں پیغمبروں کو عبداللہ کہا ہےیعنی اللہ کا بندہ ،یہ درس ملا کہ نام اچھے ہوں ،جو برے نام ہیں جن کا مطلب صحیح نہیں بنتا، پیارے پیغمبر نے ان سے منع کیا ہے، صحیح مسلم کی حدیث ہے فرمایا:

ان اخنع اسم عنداللہ رجل یسمی ملک الاملاک.(صحیح بخاری:6206)

قیامت کے دن سب سے ذلیل ترین نام شہنشاہ ہوگا۔

شہنشاہ کا معنی بادشاہوں کا بادشاہ، یہ کون ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ ،تو شہنشاہ نام رکھنا قیامت کے دن اللہ کے ہاں انتہائ مردود اور غیر مقبول ہوگا کہ یہ نام نہیں ہوناچاہئے یہ برانام ہے ،برے نام اللہ کے نبی ﷺ نے تبدیل کیے ہیں۔صحیح مسلم کی حدیث ہے ایک شخص فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ہوا اس کا نام عاصی تھا ،عاصی کامعنی نافرمان ،اللہ کے نبی ﷺ نے اس کا نام مطیع رکھا ،معنی اطاعت کرنے والا، کہاماننے والا، فرمانبردار، اسی طرح صحیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی جس کا نام عاصیہ ،ایک آسیہ ہوتا ہے وہ صحیح ہے، عاصیہ کا معنی ہے نافرمان،اللہ کے نبی ﷺ نے اس کانام تبدیل کردیا، سماھا جمیلۃ.(صحیح مسلم:2139)

جمیلہ نام رکھا، جمیلہ کا معنی جمال والی یعنی خوبصورت، حسین تو یہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایسے نام جن کے مطلب برے نکلتے تھے وہ تبدیل کرکے اچھے مطلب والے نام رکھے تو ایک سبق یہ ملا کہ ہمارے نام ایسے ہونے چاہئیں جن کا مفہوم ،جن کا مطلب اچھا ہو، اور دوسرا سبق یہ ملا کہ ہمارا جو نام ہے اس نام کا جو مفہوم اور مطلب نکلتا ہے ہمیں اس کی لاج رکھنی چاہئے ، پیارے پیغمبر ﷺ کے الفاظ کیا ہیں، میرا نام محمد ہے، محمد ایسے کیسے کرسکتا ہے ،یعنی میرے نام کا مطلب یہ ہے کہ تعریف کیا ہوا تو جس کے نام کا مطلب یہ نکلتا ہو وہ یہ کام کیسے کرسکتا ہے کہ تمہارے ساتھ بے وفائی کرے یعنی آدمی کو اپنے نام کےمطلب کی لاج رکھنی چاہئے، جیسے مثال کہ طور پرر کسی کا نام صادق ہے، صادق کا معنی سچ بولنے والاتو اس کو چاہئے سچ کو لازم پکڑ لے ،اس کا نام ہی صادق ہے، صادق کا معنی سچ بولنے والاتو جس کا نام صادق ہو وہ سچ بولتا ہو تو اس کو بولتے ہیں’’اسم بامسمی‘‘یعنی جیسا نام ہے ماشاءاللہ ویسا ہی کردار ہے، اور اگر ایک آدمی کا نام صادق ہے اور ہو وہ پرلے درجے کا جھوٹا ہے،بات بات پر جھوٹ بولتاہے تو لوگ کیا تبصرہ کریں گے نام دیکھو اور کام دیکھو، یعنی نام کی بدنامی کا سبب نہیں بننا چاہئے ،ایک تو یہ ہے کہ اچھا نام ہو پھر اس اچھے نام کا جو مفہوم اور مطلب نکل رہا ہے آدمی اس کو اپنی زندگی پرنافذ کردے تاکہ اس نام کی لاج رکھے لوگ کہتے ہیں نام دیکھو اور کام دیکھو، یہ کب کہا جاتا ہے جب آدمی کا نام اچھا ہواور کردار اچھا نہ ہو ،پھر لوگ بولتے ہیں کہ نام دیکھو اور کام دیکھو، ہونا یہ چاہئے کہ جیسا نام ہو ویسا کردار ہو تاکہ لوگ کہیں کہ یہ شخص اسم بامسمی ہے،یعنی جیسا اچھا اس کا نام ہے ویسا اچھا اس کا کردار ہے ،نام شاکر ہے ،شاکر کا معنی شکرگذار اور آدمی کرتا ہو کفران نعمت ناشکری یہ اچھی بات نہیں ہے ،نام صابر ہے، صابر کا معنی صبر کرنے والااور ہو وہ پرلے درجے کا بے صبرا ،بات بات پر شکوہ، بات بات پر شکایت ،بات بات پرغصہ، تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے نام کی لاج نہیں رکھی ،بہت سارے لوگ ہیں جن کا نام رفیق ہے، رفیق کا معنی نرمی والا،اور مزاج بڑا سخت ہو ،وہ بدمزاج آدمی ہو تو اس نے اپنے نام کی قدر نہیں کی، نام کی لاج نہیں رکھی، نام شفیق ہے، شفیق یعنی شفقت کرنے والااور ہو وہ سخت مزاج یہ بھی اچھی بات نہیں تو اچھا نام ہو اور اچھا مطلب جو اس کا نکلتا ہے اس مطلب ومفہوم کو اپنی ذات پہ نافذ کرے کچھ لوگوں کے نام اللہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ،عبدالرحیم ہے،بہت زیادہ رحم کرنے والاکابندہ۔عبدالرؤف،بہت زیادہ مہربان والے کابندہ،اب اس معنی کا تقاضا کیا ہے کہ اس کے مزاج میں رحم ہوناچاہئے، اس کے مزاج میںترس ہوناچاہئے،عبدالرؤف بہت زیادہ مہربان کا بندہ تو جس کانام عبدا لرؤف ہے اس کی زندگی میں شفقت ہونی چاہئے ، ایک ترس کا جذبہ ہونا چاہئے ،عبدالغفور ہے جس کامعنی بہت زیادہ بخشنے والے کا بندہ، تو اس کو چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ اس کا جورویہ ہے وہ معافی کا ہو،وہ درگزری کا ہو،بہت سارے لوگ ہیں جن کے انبیاء والے نام ہیں، ابراھیم، اسماعیل، سلیمان ،ایوب تو ایسے لوگوں کوچاہئے کہ جس پیغمبرکا میرے اوپر نام ہے میں اس کی سیرت پڑھوں اس کی سیرت سے جو اسباق ملتے ہیں جودروس ملتے ہیں میں ان کواپناؤں، بہت سارے لوگ ہیں جن کے نام صحابہ والے ہیں، ابوبکر ہے، عمرہے، عثمان ہے، فاروق ہے، اسی طرح بہت ساری خواتین ہیں جن کا نام عائشہ ہے، زینب ہے، ام کلثوم ہے ،فاطمہ ہے تو ایسے لوگوں کو اور ایسی خواتین کو چاہئے کہ جیسا نام ہے جس شخصیت کا، جس صحابی کا،جس صحابیہ کا اس کی سیرت کا مطالعہ کریں اوراس کی سیرت سے جو اسباق ملیں جو دروس ملیں وہ اپنے اوپر نافذ کریں یہ بہت اہم ترین سبق ہے، جومحمدرسول اللہ ﷺ کے اس جملے سے ملتا ہے کہ میرا نام محمد ہے اور محمد کا معنی تعریف کیا ہوا، جس کا نام یہ ہوتعریف کیا ہوا وہ اس موقع پر وہ آپ سے یعنی انصار سے بے وفائی کیسے کرسکتا ہے۔ﷺ

تو اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے ،صحیح مسلم کی اس حدیث سے جتنے بھی اسباق اور دروس ملتےہیں تمام اسباق کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے ،عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطافرمائے۔

 وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین.

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

کاوش : شیخ عبداللہ محمدی (مدرس : مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ،ساماروموری) خطبہ مسنونہ کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے