Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جون » گردش ماہ وسال(وقت) کی قدرکیجئے

گردش ماہ وسال(وقت) کی قدرکیجئے

’’وقت‘‘ نام ہے، زندگی کا، وقت ایک بے مثال ذریعہ اور وسیلہ نجات ہے، یہ اگر ایک بار ضایع ہواتو پھر کسی صورت میں واپس نہیںملتا، اسے نہ چھواجاسکتا ہے نہ ہی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے ،اللہ تعالیٰ کی دیگر مہربانیوں میں سے علم،جسم ،کشادگی، مال ومتاع، صحت وسلامتی، امن وعافیت کے ساتھ وقت گردش ماہ وسال، بھی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے، جس کا صرف احساس ہی کیا جاسکتا ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھائی ہے، [وَالْعَصْرِ۝۱ۙ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ۝۲ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۝۳ۧ ]

اس سورۃ مبارکہ میں زمانے کی قسم کھاکر انسانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ بڑے خسارے میں ہیں، ماسوائے ان کے جن میںیہ خصوصیات پائی جائیں، ایمان والے، نیک اعمال کرنے والے، ایک دوسرے کو حق وسچ کی نصیحت کرنے والے اور صبر کی تلقین کرنے والے۔

قدرت کے عطا کیے ہوئے’’وقت‘‘ کا ایک لمحہ بھی ضایع نہ کیجئے، لمحوں کا درست استعمال کرکے آپ مہینوں اور پھر سالوں کےمالک بن سکتے ہیں ،اگر آپ نے لمحوں کو کھودیا تواس کے بعد آپ مہینوں اور سالوں کو بھی بڑی بے دردی سے کھودیں گے، وقت آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، وقت کو ضایع ہونے سے بچایئے، چونکہ ایک لمحہ بھی بڑا قیمتی ہوتا ہے ،ہر بڑی کامیابی چھوٹی کامیابیوں کے مجموعے کا نام ہوتی ہے ،چھوٹی کامیابی پر راضی ہوجائیے ،اس کے بعد آپ بڑی کامیابیوں وکامرانیوں کے بھی مالک بن جائیں گے۔

بلاشبہ محرومی، حسرت ویاس ان لوگوں پر ہے جنہوں نے وقت عزیز کی قدر نہ جانی اور فرصت کے لمحات لایعنی، لغویات ،فضولیات اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں گزار دیئے، چونکہ عمر انسانی کے ایام یکے بعد دیگرے بڑی سبک رفتاری سے گزر جاتے ہیں اور انسان اپنے اعمال صالحہ سے خالی ہاتھوں آہیں بھرتا ہی رہ جاتا ہے، امام فخر الدین رازیؒ نےکیا ہی خوب لکھا ہے کہ عصر(وقت) زمانہ، وہی ظرف ہے، جس کے اندر حیرت انگیز واقعات رونماہوتے ہیں ،جس کے اندر انسان سب کچھ کرتا ہے ،اور تنگی وترشی ،سختی ونرمی ،تنگ دستی وفراخ دستی، اس پر گزرتی ہے،لہذا عمر انسانی کے اوقات بے انتہا قیمتی ہوتے ہیں۔ (مفاتیح الغیب ۲۲؍۸۴)

امام ابن قیمؒ نے وقت عزیز پر کتنی خوبصورت اور بصیرت افروز بحث فرمائی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہےکہ وقت دیکھتے دیکھتے گزر جاتا ہے، جس کا تدارک کرنا ناممکن ہے، اسے کسی قیمت پر واپس نہیں لایا جاسکتا، پھر فرصت کا وقت ضایع کرنے والا انسان ساری عمر ہاتھ مَلتا ہی رہ جاتا ہے، اور پھر اس پر ندامت کرنا بھی مزید وقت ضایع کرنے کے برابر ہے، اس لئے کے جب موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر ماسوائے حسرت ویاس ،محرومی وندامت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(زاد المعاد)

وقت کے احساس وادراک کے لئے ،قرآن عظیم میں ارشاد ہے کہ،جس کی موت آجاتی ہے تواللہ تعالیٰ اس کو ہر گز مہلت نہیں دیتا۔

(المنافقون:۱۱)

بلاشبہ وقت برف کی طرح ہے اگر آپ میں اسے کماحقہ استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں تو یہ برف پانی کی طرح پگل جائے گی،زمانے نے آج تک کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد نہیں کیا جس کی بدولت آپ زندگی کے گزرے ہوئے لمحات واپس لوٹاسکیں۔

اور جوزمانہ گزرجاتا ہے وہ ہمارے ہاتھوں سے نکل کر ماضی بن جاتا ہے باقی بس:

صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

ہاں جو وقت ابھی موجود ہے اسے حال اور آنے والے کومستقبل کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس کے متعلق آپ اپنا مفید لائحہ عمل بنا کر بخوبی مثبت کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں چونکہ دنیا میں سب سے قیمتی سرمایہ وقت ہے، کاش ہم اسے ضایع ہونے سے بچاسکیں ذرا اپنی گھڑی کی جانب دیکھئے !کس قدر تیزی سے وقت گزرتاجاتا ہے، اور ہماری مقررہ زندگی لمحہ بہ لمحہ اختتام کی جانب گامزن ہے، وقت ہر انسان کا متاع گراں ہے،جب انسان علی الصبح بیدار ہوتا ہے تو اسے قدرت کی جانب سے روزانہ ۲۴گھنٹے کی گراں مایہ پیاری پونجی ہاتھوں میں تھمادی جاتی ہے تاکہ انسان اسے سوچ سمجھ کر مفید کاموں میں صرف کرے،پھر آگے اس کی مرضی وہ اپنی کامیابی وکامرانی کی جانب لپکے یا اسے نادانی ونامرادی کی وادی میں پھینک دے،وقت کو توگزرنا ہی ہے، مگر انسان کتنا سادہ دل ہے کہ وہ وقت گنوا کر بھی خوش ہوتا ہے کہ میرا وقت گزر گیا ،اسے کون بتائے کے اے نادان !گیا وقت پھر نہیں ملے گا۔یوں بے جالیل ونہار کاگزرجانا خود انسان کا اس دنیا سے جانے کے مترادف ہے، ایسے میںایک مفکرکا مقولہ کتنا معقول وبرمحل ہے کہ،جس نے وقت کی اہمیت کوپہچان لیا اس نے اپنی زندگی کا سراغ پالیا، چونکہ وقت ہی زندگی کا نام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(اور رحمان کے بندے وہ ہیں ) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے، اور جب ان کا لغو چیزوں پر گزر ہوجائے تو وہ شریفوں کی طرح(دامن بچاکر) گزرجاتے ہیں۔(الفرقان:۷۲)

سیدنا ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا: نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس الصحۃ  و الفراغ.(بخاری:5412)

مفہوم: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن سے لوگ کماحقہ استفادہ نہیں کرتے، صحت اور فرصت کے لمحات۔

وقت عزیز سے استفادہ کے متعلق بنی آخر الزمانﷺ کا ایک اور فرمان ہے کہ:

اغتنم خمسا قبل خمس شبابک قبل ھرمک، وصحتک قبل سقمک، وغناک قبل فقرک، وفراغک قبل شغلک، وحیاتک قبل موتک.

(المستدرک  للحاکم۴؍۳۴۱)

یعنی:پانچ چیزوں کو غنیمت سمجھ لو :1اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے2اپنی صحت وتندرستی کو اپنی بیماری ومرض سے پہلے3 اپنی مالداری ودولت مندی کو اپنی غربت،افلاس اور محتاجی سے پہلے 4اپنی موت سے پہلے اپنی گرانمایہ زندگی کو 5اپنی مصروفیات ومشاغل سے پہلے اپنے اوقات زندگی کے فرصت کے لمحات کو۔ (گرانمایہ جانتے ہوئے وقت کی قدر وقیمت کو جان لو۔)

ایک اور جگہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت بندہ اس وقت تک بارگاہ الٰہی میں کھڑا رہے گا جب تک اس سےان چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیاجائے۔1زندگی کیسے گزاری؟2جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟3مال ودولت کہاں سے کمائے اور کہاں خرچ کیے؟4جسم وجان کسی کام میں کھپائے؟

احادیث کے مطابق زمانہ اور وقت کو کچھ برابھلانہیں کہنا: لاتسبوا الدھر فان اللہ ھوالدھر۔

(صحیح مسلم:2246)

یعنی زمانے کو برا مت کہو بیشک اللہ تعالیٰ کی ذات والاصفات ہی زمانہ ہے۔(یعنی زمانہ کامدبر اور چلانے والااللہ تعالیٰ ہی ہے۔)جس نے وقت گردش ایام کو پیدا کیا۔

 وقت کی کماحقہ قدر شناسی کرنے والے ہمارے سلف صالحین تھے، تاریخ بغداد کے مشہور مصنف علامہ خطیب بغدادی، ابوالعباس المبرد کے حوالے سے اپنی کتاب تقیید العلم ،ص:۱۳۹میں رقمطراز ہیں کہ: میں نے تین آدمیوں سے زیادہ کسی کو علم کاحریص نہ پایا وہ ہیں:جاحظ (255-163ھ)

مشہورشاعر اور ادیب فتح بن خاقان(ف247)اور تیسرے فقہ مالکی کے امام اسماعیل بن اسحاق۔ جبکے جاحظ تو کتاب فروشوں کی دوکانیں کرائے پر لے کرساری رات کتابوں کے مطالعے میں مستغرق رہا کرتے تھے،فتح بن خاقان خلیفہ المتوکل کا وزیر تھا، اور وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب سجائے رکھتا تھا، اور جب اسے سرکاری امور سے فرصت ملتی تو وقت ضایع کیے بغیر، کتاب آستین سے نکال کر پڑھنے میں مصروف ہوجاتا تھا، رہا اسماعیل بن اسحاق تو جب بھی ہم گھر جاتے تو اس کو لکھنے پڑھنے میں مصروف پاتے۔

امام طبری (320-224ھ)نے ۷۶سال کی عمر پائی اور ان کی ہمیشہ یہ عادت تھی کہ وہ روزانہ چودہ ورقے لکھ لیا کرتے تھے ،جبکہ ان کی شہرہ آفاق تفسیر اور تاریخ کے صفحات کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہوگی، امام ابن جریر طبری ہمیشہ ظہر کی نماز گھر میں پڑھ کر عصر تک تصنیف وتالیف میں مشغول رہا کرتے تھے، اس کے بعد نماز عصر ادا کرنے تشریف لے جاتے،نماز سے فراغت کے بعد مغرب تک درس وتدریس میں منہمک رہا کرتے تھے، پھر عشاء تک فقہ کا درس دیتے اور نماز عشاء ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لےجاتے تھے، استاد محمد کرد علی کے بقول امام ابن جریر طبری نے عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ بھی افادہ اور استفادہ کے بغیر کبھی ضایع نہیں کیا۔

بعض معتبر مشاہدین نے بیان کیا ہے کہ آخری وقت میں کسی نے ان کو امام جعفر بن محمد کی ایک دعابتلائی، تو امام طبری نے کاغذ اور دوات منگا کر یہ دعا لکھ لی بس پھر ایک گھنٹہ کے قریب ان کا انتقال ہوگیا۔ مشہور مورخ ومحدث خطیب بغدادی تو چلتے  ہوئے بھی اپنی ہاتھوں میںکتاب سجائے رکھتے تھے، اور وقت بچاتے ہوئے چلنے کےد وران بھی مطالعہ جاری رکھتے تھے ۔(تذکرۃ الحفاظ للذھبی،۱۱۴۱،۳)

بہرحال،بلاشبہ وقت ایک بے بہا گرانمایہ نعمت غیر مترقبہ ہے، جس کی قدر کرنی چاہئے ،چونکہ وقت گزرتے پتہ ہی نہیں لگتا کسی نے کیا خوب کہا ہے:

بچوں کوبوڑھا کردیا اور بوڑھوں کو فنا کردیا

صبح کے پلٹنے اور شام کے جانے نے

افسوس کے ہمیں وقت عزیز کے ضیاع کا کوئی احساس تک نہیں، تاریخ کے اوراق پارینہ گواہ ہیں کہ جو اقوام وملل وقت کی نزاکت کا احساس کیا کرتی تھیں،انہوں نے صحراؤںاوربیابانوںکوگل وگلستان میں تبدیل کردیا، ان میں اتنی توانائی وہمت تھی کہ پہاڑوں کے جگر بھی پاش پاش کرکے باغ وبستان بنادیے، وہ ستاروں پر بھی کمد ڈالنے کی ہمت رکھتے تھے ،جن کی ڈکشنریوں میں لفظ ناممکن ڈھونڈنے سے نہیںملتا۔

باقی سست وکاہل قوموں سےکسی اچھائی کی توقع عبث ہے، ڈاکٹر بروٹر نے سچ کہا ہے کہ: جو لوگ وقت کا سب سے زیادہ غلط فضولیات میں استعمال کرتے ہیں پھر وہی لوگ ایک دن قلت وقت کا بھی رونا روتے نظر آتے ہیں، چونکہ وقت کو جتنا کام میںلاؤگے اتنا وقت پھلتا پھولتا اور بڑھتا ہی رہتا ہے ۔

محمد اسماعیل میرٹھی نے کیا خوب لکھا:

وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ

کھینچنے سے بڑھتی ہے اور چھوڑنے سے جاتی ہے سکٹر

دنیا کی جس قوم نے وقت کو بے رحمی اور شقاوت قلبی سے برباد کیا انہیں وقت نے بھی ہمیشہ کے لئے ضایع کردیا، پھر ایسی شعور وآگہی سے نابلد قوم ایک دن ذلت ،مسکنت، شکست وادبار کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں، ایسی اقوام تو دین دونیا دونوں لحاظ سے خسران مبین کا سوداکرکے کاسۂ گدائی لئے جگہ جگہ بھیک مانگتی نظرآئیں، ہاں جن باسعادت اقوام نے وقت عزیزکا احساس کیا وہ اپنے وقت کے،ائمہ، محدث،مجدد،محقق، مفکر ،فلاسفر علوم اثریہ کے ماہر ،دانش ور،اسکالر بن کر دین ودنیا میں ہمیشہ سرخروہوگئے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو وقت جیسی انمول سعادت سے سرفراز کیا، مگر نادان لوگوں نے وقت کی بیقدری کرتے ہوئے اسے فضول ،بے سود اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزار کر اپنے لئے کوئی اچھا سودا نہیں کیا، مشاہدہ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ،بے ہودگی، آوارگی،لغویات ،فضولیات اورنادانی جیسے امور سےمنہ موڑ کر صرف چند گھنٹے بھی اہل اللہ ،علماء زبانی کے ہاں بیٹھ کر علم وادب،فہم وفراست، عبادت وبندگی میں گزارا وہ ایک دن اہل علم اور صاحب حکمت کہلانے لگے، چونکہ وقت رب کائنات کی بے بہا نعمت ہے، جو قدرت نے امیر، وغریب، چھوٹے بڑے، مرد عورت سب کو یکساں نصیب کیا، کسی صاحب حکمت نے وقت کی مثال صحراء اور تپتی ہوئی دھوپ میں برف کی رکھی ہوئی سل سے دی ہے،مختصرا زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے بندہ اسی میں جو بوئے گا وہ ایک دن کاٹنا پڑے گا۔

[وَالذّٰكِرِيْنَ اللہَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ۝۰ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۳۵ ](الاحزاب:۳۵)

اور اللہ تعالیٰ کابکثرت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کےلئےاللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرعظیم تیار کررکھا ہے ،سچ ہے

از  مکافات عمل غافل نہ شو

گندم از گندم جواز جو

وقت عزیز کی قدر ومنزلت ،اہمیت وافادیت قرآن عظیم کی کئی آیات بینات اور احادیث نبویہ سے بخوبی ثابت ہے مثلا سنن ابوداؤدکی ایک حدیث ہے :

من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعینہ

یعنی آدمی کے اسلام کے حسن میں یہ بات (شامل ہے کہ) انسان لایعنی (بے ہودہ،فضول اورغیر شرعی امور) تر ک کردے، اور وقت کو حسن تدابیر میں کام لائے۔

سیدقطب  رضی اللہ عنہ  نے خوب فرمایاکہ بلاشبہ فراغت انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور توانائیوں کو تباہ وبرباد کرنے والی چیز ہے۔

(منہج التربیۃ الاسلامیہ ۱؍۲۰۶)

وقت کا سب سے بڑا دشمن فراغت اور حسد ہے۔ اور حاسد قوم کبھی ترقی نہیں کرپاتی۔

سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ  نے خوب فرمایاکہ :ساری دنیا کو راضی رکھ سکتاہوں مگر ماسوائے مجھ پر حسد کرنے والوں،کے چوں کہ وہ ہر صورت میں میری زوال نعمت کے بغیر سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے۔

اگر وطن عزیز میں آپ کو حسد کی زندہ شکل دیکھنی ہے تو ہمارے ہاں’’سیاسی قائدین‘‘پر ایک نگاہ عبرت ڈال سکتے ہیں ملک میں جب بھی کوئی صاحب برسراقتدار آتا ہے تو جملہ ’’حزب اختلاف‘‘ یک جا ن ویک زبان ہو کر’’ جمہوریت خطرہ میں ہے‘‘کے پر آہ وفغاں کرتے ہوئے سڑکوں پر نظر آتی ہے ،پھر ایک دن بھی سکون کا سانس اس وقت تک نہیں لے پاتے جب تک ’’صاحب اقتدار‘‘ کا بوریا بستر گول نہیں ہوتا اور یہ گورکھ دھندہ وطن عزیز کے بننے سے آج تک عروج پر نظر آتا ہے، آگے نہ معلوم یہ میلا کب تک سجا رہے گا۔

وطن عزیز کوبنے ستر سال ہوگئے ہیں لیکن آج تک ہم جس کسمپرسی کی حالت میں ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہےویسے بھی دیکھا جائے تو نادان اور غافل قوموں کی کہیں کمی نہیں، تاہم موجودہ وقت میں مسلم معاشرہ مجموعی لحاظ سے بہت زیادہ وقت ضایع کرنے میں پیش پیش نظر آتا ہے، جب کے دور جدید میں ’’مسلم امۃ‘‘ کی پستی،ادبار،شکست وریخت کا بھی یہی بنیادی سبب ہے، دیکھا جائے تو ہم سیاست وثقافت،تہذیب وتمدن،معاشیات و اقتصادیات اورعلوم وفنون میں ہرلحاظ سے دنیا میں پس ماندہ او ر قابل رحم اس لئے نظر آتے ہیں کہ ہم بڑی بے رحمی سے وقت ضایع کرنے کے عادی بن چکے ہیں ایسے میں ہمارا بنیادی فریضہ بنتا ہے کہ وقت کے متاع عزیزکی قدر کرتے ہوئے من حیث القوم ہم اجتماعی تجدید توبہ کرتے ہوئے وقت کی ایک ایک گھڑی کا بڑی احتیاط سے استعمال کریں، پوری زندگی کا ازسرنوتجزیہ کرتے ہوئے سب سے پہلے زندگی میں علوم وفنون حاصل کریں ،پھر حقوق اللہ وحقوق العباد کی کماحقہ ادائیگی کا اہتمام کریں اور اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئےآئندہ کے لئے ظاہری ،باطنی ،چھوٹے بڑے گناہوں سے اجتماعی توبہ کریں جسے ’’توبۃ نصوحا‘‘ کےنام سے یاد کیاجا تا ہے، اور آئندہ ہر قسم کے گناہوں سے حتی المقدور بچتے رہیں ،اگر کبھی کوتاہی بھی سرزد ہوجائے تو اسی وقت توبہ تائب ہوجائیں نیزاسی میں ہماری کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے کہ وقت کی قدر کریں۔

انسان اگر محنت کرے تو بلاشبہ دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیز حاصل کرسکتا ہے ،لیکن اگر اس کے پاس وقت قدر نہیں تو ایک سوئی بھی حاصل نہیں کرسکتا، چنانچہ سعادت مند لوگ ہوتے ہیں جو وقت کو غنیمت جانتے ہوئے رضائے الٰہی کے امورمیں لگ جاتے ہیں اورنہ صرف دنیا میں بلند مرتبہ پاتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی جنت جیسی ابد الآباد کی نعمتوں اور رحمان کی نوازشوں کے مستحق قرار پاتے ہیں،مگر یہی لوگ جب خوف الٰہی سے بے نیاز ہوکر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اورمعصیتوں پر اتر آتے ہیں تو پھر آتش جہنم کا ایندھن بھی بن جاتے ہیں ،قرآن وسنت کے مطالعے سے جابجا وقت کی اہمیت وافادیت کا بخوبی احساس ہوتا ہے، سورۃ الفجر میں رب کائنات نے وقت فجر،اور عشرۂ ذوالحج کی قسم کھاتے ہوئے فرمایاکہ فجر کے وقت (جبکہ ظلمت شب چھٹ کر صبح کی ضیا پاشی ہوتی ہے) اور دس بابرکت راتوں کی قسم کھائی ہے، اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں چاشت کے وقت کی بھی قسم کھائی گئی ہے جس سے وقت عزیز کی اہمیت کا اندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں۔

ایسے میں اگر ہم نے خواب غفلت سے آنکھیں نہ کھولیں اور وقت ضایع کرتے رہے تویقینا یہ انتہائی خسارے کا سودا ہوگا بدقسمتی سے آج ہماری نئی نسل میں وقت کی ناقدری کا جذبہ تو بے رحمی تک جاپہنچا ہے، دن بھرموبائل فون میں خود کو مصروف رکھتا، پھر موبائل کے ساتھ دیگر لاتعداد خرافات کا شکار ہوجانا وقت برباد کرنے کا رواج عروج پر ہے یہ نہ صرف ہم اپنا وقت ضایع کررہے ہیں بلکہ اپنی قسمت کے دروازے بھی خود اپنے ہاتھوں سے بند کرتے نظر آتے ہیںایسے پرآشوب ملحدانہ اور مفسدانہ ماحول میں ہمارافریضہ بنتا ہے کہ وقت کا احساس کرتے ہوئے ہم اپنے ماتحتوں ،بچوں،گھروالوں ،دوست واحباب سب کو احسن انداز میں دعوت الی اللہ دیاکریں ،خوب آنسوبہاکر،ندامت قلب، خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب کی جانب متوجہ ہوکر اپنی ہی غفلتوں ،کوتاہیوں ،کمزوریوں ،نادانیوں ،نافرمانیوں ،نالائقیوں،پر معافی مانگ کر تعلق باللہ قائم کرلیں اور آئندہ ،فرائض،واجبات، سنن، ونوافل کوباقاعدہ اداکرنے کا اہتمام کریں، قرآن عظیم کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے بن جائیں :[الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ ](ال عمران:۱۹۱)

جولوگ اللہ تعالیٰ کو اٹھتے ،بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں۔

پھر ہم ایسے فرمانبردار بن جائیں کہ گناہوں سے ہمیشہ دامن بچائے،پھر ہماری عبادت،وریاضت میں انتہائی درجہ کاخشوع وخضوع، عاجزی و انکساری کے ساتھ عبادت میں تنوع اور جدت بھی پائی جائے مثلا قلبی اعمال صالحہ ،قولی، فعلی اور عملی ہر لحاظ سے رب کائنات کو جی بھر کر یاد کرتے رہیں، نماز،روزہ، حج ،زکوٰۃ، فرائض، وسنن ،تسبیح وتہلیل،ذکر واذکار، قیام وقعود ،سجدہ وجلوس، وعظ ونصیحت، تبلیغ وتلقین، توبہ واستغفار،تلاوت قرآن عظیم پوری زندگی کے جملہ امور میں اللہ تعالیٰ اور اس کے سچے رسول کی فرمانبرداری ،اتباع سنت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیں۔

مزید یہ کہ ہم بیوی،بچے، والدین ،رشتہ داروں اورماتحتوں کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کا اہتمام کریں، اپنی خطاؤں پر گڑگڑاکر معافی طلب کرکے اس کی بے پایاں رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں ،چونکہ

[لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۷]

(یوسف:۸۷)

یعنی اللہ جل شانہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔

وقت کا ایک لمحہ بھی ضایع نہ کریں پھر فارغ اوقات میں اسلامی علوم وفنون کی تعلیم کوپایہ تکمیل تک پہنچائیں،اسرار علوم قرآنی پر تدبر وتفکر کریں، تفسیر، حدیث، سیرت، طیبہ ،اذکار مسنون کو زندگی کاجزلاینفک بنائیں ،باقی جو وقت بچے اس میں اپنے حلال ذریعہ معاش ،مہمان نوازی، اپنے دوست واحباب ،اعزہ واقرباء اوررشتہ داروں سے میل میلاپ کے ساتھ دعوت الی اللہ دینا کبھی نہ بھولیں، چونکہ اس فانی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔

پس از سی سال ابن نقطۂ محقق شد بہ خاقانی

کہ یک دم باخدا بودن بہ از ملک سلیمانی

آئے روزدیکھنے میں آتا ہے کہ ہم اپنا قیمتی وقت،غیروں کی غیبت،فضول گپ شپ،اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا دل دکھانے ،کردار کشی ،بے ہودہ فلمیں دیکھنے ،بےہنگم موسیقی ،عیب جوئی، بد گمانی، دل آزاری، لہوولعب اور الزام تراشیوں میں گزار دیتے ہیں ،کسی نے کیاخوب کہا ہے:

والوقت انفس ما عنیت بحفظہ

واراہ اسھل ما علیک یضیع

اللہ تعالیٰ ہمیں گردش ماہ وسال کی قدر کرنی کی توفیق عطافرمائے۔آمین

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے