Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2019 » شمارہ دسمبر » اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی  رحمہ اللہ کی کتاب انوارالسنن فی تحقیق آثارالسنن (جو کہ معروف حنفی عالم محمدبن علی نیموی کی مدارس دیوبند میں پڑھائی جانے والی کتاب آثارالسنن پر علمی نقدہے)عربی زبان میں شایع ہوکر منصئہ شہود پر آچکی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

علاوہ ازیں اسی کتاب پر محدث العصر  رحمہ اللہ نے اردو زبان میں بھی نقد کیاہے جو کہ ان کی زندگی ہی میں مجلہ ضرب حق سرگودھامیں قسط وار چھپ چکا ہے البتہ کتابی شکل میں اب تک شایع نہیں ہوا!

عربی نسخے کا بڑےذوق و شوق سے مطالعہ کیا اور کئی مفید باتیں پائیں ان میں سے بعض قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں:

نیموی کے خواب کی درست تعبیر

نیموی حنفی صاحب آثارالسنن کے خطبہ میں اپنے  ایک خواب کا تذکرہ اور اسکی تعبیر  بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انی رأیت ذات لیلۃ فی المنام انی احمل  فوق راسی جنازۃ النبی علیہ الصلاۃ والسلام فعبرت ھذہ الرأیاالصالحۃ بان اکون حامل لعلمہ ان شاءاللہ العلام ۔

یعنی میں نے ایک رات خواب میں دیکھاکہ میں نے سر پر اللہ کے نبیﷺ کا جنازہ اٹھایاہواہے اس نیک خواب کی میں نے تعبیر یہ کی کہ میں اس کے علم کو اٹھانے والا ہوں گا(یعنی علم حدیث کی خدمت کرونگا)۔[آثارالسنن، ص:۱]

محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی  رحمہ اللہ نے نیموی کی باطل تعبیر پر یوں نقد فرمایا:

اقول رای النیموی فی المنام  انہ یحمل جنازۃ النبیﷺوعبرہ بتعابیرفاسد،والصواب انہ یحمل جنازۃ احادیث رسول اللہﷺبتاویلات فاسدۃ وتصحیح الاحادیث الضعیفۃ وتضعیف صحیحھا وبالطعون فی الثقات ورواۃ الحسان۔

وقال عبدالغنی بن اسماعیل النابلسی الحنفی فی تعطیرالانام فی  تعبیرالمنام ومن راٰی انہ حمل جنازۃ اصاب مالا حراما۔[ص:۱۳۱رقم:۵۶۶]

میں کہتاہوں کہ نیموی نے خواب میں نبی اکرمﷺ کا جنازہ اٹھایا اور اسکی اس نے فاسد تعبیر کی ہے،درست تعبیر یہ ہےکہ اس (نیموی)نے رسول اللہﷺ کی احادیث کا جنازہ اٹھایاہے فاسد تاویلوں کے ذریعہ اور (اپنے مسلک کی تائید میں)ضعیف روایات کو صحیح کہنے ،(اپنے مسلک کے خلاف)صحیح احادیث کو ضعیف کہنے اور ثقہ وحسن الحدیث راویوں پر تنقید کرنے کے ذریعہ سے۔

عبدالغنی بن اسماعیل النابلسی حنفی  اپنی کتاب’’ تعطیرالانام فی تعبیرالمنام ‘‘میں کہتےہیں جس نے خواب میں جنازہ اٹھایا تو وہ حرام مال پائےگا۔[انوارالسنن ،ص:۵]

نیموی صاحب کا مبلغ علم

(۱)مشہورثقہ تابعی عطاءبن ابی رباح سے تین رکعت وتر ایک تشہد کے ساتھ پڑھنا ثابت ہے دیکھئے۔[السنن الکبرٰی للبیھقی برقم:۴۸۰۹والمستدرک للحاکم برقم:۱۱۴۲واسنادہ صحیح]

اس اثر کی سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں ۔اس کی سند میں ایک راوی حسین بن الفضل البجلی  (ثقۃ عندالمحدثین)بھی ہے۔ مستدرک کے بعض نسخوں میں غلطی سے حسن بن الفضل چھپ گیا جبکہ حسن بن فضل دوسرا راوی ہے جوکہ عندالمحدثین ضعیف ہے نیموی مقلد نے مستدرک کے تحریف شدہ الفاظ پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر تحقیق کے حسن بن فضل پر جرح کی بوچھاڑ کردی ۔[آثارالسنن، ص:۱۶۱]

جبکہ اس اثر کی سند میں یہ راوی موجودہی نہیں ہے ۔موصوف کا محدث العصرحافظ زبیرعلی زئی  رحمہ اللہ تعاقب کرتےہوئے لکھتےہیں:

وتحرف فی المستدرک الحسن بن الفضل وھو رجل آخر فحشرالنیموی الجرح علیہ وھذا یدل علیٰ قلۃ علم النیموی باسماء الرجال ولورجع الی السنن الکبریٰ للبیھقی لانکشف لہ ماتحرف فی نسخۃ المستدرک۔

یعنی مستدرک الحاکم میں (حسین بن فضل)حسن بن فضل میں بدل گیا اور یہ دوسرا شخص ہے ،نیموی نے اسی پر جرح کردی اور یہ نیموی کے اسماء الرجال میں کم علم ہونے کی دلیل ہے  اگر یہ السنن الکبریٰ للبیھقی کی طرف مراجعت کرتے تو ان کے سامنے مستدرک میں ہونے والی تحریف واضح ہوجاتی۔[انوارالسنن، ص:۱۵۷]

معلوم ہوا کہ حنفی اکابر نیموی اپنے مسلک کی بےجاحمایت میں اس قدر مگن ہیں کہ تحقیق کی بھی جرأت نہیں کرتے!!

(۲)حنفی مسلک کے خلاف ایک صحیح روایت کو ضعیف ثابت کرتے ہوئے ایک راوی کے متعلق  نیموی لکھتے  ہیں:قلت اما الروایۃ الاولیٰ ففیہ عبداللہ بن ابی بکربن انس لم اقف علیٰ توثیقہ ولا ادری ھل سمع من انس ام لا.

یعنی پہلی روایت میں عبداللہ بن ابی بکر بن انس موجود ہے،مجھے اس کی توثیق نہیں ملی اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نے انس بن مالک  سے سماع کیاہے کہ نہیں۔[تعلیق الحسن :۲۴۳]

محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ  نیموی تقلیدی کی اس بات پر یوں نقد فرماتے ہیں:قلت الصواب عبیداللہ بن ابی بکر کما فی السنن الکبرٰی للبیھقی  وتغلیق التعلیق۲/۳۸۶ وھو ثقۃ کما فی التقریب  وغیرہ وھوسمع من انس کما فی صحیح البخاری۵۸۷۷ومسلم۸۸وغیرھما۔

میں کہتاہوں درست بات یہ ہے کہ اس سے مراد عبیداللہ بن ابی بکر ہے جیساکہ سنن الکبرٰی للبیہقی اور تغلیق التعلیق میں (وضاحت موجود)ہے اور یہ راوی ثقہ ہے جیساکہ تقریب التھذیب وغیرہ میں (اس کی توثیق موجود)ہے اور اس کاسیدنا انس سے سماع بھی ہے جیسا کہ صحیح البخاری وصحیح مسلم وغیرہما میں موجودہے۔[انوارالسنن ۲۲۹]

(۳)لیث بن ابی سلیم احناف کے نزدیک بھی ضعیف ہے بلکہ خود نیموی صاحب نے بھی انکی تضعیف کی ہے جیساکہ وہ ایک  روایت کے متعلق کہتےہیں:قلت رجال اسنادہ کلھم ثقات الا لیثا وھو ابن سلیم  فیہ مقال۔[التعلیق الحسن ص۱۶۴]

دوسری طرف ان سے مروی احناف کی مؤید  روایت کے بارے میں نیموی نے لکھا :واسنادہ صحیح۔[آثارالسنن ص]

اس پر محدث العصر  رحمہ اللہ یوں تبصرہ  فرماتےہیں:فیہ لیث بن ابی سلیم ضعیف مدلس لعل النیموی  من قلۃ علمہ بالحدیث  ظن انہ لیث بن سعد فصحح السند۔

اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ومدلس موجودہے شاید نیموی صاحب نے قلت علم حدیث کی وجہ سے  لیث سے لیث بن سعد سمجھ کر حدیث کی تصحیح کرلی ہو۔[الانوار۱۵۹]

فائدہ:محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی  رحمہ اللہ کی حسن ظن پر مبنی بات بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ لوگ اپنے مسلک کی حمایت میں اپنے ہی اصولوں کی قربانی دینے میں ذری برابر بھی تاخیر نہیں کرتے یہ بھی قوی امکان ہے کہ یہاں پر بھی حنفی اکابر نے حسب عادت دوغلی پالیسی سے کام لیاہو(واللہ تعالیٰ اعلم)ویسے بھی  اسی راوی کی توثیق وتضعیف میں بہت سے حنفی علماء (مثلا مفتی تقی عثمانی ،سرفرازصفدر وغیرہ) تضاد کا شکار ہیں۔

احادیث کی تصحیح وتضعیف میں دوغلی پالیسی

مثال(۱):مشہور حسن الحدیث راوی محمدبن اسحاق سے اپنی مرضی کے خلاف مروی روایت کے بارے میں نیموی صاحب نے لکھا:محمدبن اسحاق  وھو لایحتج بما انفرد بہ۔

اس کی تردید میں محدث العصر  رحمہ اللہ فرماتےہیں:قلتُ وحسن لہ النیموی احادیث۸۴۹،۲۳۲،۲۲۵،۳۹تفردبھا بل صح حدیثین ۹۱۳،۸۳۴بقولہ  فی کلیھما:واسنادہ صحیح وھذہ طرقۃ  ھؤلاء المتحققین یوثقون الراوی  اذا یوافق ھواھم ویضعفونہ  اذا یخالف ھواھم ۔

میں کہتاہوں نیموی صاحب نے خود  محمدبن اسحاق کی منفرد احادث کو حسن کہاہےبلکہ ان سے مروی دو احادیث کو تو صحیح کہا ہےان دونوں احادث کے بارے میں  نیموی کا قول اسنادہ صحیح ہے یہ ہے طریقہ ان تحقیق کرنے والوں کا یہ لوگ راوی کو ثقہ تب کہتے ہیں جب وہ ان کی خواہش کی موافقت کرتاہےاور جب وہ راوی ان کی مخالفت کرتاہے تو یہ لوگ اسے ضعیف کہ دیتےہیں(یعنی اس سے مروی روایت انکی تائید میں ہوتی ہے تو ثقہ کہ دیتے ہیں جب ان سے مروی روایت انکے خلاف ہوتی ہے تو اسی کی تضعیف کردیتےہیں )

[انوارالسنن:۸۸]

مثال(۲)عام طور پر احناف یہ اصول پیش کرتے ہیں  کہ قرون ثلاثہ کی جہالت مضر نہیں جب مطلب کے خلاف روایت کا معاملہ آتاہے تو اپنے ہی وضع کردہ اصول کی دھجیاں اڑادیتےہیں  جیساکہ قرون ثلاثہ کے مشہور راوی  نافع بن محمود کو نیموی نے مستور کہ دیا تو محدث العصر رحمہ اللہ نے اصولی دلائل سے ثابت کیاکہ یہ راوی مجہول نہیں بلکہ ثقہ ہے اور ساتھ ہی میں محدث العصر  رحمہ اللہ نے الزاما  فرمایا:

۔۔۔وقال ظفراحمد التھانوی والجھالۃ  فی القرون الثلاثہ لایضر عندنا (اعلاءالسنن۳/۱۹۷،۱۶۱)۔۔۔یعنی اذا یوافق ھواھم  والا فھم اول المضعفین لہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ظفراحمدتھانوی نے کہا:ہمارے نزدیک قرون ثلاثہ کی جہالت مضر نہیں ۔۔۔یعنی جب (اس کی بیان کردہ روایت)انکی خواہش کے موافق ہو (تو اس کی جہات مضرنہیں)وگرنہ سب سے پہلے اس کی تضعیف کرنے والے بھی یہی ہوتےہیں انا للہ وانا الہ راجعون۔

[انوارالسنن، ص:۸۹]

مثال(۳)نیموی صاحب نے فاتحہ خلف الامام کی ثابتی میں ایک صحیح حدیث پر اپنے ہی اصول کی مخالفت کرتے ہوئے جرح کردی  تومحدث العصر رحمہ اللہ نے موصوف کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا: واحتج النیموی بحدیث عروۃ بن الزبیر عن امرأۃ من بنی النجار فنقل عن الحافظ ابن حجر فیہ اسنادہ حسن (آثارالسنن ۲۶۳) فطعن النیموی فی ھذاالسند مخالف لاصولہ من اجل التعصب المذہبی فقط۔

نیموی صاحب نے عروۃ بن الزبیر عن امرأۃ من بنی النجار کی حدیث سے حجت پکڑی ہے ،اس کے بارے میں ابن حجر سے تحسین بھی نقل کی  ہےجبکہ اس (اپنے مذہب کے مخالف)سند پر نیموی نے اپنے اصول کی مخالفت  کرتے ہوئے محض مذہبی تعصب کی بنا پر طعن کیاہے۔ [انوارالسنن، ص:۹۰]

مثال(۴)محدث العصر رحمہ اللہ  ایک حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرماتےہیں:

وللنیموی عادۃ عجیبۃ اذا کانت الروایۃ توافق رأیہ یقبل تفردالثقۃ کمافی الروایۃ(۳۶)اذاکانت الروایۃ لاتوافق رأیہ یقول:فقد تفرد بہ ابن عیینۃ فتکون الروایۃ شاذۃ۔

نیموی صاحب کی یہ عجیب عادت ہے کہ جب روایت اس کی رائے کے موافق ہوتی ہے تو ثقہ کے تفرد کو قبول کرلیتے ہیں جس طرح ۳۶نمبر روایت کو قبول کیا جب ثقہ کی روایت نیموی صاحب کی رائے کے خلاف ہوتی ہے تو کہتے ہیں:اس میں ابن عیینہ منفرد ہے تو یہ روایت شاذ ہے۔[الانوار،ص:۲۰]

ہم ان چار امثلہ پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ورنہ نیموی  کی اسی کتاب(آثارالسنن مع التعلیق الحسن) میں اس طرح کی بیسیوں دو رخیاں موجودہیں بلکہ نیموی صاحب کے تناقضات پر محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی  رحمہ اللہ نے مستقل مضمون بھی لکھاہے ۔[دیکھئے علمی مقالات ج۲]

مصنف ابن ابی شیبہ میں تحریف کی وضاحت

اہل علم جانتے ہیں کہ بعض احناف نے مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں تحت السرۃ کا اضافہ کردیا اور اسے اصل باور کرانے کی مذموم سعی کی!نیموی صاحب بھی اپنے ہم مسلک محرفین کی صف میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انہوں  بھی نے اس اضافے کو درست قرار دیاہے۔[التعلیق الحسن، ص:۷۴]

محدث العصر رحمہ اللہ   نیموی کی تردید کرتے ہوئے فرماتےہیں:

رأیت مخطوطۃ شیخنا ابی القاسم محب اللہ شاہ الراشدی السندی بدون ’’تحت السرۃ‘‘ واول من عزاہ الی ابن ابی شیبۃ  القاسم بن قطلوبغا الذی قال فیہ المحدث  البقاعی رحمہ اللہ ’’نظم الدرر فی تناسب الاٰیات والسور‘‘ ’’کان(ای القاسم بن قطلوبغا)کذابایضع الحدیث ‘‘الضؤاللامع للسخاوی۶/۱۸۸، وقلدہ کذاب مثلہ  وھو قائم السندی صاحب ’’فوزالکرام ‘‘ فزعم انہ شاھد(ورأی ای رأی فی المنام)نسخۃ المصنف بزیادۃ ’’تحت السرۃ‘‘فی ھذہ الروایۃ  وھو کذب صریح وان قلدہ النیموی الذی رأی فی المنام حمل جنازۃ(ای جنازۃ احادیث)رسول اللہﷺ۔

میں نے ہمارے شیخ سیدمحب اللہ شاہ راشدی سندھی (کے پاس مصنف ابن ابی شیبہ کا موجود )مخطوطہ تحت السرہ کی زیادتی کے بغیر پایا سب سے پہلے اس زیادتی کو ابن ابی شیبہ کی طرف منسوب کرنے والے قاسم بن قطلوبغاہیں جن کے بارے میں محدث بقاعی نے’’ نظم الدرر‘‘میں فرمایاہے قاسم بن قطلوبغا کذاب تھا،حدیثیں گھڑتاتھا اور (بعدمیں)اس جیسے کذاب لوگوں نے ان کی تقلید کی (ان کی تقلیدکرنے والوں میں سے)قائم سندھی بھی ہیں اس کا گمان ہے کہ اس نے اس’’تحت السرۃ‘‘  کی زیادتی  کا مصنف ابن ابی شیبہ کی اسی روایت میں  مشاہدہ کیاہے(یعنی خواب میں مشاہدہ کیاہے)یہ صریح جھوٹ ہے اگرچہ اس کی نیموی نے بھی تقلید کی ہے  جس نے خواب میں نبی اکرمﷺ(کی احادیث )کا جنازہ اٹھایاتھا۔

فائدہ:مفتی تقی عثمانی صاحب اس (تحریف شدہ)روایت کے بارے میں کہتےہیں:لیکن احقر کی نظر میں اس روایت سےاستدلال کمزورہے اول تو اس لئے کہ اس روایت میں تحت السرۃ کے الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ کے مطبوعہ نسخوں میں نہیں ملے اگرچہ علامہ نیموی (صاحب آثارالسنن)نے متعدد نسخوں کا حوالہ دیاہے کہ ان میں یہ زیادتی مذکورہے تب بھی اس زیادتی کا بعض نسخوں میں ہونا اور بعض میں نہ ہونا اس کو مشکوک ضرور بنا دیتاہے۔(درس ترمذی ج2ص23)

اذان عثمانی

محدث العصر رحمہ اللہ  فرماتےہیں:

قال النیموی فی الاذان الثلاث’’اذاکانت  مشروعیتہ باجتھادعثمان وموافقۃ سائرالصحابۃ لہ بالسکوت وعدم الانکارالخ قال ابن ابی شیبۃ ۲/۱۴۰حدثنا وکیع قال حدثنا ھشام  بن الغاز قال سألت نافعا مولیٰ ابن عمر الاذان الاول یوم الجمعۃ بدعۃ  فقال قال ابن عمر بدعۃ وسندہ صحیح  فبطل مازعم  النیموی من السکوت وعدم الانکار، ولورجع الی المصنف لاستحی من قولہ۔

یعنی نیموی نے (جمعہ) کی تیسری اذان کے بارے میں کہا   جب اس کی مشروعیت سیدنا عثمان کے اجتہاد اور تمام صحابہ کا خاموشی اختیار کرنے اور انکار نہ کرنے کے ذریعہ عثمان کی موافقت کرنے سےہوئی،امام ابن ابی شیبہ ہشام سے باسند صحیح بیان کرتے ہیں کہ اس نے ابن عمر کے غلام نافع سے دریافت کیاکہ جمعہ کی پہلی اذان بدعت ہے؟ تو نافع نے فرمایاابن عمر نے کہا بدعت ہے۔ اس کی سند صحیح ہے۔   نیموی کا سکوت وعدم انکاروالا گمان باطل ہوگیا وہ اگر مصنف ابن ابی شیبہ(کی اسی روایت)کی طرف مراجعت کرتے تو اپنی کہی بات سے شرمسار ہوتے۔[الانوار :۲۲۰]

منی نجس ہے

محدث العصرحافظ زبیرعلی زئی فرماتےہیں:قلت ذہب الامام مالک واللیث بن سعد واحمد فی روایۃ الیٰ أن المنی  نجس وقال الشوکانی :فالصواب أن المنی  نجس  ۔۔۔وقال المحدث عبدالرحمن المبارکفوری کلام الشوکانی  ھذا حسن جید (تحفۃ الاحواذی ۱/۱۱۴ح۱۱۶) والیہ ذہب المحدث شمس الحق  عظیم آبادی رحمہ اللہ۔

یعنی امام مالک،امام لیث بن سعد اور ایک روایت کے مطابق امام احمدبن حنبل منی کی نجاست کی طرف گئے ہیں،امام شوکانی فرماتےہیں درست بات یہ ہے کہ منی نجس(ناپاک)ہے۔۔۔ محدث عبدالرحمن مبارکپوری فرماتےہیں شوکانی کی بات بہتروعمدہ ہے(یعنی ان کا موقف صحیح ہے)اور محدث شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا میلان بھی اسی(نجس والے) موقف کی طرف ہے۔[انوارالسنن، ص:۱۴]

فائدہ:منی کے پاک اور نجس ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے دلائل کے اعتبار سے نجس کہنے والوں کا موقف مضبوط معلوم ہوتاہے۔

واللہ اعلم

سؤالات الآجری کی امام ابوداؤد رحمہ اللہ  کی طرف نسبت

سؤالات الآجری نامی کتاب کی نسبت  امام ابوداؤد  رحمہ اللہ  کی طرف درست نہیں کیونکہ اس کا بنیادی راوی ابوعبید آجری مجہول ہے جیساکہ محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ   (عیسٰی بن جاریہ پرامام ابوداؤد کی طرف منسوب جرح کے بارے) میں فرماتےہیں:قلت ھذا لایثبت عن ابی داؤد  رواہ ابوعبید الاٰجری عنہ والآجری مجھول۔

میں کہتاہوں یہ جرح ابوداؤد سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کو ابوداؤد سے روایت کرنے والے ابوعبید آجری ہیں  اور آجری مجہول ہیں۔ [انوارالسنن، ص:۱۸۶]

نیزفرماتےہیں:وھذان القولان مردودان لجھالۃ الاٰجری  ھذا لم نجد لہ ترجمۃ۔

یہ دونوں اقوال آجری کی جہالت کی وجہ سے مردود ہیں اور اس کا ہمیں ترجمہ بھی نہیں مل سکا۔ [ص:۹۸]

امام بیہقی کے منصف مزاج ہونے کا نیموی اعتراف

امام بیہقی کا کتاب وسنت کا دفاع اور احناف کی تردید کرنے میں  ایک نمایاںمقام ہے اسی وجہ سے تقلیدی انکو متعصب جیسے ناذیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے امام صاحب کتاب وسنت کی پیروی کرنے والے منصف مزاج انسان تھے، جیسا کہ محدث العصرحافظ زبیرعلی زئی فرماتےہیں:

قال النیموی:وقدانکرالبیھقی فی المعرفۃ رفعہ۔۔۔مع أن ھذاالاثر یوفق مذھبہ قلت:وھذا یدل علیٰ أن الامام البیھقی رحمہ اللہ کان معتدلا غیرمتعصب ۔۔۔واما مذھبہ فأتباع الکتاب والسنۃ والاجماع والحمدللہ۔

نیموی نے (ایک روایت کےبارےمیں)کہا اس کے مرفوع ہونے کا بیہقی نے بھی معرفۃ السنن والآثارمیں انکار کیاہے باوجود اس کے کہ یہ روایت ان کے مذہب کے موافق تھی میں(شیخ زبیر) کہتا ہوں یہ بات امام بیہقی کےمعتدل اورمتعصب نہ ہونے پر دلیل ہے جہاں تک ان کے مذہب کی بات ہے تو ان کا مذہب کتاب وسنت واجماع کی اتباع ہے۔[الانوارص۱۳]

بعض مدلسین کے متعلق اہم معلومات

(۱)سفیان بن عیینہ کی معنعہ روایات  مدلس ہونے کی وجہ سےضعیف ہوتی ہیں لیکن جب ان سے امام شافعی روایت کریں تو وہ (معنعہ روایت)سماع پر محمول ہوتی ہے۔[انوارالسنن، ص:۱۹]

(۲)حسن بصری بھی مدلس ہیں لیکن جب یہ سمرہ بن جندب سے روایت کریں تو ان کی بھی عن والی روایت قبول کی جاتی ہے۔

(انوارالسنن: 100)

(۳)حمیدالطویل مدلس کی سیدنا انس سے بیان کردہ روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔(الانوار:83،211)

(۴)مشہور مدلس ابن جریج(عبدالملک بن عبدالعزیز) کی عطاء بن ابی رباح سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔

[انوارالسنن: ص۹۶]

(۵)امام مکحول تدلیس سے بری ہیں۔[انوارالسنن: ص۱۹۰]

لہذا بعض حنفیہ کا اسے مدلس باور کرانا سوائے مسلکی حمایت کے کچھ نہیں۔

About محمدابراھیم ربانی

Check Also

التحقیق والبحث فی تحسین حدیث اعادۃ الصلاۃ عندالحدث

اہل سنت(اہلحدیث)اور مقلدین احناف کے مابین مختلف فیہ مسائل میں سے ایک  مسئلہ یہ بھی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے