Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ جولائی » بدیع التفاسیرکی علمی وادبی محاسن پر ایک نظر

بدیع التفاسیرکی علمی وادبی محاسن پر ایک نظر

رئیس المحققین، عمدۃ المفسرین، قاطع شرک وبدعت، حضرت علامہ شیخ العرب والعجم سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدیؒ(۱۰جولائی ۱۹۲۵- ۸جنوری۱۹۹۶) راشدی خاندان کے مثالی گل سرسبد تھے، ان کی دعوت وتبلیغ ،درس وتدریس کا دائرہ نہ صرف وطن عزیز تھا بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والے دنیا کے کونے کونے میں موجود تھے، آپ نے معتمد ’’حرم مکی‘‘ کے علاوہ یورپ کے ایوانوں میں بھی درس وتدریس کا فریضہ سرانجام دیا، سندھ، پنجاب کاشاید ہی کوئی قصبہ ہو جہاں آپ نے توحید ورسالت کا پرچارنہ کیاہو، سرحد بلوچستان اور کشمیر میں بھی آپ نے رد شرک وبدعات کافریضہ سرانجام دیا، آپ وسعت مطالعہ،مشاہدہ، دینی بصیرت وبصارت،تبحر علمی کے اعتبار سے برصغیر  پاک وہند کےعلماء ومشائخ کے محور ومرکز تھے، ان کی تحریری، تقریری ،تدریسی، تبلیغی اور مناظرانہ ومحققانہ انداز کا ایک زمانہ معترف ہے، آپ نے علوم شرقیہ، عربی،فارسی، سندھی اور اردو میںڈیڑھ سو سے زائد اپنے پیچھے یادگار تصانیف چھوڑی ہیں، آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے اس کاحق ادا کرتے،آپ بیک وقت علم، عمل، فہم ،فراست اورذہانت وزہد کے مینارہ نور تھےآپ نے شیخ الاسلام ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (المتوفی1948ء)سیداحسان اللہ شاہ راشدی (المتوفی1938ء)مولانا عبدالحق مہاجرمکی ہاشمی (المتوفی1970ء) جیسے جیدعلماءعظام سے علمی استفادہ کیاتھا،آپ نے اپنے پیچھے بھی لاتعدادعلماء وفضلاء کا کاروان یادگار چھوڑا، شاہ صاحب تصنیفات میں مضامین، مقالات، محاضرات، موضوع ومواد کے لحاظ سے الفاظ،استعارات،محاورات اور تراکیب میں مثالی مقام کےحامل ہیں، آپ کو کتاب وسنت سے بے پناہ محبت تھی۔

جیسا کہ برصغیر میں قرآن عظیم کا سب سے پہلامکمل ترجمہ سندھی زبان میں ایک عراقی عالم دین نے فرمان روائے منصورہ کے عہد حکومت 881ء میں راجہ مہروک بن رائق کی فرمائش پرکیاتھا جبکہ فارسی میں بھی قرآن عظیم کا مکمل ترجمہ ایک سندھی عالم حضرت مخدوم محمد نوح سروری ہالائی نے (1590-1504ء) کیاتھاجسے سندھی ادبی بورڈ نے 1981ء میں شایع کیا۔جبکہ سندھی تفاسیر میں پہلی محققانہ مفصل ،مدلل تفسیرقرآن بدیع التفاسیر محققین کے ہاں معتبر اور معیاری ٹھہری۔

جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید،حکمت ومعرفت ،علم ودانش کا لازوال خزینہ ہے، یہ کتاب ہدی نوع انسانی کے لئے دنیا وعقبیٰ میں مستقل ہدایت اور فلاح دارین کاذریعہ ہے، اس کی تلاوت بھی باعث اجروثواب ہے، اس کی تعلیم،تفہیم منبع خیروہدایت ہے، یہ کتاب ہدایت فہم وادراک کو بے پناہ وسعتیں عطاکرتی ہے، یہ جدید وقدیم علوم کا منبع ہونے کے ساتھ انسانوں پرترقی کے ان گنت شعبے واکرکے تسخیرکائنات اور روحانی برکات وتجلیات کے سدابہار چشمے جاری کرتی ہے،یہ کتاب آثار وشواہد کا مظہرہونے کے ساتھ قصص وعبرکا مرقع ہے، شروفساد سے باخبر کرکے دنیا وآخرت سنوارنے کاذریعہ بھی ہے اس کا ایک ایک لفظ سراسر معجزہ ہے، اس کتاب مبین میں مختلف النوع اقوام وملل کا ذکربسیط سیدناآدم علیہ السلام  سے سیدناعیسیٰ علیہ السلام  تک بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے،کتاب اللہ روئے زمین پرواحد آسمانی صحیفہ ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور جامع غیر مبدل پیغام زندگی ہے۔ یہ نسخہ کیمیا نوع انسانی کے منجملہ تقاضائے زندگی کو پوراکرکے انسانی فطرت کے موافق زندگی اور موت کاتصور پیش کرتا ہے، دورجدید میں ہرطرف الحاد مادہ پرستی، شرک وکفر کی گھٹائیں چھارہی ہیں ان کی لپیٹ سے بچنے کاواحد طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنا ہے، اسی غرض سے شیخ العرب والعجم ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ محقق ومدقق احکام شرعیہ، علامہ الشیخ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی (متوفی1996ء) رحمہ اللہ نے اپنی مادری اور قدیم سندھی زبان میں ایک جامع مستندبدیع التفاسیر کے نام سے تقریبا۱۳پاروں کی گیارہ ضخیم جلدوں میں تفسیر وتالیف فرمائی ہے۔ جیسا کہ یہ تفسیرسندھی میں ہے لہذا اس تفسیر پر ایک تعارفی اور علمی ادبی محاسن پر ایک نگاہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

زیرمطالعہ تفسیر بدیع التفاسیر الشیخ علامہ سیدابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی  رحمہ اللہ کی تالیف لطیف ہے، جن کی ساری زندگی تدبر،تفکر، تفقہ فی الدین کی آئینہ دار تھی اس تفسیر میں مطالعہ قرآن وعلوم القرآن کے بے انتہاعلمی عملی فکری پہلونمایاں نظر آتے ہیں،علامہ شیخ العرب والعجم نے جدید وقدیم کتبِ تفاسیر کے ذخیرہ کاروح اورعطراس تفسیر میں سمیٹنے کی جہد بلیغ ومحنت شاقہ کی ہے۔ آپ نے علوم قرآنی ورُموز فرقانی کو بڑی عرق ریزی سے کتاب وسنت کی پاکیزہ روشنی میں سمونے کی کوشش فرمائی ہے۔ خصوصا اپنے استاذمکرم مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری(متوفی 1948ء) رحمہ اللہ کی تفسیرثنائی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ دورجدید کے اسلام مخالف ادیان کا گہرا مطالعہ کرکے ان کو مدلل کتاب وسنت سے عقلی ونقلی جواب دینے کےساتھ دیگر ادیان ومذاہب پر بھی بصیرت افروز معلومات فراہم کرکے اسلام کی حقانیت اورصداقت پربڑے جاندار دلائل وبراہین بیان فرمائے ہیں،جنہیں ملاحظہ کرکے انسان کے علم ایقان میں اسلام کا دین فطرت ہونا واضح ہوجاتاہے، یہ بات بھی علماء وفضلاء سے مخفی نہیں کہ قرآن حمید کی تفسیرکے لئے کس غائر مطالعہ ومشاہدہ اور علوم عالیہ میں مہارت تامہ ہونا از حد ضروری ہے، پھر بڑے محتاط انداز میں روح قرآن وسنت کی روشنی میں تفسیر لکھی جاتی ہے،شاہ صاحب نے بھی ان تقاضوں کو بحسن وخوبی نبھایا ہے، جس نے پوری ایک جلدضخیم میں مقدمۃ التفسیر کے علاوہ دس ضخیم جلدوں میں صرف سورہ’’حجر‘‘ تک قرآن حکیم کی تفسیر لکھی ہے۔

شاہ صاحب نے بدیع التفاسیر جیسی فاضلانہ تفسیر لکھ کر سندھی زبان کو تحقیقی وتدقیقی عظیم علمی شہ پاروں سے سرفراز فرمایا ہے، ان کے علمی وادبی زبان شگفتہ طرزتحریر،دلنشیں اسلوب بیان، قاری کی دلچسپی کو کہیں کم ہونے نہیں دیتی، شاہ صاحب جس راشدی خاندان سے واسطہ رکھتے ہیں وہ علم وعمل رشد وہدایت ،کتاب وسنت کے لحاظ سے تاریخ میں نمایاں مقام رکھتا ہے، بہرحال تفسیر بدیع التفاسیر مبتدی ومنتہی کے لئے علوم قرآن میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے، شاہ صاحب نے خصوصا دقیق علمی مسائل کو پہلی بار انتہائی احسن اور سہل انداز میں قارئین کرام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے، شاہ صاحب نے جہاں معنی ومفاہیم کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھا وہاں انہوں نے زبان وبیان کا جودلنشیں ودلپذیر فاضلانہ اسلوب اختیار کیا ہے وہ ادب عالیہ کا شاہکار معلوم ہوتا ہےجس میں زبان وبیان کےساتھ علمی وادبی نادرنکات کی شیرینی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے،ان کے انداز بیان میں سوزودرد بھی شامل ہے تواخلاص کابحرپیکراں بھی موجزن نظر آتا ہے، مختصرا شاہ صاحب کے ہاں کلام الٰہی کے مفاہیم کےساتھ حسن بیان وزبان کی خوبی بھی روز روشن کی طرح نظرآتی ہے، یہ گرانقدر علمی سرمایہ دلائل وبراہین سے مکمل مزین ہونے کےساتھ، عقلی ونقلی دلائل سے بھی لبریز ہواکرتا ہے، اہم بات تو یہ ہے کہ یہ تفسیر اسرائیلی روایات سے پاک وصاف ہے جن پر عموما مذاہب باطلہ کی بنیادی ہوتی ہے۔

مختصراً بدیع التفاسیر کی خوبیوں میں چندحسب ذیل ہیں: ہر سورۃ کے نام پر انتہائی بصیرت افروز علمی مباحث، جامع تعارف، متقدمین ومتاخرین کی آراء کی روشنی میں،شان نزول،سورتوں کے فضائل،ربط آیات، مشکل الفاظ کامجردمحققانہ حل، حل لغات،کے لحاظ سے تو اتنی تحقیق وتدقیق نظر آتی ہے کہ انہیں ایک مثالی اور معیاری ڈکشنری کہنا بے محل نہ ہوگا، صرفی ونحوی تراکیب کے نادر علمی نکات، اغیار کی جانب سے اسلام پر اعتراضات اور ان کا دندان شکن جواب، تفسیر القرآن بالقرآن ،تفسیر بالاحادیث صحیحہ، فن رجال کی نگاہ میں صحیح روایات وآثار کا انتخاب، موضوع اسرائیلی غیرمستند روایات سے تفسیر کوکلیۃً پاک رکھناوغیرہ، کاخوب اہتمام کیا گیا ہے۔

بدیع التفاسیر سلفی منہج اور مسلک حق کی سندھی میں انفرادی تفسیرہے، جس کے مصادر ومنابع صرف اور صرف کتاب وسنت کے ساتھ توضیح وتشریح میں سلف صالحین ،صحابہ رضی اللہ عنہ   تابعین رحمہ اللہ    کی تعبیر اور منہج کو پوری طرح ملحوظ رکھاگیاہے، شاہ صاحب علوم اسلامیہ کے ماہر، فقید المثال مناظر، مفکر، خطیب، داعی ہونے کےساتھ ذہانت وفطانت میں عبقری شخصیت کے مالک تھے، مفسر قرآن کے مشاہدہ اور مطالعہ عمیق کی ہمہ گیری، حکمت ودانش کے اندازہ کےلئے ان کی تفسیر ہی کافی ہے، ویسے ان کی تصانیف ڈیڑھ سوسے زائد، عربی اردو، سندھی میں ہیں، لیکن ان کی علمیت کااندازہ، آپ کو’’بدیع التفاسیر‘‘ سے ہی لگانا مشکل نہیں، آپ بدیع التفاسیر میں ان کے علمی جاہ وجلال، پرزور طریقہ استدلال کوبام عروج پر پائیں گے۔

شاہ صاحب کسی مقام پر بھی اپنےقلم اور اپنے ضمیر سے ایک لمحہ بھر کے لئے بھی جدانہیں ہوتے،وہ اپنی تحریر پرتاثیر میں اپنے موضوع کی مناسبت سے ادبی چاشنی، روانی عبارت، سلاست زبان، تاثیر کلام خصوصا مقصدیت میں کمی نہیں آنے دیتے، ان کی تحریر میں جہاں کتاب وسنت سے بے پناہ وابستگی ہے وہیں پرجدید وقدیم شعراء عرب، کی جولانیاں بھی نمایاں نظرآتی ہیں،بڑی بات کے ان کے ہاں ’’معذرت خواہانہ‘‘ انداز بیان جو امت میں عرصہ سے جڑپکڑرہا ہے اس کاکہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا، وہ سَرتان کرڈنکےکی چوٹ پر بات کرتے ہیں، وہ اپنوں یااغیار کی جانب سے اسلام پر اعتراضات کا جواب دینے کاخوب ملکہ رکھتے ہیں، سید صاحب نے سندھی زبان میں پہلی بار ایک انتہائی تحقیقانہ ،فاضلانہ اور معیاری تفسیر’’باب الاسلام‘‘ کےلوگوں تک پہنچائی ہے۔ بدیع التفاسیر کو آپ عربی یااردو میں لکھ سکتے تھے لیکن یہ معرکۃ الآراء تفسیر سندھی میں لکھ کر سندھ کے لوگوں کو اپنی شاندار ماضی اور عظمت رفتہ یاددلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاہ صاحب نے سندھی زبان کوقصے کہانیوں، دیومالائی باتوں،ا فسانہ وناول،رومانوی شاعری سے نکال کر علمی، ادبی، تحقیقی اور تدقیقی زبانوں کی صف میں لاکھڑا کرنے کی سعی مشکور فرمائی ہے۔

شاہ صاحب نے اسلامی مبادیات،عقائداسلام، مابعد طبیعات، اساسیات اسلام کےساتھ عوام الناس کے اذہان میں تشکک وتذبذب کے جوجرثومے تھے انہیں ختم کرکے،وحی الٰہی ،رسالت،جنت، جہنم، توحید،آخرت ،ملائکہ اور جنات جیسی اشیاء پرا نتہائی بصیرت افروز مباحث ذکرکرکے نئی نسل پر احسان فرمایا ہے۔’’ تقلید جامد‘‘پر بھی آپ نے پوری حقیقت منکشف کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ کتاب وسنت اور اجتہاد سےمنہ موڑ کر کوئی بھی قوم کسی جاندار تہذیب میں کھڑی نہیں ہوسکتی، علم واجتہاد ،تحقیق وتدقیق ،کتاب وسنت سے منہ موڑ کر دین خالص کاحصول ’’سراب‘‘کے پیچھے دوڑنے کے سوائے کچھ نہیں۔

شاہ صاحب کی تفسیر میں ایک خوبی یہ بھی ہےکہ وہ اپنے قاری کو جادہ مستقیم دکھاتے ہوئے قرآن وسنت کی پاکیزہ روشنی میں افراد، اشخاص، نظریات،اور دینی ومذہبی اداروں کو جانچنے پرکھنے کا تنقیدی شعور عطا کرتےہیں۔ شاہ صاحب ایک سحرالبیان ،ادیب ،اسلامی اسکالر، وقت کے نباض، مفکر ،گرائمر،لغات،علم العروض، اور علم المعانی کے ماہر تھے، خصوصا توحیدباری تعالیٰ کےمسئلہ پرآپ کی تفسیر انتہائی بصیرت افروز ہے آپ نے متعدد علمی مباحث چھیڑ کر، توحیدذات،صفات، ربوبیت، الوہیت ،تخلیق ،تکوین ،حاکمیت ،جیسے اہدی اصول بڑے احسن انداز سے قاری تک پہنچانے کافریضہ سرانجام دیا ہے، مختلف اہم مسائل میں مثلاً:ناسخ منسوخ،عقائد،نظریاتِ اعمال، احکام، عبادات، معاشرت، سیاسیات، اقتصادیات، معیشت اسلامی نظام مملکت، اجہتاد، صلح، جنگ، جہاد فی سبیل اللہ، غزوات، عدالت وقضایا، انفرادی واجتماعی معاملات، حقوق وفرائض، جیسے تمام اہم معاملات میں کوئی بھی علمی بات بغیر حوالہ نہیں کہی، ہر صفحہ حوالہ جات سے مزین نظر آتا ہے، اتنی تحقیق دیگرتفاسیر میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے،آپ نے کوئی مسئلہ شاید ہی تشنہ طلب چھوڑا ہے آپ کو بدیع التفاسیر کے مطالعے کے دوران علمی، ادبی ، لغوی نادر نکات بھی ملیں گے، تراکیب حل الغات صرفی ونحوی مباحث کے ساتھ اعجاز قرآنی بھی عروج پر نظرآئے گا۔

بدیع التفاسیر کے ابتدائی جلدوں میں جو اٹھانی تفصیلات کا علمی شیردریابہتاہوانظرآتاہے وہ آخری جلدوں میں قدرے اختصار میں سمٹ جاتاہے، اس کی اصل وجہ شاہ صاحب کی یہ تمنا تھی کہ زندگی مستعار نہ معلوم کب تک ساتھ نبھائے، ورنہ مفسرقرآن کا قلم تھکا نہ ذوق وشوق مانند پڑا تھا، بدیع التفاسیر کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی صدی سے بیسوی صدی تک اہم مذہبی معرکے اور عظیم فتنے ذکرکرکے شاہ صاحب نے انتہائی مدلل عقلی ونقلی دلائل سے ان کابطلان کیا ہے، تاہم کہیں ان کی تنقید کا لہجہ سختی میں تبدیل ہوجانے پر کچھ احباب کو قدرے ناراضگی اور مایوسی بھی ہوجاتی ہے، مگرلائق مصنف بھی کیاکرتا! ان مذاہب باطلہ نے کیسی بے رحمی سے اسلام کوبدنام کیا اور شعائر اسلام کامذاق اڑایاپھر یہ کہ شاہ صاحب کوئی بھی بات اپنے جانب سے بغیر دلیل نہیں کہتے، انہی کی کتب اور انہی کے قابل اعتماد زعماء کاحوالہ دیئے جاتے ہیں۔

کاش اس پوری تفسیر کاتفصیلی انڈکس(اشاریہ) بھی کوئی مرد مجاہد مرتب کرتا، توقارئین کو کتنافائدہ ہوتا؟ اس تفسیر میں جہاں دورحاضر کے مسائل کاحل موجود ہے وہیں دورجدید کے چیلنجوں کامردانہ وار مقابلہ اور منفی اسلام دشمن تحریکوں کے سد باب کا بھی تذکرہ موجود ہے، وہیں شاہ صاحب نے دورجدید کےنئے نئے فتنوں ،مادہ پرستانہ فلسفوں،شرک وکفر،الحاد وانکار ،مستشرقین یہود ونصاریٰ ،سیکولرزم،کمیونزم، سوشلزم، ہندو دھرم، آریادھرم، ڈارون کے ارتقائی نظریہ ،نام نہاد تصوف بلکہ وحدت ادیان کے ذہنی خلجان کا بھی خوب پوست مارٹم کیا ہے۔

مزید یہ کہ شاہ صاحب مرحوم نے’’مغربی سامراج‘‘ کی عنایت کردہ‘‘ چھتری کے سایہ تلے پروان چڑھنے والی نام نہاد مذہبی تحریکوں ،مثلاً: قادیانیت، پرویزیت، انکارحدیث، قبہ وقبرپرستی، پیرپرستی کی بھی خوب خبر لی ہے، اگر پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تومفسر قرآن، کی ساری حیاتی اسی جدوجہد میں گذری، کبھی اپنے مکتبہ میں عرب وعجم سے آئی ہوئی بڑی اوربھاری کتب کی ورق کتب کی ورق گردانی کرتے، علمی جولانگاہ میں تحقیق وتدقیق کافریضہ سرانجام دیتے ہوئے،کبھی اپنے آباؤواجداد کی سنت(شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد شہید) پر عمل کرتے ہوئے کبھی گھوڑے ،اونٹ کی پیٹھ پر یاپیادہ ملک کے طول وعرض حتی کہ وادی ریگستان کی جلتی ہوئی ریت، چلچلاتی ہوئی دھوپ میں، کبھی پنجاب وسرحد کے دورافتادہ قصبات میں کبھی سات سمندرپار دیارِ مغرب کے طول وعرض میں قرآن وسنت، علوم اسلامیہ کے بحرذخار سے آبیاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کبھی کتاب وسنت رسول کی بالادستی کی غرض سے ایوان اقتدار سے لڑتے ہوئے کبھی توہین رسالت اور شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیر نیوالی نام نہاد آزاد صحافت کے خلاف پریس کانفرنسیں کرتے….یوں پوری حیات گذاری۔

باقی جو چندلمحات میسر آتے ان میں یا تو عبادت گذاری، شب زندہ داری، طویل قیام اللیل کرتے یا بدیع التفاسیر لکھنے میں وقت گذارتے۔ بدیع التفاسیر میں گمراہ کن مفسرین کی تاویلات کو بھی آڑے ہاتھوں لےکر کتاب وسنت سے جواب دیاگیاہے۔

یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ شاہ صاحب کے خاندان کے بڑے پیرانہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،انہوں نے بھی بڑے بڑے صوفیاء کرام کے تذکرے پڑھےہوں گے، جن حضرات نے اپنے گاؤتکیوں اور خانقاہوں تک دین قیم کو محدود کرلیاتھا، ان کے طویل تھکادینے والے مراقبے ،مجاہدے، سے بھی آپ غافل نہیں ہوں گے، بڑے بڑے کشف وکرامات ،خیالوں اور خوابوں ،کے طویل وعریض قصے بھی سن رکھے ہوں گے، لیکن ان سب باتوں کے باوجودآپ نے نام نہاد پیری مریدی، قبہ وقبرپرستی، نام نہاد کشف وکرامات کاخوب علمی انداز میں اپنی تفسیر میں جواب دے کرصحیح دین محمدی کی قرون اولیٰ والی تصویر کی حقیقی عکاسی فرمائی ہے، بہرحال مفسر کے ذہن وفکر میں یہ جذبہ پوری طرح کارفرماہے کہ ہربات کاجواب کتاب وسنت سے دیاجائے، اور ہر بات منشائے الٰہی اور سنت رسول ﷺ سے ماخوذ ہو، تفسیر میں شاہ صاحب بکثرت روایات لائے ہیں، لیکن سب روایات فن رجال کی کسوٹی پر پرکھنے کےسا تھ آج کل کی طرح بڑی بہادری سے معتبر احادیث رسول کوبلاوجہ فن الرجال کے شیشہ سے تراشنے کی شوق سے محترز نظر آئے ہیں!

اللہ تعالیٰ شاہ صاحب مرحوم کی علمی دینی اور تفسیری خدمات کو شرف قبولیت سے سرفراز کرے اور مفسر،ناشر،طابع، کتابت کرنے والے اور قارئین کرام سب کے لئے اس کوزاد آخرت بنائے، اور امت مسلمہ کو اس علمی ذخیرہ سے صحیح معنی میں استفادہ کرنے کی توفیق بخشے اور اللہ تعالیٰ کوئی ایسا رجل رشید پیداکرے جو اسلامی جذبہ سے سرشار ہوکر اسی باوقار تفسیر کا عربی ،اردوو انگریزی اور فارسی میں ترجمہ کرے تاکہ عوام الناس کو اس علمی ذخیرہ سے استفادہ کرنے کاموقع دیاجائے، یہ ان کی علمی یادگار ہے جو محض رضائے الٰہی کے لئے لکھی گئی ہے اللہ تعالیٰ شاہ صاحب پر بھی اپنے انعام واکرام کانزول فرمائے اور ان کوجوارِ رحمت اعلیٰ علیین میں مقام عطافرمائے۔

تفسیری محاسن کے بعد اب ایک نگاہ نفس تفسیر پر ڈالتے جائیں تو مزید معلومات حاصل ہوںگی۔ مقدمہ بیان بے نظیر بدیع التفاسیر، ص: ۴۳۳ پر مشتمل بڑی سائز مطبوعہ ۱۳۹۷ءکے ابتدائیہ میں جناب ڈاکٹر ابوالعطاء سید محمد صالح شاہ صاحب لکھتےہیں کہ اردو یا دیگرزبانوں میں قرآن حکیم واحادیث رسول کے تراجم وتفاسیر موجود ہیں تاہم ان پر بھی عموما صحت وسقم کےسلسلے میں خیال کم ہی رکھاجاتاہے سندھی زبان میں ایسی کوئی بھی جامع ومستند تفسیر نہ تھی جس میں دورجدید کے حالات کومدنظر رکھ کر خالص دین حنیف کی روشنی میں تعلیمات اسلامیہ پیش کی گئی ہوں لہذا مشہور محدث علامہ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی المکی السندی نے شدت سے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تفسیر قرآن لکھناشروع کی جس کی یہ جلد اول ’’مقدمہ‘‘ بدیع التفاسیر ہدیہ قارئین ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ باقی تفسیر کی تکمیل کےمنصوبہ پر عمل درآمد کرسکیں۔ آمین مقدمۃ التفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دس ابواب ہیں جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔

1باب اول: قرآن حکیم کےفضائل اور آداب ، تلاوت وغیرہ یہ پانچ فصول پر مشتمل ہے۔

2باب دوم: قرآن حکیم کا نزول، اور اس کے متعلقات کے بیان میں یہ تین فصول پر مشتمل ہے۔

3باب سوم: قرآن حکیم کی جمع وترتیب کے بیان میں۔ یہ بھی تین فصول پر مشتمل ہے۔

4باب چہارم: قرآن حکیم کا سات حروف یا سات قرأت پر نزول ہونا۔

5باب پنجم: قرآن حکیم کی سورتیں، رکوع،آیات، کلمات، حروف، پارے اور اعراب یہ باب آٹھ فصول پر مشتمل ہے۔

6باب ششم: یہ باب اوقاف قرآن کے متعلق ہے۔

7باب ہفتم: متواتر قرأت کے بیان میں۔

8باب ہشتم: علم تجوید کے بیان میں یہ باب چارفصلوں پر مشتمل ہے۔

9باب نہم: قرآن حکیم کلام الٰہی اورغیرمخلوق ہونے کے بیان میں یہ باب بھی تین فصول پر مشتمل ہے۔

0باب دہم: قرآن حکیم کی تفسیر اور اس کے جمیع احکامات کا ذکر یہ باب طویل وعریض اکیس فصول پر مشتمل ہے۔

!باب یازدھم: کاطبع جدید میں اضافہ کرکے طبقات مفسرین بڑی تفسیر سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسی تفسیر کے ایڈیشن دوم مطبوعہ ۱۹۹۷ءکی ابتداء میں مشہور محقق اور صاحب قلم جناب پروفیسر محمد جمن صاحب نے ۳۶ صفحات پر مشتمل شاہ صاحب کے ’’فکر وفلسفہ‘‘ پربڑاجامع بصیرت افروز مضمون تحریرفرمایاہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ آمین

پروفیسر صاحب کی تحریرپُرتاثیرسےایک اقتباس قارئین کرام کے سامنے عرض خدمت ہے۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیںکہ: سلف صالحین، متقدمین(ومتاخرین) کے انداز بیان کو سامنے رکھتے ہوئے۔ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے یہ مقدمہ تفسیر(محنت شاقہ) سے قلمبند فرمایا۔ سندھی زبان وادب میں اس سے پہلے اس قسم کی کہیں بھی مستند، نادر اورعلمی مخزن کا ملنا ناممکن تھا۔ یہ مقدمہ پہلی بار۱۹۷۶ءمیں ۴۳۳صفحات پر مشتمل اشاعت پذیر ہواتھا۔ جسے اصحاب علم وادب، اہل علم احباب نے ہاتھوں ہاتھ لے لیا جس کے پیش نظر اب اس کا یہ دوسرا ایڈیشن تشنگان علوم ومعارف تک پہنچانے کا اہتمام کیاگیا ہے۔

اس مقدمہ نے علماء وفضلاء میں بےپناہ مقبولیت اورپذیرائی حاصل کی۔ فاضل مصنف نے جومحنت شاقہ فرمائی ہے خصوصا کتاب کی ابتدا میں’’خطبۃالکتاب‘‘ جو فاضلانہ انداز علم وادب کابحرپیکراں پیش کیا اس سے شاہ صاحب کی بلاغت کااندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس ایک کتاب میں آپ نے تفسیر وعلوم تفسیر کے سارے مضامین کوبڑے احسن انداز سے یکجا کردیاہے۔

بدیع التفاسیر جلداول بنام’’أحسن الخطاب فی تفسیر أم الکتاب‘‘ جو بڑی سائز کے۵۰۰ صضحات پر صرف بسم اللہ، تعوذ، اور فاتحۃ الکتاب کی تفسیر ہے جس کاتعارف کرواتے ہوئےمحترم ومکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز نہڑیوصاحب( جو کہ اس تفسیر کے کاتب اور پروف ریڈرہونے کےساتھ ’’المکتبۃ الراشدیہ‘‘ کے منتظم بھی رہےہیں۔) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر انتہائی سہل، دلنشیں، مستند اور مدلل انداز میں لکھی گئی ہے۔ سورۃ فاتحہ کے متعلق جمیع احکامات ومسائل (علوم ومعارف) نہایت اختصار اور جامعیت سے کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔ مزیدیہ کہ اَعداءِ اسلام ،منکرین وملحدین کے قرآن حکیم پر اٹھائے گئے اعتراضات کا ایک ایک کرکے مسکت اور دندان شکن جوابات دیا ہے۔مختصرا یہ تفسیر تین ابواب میں تقسیم کی گئی ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے باب اول میںبڑے بڑے گناہوں پرمفصل نگاہ ڈالی گئی ہے۔ جن میں الحاد، انکارخدا، شرک، بدعات، سیئات، تقلیدجامد،عشق،ظلم وستم، قومی عصبیت، تکبر وغلو، پیری مریدی، اخلاق سیئہ، فرقہ بندی جیسے مہلکات کاخوب قرآن وسنت اور عقل ونقل کے ساتھ رد پیش کیا گیا ہے۔

دوسرے باب میں فرقہ ہائے باطلہ مثلاً: قادیانیت، انکارحدیث ، البابیہ، البھائیہ، ذکریہ، یہودیت وعیسائیت، ہنددھرم، اشتراکیت اور فری میسن جیسی تحریکوں کا دلائل وبراہین سے خوب بطلان کیا گیا ہے۔

تیسرے باب میں سورہ بقرہ سے الناس تک پورے قرآن حکیم کا فاتحہ الکتاب سے براہ راست تعلق ثابت کیا گیا ہے اور دلائل کی روشنی میں مدلل انداز میں یہ ثابت کیاگیا ہے کہ ’’سبع مثانی‘‘ فاتحہ الکتاب کا پورے قرآن حکیم سے نہ صرف تعلق ہے بلکہ پورے قرآن مجید کا لب لباب اورخلاصہ بھی ہے۔

بدیع التفاسیر جلد دوم بنام’’بشری البررہ فی تفسیر سورۃ البقرۃ‘‘ مطبوعہ طبع اول ۱۹۸۸ء کے ابتدایئے میں مولانا پروفیسر عبدالغفار جونیجو صاحب(جنہیں شاہ صاحب کےساتھ مدت مدید تک سفروحضر میں ساتھ رہنے اور علوم ومعارف حاصل کرنے کااعزاز نصیب ہوا۔)رقمطراز ہیں کہ دنیائے اسلام کے مشہور ومعروف عظیم اسکالر باب الاسلام سندھ کے مایہ ناز عالم دین سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کی معرکہ آراء تفسیر بدیع التفاسیر کی یہ دوسری جلدہدیہ قارئین ہے،جو قرآن عظیم کی بابرکت سورۃ البقرۃ کے حرف ابتدائی سےدس رکوع پر مشتمل ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اسی سورہ بابرکت پر(اتنی ضخیم) دوجلدوں میں صرف سورۃ بقرہ کی تفسیر تکمیل تک پہنچے گی۔ مزیدتحریرفرماتےہیں کہ یہ سورہ شریف مطالب ومضامین کے لحاظ سے قرآن حکیم کی سب سے مفصل سورہ شریف ہے۔

جس میں احکام رب العالمین بڑے جامع انداز میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ اساسیات اسلام ومبادیات اسلام بلکہ انفرادی اور اجتماعی پوری زندگی پرمحیط احکام ومسائل پر بڑے بصیرت افروز مباحث لائے گئے ہیں۔ اسی سورہ میں’’احکام وفرائض‘‘ کو بھی واضح انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ (جن کا جاننا علماء وعوام کیلئے بے انتہا ضروری ہے۔)

اس غرض سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ   جیسی جلیل القدر علمی شخصیت کو بھی اس کے تہہ تک جانے کیلئے آٹھ سال کی مدت صرف کرنی پڑی۔

نیزسیدنا فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ   جیسی دنیا کی ذہین وذکی شخصیت کو بھی بارہ سال تک اس بابرکت سورہ میں غور وخوض کرناپڑا۔ مختصراً یہ سورہ شریف احکام ومسائل کابحرپیکراں ہے۔ لہذا فاضل مفسر قرآن نے بڑے احسن اور علمی انداز میں اس کے احکام ومسائل سمجھائے ہیں فاضل مفسر کے قلم کی روانی اپنی مثال آپ ہے۔(بدیع التفاسیر جلددوم:ص:۸)

جناب پروفیسر محمد جمن کنبھر بدیع التفاسیر جلدنہم، الانوال فی تفسیر سورۃ الانفال طبع اول کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

اللہ تعالیٰ کی عنایات بے پایاں سےسرزمین سندھ کے انتہائی علمی قابل قدرراشدی خاندان کے بلندپایہ محدث دوراں، مفسر قرآن سیدابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے سندھی زبان میں ایک ایسی گرانقدر جامع مستند مدلل ومفصل تفسیر تحریرفرمائی جس نے تفاسیر کی دنیا میں چار چاند لگادیئے۔ اس تفسیر سے قبل مختلف زبانوں مثلاً:عربی،اردو، فارسی میں لکھی گئی تفاسیر میں اس تفسیر کو ایک انفرادی مقام حاصل ہوا ہے۔ شاہ صاحب نے اس تفسیر میں قرآن کی تفسیر قرآن سے احادیث صحیحہ،آثار صحابہ سے فرمائی اور اسرائیلی روایات، بے بنیاد قصص وواقعات سے اپنی تفسیر کو پاک رکھا۔ فن رجال کی کسوٹی پر روایات کوپرکھا۔ اب اجمالاً پوری تفسیر پرایک نظر ڈالی جاتی ہےتاکہ اردو خواندہ بھائی بھی معلومات حاصل کرسکیں۔

(۱) بیان بے نظیر مقدمۃ التفسیر ،اشاعت اول ۱۹۷۷ء اشاعت ثانی ۱۹۹۹۷ء ،۳۰۶ صفحات دیباچہ طبع اول ڈاکٹر سید محمد صالح شاہ جیسی ماہر علوم شخصیت نےاور طبع ثانی میں پروفیسر محمد جمن کنبھر نے مفصل گرانقدر مقدمہ لکھا ہے۔

۱۔ جلد اول نام’’احسن الخطاب فی تفسیر ام الکتاب‘‘ اشاعت ۱۹۸۶ء، ۵۰۰صفحات ہیں سورہ فاتحہ کی انتہائی مدلل اور مفصل تفسیر جس میں بسم اللہ اور تعوذ پر بھی مباحث ہیں اس کی ابتداء میں  پروفیسر عبدالعزیز نہڑیو صاحب نے تعارفی ’’دوالفاظ‘‘ بڑے جاندار تحریر فرمائے ہیں۔

۲۔جلد دوم: ’’بشری البررۃ فی تفسیر سورۃ البقرۃ (۱)‘‘ اشاعت ۱۹۸۸ء ۵۵۸صفحات ہیں سورۃ بقرۃ کے صرف ابتدائی ۱۰ رکوع پر یہ بڑا بصیرت افروز اور جامع ومانع تفسیر قرآن ،تفسیر کی ابتداء میںچند تعارفی صفحات ’’اپنی طرف سے‘‘ کے عنوان سے پروفیسر عبدالغفار جونیجو نے قلمبند فرمائے ہیں۔

(۳)جلد سوم:’’بشری البررۃ فی تفسیر سورۃ البقرۃ (۲)‘‘ اشاعت ۱۹۹۰ء ۷۸۶ صفحات اس کے ابتداء میں’’مہاگ‘‘ کے عنوان سے جناب عبدالرحمٰن منگوصاحب نے سندھی میں تفاسیر وتراجم کی تاریخ پر خوبصورت روشنی ڈالی ہے۔

(۴)جلد چہارم: ’’بشری البررۃ فی تفسیر سورۃ البقرۃ (۳)‘‘ اشاعت ۱۹۹۲ء ۵۵۰صفحات اس جلد میں مہاگ کے عنوان سے سندھ کے مایہ ناز ادیب بقیۃ السلف بزرگ شخصیت منصور ویراگی صاحب نے انتہائی جامع وتفاسیر وتراجم پر نگاہ عمیق ڈالی ہے۔

(۵)جلد پنجم: ’’آلاء الرحمٰن فی تفسیر آل عمران‘‘ اشاعت ۱۹۹۴ء۵۱۴ صفحات اس جلد کی ابتداء میں خود علامہ راشدی  رحمہ اللہ نے انتہائی رقت انگیز انداز میں دعائیہ الفاظ سے آل عمران کی تفسیر کاآغاز فرمایا ہے۔ یہ دعائیہ الفاظ باربارپڑھنے کے لائق ہیں۔

(۶)جلد ششم: ’’النداء الدعاء فی تفسیر سورۃ النساء‘‘  اشاعت ۱۹۹۵ء ۵۴۲صفحات اس بابرکت جلد کا ابتدائیہ ناچیزراقم الحروف (مولابخش محمدی)کے اعزاز میں آیا ہے۔

(۷)جلد ہفتم: ’’الماھدۃ فی تفسیرالمائدۃ‘‘ اشاعت ۱۹۹۸ء ۳۸۸ صفحات اس جلد کا پیش لفظ پروفیسر حافظ محمد کھٹی صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں تحریر فرمایا ہے۔

(۸)جلد ہشتم:’’الاحکام فی سورۃ الانعام‘‘والفاف فی تفسیر سورۃ الاعراف‘‘ ۶۳۳صفحات ۱۹۹۹ء اشاعت، اس جلد کی ابتداء میں تعارفی صفحات مولانا عبدالرحمٰن اوٹھوصاحب نے قلمبند فرمائے ہیں۔

(۹)جلدنہم:’’الانوال فی تفسیر سورۃ الانفال‘‘ والبراعۃ فی تفسیر البراءۃ‘‘ اشاعت ۲۰۰۱ء صفحات ۶۰۹،اس کی ابتداء بھی فاضل نوجوان پروفیسر محمدجمن کنبھر کے جاندار قلم سے ہوئی ہے جس میں آپ نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ باب الاسلام سندھ میں ’’یہ تفسیر شب ظلمت میں منارہ نورسے کم نہیں‘‘

(۱۰)جلد دہم: ’’بدیع التفاسیر کی یہ آخری جلد ہے جس کی ابتداء سورۃ یونس سے ہوکر سورۃ حجر پرتمام ہوتی ہے۔ صفحات ۶۶۱ اشاعت ۲۰۰۴ء اس کے تعارفی الفاظ محترم محمد اسلم سندھی اورقدرے تفصیل سے مقدمہ مولانا حافظ عبدالرزاق ابراھیمی صاحب نہڑیو کی جانب سے لکھاگیاہے۔ جس میں شاہ صاحب کی وفات حسرت آیات پر بات خوب المیاتی صدمہ کااظہار کیا گیا ہے اور تفسیر وعلوم تفسیر پربصیرت افروز مواد پیش کیا گیا ہے اس طرح دسویں جلد پر یہ تفسیر اختتام پذیر ہوئی۔

سورہ حجر کی ابتدائی آیات سے ہی یہ باب رحمت بند ہوا۔

تفسیر بدیع التفاسیر کی آخری جلد ۱۰کے اختتام پرپروفیسر عبد الغفار جونیجو صاحب جو شاہ صاحب کے تفسیر کے کاتب، پروف ریڈر تھے انہوں نے اختتامی صفحہ انتہائی درد والم سے بھرے قلب سے تحریر کیا ہے ۔

انہوں نے شاہ صاحب کے داغ مفارقت کو کچھ اس انداز سےبیان فرمایا ہے:

آہ شاہ صاحب کی تفسیر تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ مصمم دل ہی میں رہ گیا۔ہم کتابت کرنے والے (پروفیسر عبدالغفار اورپروفیسر عبد العزیز) کو یقین تھا کہ اتنافاضل ،جلیل، عالم باعمل، انتہائی عاجزی وانکساری سے اپنے رب کبریا کے آگے باہیں پھیلائے آنکھوں میں آنسو سجائے، جو تفسیر کے تکمیل کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ وہ یقیناً بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل کریں گی مگر مالک الملک، حی وقیوم ساری کائنات سے بے نیاز جوچاہے وہ کرے اس کی قضاو قدرت غالب آئی۔ (شاہ صاحب جوسائبان تھے، وہ ہمیں چلچلاتی دھوپ میں تنہا چھوڑ کر)داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مورخہ ۱۹دسمبر ۱۹۹۵ء کو آپ نے چودھویں پارے کی پہلی آیت کی تفسیر مرقومہ بالاالفاظ تک پہنچائی اور دو برس سے جو بیماری پنپ رہی تھی اس کی وجہ سے آخری ایام آن پہنچے اور یہ تفسیر کا مبارک سلسلہ ہمیشہ کے لئے بندہوگیا۔

سورہ حجر کی ابتدائی دو آیات کی تفسیر کے بعد ہمیں داغ جدائی ملا۔ کاش اس کےکسی تلمیذ رشید کو یہ سعادت عظمی نصیب ہو کہ یہ علمی ارمغان پایہ تکمیل تک پہنچاسکے(اور موجودہ تفسیر کاانڈکس(اشاریہ) مرتب کرسکے)

آخر میں محمد عبدالہادی العمری کے ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم فروری ۱۹۹۶ء کے یہ الفاظ نقل کرنے کو جی چاہتا ہے جس میںآپ لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کی یہ بڑی آروزتھی کہ سندھی زبان میں جس کو بولنے والوں کی برصغیر میں بہت بڑی تعداد ہے اس میں ایک مستند اور معتبر تفسیر ہونی چاہئے۔

چنانچہ آپ نے خود اس کابیڑا اٹھایاتھا چونکہ سندھی زبان آپ کی مادری زبان تھی۔ اس لئے اس میں تیزی سے کام بڑھتا گیا۔ اور کئی جلدیں تیار ہوگئیں ۔لیکن موت اس سے زیادہ تیز ثابت ہوئی اور اس عظیم تفسیر کے تکملہ کی آپ کو مہلت نہ مل سکی۔ اس طرح یہ اہم کام ادھورا ہی رہ گیا۔ کاش کوئی اسے مکمل کردے۔(رموزراشدیہ،ص:۷)

یہاں پر یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ شاہ صاحب  رحمہ اللہ نے عربی دان دوستوں اور شاگردوں کے شدید اصرار پر خود ہی تفسیر بدیع التفاسیر کا عربی ترجمہ شروع کیا تھا،مقدمہ تفسیر کا عربی ترجمہ مکمل ہوگیا تھا اور سورۃ فاتحہ کی تفسیر کاعربی ترجمہ دوتہائی حصہ تک کرلیا تھا۔آخری ایام میں علالت کی وجہ سے کام رکارہا اور یہ کام بھی ادھوا رہ گیا۔

بدیع التفاسیر کی علمی اہمیت وافادیت کے متعلق مشہور عالم و ادیب، مقالہ نویس ڈاکٹر وفاراشدی صاحب رقمطراز ہیں کہ:

علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کی’’بدیع التفاسیر‘‘ کی خصوصیات میں ہر سورت کے شان نزول ،اس کاخلاصہ، عظمت وفضیلت، الفاظ مطالب ومعانی کی تحقیق وتشریح ،ربط آیات، وغیرہ کو احادیث صحیحہ کی روشنی میں اجاگرکیا گیا ہے۔ خدائے بزرگ وبرتر بدیع التفاسیر کے مفسر عالی مراتب علامہ بدیع الدین شاہ  رحمہ اللہ کو جزائے خیر عطافرمائے کہ انہوں  نے علمی ودینی معلومات سے بھرپور، فکرانگیز، بصیرت افروز، اور ایمان پرورتفسیر نہایت خوش اسلوبی سے تحریر فرمائی ہے۔ان کے فاضلانہ تراجم وتفاسیر ،شرح ومطالب اور عالمانہ ومحققانہ تحریریں پڑھتے وقت یوں لگتا ہے کہ شاہ صاحب راسخ العقیدہ مؤمن ہونے کے ساتھ قلم کے بادشاہ علم وفضل کے دَھنی بھی ہیں۔ ان کی زبان کی لطافت میں بلا کی روانی وبرجستگی سلاست، فصاحت طرز بیان کی دلکشی ،قرآن کی عظمت کو دل پر ثبت کردیتی ہے اور ایمان کی حرارت بھی موجزن نظر آتی ہے جس کے نتیجہ میں عمل صالحہ کی ترغیب ہوتی ہے اور فکرآخرت کاجذبہ بیدارہوتا ہے….علامہ بدیع الدین شاہ راشدی نے بدیع التفاسیر جس شرح وبسط وضاحت وبلاغت کے ساتھ تحریر فرمائی ہے،اس کی مثال سندھی زبان تو کیا کسی دوسری زبان میں بھی مشکل سے ملتی ہے۔(بحوالہ مؤقر مجلہ ’’آگہی‘‘ کراچی)

الحمدللہ بدیع التفاسیر (214)اقساط تک اردو میں ترجمہ ہوکر مؤقر ’’ماہنامہ دعوت اہل حدیث ‘‘حیدرآباد کی زینت بن رہا ہے شنید ہے کہ اس کے علاوہ بھی بدیع التفاسیر کا بڑا حصہ اردومیں ترجمہ ہوچکا ہے جس سے قارئین کرام استفادہ کرسکیں گے۔

اللہ تعالیٰ شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی  رحمہ اللہ ، جمعیت اہل حدیث سندھ کے زعماء کرام خصوصا امیرمحترم فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی  حفظہ اللہ ،بدیع التفاسیر کے مترجمین ،مبارک تفسیر کی کتابت کرنے والے محترم پروفیسر ڈاکٹرعبدالعزیز نہڑیو، پروفیسر محمد جمن کنبھر، پروفیسر عبدالغفار جونیجو،مولانا محمد سلیم، کے علاوہ ان کے مقدمات تحریر کرنے والے،مواد کے پروف ریڈر،مصحح، اور اس تفسیر کی طباعت واشاعت کے سلسلہ میں مالی مدد ومعاونت کرنے والے مخیر احباب کو بھی دنیاوعقبی میں فوزوفلاح سے سرفراز کرے اوراس مایہ ناز تفسیر کو شرف قبولیت عطافرمائے اور مرحوم مؤلف کے لئے صدقہ جاریہ بنا کر ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو قرآن وسنت کا عامل بنائے۔(آمین)

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

افسوس مغرب کی بے رحم آندھی نے مشرقی عورت کا پردہ، عزت، وقار، عصمت کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے