Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جولائی » شکر کے آداب، طریقے اور فوائد

شکر کے آداب، طریقے اور فوائد

معالی الشیخ صالح بن حمید (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 25 شوال1440ھ کا خطبہ جمعہ’’شکر کے آداب، طریقے اور فوائد‘‘کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ شکر ایک عمدہ عبادت ہے اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا، اس کے ادا کرنے والوں کی تعریف کی نیز اس کو اپنی خلقت کا مقصد ٹھرایا ہے۔ شکر نعمتوں کا محافظ اور اللہ کے فضل میں اضافے کا باعث ہے لیکن پھر بھی بندوں میں اسے انجام دینے والے تھوڑے ہیں۔ شکر گزاری کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی اور اس کا دل پاکیزہ ہوجاتا ہے نیز معاملات بھی درست ہوتے ہیں۔ شکر انبیاء (علیھم السلام) کی صفات میں سے ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے بہت سے انبیاء کے اوصاف میں اسے ذکر کیا، جیسے نوح، ابراہیم ، موسی ، سلیمان (علیھم السلام)  اور ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ ۔ شکر گزار بندہ اللہ کے احسانات کا معترف ہوتا ہے، وہ خوشی اور غمی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس پر اللہ کا خاص احسان ہوتا ہے۔ انسان کو ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، اللہ تعالی کی نعتیں بے شمار ہیں۔ شکر گزاری کے کئی طریقے ہیں ، جیسے نماز کے ذریعے شکر، روزے اور ذکر الہی کے ذریعے شکر اسی طرح خیر کی خبر یا اللہ کے خاص انعام پر سجدہ شکر ادا کرنا بھی نبی ﷺ سے ثابت ہے۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفات عظیم قدرت ، بلند حکمت اور بابرکت نام والے اللہ کے لئے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔میں اس کی نعمتوں پر حمد اور اس کی عطا پر شکر ادا کرتا ہوں ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ بلندی میں اکیلا ہے ۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ ﷺ تمام رسولوں میں افضل اور خاتم الانبیاء ہیں ،اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، اولیاء کے سردار صحابہ وتابعین نیزبہترین طریقے سے قیامت کے دن تک ان کی پیروی کرنے والوں پر سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اے لوگو !میں خود کو اور آپ سب کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو ۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے۔

جان لو! جو شخص اپنے نفس کو اللہ کے لئے عمل کرنے کا عادی بناتا ہے توا س کا عمل اخلاص سے بھر پور ہوتا ہے ۔اور جو شخص خواہشات نفس کے لئے عمل کرتا ہے اس کے لئے اخلاص مشکل ہو جاتا ہے ۔

بلند حوصلگی کامیابی کا راز اور کم ہمتی ناکامی کا راستہ ہے نیز نعمتوں کی حفاظت کا ثمرہ نعمتیں ہی ہیں ۔ سست آدمی آرام سے اور بے پروا شخص خوشی سے محروم ہوتا ہے۔ جو سر توڑ محنت نہیں کرتا اس کو لذت بھی نہیں ملتی۔

انسانی نفس نیکی میں رغبت اور بے رغبتی کا میلان رکھتا ہے ، پس جب نفس کا میلان نیکی کی طرف ہو تو خوب عبادت اور نیک کاموں کے عادی بنو ، اسی طرح جب نفس میں بے رغبتی ہو تو فرائض و واجبات کو لازما ادا کرو ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ}

جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں۔ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں تمہارا جو جی چاہے گا تمہیں ملے گا اور جو کچھ مانگو گے تمہارے لیے ہو گا۔ یہ بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہو گی۔[فصلت: 30 – 32]

مسلم اقوام!

عظیم اخلاق اور عمدہ عبادات میں سے ایک عبادت کہ جس کا اللہ نے حکم دیا اور اس کی مخالفت سے منع کیا اس کے ادا کرنے والوں کی تعریف کی اور ان کو اپنے خواص میں شمار کیا ، نیز اس کو اپنی خلقت اور حکم کا مقصد ٹھرایا۔ اسی طرح اس کے کرنے والوں سے بہترین بدلے کا وعدہ کیا ، اور اسے اپنے فضل میں اضافے کا باعث ، نعمتوں اور عطاؤں کا محافظ قرار دیا ہے ، اس پر عمل کرنے والے ہی اس کے حقیقی نفع یاب ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے ناموں میں سے ایک نام کا انتخاب اس سے کیا ہے ، لیکن بندوں میں اسے انجام دینے والے تھوڑے ہیں ۔

اور یہ تمام شرف و فضیلت اور بلندی اس عمدہ عبادت شکر اور اس کے کرنے والوں کی ہے ۔

اللہ کے بندو!

اللہ عزوجل کا فرمان ہے :

{وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ}

[البقرة: 172]

اور اللہ کا شکر کرو، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔

چنانچہ پتا چلا کہ کما حقہ عبادت صرف شکر گزار بندے ہی کرتے ہیں۔

اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :

{وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ } [البقرة: 152]

 میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :

{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ} [إبراهيم: 7]

اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔

اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :

{وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ} [سبأ: 13]

اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے شکر گزار ہیں۔

اللہ کے بندو!

عبادت گزاروں کے تعامل میں شکر دائمی جزء ہوتا ہے، یہ نیک بندوں  کے دلوں میں راسخ منہج ہے کہ شکر سے ان کے دل معمور اور زبانیں تر رہتی ہیں ، نیز اعضا سے شکر گزاری ظاہر ہوتی ہے ۔

اللہ تعالی نے اپنے پہلے نبی نوح (علیہ السلام) کا وصف اس طرح بیان کیا:

{إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا} [الإسراء: 3]

بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔

اور اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

{شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ } [النحل: 121]

وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے،اللہ نے انہیں منتخب کر لیا اور سیدھی راہ دکھا دی ۔

اور موسی (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ oوَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ }

[إبراهيم: 6، 7]

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تمھیں فرعون کی آل سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے اور تمھارے بیٹے بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔ اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔

 اور سلیمان (علیہ السلام) اپنے اوپر اللہ تعالی کی خاص نعمتیں اور اللہ کی طرف سے تابع کردہ مخلوقات کو دیکھتے ہوئے فرمانے لگے :

{فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ}

[النمل: 19]

تو سلیمان (علیہ السلام) اس کی بات سے ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکی ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔

جہاں تک ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ کا ذکر ہے تو اللہ تعالی نے آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دئیے تھے ، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ رات کو اللہ کے لئے قیام کرتے یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک میں ورم آجاتا ، اور آپ فرماتے:

 [أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا]

کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

بھائیو! شکر بندے کی طرف سے اللہ تعالی کے احسانات کا اعتراف ، نیز جان ، مال اور اہل و عیال میں دنیا و آخرت کی خیر اور بھلائیوں کا اقرار ہے۔ شکر اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ اپنے رب سے راضی ہے ، شکر دل کی زندگی اور حیات ہے ، نیز شکر کے ذریعے موجود نعمت کو محفوظ اور مفقود نعمت کو حاصل کیا جاتا ہے۔ مومن کا سارا معاملہ خیر پر مشتمل ہے ،جب اس کو خوشی ملتی ہے شکر ادا کرتا ہے تو اس میں اس کی بہتری ہے ، اور اگر اس کو کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لئے بہتری ہے، اور یہ چیز صرف اور صرف مومن کو حاصل ہے۔

شکر پاکیزہ نفس ، دل کی طہارت ، سینے کی سلامتی اور کمال عقل کی دلیل ہے ۔ بلکہ اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا بھی اسی لئے کیا کہ اس کا شکر ادا کریں ۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:

{وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [النحل: 78]

اور اللہ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دئیے، تاکہ تم شکر کرو۔

شکر انسان کے لئے اللہ کی پہلی وصیت ہے ، چنانچہ فرمایا:

{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ } [لقمان: 14]

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید ی حکم دیا، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

اللہ تعالی نے بتایا کہ اس کی رضا اس کی شکر گزاری میں ہے، چنانچہ فرمایا:

{وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ } [الزمر: 7]

اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسند کرے گا۔

اسی طرح شکر کو عذاب سے بچاؤ کا سبب بنایا، چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:

{ مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا} [النساء: 147]

اللہ تمھیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ۔ اور اللہ ہمیشہ سے قدر کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

بلکہ اللہ تعالی نے تمام لوگوں میں شکر گزاروں پر خاص احسان کیا چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:

{وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ} [الأنعام: 53]

اس طرح ہم نے بعض لوگوں کے ذریعہ دوسروں کو آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ (وہ انہیں دیکھ کر) کہیں کہ :”کیا ہم میں سے یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہے؟” (دیکھو) کیا اللہ تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ؟

ایمانی بھائیو!

شکر کے تین ارکان ہیں:

1- نعمت کنندہ کے ساتھ محبت اور دل سے نعمتوں کا اعتراف کریں۔

2- نعمتوں کے اظہار کے ساتھ اللہ کی تعریف کریں۔

3- نعمتوں کو اللہ کی اطاعت  اور رضا کے کاموں میں لگاتے ہوئے اس کی نا فرمانی سے بچیں۔

تین نعمتیں اعلی ترین ہیں۔

1) اسلام کی نعمت کہ اس کے بغیر نعمت مکمل نہیں ہو سکتی ۔

2)عافیت کی نعمت کہ اس کے بغیر زندگی مکمل نہیں ہو سکتی۔

3) رضا کی نعمت کے اس کے بغیر زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔

حسن بصری (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: عافیت کے ساتھ شکر ایسی خیر ہے کہ جس میں کوئی شر نہیں ۔

کتنے ہی لوگ آزمائشوں میں ہونے کے باوجود شکر گزار ہوتے ہیں،اور کتنے ہی لوگ نعمتوں میں ہونے کے باوجود شکر گزار نہیں ہوتے، پس جب اللہ عزوجل سے سوال کرو تو شکر کے ساتھ عافیت کا سوال کرو۔

مسلمانو!

صحت و بیماری ہو یا جوانی و بڑھاپا، تنگ دستی و کشادگی  ہو یا مشغولیت و  فراغت ۔ اسی طرح خوشحالی یا تنگ حالی ہو بیداری یا نیند ، سفر و حضر ہو  یا اجتماعی و انفرادی حالت ہو، نیز یہ کہ کھڑے بیٹھے اور پہلو کہ بل ہر حالت میں انسان پر اللہ کا شکر واجب ہے۔

ابو درداء (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :

کم علم شخص ، صرف کھانے پینے کو اپنے اوپر اللہ کی نعت سمجھتا ہے ، اس لئے کہ اللہ کی نعمتیں تو دائمی اور اس کی نوازشیں لگاتار ہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ}

[إبراهيم: 34]

اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے۔ انسان تو ہے ہی بے انصاف اور ناشکرا ۔

اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

{أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً}

 [لقمان: 20]

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے تمھاری خاطر مسخر کر دیا اور تم پر اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں پوری کر دیں۔

اللہ آپ پر رحم فرمائے!

اللہ عزوجل کا فضل و لطف یہ ہے کہ وہ اپنے بندوںکے شکر کو قبول کرتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا اور قدردان ہے، پس اللہ نے کتے کو پانی پلانے والے کی قدر کی اور اس کو معاف کر دیا ، تو جو شخص مسلمانوں پر احسان، محتاجوں اور بے بسوں پر صدقہ کرے ،نیز کمزوروں پر رحم کرے گا تو اللہ اس کے ساتھ کیا ہی اچھا معاملہ کرے گا۔

اسی طرح جس شخص نے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا تو اللہ نے اس کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا، تو جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں آسانی کرے ، ان کے غم دور کرے اور پریشانیاں ختم کرے  تو اللہ اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا؟

اللہ عزوجل کا کرم ہے کہ اس نے لوگوں کے شکر کو اپنا شکر قرار دیا۔ حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا: [لَا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ]

جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ‘ وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔

اسی طرح اس کے کرم میں یہ بھی ہے ۔

{ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ} [النمل: 40]

اور جو شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (33) وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ (34) لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (35) سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ} [يس: 33 – 36]

اور ایک نشانی ان کے لیے مردہ زمین ہے، ہم نے اسے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا تو وہ اسی میں سے کھاتے ہیں۔ ا ور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے کئی باغ بنائے اور ان میں کئی چشمے جاری کیئے تاکہ وہ اس کے پھل سے کھائیں، حالانکہ اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، تو کیا وہ شکر نہیں کرتے۔ وہ پاک ذات ہے جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں۔

اللہ تعالی میرے اور آپ کے لئے قرآن عظیم اور نبی ﷺ کی سنت کو نفع بخش بنائے ۔ میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ، اپنے ، آپ سب اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں ، آپ بھی اسی سے معافی مانگیں بے شک وہ بہت معاف کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

اللہ ہی کے لئے تمام تعریفات ہیں وہ ثواب بڑھانے والا اور خوب اجر دینے والا ہے ، نیز وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، مخلوقات کو پیدا کرنا اور ان پر حکم چلانا اسی کا کام ہے ۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ ﷺ کریمانہ خصائل اور عظیم شان کے مالک ہیں ۔

اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، روشن ستاروں کی مانند آپ کے صحابہ ، تابعین اور قیامت تک اچھے طریقے سے آپ کی پیروی کرنے والوں پر ڈھیروں برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ آپ کو توفیق دے! یاد رکھو شکر کے وسائل کا کوئی شمار نہیں ہے ، نیکی کا اجر بڑھانے  اور گناہوں کو ڈھانپنے پر اپنے رب کا شکر ادا کرو ۔

ابو تمیۃ (رحمہ اللہ تعالی) سے کسی آدمی نے کہا: آپ کی صبح کیسی ہوئی ، تو انہوں نے فرمایا : میں نے دو نعمتوں میں صبح کی اور مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کون سی افضل ہے ۔

پہلی یہ کہ اللہ نے میرے بہت سے گناہوں کو چھپا دیا اب کوئی مجھے ان پر عار نہیں دلا سکتا۔ اور دوسری چیز محبت ہے جو اللہ نے ان لوگوں کے دلوں میں ڈال دی ہے جن تک میرا عمل نہیں پہنچا۔

اللہ کے بندو ! اسی طرح نماز کے ذریعے بھی شکر ادا کیا جاسکتا ہے ، نبی ﷺ رات کو قیام کرتے یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک سوجھ جاتے اور آپ فرماتے: [ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا]

کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

اور شکر روزےکے ذریعے بھی ادا کیا جا سکتا ہے ۔چنانچہ موسی (علیہ السلام) نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا ، جب اللہ تعالی نے ان کو اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی، پھر ہمارے پیارے نبی ﷺ نے یہ روزہ رکھا اور یہود سے کہا : نحن احق بموسی منکم ، ہم تم سے زیادہ موسی (علیہ السلام) کے حق دار ہیں۔

اسی طرح سجدہ شکر کے ذریعے بھی شکر ادا کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ مومن کو جب کوئی خیر کی خبر پہنچے یا اللہ اس پر کوئی انعام کرے تو وہ سجدہ شکر ادا کرے۔

چنانچہ جب جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی ﷺ کو خبر دی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ”جو شخص آپ پر ایک دفعہ درود بھیجے گا تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ” تو آپ ﷺ نے سجدہ شکر ادا کیا۔ اسی طرح جب ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو مسیلمہ کذاب کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے سجدہ شکر کیا۔

علی (رضی اللہ عنہ) نے خارجی ذو الثدیین کے قتل پر اور کعب بن مالک نے توبہ قبول ہونے پر سجدہ شکر کیا۔

عبدالرحمن السلمی فرماتے ہیں : نماز ، روزہ اور ہر نیکی شکر ہے اور افضل شکر اللہ کی حمد ہے ۔

تقوی الہی اختیار کرو! اللہ آپ پر رحم فرمائے! جان لو نعمتوں کو شمار کرنا بھی شکر گزاری ہے ، نیز تحدیث نعمت، تعریف کرنا، اور قناعت بھی شکر گزاری ہے۔ اسی طرح زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھنا بھی شکر گزاری ہے ۔

جس نے کہا:

مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ: اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْكَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ، وَلَكَ الشُّكْرُ, فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ يَوْمِهِ، وَمَنْ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ حِينَ يُمْسِي, فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ لَيْلَتِهِ.

جس نے صبح کے وقت یہ کہہ لیا:اللهم ما أصبح بي من نعمة فمنك وحدك لا شريك لك فلك الحمد ولك الشكر. اے اللہ ! مجھے جو بھی نعمت حاصل ہے وہ تیرے اکیلے ہی کی طرف سے ہے ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پس تیری ہی حمد ہے اور تیرا ہی شکر ہے ۔ “ تو اس نے اپنے اس دن کا شکر ادا کر لیا اور جس نے شام کے وقت اسی طرح کہہ لیا ، تو اس نے اپنی اس رات کا شکر ادا کر لیا ۔

About ادارہ

Check Also

جمعیت اہل حدیث سندھ کے زیرِ انتظام ماہانہ تبلیغی و اصلاحی دورہ جات

اس دورے کی شروعات مؤرخہ 25 اکتوبر 2019 بروز جمعۃالمبارک سے ہوئی 25 اکتوبر مرکز …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے